خطبہ جمعہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 2؍ستمبر 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت دَور کے آخری معرکہ یعنی فتح دمشق کا تفصیلی تذکرہ
دمشق کی فتح کو بعض مؤرخین حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں بیان کرتے ہیں لیکن دمشق کا یہ معرکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں شروع ہو چکا تھا۔ البتہ اس کی فتح کی خبر جب مدینہ بھیجی گئی تو اُس وقت حضرت ابوبکرؓ کی وفات ہو چکی تھی
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کی جنگوں کا ذکر
ہو رہا تھا۔ اس ضمن میں
فتح دمشق
جو تیرہ ہجری میں ہوئی اس کے بارے میں کچھ تفصیل بیان کرتا ہوں۔ یہ آخری جنگ تھی جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوئی۔ دمشق کے محل وقوع کے بارے میں ہے کہ یہ قدیم دمشق شام کا دارالحکومت اور تاریخی روایات کا حامل شہر تھا۔ ابتدا میں یہ بت پرستی کا بہت بڑا مرکز تھا لیکن جب عیسائیت آئی تو اس کے بت کدے کو کلیسیا بنا دیا گیا۔ یہ ایک اہم تجارتی مرکز تھا۔ یہاں عرب بھی آباد تھے اور مسلمانوں کے تجارتی قافلے یہاں آتے رہتے تھے اور اسی وجہ سے انہیں یہاں کے بارے میں معلومات حاصل تھیں۔ دمشق ایک قلعہ نما فصیل بند شہر تھا۔ حفاظت اور پائیداری کی وجہ سے اسے امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ اس کی فصیل بڑے بڑے پتھروں سے بنائی گئی تھی۔ فصیل کی اونچائی چھ میٹر تھی۔ اس میں انتہائی مضبوط دروازے لگائے گئے تھے۔ فصیل کی چوڑائی تین میٹر تھی۔ دروازے مضبوطی سے بند کیے جاتے تھے۔ فصیل کے چاروں طرف گہری خندق تھی جس کی چوڑائی تین میٹر تھی۔ اس خندق کو دریا کے پانی سے ہمیشہ بھر کر رکھا جاتا تھا۔ اس طرح دمشق کافی مضبوط اور محفوظ حیثیت رکھتا تھا جس میں داخل ہونا آسان نہ تھا۔
(ماخوذ از سیدنا عمر بن خطابؓ از علی محمد الصلابی صفحہ725 مکتبہ الفرقان مظفر گڑھ)
جب حضرت ابوبکرؓ نے شام کی جانب مختلف لشکر روانہ فرمائے تو حضرت ابوعبیدہؓ کو ایک لشکر کا امیر بنا کر حمص پہنچنے کا حکم دیا۔ حمص دمشق کے قریب شام کا ایک قدیم مشہور اور بڑا شہر تھا۔
(ماخوذ از تاریخ الطبری جلد2 صفحہ333 دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ 106 زوار اکیڈمی کراچی)
حضرت ابوبکرؓ کے ارشاد پر حضرت خالد بن ولیدؓ نے دمشق پہنچ کر دوسرے اسلامی لشکر کے ساتھ اس کا محاصرہ کر لیا۔ اہل دمشق قلعہ کی دیوار پر چڑھ کر مسلمانوں پر پتھر اور تیر برساتے تھے۔ مسلمان چمڑے کی ڈھالوں سے اپنے آپ کو بچاتے۔ موقع پا کر مسلمان بھی ان کو تیر مارتے۔ اس طرح
بیس دن کا عرصہ گزر گیا لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
اہلِ دمشق قلعہ میں محصور ہونے کی وجہ سے سخت تنگی میں تھے۔ قلعہ میں رسد بھی ختم ہونے والی تھی۔ اس کے علاوہ اہل دمشق کے کھیت قلعہ سے باہر تھے لہٰذا ان کی کاشتکاری کے کاموں کو نقصان ہو رہا تھا۔ قلعہ میں غلہ نہیں آ سکتا تھا۔ اشیائے صَرف کی بھی قلت تھی۔ محاصرے کی طوالت کی وجہ سے وہ سخت پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اسی دوران جبکہ دمشق کے محاصرے کو بیس دن گزر چکے تھے مسلمانوں کو خبر ملی کہ ھِرَقل بادشاہ نے اجنادَین کے مقام پر رومیوں کا بھاری لشکر جمع کیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی حضرت خالدؓ بابِ شرقی سے روانہ ہو کر بابِ جابیہ پر حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس آئے اور صورتحال سے مطلع کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کی کہ ہم دمشق کا محاصرہ ترک کر کے اجنادَین میں رومی لشکر سے نپٹ لیں اور اگر اللہ نے ہمیں فتح دی تو پھر یہاں واپس لوٹ آئیں گے اور دمشق کا مسئلہ حل کریں گے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ میری رائے اس کے برعکس ہے کیونکہ بیس دن تک قلعہ میں محصور رہنے کی وجہ سے اہل دمشق تنگ آ گئے ہیں اور ہمارا رعب ان کے دلوں میں سما گیا۔ اگر ہم یہاں سے کوچ کر گئے تو ان کو راحت حاصل ہو گی اور وہ کھانے پینے کی چیزیں قلعہ میں کثیر تعداد میں ذخیرہ کر لیں گے اور جب ہم اجنادَین سے یہاں واپس آئیں گے تو یہ لوگ طویل عرصہ تک ہمارا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
حضرت خالدؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے محاصرہ جاری رکھا اور دمشق کے قلعہ کے متفرق دروازوں پر مسلمانوں کے تمام متعین سرداروں کو حکم دیا کہ اپنی اپنی طرف سے حملہ میں شدت اختیار کریں۔
حضرت خالدؓ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر جانب سے اسلامی لشکر نے شدید حملے شروع کیے۔ اس طرح دمشق کے محاصرے پر اکیس دن گزر گئے۔
حضرت خالدؓ نے مسلمانوں کو حملہ کی شدت بڑھانے کی ترغیب دیتے ہوئے خود بابِ شرقی سے سخت حملے جاری رکھے۔ اہلِ دمشق اب بالکل تنگ آ گئے تھے اور ھِرَقلبادشاہ کی مدد کے منتظر تھے۔ حضرت خالدؓ نے پے در پے حملے جاری رکھے۔ وہ اسی طرح مصروفِ جنگ تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ قلعہ کی دیوار پر جو رومی تھے وہ دفعۃً تالیاں بجا کر ناچنے کودنے لگے اور خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ مسلمان حیرت سے ان کو دیکھنے لگے۔ حضرت خالد بن ولیدؓنے ایک جانب دیکھا تو ایک بڑا غبار اس طرف اٹھتا ہوا نظر آیا۔ اس کی وجہ سے آسمان تاریک نظر آتا تھا۔ دن کے وقت میں بھی اندھیرا چھایا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ حضرت خالدؓ فوراً سمجھ گئے کہ اہل دمشق کی مدد کے لیے ھِرَقلبادشاہ کا لشکر آ رہا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں چند مخبروں نے اس خبر کی تصدیق بھی کر دی کہ ہم نے پہاڑ کی گھاٹی کی طرف ایک لشکرِ جرار دیکھا ہے اور وہ بےشک رومیوں کا لشکر ہے۔ حضرت خالدؓ فوراً آئے اور حضرت ابوعبیدہؓ کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ تمام لشکر لے کر ھِرَقلبادشاہ کے بھیجے ہوئے لشکر سے مقابلہ کے لیے جاؤں۔ لہٰذا اس امر میں آپ کا مشورہ کیا ہے؟ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا کہ
