• 19 اپریل, 2024

’’کىڑى کے گھر نارائن آىا‘‘

حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز فرماتے ہىں:
حضرت شىخ زىن العابدىن صاحبؓ بىان کرتے ہىں کہ: اىک مىرے بھائى مہر على صاحب آٹھوىں جماعت مىں پڑھتے تھے۔ وہ بىمار ہو گئے۔ چھ ماہ تک دست آتے رہے۔ ہم علاج کرتے رہے۔ جب کوئى افاقہ نہ ہوا اور ہم بالکل نا امىد ہو گئے تو اُس کو قادىان لے آئے۔ حضرت صاحب کو الہام ہو چکا تھا کہ مَىں اس جگہ اىک پىارے بچے کا جنازہ پڑھوں گا اور حضور اس الہام کو اپنے بچوں مىں سے ہى کسى اىک کے متعلق سمجھا کرتے تھے۔ مگر مہر على کو ىہاں لاىا گىا تو حضور نے اُس کا مہىنہ ڈىڑھ مہىنہ علاج کىا۔ کچھ ٹھىک ہوگىا مگر حضور کو الہام ہوا کہ ىہ بچہ بچ نہىں سکے گا۔ اس پر آپ نے حافظ حامد على کو کہا کہ اس بچے کو ىعنى اپنے بھائى کو گھر لے جاؤ۔ ىہ بچ نہىں سکے گا۔ اور اگر ىہاں فوت ہوا تو تمہارے رشتہ داروں کو ىہاں آنے کى تکلىف ہو گى۔ ہم نے ڈولى تىار کروائى۔ اُسے ڈولى مىں بٹھاىا اور بازار تک لے گئے۔ مگر اُس نے کہا کہ مَىں ہرگز واپس نہىں جاؤں گا۔ بارہ تىرہ سال کا بچہ تھا۔ اُس بچے نے کہا کہ مرنا ہے تو ىہىں مرنا ہے۔ مَىں تو مرزا صاحب کى خدمت مىں ہى رہوں گا۔ اور اگر تم نے واپس نہ کىا تو مىں چھلانگ لگا دوں گا جو مجھے اُٹھا کے لے جا رہے ہو۔ چنانچہ ہم اُسے واپس لائے اور حضرت صاحب کو اطلاع بھجوائى۔ فرماىا اچھا رہنے دو۔ ىہ ىہاں ہى فوت ہو گا۔ مگر ىہ خىال رکھنا کہ چلتا پھرتا مرے گا۔ ىہ نہ سمجھنا کہ بىمار ہو گا، لىٹا ہوا۔ اچانک وفات ہو جانى ہے۔ لىٹا ہوا نہىں مرے گا۔ جس دن اُس نے مرنا تھا۔ بازار چلا گىا اور دودھ پىا اور شام کے قرىب گھر آىا۔ ماں کو کہنے لگا کہ ماں اب دىا گُل ہو چلا ہے۔ والدہ سمجھى کہتاہے شام ہو گئى ہے۔ دىا جلاؤ۔ مگر اُس نے کہا کہ مىرا مطلب ىہ نہىں، ىہ مطلب ہے۔ اُس کو بھى خبر پہنچ گئى تھى۔ والدہ نے اُسے کھڑے کھڑے چھاتى سے لگاىا۔ مگر اُسى حالت مىں اُس کى جان نکل گئى۔ حضرت صاحب نے جنازہ پڑھاىا اور ىہىں تدفىن کى۔ کہتے ہىں جنازہ اس قدر لمبا پڑھاىا کہ ہم لوگ تھک گئے۔ لوگ رو رہے تھے۔

(رجسٹر رواىات صحابہؓ غىر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ66-67۔ رواىت حضرت شىخ زىن العابدىن برادر حافظ حامد على صاحبؓ)