یہ مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر ہم نے اس جگہ کو چھوڑ دیا تو اہلِ دمشق قلعہ سے باہر آ کر ہم سے جنگ کریں گے۔ ایک طرف سے ھِرَقل کا لشکر حملہ آور ہو گا اور دوسری طرف سے اہلِ دمشق حملہ کریں گے۔ ہم رومیوں کے دو لشکروں کے درمیان مصیبت میں پھنس جائیں گے۔
اس پر حضرت خالدؓ نے کہا پھر آپ کی کیا رائے ہے؟ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا تم ایک جری اور بہادر شخص کا انتخاب کرو اور اس کے ساتھ ایک جماعت کو دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ کرو۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت ضِرار بن اَزْوَرؓ کو پانچ سو سواروں کا لشکر دے کر رومی لشکر سے مقابلے کے لیے روانہ کیا۔ ایک دوسری روایت میں حضرت ضِرارؓ کے لشکر کی تعداد پانچ ہزار بھی بیان ہوئی ہے۔
(ماخوذ ازمردانِ عرب حصہ اول از عبد الستار ہمدانی صفحہ 203-204 اکبر بک سیلر ز لاہور)
(فتوح الشام از واقدی جلد1صفحہ48)
بہرحال حضرت ضِرَارؓ پانچ سو سپاہیوں کو لے کر یا جو بھی لشکر تھا اس کو لے کر رومی لشکر کی جانب روانہ ہو گئے۔ چند سپاہیوں نے رومیوں کا لشکر دیکھ کر آپ سے کہا کہ یہ لشکر بہت بڑا ہے اور ہم صرف پانچ سو ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ہم واپس چلیں اور اپنے لشکر کے ساتھ مل کر اس کا مقابلہ کریں۔ حضرت ضِرارؓ نے کہا دشمن کی کثرت سے مت گھبراؤ۔ خدا نے بہت دفعہ قلت کو کثرت پر غالب کیا ہے۔ وہ اب بھی ہماری مدد کرے گا۔ ساتھیو! واپس جانا تو جہاد سے فرار ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ کیا تم عرب کی بہادری اور جاںنثاری کو داغ لگاؤ گے؟ جسے واپس جانا ہو چلا جائے۔ مَیں تو لڑوں گا۔ اسلام کے نام کو بلند کروں گا۔ خدا مجھے بھاگتے ہوئے نہ دیکھے۔
تمام مسلمان یک زبان ہو کر بولے کہ ہم اسلام پر نثار ہوں گے۔
شہادت کا مرتبہ پائیں گے
یعنی کہ ہم تیار ہیں جنگ کے لیے۔ حضرت ضِرارؓ خوش ہو گئے۔ حکم دیا کہ دشمن پر ایک ہی بار حملہ کر کے اسے تہس نہس کر دو۔ مسلمان اور حضرت ضِرارؓ نے رومی لشکر پر مسلسل وار کیے اور بہادری سے لڑائی کی۔ رومی سپہ سالار کے بیٹے نے حضرت ضِرارؓ پر حملہ کیا اور آپ کے بائیں بازو پر نیزہ مارا جس کی وجہ سے خون تیزی سے بہنے لگا۔ ایک لمحہ کے بعد آپؓ نے اسی کے دل پہ نیزہ مار کر اسے قتل کر دیا۔ آپ کا نیزہ اس کے سینے میں پھنس گیا اور اس کا پھل ٹوٹ گیا۔ رومی فوج نے آپ کا نیزہ خالی دیکھا تو آپ کی طرف ٹوٹ پڑے اور آپ کو قید کر لیا۔, (ماخوذ از اسلامی جنگیں صفحہ123تا 125 از رفیق انجم مکی دار الکتب لاہور) (ماخوذ ازمردانِ عرب حصہ اول از عبد الستار ہمدانی صفحہ206 اکبر بک سیلر ز لاہور) کیونکہ ہاتھ میں ہتھیار نہیں تھا۔
صحابہ کرامؓ نے جب دیکھا کہ حضرت ضِرارؓ قید ہو گئے ہیں تو بہت غمگین اور پریشان ہو گئے۔ انہوں نے کئی دفاعی حملے کیے مگر ان کو چھڑا نہ سکے۔ حضرت ضِرارؓ کی گرفتاری کی خبر جب حضرت خالدؓ کو پہنچی تو آپ بہت پریشان ہوئے اور ساتھیوں سے رومی لشکر کے متعلق معلومات لے کر حضرت ابوعبیدہؓ سے مشورہ کیا اور حملے کے متعلق رائے لی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا کہ دمشق کے محاصرہ کا معقول انتظام کر کے آپ حملہ کر سکتے ہیں۔ کمانڈر کیونکہ اس وقت حضرت ابوعبیدہؓ تھے۔ حضرت خالدؓ نے محاصرہ کا انتظام کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن کا تعاقب کیا اور ان کو ہدایت کی کہ جیسے ہی دشمن ملے اس پر اچانک حملہ کرنا۔ اگر ضِرار کو ان لوگوں نے قتل نہ کیا ہو تو شاید ہم ضِرار کو چھڑا لائیں گے اور اگر ضِرار کو شہید کیا ہو تو بخداہم ان سے بھرپور انتقام لیں گے۔ تاہم مجھے امید ہے کہ اللہ ہم کو ضِرار کے متعلق صدمہ نہیں دے گا۔ اسی دوران حضرت خالدؓ نے ایک شہسوار کو سرخ عمدہ گھوڑے پر دیکھا جس کے ہاتھ میں لمبا چمکدار نیزہ تھا۔ اس کی وضع قطع سے بہادری، دانائی اور جنگی مہارت نمایاں تھی۔ زرہ کے اوپر لباس پہن رکھا تھا۔ پورا بدن اور منہ چھپا ہوا تھا اور فوج کے آگے آگے تھا۔
حضرت خالدؓ نے تمنا کی کہ کاش! مجھے معلوم ہو جائے کہ یہ شہسوار کون ہے۔
واللہ! یہ شخص نہایت دلیر اور بہادر معلوم ہوتا ہے۔
سب لوگ اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ لشکرِ اسلام جب کفار کے قریب پہنچا تو لوگوں نے اس شہسوار کو رومیوں پر ایسے حملہ کرتے دیکھا جس طرح باز چڑیوں پر جھپٹتا ہے۔ اس کا ایک حملہ تھا جس نے دشمن کے لشکر میں تہلکہ ڈال دیا اور مقتولین کے ڈھیر لگا دیے اور بڑھتے بڑھتے دشمن کے لشکر کے درمیان میں پہنچ گیا۔ وہ چونکہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال چکا تھا اس لیے دوبارہ پلٹا اور کافروں کے لشکر کو چیرتا ہوا اندر گھستا چلا گیا۔ جو سامنے آیا اس کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ شخص حضرت خالدؓ ہی ہو سکتے ہیں۔ رافع نے حیرانگی سے خالد سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے؟ حضرت خالدؓ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں۔ میں خود حیران ہوں کہ یہ کون ہے۔
حضرت خالدؓ لشکر کے آگے کھڑے تھے کہ وہی سوار دوبارہ رومیوں کے لشکر سے نکلا۔ رومیوں کا کوئی بھی سپاہی اس کے مقابل نہیں آ رہا تھا اور یہ تنہا کئی آدمیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے رومیوں کے درمیان لڑ رہا تھا۔ اسی دوران حضرت خالدؓ نے حملہ کر کے اسے کفارکے گھیرے سے نکالا اور یہ شخص لشکرِ اسلام میں پہنچ گیا۔ حضرت خالدؓ نے اسے کہا: تُو نے اپنے غصہ کو اللہ کے دشمنوں پر نکالا ہے۔ بتاؤ تم کون ہو؟ اس سوار نے کچھ نہ بتایا اور پھر جنگ کے لیے تیار ہو گیا۔ حضرت خالدؓ نے فرمایا اللہ کے بندے! تُو نے مجھے اور تمام مسلمانوں کو بے چینی میں ڈال دیا ہے۔ تُو اس قدر بے پروا ہے۔ آخر تُو کون ہے! حضرت خالدؓ کے اصرار پر اس نے جواب دیا کہ
میں نے نافرمانی کی وجہ سے اعراض نہیں کیا، یہ نہیں کہ میں نافرمان ہوں
اس لیے تمہیں جواب نہیں دے رہا بلکہ مجھے شرم آتی ہے کیونکہ
میں مرد نہیں ہوں، ایک عورت ہوں۔
عورتیں بھی اس بہادری کا نمونہ دکھاتی تھیں۔ مجھے میرے دردِ دل نے اس میدان میں اتارا ہے۔ خالد نے پوچھاکہ کون سی عورت؟ اس عورت نے عرض کیا کہ ضِرار کی بہن خولہ بنت ازور ہوں۔ بھائی کی گرفتاری کا پتہ لگا تو میں نے وہی کیا جو آپ نے دیکھا۔ حضرت خالدؓ نے یہ سن کر کہا کہ ہم سب کو متفقہ حملہ کرنا چاہیے۔ اللہ سے امید ہے کہ وہ ضِرار کو قید سے رہائی دلا دے گا۔ حضرت خولہؓ نے کہا کہ میں بھی حملہ میں پیش پیش رہوں گی۔ پھر خالد نے بھر پور حملہ کیا۔ رومیوں کے پیر اکھڑ گئے اور رومیوں کا لشکر تتر بتر ہو گیا۔ حضرت رافعؓ نے شجاعت کے جوہر دکھائے۔ مسلمان ایک بار پھر بھرپور حملے کے لیے تیار ہوئے تھے کہ اچانک کفار کے لشکر سے کچھ سوار اس طرف تیزی سے امان مانگتے ہوئے آ گئے۔ حضرت خالدؓ نے فرمایا ان کو امان دے دو اور فرمایا میرے پاس لے آؤ۔ پھر خالد نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم روم کی فوج کے لوگ ہیں اور حمص کے رہنے والے ہیں اور صلح چاہتے ہیں۔ حضرت خالدؓ نے فرمایا کہ صلح تو حمص پہنچ کر ہو گی۔ یہاں پرقبل از وقت ہم صلح نہیں کر سکتے البتہ تم کو امان ہے۔ جب اللہ فیصلہ کرے گا اور ہم غالب آئیں گے تب وہاں پر بات ہو گی۔ ہاں یہ بتاؤ کہ ہمارے ایک بہادر جس نے تمہارے سردار کے لڑکے کو قتل کیا تھا اس کے متعلق تم کو کچھ معلوم ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ شاید آپ ان کے متعلق پوچھتے ہیں جو ننگے بدن تھے اور جنہوں نے ہمارے بہت سے آدمیوں کو مارا اور سردار کے بیٹے کو قتل کیا تھا۔ خالدؓ نے فرمایا ہاں وہی ہے۔ انہوں نے کہا
جس وقت وہ قید ہوئے اور وَرْدَان کے پاس پہنچے تو وَرْدَان نے اس کوسو سواروں کی جمعیت میں حمص روانہ کیا تا کہ بادشاہ کے پاس پہنچایا جائے۔
یہ سن کر خالدؓ بہت خوش ہوئے اور حضرت رافع ؓکو بلا کر فرمایا کہ تم راستوں کو اچھی طرح جانتے ہو۔ اپنی مرضی کے جوانوں کو لے کر حمص پہنچنے سے پہلے حضرت ضِرار ؓکو چھڑاؤ اور اپنے رب کے ہاں اجر پاؤ۔ حضرت رافعؓ نے ایک سو جوانوں کو چن لیا اور ابھی جانے ہی والے تھے کہ حضرت خولہؓ نے منت سماجت کر کے حضرت خالدؓ سے جانے کی اجازت حاصل کر لی اور سب لوگ حضرت رافع ؓکی سرکردگی میں حضرت ضِرارؓ کی رہائی کے لیے حمص روانہ ہو گئے۔ حضرت رافعؓ تیزی سے چلے اور ایک مقام پر پہنچ کر آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ خوش ہو جاؤ۔ دشمن ابھی آگے نہیں گیا اور وہاں پر اپنے ایک دستے کو چھپا دیا۔ یہ لوگ اسی حالت میں تھے کہ غبار اڑتا ہوا دکھائی دیا۔ حضرت رافعؓ نے مسلمانوں کو چوکنا رہنے کا حکم دیا۔ مسلمان تیار بیٹھے تھے کہ رومی پہنچ گئے۔ حضرت ضِرارؓ ان کی قید میں تھے اور درد بھرے لہجے میں اشعار پڑھ رہے تھے کہ ’’اے مخبر! میری قوم اور خولہ کو یہ خبرپہنچا دو کہ میں قیدی ہوں اور مشکوں میں بندھا ہوا ہوں۔ شام کے کافر اور بے دین میرے گرد جمع ہیں اور تمام زرہ پہنے ہوئے ہیں۔ اے دل! تُو غم و حسرت کی وجہ سے مر جا اور اے جوانمردی کے آنسو! میرے رخسار پر بہہ جا۔‘‘ یہ شعر پڑھ رہے تھے، ان کے معنی یہ ہیں۔ حضرت خولہؓ نے زور سے آواز دی کہ
تیری دعا قبول ہو گئی۔ اللہ کی مدد آ گئی۔ میں تیری بہن خولہ ہوں اور یہ کہہ کر اس نے زور سے تکبیر بلند کر کے حملہ کر دیا اور دیگر مسلمان بھی تکبیرکہتے ہوئے حملہ آور ہوئے۔
مسلمانوں نے اس دستے پر قابو پا لیا۔ سب کو قتل کر دیا گیا۔ حضرت ضِرار ؓکو اللہ تعالیٰ نے رہائی دلائی اور مالِ غنیمت مسلمانوں کو مل گیا۔ حضرت خولہؓ نے اپنے ہاتھوں سے بھائی کی رسیاں کھول دیں اور سلام کیا۔ حضرت ضِرارؓ نے اپنی بہن کو شاباش دی اور خوش آمدید کہا۔ ایک لمبا نیزہ ہاتھ میں لیا اور ایک گھوڑے پر سوار ہوئے۔ خدا کا شکر ادا کیا۔ یہاں یہ خوشی ہوئی اور وہاں دمشق میں حضرت خالدؓ نے سخت حملہ کر کے وَرْدَان کو شکست فاش دی۔ وہ لوگ بھاگ گئے اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا۔ وہاں حضرت ضِرارؓ اور دیگر مسلمانوں سے ملاقات ہوئی۔ فتح کی خبر حضرت ابوعبیدہؓ کو بھیج دی۔ اب مسلمانوں نے یقین کر لیا کہ دمشق فتح ہونے والا ہے۔
(ماخوذ از فتوحات شام از فضل محمد یوسف زئی صفحہ 75-81 مکتبہ ایمان و یقین)
دوسری طرف اسلامی لشکر دمشق میں مقیم تھا اور قلعہ کا محاصرہ جاری تھا کہ بُصریٰ سے حضرت عَبَّاد بن سعید ؓحضرت خالدؓ کے پاس آئے اور اطلاع دی کہ رومیوں کا نوّے ہزار کا لشکر بمقام اجنادَین جمع ہوا ہے۔ حضرت خالدؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا لشکر ملک شام میں متفرق مقامات میں منتشر ہے۔ لہٰذا ان تمام کو خط لکھ دو کہ وہ ہمیں اجنادَین میں آملیں اور ہم بھی اب قلعہ دمشق کا محاصرہ ترک کر کے اجنادَین کی جانب کوچ کریں گے۔
(ماخوذ ازمردانِ عرب حصہ اول از عبد الستار ہمدانی صفحہ 214اکبر بک سیلر ز لاہور)
ھِرَقل کو وَرْدَان کی شکست کی خبر پہنچ چکی تھی نیز
اس کے بیٹے کے قتل ہونے کا مفصل حال معلوم ہو چکا تھا۔
لہٰذا ھِرَقل نے اس کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ ننگے بھوکے عربوں نے تجھے شکست دے دی ہے اور تیرے بیٹے کو قتل کیا ہے۔ نہ مسیح نے اس پر رحم کیا اور نہ تم پر۔ اگر تیری بہادری اور شمشیر زنی کا چرچا نہ ہوتا تو مَیں تجھے قتل کر دیتا۔ خیر اَب جو ہوا سو ہوا مَیں نے اجنادَین کی طرف نوے ہزار کی فوج روانہ کی ہے تجھے اس کا سردار مقرر کرتا ہوں۔
(ماخوذ از فتوحات شام از فضل محمد یوسف زئی صفحہ81 مکتبہ ایمان و یقین)