حضرت مىاں عبدالرزاق صاحبؓ بىان کرتے ہىں۔ مَىں بڑى خواہش سے (وہ) مقدمہ سننے کے لئے (جو جہلم کا مشہور مقدمہ ہے) حضور کى تشرىف آورى سے اىک دن پہلے جہلم پہنچ گىا۔ گاڑى کے آنے سے دو گھنٹے پىشتر سٹىشن پر پہنچ گىا تھا۔ مىں نے سٹىشن پر نظارہ دىکھا ہے کہ دس دس فٹ پر پولىس کے سپاہى کھڑے تھے۔ لوگوں دىواروں پر چڑھنے کى کوشش کرتے تھے مگر پولىس اندر نہىں جانے دىتى تھى۔ گاڑى آنے کے وقت اس قدر ہجوم ہو گىا کہ آخر پولىس کامىاب نہ ہو سکى۔ تمام خلقت دىوارىں پھاند کر اندر چلى گئى۔ جب حضرت صاحب گاڑى سے اترنے لگے تو اىک گلى باہر تک پولىس کى مدد سے احمدى دوستوں نے بنا دى۔ اس گلى مىں سب سے پہلے چوہدرى مولا بخش صاحب جو سىالکوٹ کے مشہور احمدى تھے گزرے اور گاڑى تک گئے۔ اُن کے بعد حضرت صاحب تشرىف لے گئے اور ساتھ ہى مولوى عبداللطىف صاحب شہىد کابل والے اور مولوى محمد احسن صاحب بھى تھے اور بند گاڑى مىں بىٹھ گئے۔ گاڑى کا چلنا ہجوم کے سبب سے بہت ہى مشکل ہوگىا۔ اُس وقت غلام حىدر تحصىلدار نے بہت ہى محبت کے ساتھ انتظام شروع کىا۔ اىک تو پولىس کو انتظام کرنے کے لئے زور دىااور دوسرے خلقت کو باز رکھنے کى کوشش کى۔ وہ ہنٹر ہاتھ مىں لے کر جلال کے ساتھ چکر لگا رہا تھا۔ ہمارا دل تو اس وقت غمگىن تھا کہ خدا کرے حضور خىرىت سے کوٹھى پر پہنچ جائىں۔ اُس وقت مولوى برہان الدىن صاحب جہلمى جو گاڑى کے آگے آگے اىک بىگ بغل مىں دبائے ہوئے چل رہے تھے کسى وقت جوش مىں آ کر ىہ بھى کہہ دىتے تھے۔ (کہتے ہىں مجھے واقعہ ىاد ہے) کہ ‘‘کىڑى کے گھرنارائن آىا’’ حتى کہ حضرت صاحب کوٹھى پر پہنچ گئے۔

(ماخوذ از رجسٹر رواىات صحابہؓ غىر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ158-159۔ رواىت مىاں عبدالرزاق صاحبؓ)

حضرت مىاں وزىر محمد خان صاحبؓ بىان کرتے ہىں کہ: مَىں جس روز آىا، اىک اور شخص بھى مىرے ساتھ تھا جو ىہاں آ کر بىمار ہو گىااور مىں جو بىمار تھا تندرست ہو گىا۔ پہلے مىرى ىہ حالت تھى کہ مىں چند لقمے کھاتا تھا اور وہ بھى ہضم نہ ہوتے تھے مگر ىہاں آ کر دو روٹى اىک رات مىں کھا لىتا تھا۔ واپس امرتسر گىا۔ پھر وہى حالت ہو گئى۔ پہلى دفعہ جو حضرت صاحب کى زىارت ہوئى تو مسجد مبارک کے ساتھ کے چھوٹے کمرے مىں وضو کر رہا تھا کہ حضرت اقدس اندر سے تشرىف لائے۔ جونہى حضور کا چہرہ دىکھا تو عقل حىران ہو گئى اور خدا کے سچے بندوں کى سى حالت دىکھ کر بے خود ہو گىا۔ جمعہ کے دن مىں کچھ اىسى حالت مىں تھا کہ حضرت صاحب کے نزدىک کھڑے ہو کر مسجد اقصىٰ مىں نماز پڑھى۔ اُس وقت حضرت صاحب کى اىک توجہ ہوئى۔ اُس کے بعد مىں بہت سخت روىا۔ (ىعنى اىک نظر سے دىکھا، توجہ سے دىکھا، اُس کا اىسا اثر ہوا کہ مَىں بہت سخت روىا، نماز مىں بھى اور نماز سے پہلے بھى۔ ) کہتے ہىں کہ صوفىاء کے مذہب مىں ىہ غسل کہلاتا ہے۔ عصر کے وقت جب حضور سے پھر ملاقات ہوئى تو حضور نے فرماىا کہ کىا حال ہے؟ مىں نے عرض کىا حضور! اب اچھا ہو گىا ہوں۔ پہلے وقت جب ہم قادىان آئے تو اُس وقت کوئى لنگر خانہ نہىں تھا۔ (ىعنى پہلى دفعہ جب آئے ہىں ) حضرت صاحب کے گھر سے روٹى اور اچار آىا، وہ کھاىا۔ اُس وقت وہ کمرہ جس مىں آجکل موٹر ہے اُس مىں پرىس تھا۔ مہمان بھى وہىں ٹھہر جاتے تھے۔ مَىں بھى وہىں ٹھہرا تھا۔

(ماخوذ از رجسٹر رواىات صحابہؓ غىر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 179-180۔ رواىت مىاں وزىر محمد خاں صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 11؍ مئى 2012ء بحوالہ الاسلام وىب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ سوئٹزرلینڈ کے 39ویں جلسہ سالانہ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اکتوبر 2021