حضرت خالدؓ نے دمشق کا محاصرہ ختم کر کے اجنادَین کی طرف لشکر کو روانہ ہونے کا حکم دیا۔ حکم ملتے ہی مسلمانوں نے فوراً خیمے اکھیڑ کر باقی مال اسباب اونٹوں پر لادنا شروع کیا۔ مالِ غنیمت کے اونٹوں کو اور مال و اسباب کے اونٹوں کو عورتوں اور بچوں کے ساتھ لشکر کے پیچھے کی جانب رکھا اور باقی سواروں کو لشکر کے آگے رکھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓنے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ میں عورتوں اور بچوں کے قافلہ کے ساتھ لشکر کے پیچھے رہوں، حضرت ابوعبیدہؓ کو کہا، اور آپ لشکر کے آگے رہیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ وَرْدَان اپنا لشکر لے کر اجنادَین سے دمشق کی طرف روانہ ہوا ہو اور اس سے آمنا سامنا ہو جائے۔ اگر تم لشکر کے آگے رہو گے تو تم ان کو روک سکو گے اور مقابلہ کر سکو گے۔ لہٰذا تم آگے رہو اور میں پیچھے رہتا ہوں۔ حضرت خالدؓ نے کہا آپ کی رائے مناسب ہے۔ میں آپ کی رائے اور تجویز کے خلاف نہیں کروں گا۔ جب اسلامی لشکر دمشق کا محاصرہ ترک کر کے روانہ ہوا تو لشکر کو کوچ کرتے دیکھ کر اہلِ دمشق خوشی سے اچھلنے کودنے لگے اور تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اظہارکرنے لگے۔ اسلامی لشکر کے کوچ کے متعلق اہل دمشق نے مختلف آرا ظاہر کیں۔ کسی نے کہا کہ اجنادَین میں ہمارے عظیم لشکر کے جمع ہونے کی خبر سن کر مسلمان ملک شام میں اپنے دوسرے لشکر کے پاس جمع ہونے گئے ہیں۔ کسی نے کہا کہ محاصرہ سے تنگ آ کر کسی اَور مقام پر لشکر کشی کرنے جا رہے ہیں اور بعض نے تو یہاں تک کہا کہ ملک حجاز کی طرف بھاگ کر جا رہے ہیں، واپس جا رہے ہیں۔
(ماخوذ ازمردانِ عرب حصہ اول از عبد الستار ہمدانی صفحہ 216-217 اکبر بک سیلر ز لاہور)
اہلِ دمشق جتنے بھی لوگ تھے وہ ایک شخص کے پاس جمع ہو گئے جس کا نام بُولص تھا۔ اور وہ اس سے قبل کسی بھی جنگ میں صحابہ کے سامنے نہیں آیا تھا۔ یہ شخص ھِرَقل کا نہایت معتمد اور اعلیٰ درجہ کا تیر انداز تھا۔ اہل دمشق نے اس کو امیر بنایا اور ہر قسم کا لالچ دے کر جنگ کے لیے آمادہ کیا۔ نیز انہوں نے اس بات کی قسمیں کھائیں کہ وہ میدانِ جنگ چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے اور جو بھی ان میں سے میدان چھوڑے گا تو آپ کو اختیار ہو گا کہ اسے اپنے ہاتھ سے قتل کر دیں۔ یہ عہد و پیمان جب مکمل ہو گیا اور بُولص گھر میں داخل ہو کر زرہ پہننے لگا تو بیوی نے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو۔ بُولص نے کہا کہ دمشق والوں نے مجھے اپنا امیر بنایا ہے۔ اب عربوں کے ساتھ لڑنے جا رہا ہوں۔
بیوی نے اس سے کہا کہ ایسا مت کرو بلکہ گھر میں بیٹھے رہو۔
تم میں عربوں سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔
ان سے خواہ مخواہ مت لڑو۔ میں نے آج ہی خواب میں دیکھا ہے کہ تمہارے ہاتھ میں کمان ہے اور ہوا میں چڑیوں کا شکار کر رہے ہو۔ بعض چڑیاں زخمی ہو کر گر گئیں مگر پھر اٹھ کر اڑنے لگیں۔ میں تعجب میں پڑ گئی کہ خواب میں ہی دیکھا کہ اچانک اوپر سے عقاب آگئے۔ ایک نہیں کئی عقاب آ گئے اور تم اور تمہارے ساتھیوں پر ایسے ٹوٹ پڑے کہ سب کو نیست و نابود کر دیا۔ بُولص نے کہا تو نے مجھے بھی خواب میں دیکھا تھا۔ اس نے کہا ہاں۔ عُقاب نے زور سے تجھے ٹھونگ ماری اور تو بیہوش ہو گیا تھا۔ بُولص نے اس کی باتیں سن کے اپنی بیوی کو تھپڑ مارا اور کہا کہ تیرے دل میں عربوں کا خوف بیٹھ گیا ہے۔ خواب میں بھی وہی خوف ہے۔ گھبراؤ مت! میں ابھی ان کے امیر کو تیرا خادم اور اس کے ساتھیوں کو بکریوں اور خنزیروں کا چرواہا بنا دوں گا۔
بُولص نہایت تیزی سے چھ ہزار سوار اور دس ہزار پیدل لشکر لے کر
مسلمانوں کے پیچھے ان کے مقابلہ کے لیے نکل گیا اور اسلامی فوج کی عورتوں،
بچوں، مال مویشی اور ابوعبیدہ کے ایک ہزار لشکر کا تعاقب کیا۔
مسلمان بھی مقابلے کے لیے تیار ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کفار پہنچ گئے۔ بُولص سب سے آگے تھا۔ اس نے ایک دم چھ ہزار سپاہیوں کے ساتھ ابوعبیدہ پر حملہ کیا۔ بُولص کا بھائی بُطْرُس پیدل فوج کے ساتھ عورتوں کی طرف بڑھا اور کچھ عورتیں گرفتار کر کے دمشق کی طرف واپس پلٹا۔ ایک جگہ پر پہنچ کر اپنے بھائی کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے یہ مصیبت ناگہانی دیکھ کر فرمایا کہ خالد کی رائے صحیح تھی کہ وہ لشکر کے پیچھے رہیں گے۔ اِدھر عورتیں اور بچے چِلّا رہے تھے۔ اُدھر ایک ہزار مسلمانوں نے بہادری سے مقابلہ کیا۔ بُولص نے حضرت ابوعبیدہؓ پر بار بار حملہ کیا۔ آپؓ نے بھی شدید مقابلہ کیا۔ حضرت سہل تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر حضرت خالدؓ کے پاس پہنچے اور سارا قصہ سنایا۔ حضرت خالدؓ نے اِنَّا لِلّٰہ پڑھا۔ آپؓ نے حضرت رافعؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ایک ایک ہزار لشکر دے کر روانہ کیا تا کہ بچوں اور عورتوں کی حفاظت ہو جائے۔ اس کے بعد حضرت ضِرارؓ کو ایک ہزار سوار دے کر رخصت کیا اور خود بھی لشکر لے کر دشمن کی طرف چلے۔ ادھر حضرت ابوعبیدہؓ بُولص کے ساتھ مصروفِ جنگ تھے۔ اتنے میں مختلف علاقوں سے آنے والے مسلمانوں کے لشکر پہنچ گئے۔ انہوں نے ایسا حملہ کیا کہ دمشق سے آ کر حملہ کرنے والے رومیوں کو اپنی ذلت و خواری کا یقین ہو گیا۔ حضرت ضِرارؓ آگ کے شعلوں کی طرح بُولص کی طرف بڑھے۔ اس نے جب آپ کو دیکھا تو کانپ اٹھا اور پہچان لیا۔ بُولص گھوڑے سے اتر کر پیدل بھاگنے لگا۔ حضرت ضِرارؓ نے بھی اس کا تعاقب کیا اور اس کو زندہ پکڑ لیا اور قید کر لیا۔ اس جنگ میں کفار کے چھ ہزار آدمیوں میں سے بمشکل سو آدمی زندہ بچے تھے۔ حضرت ضِرارؓ پریشان تھے کیونکہ حضرت خولہ ؓبھی قید ہو چکی تھیں۔ حضرت خالدؓ نے کہا کہ گھبراؤ نہیں ہم نے ان کے ایسے آدمی پکڑے ہوئے ہیں جن کے بدلے میں وہ ہمارے قیدی آسانی سے رہا کر دیں گے۔
حضرت خالدؓ نے دو ہزار سپاہیوں کو اپنے ساتھ لیا اور باقی تمام افواج کو حضرت ابوعبیدہؓ کے حوالے کر دیا تاکہ عورتوں کی حفاظت ہو جائے اور خود قیدی خواتین کی تلاش میں نکل گئے۔ آپ جلدی جلدی چل کر اس جگہ پہنچے جہاں پر دشمن مسلمان عورتوں کو قید کر کے لے گئے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ غبار اڑ رہا ہے۔ آپ کو تعجب ہوا کہ یہاں لڑائی کیوں ہو رہی ہے۔ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ بُولص کا بھائی بُطْرُس عورتوں کو گرفتار کر کے نہر کے پاس بھائی کے انتظار میں رک گیا تھا اور اب وہ عورتوں کو آپس میں بانٹنے لگے تھے۔ بطرس نے حضرت خولہؓ کے بارے میں کہا کہ یہ میری ہے۔ انہوں نے عورتوں کو ایک خیمہ میں قید کر دیا اور خود آرام کرنے لگے اور انہیں بُولص کا انتظار بھی تھا۔ ان عورتوں میں سے اکثر بہادر اور تجربہ کار شہسوار عورتیں بھی تھیں۔ وہ ہر قسم کی جنگ جانتی تھیں۔ یہ آپس میں جمع ہوئیں اور حضرت خولہؓ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
اے قبیلہ حِمْیَر کی بیٹیو! اور اے قبیلہ تُبَّعْ کی یادگارو! کیا تم اس پر راضی ہو کہ رومی کفار تم کو لونڈیاں بنائیں؟ کہاں گئی تمہاری شجاعت اور کیا ہوئی تمہاری وہ غیرت جس کا ذکر عرب مجلسوں میں ہوا کرتا تھا؟ افسوس! میں تمہیں غیرت سے علیحدہ اور شجاعت و حمیت سے خالی پا رہی ہوں۔ اس آنے والی مصیبت سے تو تمہاری موت افضل ہے۔
یہ سن کر ایک صحابیہ نے کہا اے خولہؓ! تُو نے جو کچھ بیان کیا ہے بےشک درست ہے لیکن یہ بتاؤ کہ ہم قید میں ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں نیزہ تلوار نہیں ہے۔ ہم کیا کر سکتی ہیں! نہ گھوڑا ہے نہ اسلحہ ہے کیونکہ اچانک ہم کو قید کر لیا گیا ہے۔ حضرت خولہؓ نے فرمایا کہ ہوش کرو۔ خیموں کے ستون تو موجود ہیں۔ہمیں چاہیے کہ انہیں اٹھا کر ان بدبختوں پر حملہ کریں۔ آگے مدد اللہ فرمائے گا۔ یا ہم غالب آ جائیں گے ورنہ شہید تو ہو جائیں گی۔ اس پر ہر خاتون نے خیمہ کی ایک ایک لکڑی اٹھائی۔ حضرت خولہؓ ایک لکڑی کندھے پر رکھ کر آگے ہوئیں۔
حضرت خولہؓ نے اپنے ماتحت خواتین سے فرمایا کہ زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک ساتھ ہو جاؤ۔ متفرق نہ ہونا ورنہ سب قتل ہو جاؤ گی۔
اس کے بعد حضرت خولہؓ نے آگے بڑھ کر ایک رومی کافر کو مار کر قتل کیا۔ رومی لوگ ان عورتوں کی جرأت و بہادری دیکھ کر حیران ہو گئے۔ بطرس نے کہا بدبختو! یہ کیا کر رہی ہیں۔ ایک صحابیہ نے جواب دیا کہ آج ہم نے ارادہ کر لیا ہے کہ ان لکڑیوں سے تمہارے دماغ درست کر دیں اور تمہیں قتل کر کے اپنے اسلاف کی عزتوں کی حفاظت کریں۔ بُطرس نے کہا کہ ان کو زندہ پکڑ لو اور خولہ کو زندہ پکڑنے کا خاص خیال رکھو۔ چاروں طرف سے تین ہزار رومی حلقہ باندھ کر کھڑے تھے مگر کوئی شخص عورتوں تک نہیں آ سکتا تھا۔ اگر وہ آگے بڑھتا تو یہ عورتیں ان کے گھوڑوں اور پھر ان کو مار دیتی تھیں۔ اس طرح
تیس سواروں کو ان عورتوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
بُطرس یہ دیکھ کر آگ بگولہ ہو گیا۔ گھوڑے سے نیچے اترا۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہو کر تلواروں سے حملہ آورہوا مگر یہ عورتیں ایک جگہ اکٹھی ہوئیں اور سب کا مقابلہ کیا اور کوئی قریب نہ آسکا۔ حضرت خولہؓ کو مخاطب کرتے ہوئے بُطرس نے کہا کہ اے خولہ! اپنی جان پر رحم کرو۔ میں تمہاری قدر کرتا ہوں۔ میرے دل میں بھی تیرے لیے بہت کچھ ہے۔ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ میں بادشاہ جیسا آدمی تیرا مالک بنوں اور میری ساری جائیداد تمہاری جائیداد ہو جائے۔ حضرت خولہؓ نے فرمایا اے کافر بدبخت! خدا کی قسم! اگر میرا بس چلے تو ابھی تیرا سر لکڑی سے توڑ دوں۔ واللہ! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ تو میری بکریاں اور اونٹ چرائے چہ جائیکہ تو میری برابری کا دعویٰ کرے۔ اس پر بُطرس نے لشکر سے کہا کہ ان سب کو قتل کر دو۔ لشکر والے نئے سرے سے تیار ہو رہے تھے اور ابتدائی حملہ کرنے والے تھے کہ مسلمان حضرت خالدؓ کی سرکردگی میں وہاں پہنچ گئے۔ آپؓ کو تمام حالات و واقعات کا علم ہوا۔ عورتوں کی بہادری اور مقابلے سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور پھر پورے لشکر نے کفار کے ارد گرد دائرہ ڈال دیا اور ایک ساتھ حملہ کیا۔ حضرت خولہؓ نے چِلّا کر کہا اللہ کی مدد آ گئی ہے! اللہ نے مہربانی کر دی ہے! جب بُطرس نے مسلمانوں کو دیکھا تو پریشان ہو گیا اور بھاگنے لگا مگر بھاگنے سے پہلے اس نے دو مسلمان شہسواروں کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ ان میں سے ایک خالد اور دوسرے حضرت ضِرارؓ تھے۔ ضِرار نے اس کو ایک نیزہ مارا۔ وہ گھوڑے سے گرتے گرتے بچا۔ پھر ضِرار نے دوسرا وار کیا اور وہ ڈھیر ہو گیا۔ مسلمانوں نے بہت سے رومیوں کو قتل کیا۔ جو بچ گئے وہ دمشق بھاگ گئے۔
جب حضرت خالدؓ واپس لوٹے تو بُولص کو بلایا اور اس کو اسلام پیش کیا اور فرمایا اسلام قبول کرو ورنہ تیرے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو تیرے بھائی کے ساتھ کیا گیا۔ بُولص نے کہا میرے بھائی کے ساتھ کیا ہو اہے۔ خالدؓ نے فرمایا اس کو قتل کیا ہے۔ بُولص نے اپنے بھائی کا انجام دیکھ کر کہا کہ اب زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے۔ مجھے بھی بھائی کے ساتھ ملا دو۔ چنانچہ اسے بھی قتل کر دیا گیا۔
(ماخوذاز فتوحات شام از فضل محمد یوسف زئی صفحہ82تا89 مکتبہ ایمان و یقین)
بہرحال اسلامی لشکر پھر اجنادَین کے مقام پر جمع ہو گئے۔ یہ تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے۔
دمشق کا یہ دوسرا محاصرہ ہوا۔ پہلے تو چھوڑ آئے تھے۔ اب
اس جنگ کے بعد دوبارہ دمشق کے محاصرے کے بارے میں
لکھا ہے کہ اجنادَین کی فتح کے بعد حضرت خالدؓ نے اسلامی لشکر کو دمشق کی جانب دوبارہ کوچ کرنے کا حکم دیا۔ اہلِ دمشق کو اجنادَین میں رومی لشکر کی شکست کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی لیکن جب انہیں یہ خبر ملی کہ اسلامی لشکر اب دمشق کی طرف آ رہا ہے تووہ بہت گھبرائے۔ دمشق کے اطراف میں بسنے والے بھاگ کر قلعہ میں پناہ گزین ہو گئے اور قلعہ میں کافی تعداد میں غلّہ اور اشیائے صَرف جمع کر لیں تاکہ اگر اسلامی لشکر کا محاصرہ لمبا ہو جائے تو ذخیرہ ختم نہ ہو۔ اس کے علاوہ ہتھیار اور سامانِ جنگ بھی اکٹھا کر لیا۔ قلعہ کی دیواروں پر منجنیق، پتھر، ڈھال، تیر، کمان وغیرہ سامان پہنچا دیا تا کہ قلعہ کی دیوار سے محاصرہ کرنے والوں پر حملہ کیا جائے۔ اسلامی لشکر نے دمشق کے قریب پڑاؤ کیا۔ پھر اسلامی لشکر نے آگے بڑھ کر قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت خالدؓ نے دمشق کے تمام دروازوں پر سرداروں کو ان کے لشکر سمیت متعین کر دیا۔
(ماخوذ ازمردانِ عرب حصہ اول از عبد الستار ہمدانی صفحہ247 اکبر بک سیلر ز لاہور)
اس وقت دمشق کا حاکم تَوْمَا تھا۔ دمشق کے رؤسا، امرا اور دانشمند لوگوں نے تَوْمَا کو مشورہ دیا کہ ہمارے پاس اسلامی لشکر سے مقابلے کی طاقت نہیں۔ اس لیے یا تو ھِرَقل سے مدد طلب کرو یا پھر مسلمانوں سے مصالحت کر لو۔ جو وہ طلب کریں انہیں دے کر اپنی جان بچاؤ۔ اس پر
تَوْمَا نے تکبر اور غرور سے کہا کہ میں عربوں کی کوئی حیثیت نہیں سمجھتا۔
مَیں ہِرَقل اعظم کا داماد اور جنگ کا ماہر ہوں۔ میرے ہوتے ہوئے
مسلمانوں کو شہرمیں پاؤں رکھنے کی جرأت نہ ہو گی۔
رؤسا کے سمجھانے پر تَوْمَا نے یہ کہہ کر انہیں تسلی دی کہ عنقریب ھِرَقل کی طرف سے ایک بڑا لشکر ہماری مدد کے لیے آ رہا ہے۔ تَوْمَا نے ہر طرف سے مسلمانوں پر شدت سے حملے کا حکم دیا۔ ان حملوں کے دوران کئی مسلمان زخمی اور شہید ہوئے۔ حضرت اَبَان بن سعیدؓ کو بھی ایک زہر آلود تیر لگا۔ تیر نکالنے کے بعد انہوں نے زخم پر عمامہ باندھ لیا لیکن تھوڑی ہی دیر میں زہر ان کے جسم میں سرایت کر گیا اور وہ غش کھا کر گر گئے اور وہیں کچھ دیر بعد جام شہادت نوش کر گئے۔ حضرت اَبَانؓ کا نکاح اجنادَین کی جنگ کے دوران حضرت اُمِّ اَبَان سے ہوا تھا اور ان کے ہاتھ کی مہندی کا رنگ اور سر میں عطر کی خوشبو باقی تھی یعنی بالکل تازہ شادی تھی۔ حضرت ام اَبَانؓ کا شمار عرب کی ان بہادر خواتین میں ہوتا تھا جو جہاد کرنے میں پیش پیش رہتی تھیں۔ جب ان کو اپنے خاوند کی شہادت کی اطلاع ملی تو وہ بھاگتی ہوئی اور ٹھوکریں کھاتی ہوئی آئیں اور اپنے خاوند کی لاش کے پاس صبر و استقلال کا ایک پیکر بن کر کھڑی ہو گئیں۔ اپنی زبان سے ناشکری کا ایک کلمہ بھی نہ نکالا اور اپنے خاوند کی جدائی میں چند اشعار کہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓنے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ تدفین کے بعد حضرت ام اَبَانؓ اپنے خیمے کی طرف ایک عزم محکم اور پختہ ارادے کے ساتھ گئیں۔ اپنے ہتھیار تھامے اور اپنے چہرے پر کپڑا باندھا اور باب تَوْمَا پر پہنچ گئیں جہاں ان کے خاوند شہید ہوئے تھے۔ باب تَوْمَا پر اس وقت سخت لڑائی جاری تھی۔ حضرت ام اَبَانؓ ان مسلمانوں میں شامل ہو کر سخت لڑائی لڑتی رہیں اور اپنے تیروں سے کئی رومیوں کو زخمی اور موت کے گھاٹ اتار دیا اور بالآخر لڑائی کے دوران موقع پا کر تَوْمَا کے محافظ کا نشانہ لیا جس کے ہاتھ میں صلیبِ اعظم تھی۔
یہ صلیب سونے کی بنی ہوئی تھی اور اس میں قیمتی جواہر جڑے ہوئے تھے۔ صلیبِ اعظم اٹھانے والا شخص رومیوں کو جنگ کی ترغیب دیتا تھا اور صلیب کے وسیلے سے فتح و کامیابی کی دعا مانگتا تھا۔ حضرت اُمِّ اَبَانؓ کا تیر جیسے ہی اس شخص کو لگا اس کے ہاتھ سے صلیب گر گئی اور مسلمانوں کے ہاتھ لگ گئی۔
تَوْمَا نے جب دیکھا کہ صلیب مسلمانوں کے قبضہ میں چلی گئی ہے تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کو واپس لینے کے لیے نیچے اتر آیا اور دروازہ کھول کر مسلمانوں سے مقابلہ شروع کر دیا۔ اس دوران قلعہ کے اوپر سے رومیوں نے بھی سخت حملے کرنے شروع کر دیے۔ اس دوران حضرت ام اَبَانؓ نے موقع دیکھ کر تَوْمَا کی آنکھ کا نشانہ لے کر تیر چلایا اور اس کی آنکھ ہمیشہ کے لیے اندھی کر دی۔ اس پر تَوْمَا کو اپنے ساتھیوں سمیت پیچھے ہٹنا پڑا اور انہوں نے قلعہ میں داخل ہو کر دروازے بند کر لیے۔ تَوْمَا کی یہ حالت دیکھ کر اہلِ دمشق نے کہا کہ اسی لیے ہم نے کہا تھا کہ ان عربوں سے مقابلہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اس لیے عربوں سے مصالحت کی کوئی صورت اختیار کرنی چاہیے۔ اس پر تَوْمَا مزید غضبناک ہوگیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اپنی آنکھ کے بدلے میں ان کی ایک ہزار آنکھیں پھوڑ ڈالوں گا۔
(ماخوذ ازمردانِ عرب حصہ اول از عبد الستار ہمدانی صفحہ 248تا254 اکبر بک سیلر ز لاہور)
اہلِ دمشق کو حِمص سے بیس ہزار فوج کی مدد آنے کی توقع تھی۔ (سیدنا عمر بن خطابؓ از علی محمد الصلابی صفحہ724) مگر اسلامی فوج نے یہ تدبیر کی کہ فوج کے ایک دستے کو دمشق کے راستے پر مقرر کر دیا۔ اس طرح حمص سے آنے والی فوج کو وہیں روک لیا گیا۔ مسلمانوں نے دمشق کا سخت محاصرہ کیے رکھا۔ اس میں حملوں، تیر اندازی اور منجنیقوں سے دشمن کو خوب پریشان کرتے رہے۔ اہلِ دمشق کو جب یقین ہو گیا کہ ان کو امداد نہیں پہنچ سکتی اور ان میں کمزوری اور بزدلی پیدا ہو گئی تو انہوں نے مزید جدوجہد ترک کر دی اور مسلمانوں کے دلوں میں ان کو زیر کرنے کا جذبہ بڑھ گیا۔
(ماخوذ از تاریخ الطبری جلد2 صفحہ357-358 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
اہلِ دمشق کا خیال تھا کہ سردیوں کی شدت میں مسلمان طویل محاصرہ کی تکلیفوں کو برداشت نہیں کر سکیں گے لیکن مسلمانوں نے حالات کا نہایت بہادری سے مقابلہ کیا۔ دمشق کے اطراف کے خالی مکانات کو مسلمانوں نے راحت و آرام کے لیے استعمال کیا۔ ہفتہ واری انتظام کے مطابق باری باری جو فوج محاذپر ہوتی وہ آ کر آرام کرتی اور جب وہ چلی جاتی تو دوسری فوج آ کر آرام کرتی اور دروازوں پر متعین ان فوجی دستوں کے پیچھے ان کی حمایت اور نگرانی کے لیے دوسری فوج مقرر ہوتی۔ اس طرح طویل سے طویل محاصرے پر بھی قابو پانا آسان ہو گیا لیکن مسلمانوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ دشمن کی منظم رکاوٹوں کو توڑنے کے لیے ان کی میدانی تحقیقات اور جنگی چالیں اپنا کام کرتی رہیں اور
رکاوٹوں کے اس منظم اور طویل سلسلہ میں حضرت خالد بن ولیدؓ ایک ایسے مناسب مقام کے انتخاب میں کامیاب ہو گئے جہاں سے دمشق میں داخل ہونا ممکن تھا۔
یہ دمشق کا سب سے بہتر خطہ تھا۔ اس مقام پر خندق کا پانی کافی گہرا تھا اور وہاں سے داخل ہونا کافی دشوار طلب کام تھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے دمشق میں داخل ہونے کی تدبیر یہ نکالی کہ چند رسیوں کو اکٹھا کیا تاکہ فصیل پر چڑھنے اور دمشق میں اترنے کے لیے ان میں پھندا لگا کر سیڑھیوں کا کام لیا جا سکے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو کسی ذریعہ سے یہ خبر مل گئی تھی کہ دمشق کے بطریق، رومی فوج کے دس ہزاری لشکر کے قائد کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے، ایک کمانڈرکے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے اور
سارے لوگ جن میں اس کے محافظ سپاہی بھی تھے دعوت میں مشغول ہیں۔ چنانچہ وہ سب خوب کھا پی کر مست ہو کر سو گئے اور اپنی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو گئے۔
اسی دوران حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مشکیزوں کے سہارے خندق عبور کر کے فصیل تک پہنچ گئے اور رسیوں کے پھندے لگا کر انہیں بطور سیڑھی کے فصیل پر مضبوطی سے پھنسا دیا اور متعدد رسیاں فصیل سے لٹکا دیں۔ اس پر رسیوں کے سہارے کافی زیادہ تعداد میں مسلمان فصیل پر چڑھ گئے اور اندر اتر گئے اور دروازوں تک پہنچ گئے۔ دروازوں کی کنڈیوں کو تلوار سے کاٹ کر الگ کر دیا۔ اس طرح اسلامی فوجیں دمشق میں داخل ہو گئیں۔
(سیدنا عمر بن خطابؓ از علی محمد الصلابی صفحہ727۔728مکتبہ الفرقان مظفر گڑھ)
حضرت خالدؓ کی فوج مشرقی دروازے پر قابض ہو گئی تو رومیوں نے گھبراہٹ میں حضرت ابوعبیدہؓ سے مغربی دروازے پر صلح کی درخواست کی حالانکہ پہلے مسلمانوں کی طرف سے صلح کی درخواست کو مسترد کر چکے تھے اور جنگ پر بضد تھے۔ حضرت ابوعبیدہ ؓنے خوش دلی سے صلح کو منظور کر لیا۔ اس پر رومیوں نے قلعہ کے دروازے کھول دیے اور مسلمانوں سے کہا کہ جلد آؤ اور ہمیں اس دروازے کے حملہ آوروں یعنی حضرت خالدؓ سے بچاؤ۔ نتیجہ یہ ہواکہ تمام دروازوں سے مسلمان صلح کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے اورحضرت خالدؓ اپنے دروازے سے لڑائی کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے۔ حضرت خالدؓ اور باقی چاروں اسلامی امراء شہر کے وسط میں ایک دوسرے سے ملے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اگرچہ دمشق کا کچھ حصہ لڑ کر فتح کیا تھا لیکن چونکہ حضرت ابوعبیدہؓ نے صلح منظور کر لی تھی اس لیے مفتوحہ علاقے میں بھی صلح کی شرائط تسلیم کی گئیں۔
(تاریخ الطبری جلد2صفحہ357-358دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
(الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ106-107 مطبوعہ ادارہ اسلامیات 2004ء)
یہاں یہ واضح ہو کہ دمشق کی فتح کو بعض مؤرخین حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں بیان کرتے ہیں لیکن دمشق کا یہ معرکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں شروع ہو چکا تھا۔ البتہ اس کی فتح کی خبر جب مدینہ بھیجی گئی تو اس وقت حضرت ابوبکرؓ کی وفات ہو چکی تھی۔ تو
یہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے کی آخری جنگ تھی۔
آئندہ ان شاء اللہ حضرت ابوبکرؓ کی زندگی کے جو باقی پہلو ہیں وہ بیان ہوں گے۔
اس وقت میں
چند مرحومین کا ذکر
بھی کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا ذکر ہے
مکرم عمر ابو عرقوب صاحب
جو جنوبی فلسطین کے صدر جماعت تھے۔ پندرہ اگست کو ستر سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ عمر ابو عرقوب صاحب 2010ء میں ایم ٹی اے العربیہ کے ذریعہ جماعت سے متعارف ہوئے۔ اس بارے میں انہوں نے کہا کہ جب میں نے سب سے پہلے ایم ٹی اے دیکھا تو محسوس کیا کہ بےشک یہ لوگ نیک اور صالح ہیں۔ میں ایک طرف عالمِ اسلام کو قتل و غارت، ڈاکا، چوری اور باہمی منافرت کی حالت میں دیکھتا ہوں اور دوسری طرف جماعتِ احمدیہ صلہ رحمی کی تعلیم دیتی ہے اور تہجد پڑھنے اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی تلقین کرتی ہے جس سے میں کافی متاثر ہوا اور میں نے کہا کہ یہی سچی جماعت ہے جس کی پیروی ہم پر واجب ہے۔ پھر کہتے ہیں استخارے کے بعد مجھے یقین ہو گیا۔ پھر میں نے خواب بھی ایک دیکھی تھی کہ یہی سچی جماعت ہے اور کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ عہد کیا کہ میں وفات تک اس جماعت سے منسلک رہوں گا۔ ہر مشکل وقت میں مرحوم بہت ثابت قدم رہتے تھے۔ مرحوم کہا کرتے تھے کہ جب تک میں زندہ ہوں تو اپنے عہد پر ثابت قدم رہوں گا۔ان کی بیعت کے بعد ان کی اہلیہ محترمہ نے رؤیا میں دیکھا کہ چند احمدی لوگ ہیں۔ مکرم عمر صاحب کو اپنے گھر میں ایک کمرے میں لے گئے۔ انہوں نے ان کو نہلایا اور ان کے سینے کو کھول کر صاف کیا اور مجھے کہا کہ دیکھو ہم ان کو بہترین حالت میں واپس لے آئے ہیں۔ خلافت سے بے انتہا محبت کرنے والے تھے اور بڑی دعائیں کیا کرتے تھے۔ مرحوم جماعت سے اخلاص کا تعلق رکھنے والے تھے۔ اپنے گھر کے ایک حصہ کو جو نچلی منزل تھی جماعت کے لیے وقف کیا ہوا تھا۔ جماعت احمدیہ جنوبی فلسطین مرحوم کے مکان میں نماز جمعہ، عیدین اور اجلاسات کے لیے جمع ہوتی اور ان کے بیٹے نے کہا کہ مرحوم کی وصیت ہے کہ یہ حصہ جماعت کے لیے وقف رہے گا۔ ان کے مخالفین ان کو بیماری کے دنوں میں کہتے تھے جماعت احمدیہ سے توبہ کرو بیماری ہٹ جائے گی لیکن مرحوم اس کے باوجود ان سے تبلیغی مباحثہ کیا کرتے تھے اور ایک شخص جو بہت زیادہ بڑھ بڑھ کے مخالفت میں بولنے والا تھا اس سے مباحثہ کیا اور ایسا لاجواب کر دیا کہ اس کو کوئی جواب نہیں سوجھا۔ جب ان کے بیماری کے دن گزر رہے تھے تو بیماری کی شدت کی وجہ سے اگلے دن مرحوم کو آئی سی یو میں منتقل ہونا پڑا۔ مباحثے کے دوران مرحوم کے بیٹے نے اس ملاں سے کہا جو بہت زیادہ بڑھ بڑھ کے ان سے بحث کرنے والا تھا کہ والد صاحب کو چھوڑ دو۔ یہ صاحبِ تجربہ ہیں۔ تم ان کو نہیں منا سکتے۔ بہرحال بیٹا کہتا ہے کہ مرحوم نے مرض الموت میں یہ نصیحت کی تھی کہ میری موت پر اداس نہ ہونا۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول دہراتے رہے کہ غدًا ألْقَی الْأَحِبَّۃ مُحَمَّدًا وَصَحْبَہٗ یعنی کل میں اپنے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ سے ملوں گا۔
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ جلد1 صفحہ499 اسلام حمزۃ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
مرحوم بہت ہردلعزیز اور ایک پیاری شخصیت کے مالک تھے۔ مرحوم کی اہلیہ تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو احمدی نہیں ہیں اور مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
دوسرا ذکر
مکرم شیخ ناصر احمد صاحب، مٹھی تھرپارکر،
کا ہے جو ابھی گذشتہ دنوں ترانوے سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مٹھی کے سب سے پہلے احمدی تھے۔ 1969ء میں انہوں نے احمدیت قبول کی۔ ایک پُرجوش داعی الی اللہ اور دین کی غیرت رکھنے والے نڈر احمدی تھے۔ پنجوقتہ نمازوں کی پابندی، مہمان نوازی، خلافت سے والہانہ عشق ان کے نمایاں اوصاف تھے۔ انہیں مٹھی اور اس کے گرد و نواح میں متعدد بیعتیں کروانے کی بھی توفیق ملی۔ مٹھی کی پہلی مسجد انہی کی دی ہوئی جگہ پر بنائی گئی تھی۔ خاندان اور برادری کی طرف سے انہیں شدید مخالفت کا سامنا رہا۔ خاص طور پر بچوں کی شادی کا وقت آیا تو برادری نے اپنے خاندان سے باہر احمدیوں میں رشتہ کرنے سے روکنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا۔ آپ کا بائیکاٹ کیا گیا۔ وہ ان کی شادیوں میں شامل بھی نہیں ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے انہوں نے باوجود مخالفت کے تمام بچوں کی شادیاں احمدی گھرانوں میں کیں۔ آپ نے اپنے بچوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دی۔ سب کو قرآن کریم پڑھایا، نماز کا پابند کیا۔ اپنی عورتوں کو جو پہلے ہندو تھیں اور ان کا روایتی طرز لباس چھڑوا کر انہیں برقع پہنوایا۔
حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے ایک مرتبہ ان کو خراجِ تحسین دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’اگر ہر سینٹر میں ہم ایک ناصر پیدا کر دیں تو ہم یقیناً کامیاب ہو جائیں گے۔‘‘ ان کے پسماندگان میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے کچھ بچے بھی واقف زندگی ہیں، خدمت دین کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔
تیسرا جو ذکر ہے وہ
ملک سلطان احمد صاحب سابق معلم وقف جدید
کا ہے۔ یہ بھی گذشتہ دنوں چوراسی سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1938ء میں پکا نسوانہ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے تھے۔ پیدائشی احمدی تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد محترم سجادہ صاحب المعروف شہزادہ کے ذریعہ سے آئی جنہوں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں خود قادیان جا کر بیعت کی تھی۔ انہوں نے مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1960ء میں وقفِ جدید کے تحت خدمت کی درخواست دی۔ ان کا وقف قبول ہوا۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒجب وقفِ جدید کے انچارج تھے تو یہ ان کے زیر تربیت رہے اور کچھ عرصہ وہاں سے تربیت حاصل کر کے 1960ء میں ان کی معلم کے طور پر تقرری ہوئی۔ تھرپارکر کے علاقے میں بھیجے گئے جہاں انہوں نے بڑا کام کیا۔ پھر پاکستان کے دوسرے علاقوں میںبھی رہے۔ اڑتیس سال سے زائد ان کی خدمت کا دور ہے۔ اپنے مفوضہ فرائض بڑے خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا اور اسی وجہ سے 1968ء میں ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا۔ سچائی، ملنساری، مہمان نوازی، خوش مزاجی ان کے بنیادی وصف تھے۔ تہجد گزار، نماز باجماعت کے پابند، دعا گو انسان تھے۔ مرتے دم تک نظامِ خلافت کے ساتھ وفا کا تعلق رکھا اور اپنی اولاد کو بھی اس کی تلقین کرتے رہے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے ان سے، درجات بلند کرے۔
اگلا ذکر
مکرم محبوب احمد راجیکی صاحب
کا ہے جو سعد اللہ پور ضلع منڈی بہاؤالدین کے رہنے والے تھے۔ یہ بھی گذشتہ دنوں میں چھیاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ ایک بیٹا ان کا باہر جرمنی میں ہے اور کچھ لاہور میں مقیم ہیں۔ مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت غلام علی صاحب راجیکیؓ کے بیٹے اور حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ کے بھتیجے تھے اور حضرت مولوی غوث محمد صاحبؓ کے نواسے تھے۔
ان کے بیٹے مبرور صاحب بیان کرتے ہیں: ان کو سینتیس سال بطور صدر جماعت سعد اللہ پور خدمت کی توفیق ملی۔ بہت دعا گو، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سچے فدائی، خلافت سے بےحد محبت رکھنے والے، نڈر اور بہادر خادم سلسلہ تھے۔ تین مرتبہ ان کو اسیرِ راہ مولیٰ رہنے کی توفیق ملی۔ پنجوقتہ نماز کے پابند ہونے کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے لمبی تہجد ادا کرنے والے تھے۔ بےشمار موقعوں پر خدا تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو قبولیت کا فوری شرف بخشا۔ صاحب رؤیا و کشوف بھی تھے۔ اسیری کے دوران بھی ان کو کئی دفعہ خوابیں آتی رہیں کہ فلاں دن رہائی ہو گی یا فلاں وقت یہ واقعہ ہو گا اور اسی طرح ہوتا بھی رہا۔ دن میں اکثر درود شریف اور دعاؤں میں مصروف رہتے بلکہ ایک شخص نے لکھا کہ ایک دن فجر کی نماز کے لیے آپ آئے تو اس نے ان کو ہاتھ لگایا تو بڑا تیز بخار تھا لیکن اس کے باوجود مسجد میں آئے باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے۔ اور ایم ٹی اے سے تعلق اور خلافت سے محبت کا یہ حال تھا کہ اونچا سننے لگے تھے، سمجھ نہیں بھی آتی تھی تب بھی خطبہ کے دوران ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ضرور سننے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ارد گرد کے گاؤں کے غیر احمدی بہت زیادہ آئے بلکہ پہلے بھی آتے رہتے تھے اور بڑا اعتقاد تھا، ان سے دعائیں کرایا کرتے تھے۔ وفات کے بعد تو آئے ہی افسوس کرنے تھے۔ دعائیں کراتے تھے اور کہا کرتے تھے اگر یہ احمدی نہ ہوتے تو سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ان کے مرید ہوتے اور ان کی دعاؤں کی قبولیت کے کئی غیراحمدیوں نے بھی واقعات بیان کیے ہیں اور مثالیں دی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے درجات بلند کرے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ان شاء اللہ نمازوں کے بعد ان سب کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔
(الفضل انٹرنیشنل 23؍ستمبر 2022ء صفحہ 5تا10)