• 18 اپریل, 2024

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 16)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 16

اس عنوان کے تحت درج ذىل تىن عناوىن پر حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہىں۔

1۔ اللہ تعالىٰ کے حضور ہمارے کىا فرائض ہىں؟
2۔ نفس کے ہم پر کىا حقوق ہىں؟
3۔ بنى نوع کے ہم پر کىا کىا حقوق ہىں؟

اللہ تعالىٰ کے حضور ہمارے کىا فرائض ہىں

آگے اىک سخت زلزلہ کے آنے کى خبر خدا تعالىٰ دے چکا ہے۔ وہ زلزلہ اىسا سخت ہو گا کہ لوگوں کو دىوانہ کر دے گا۔ لوگوں نے غفلت کر کے خدا کو بُھلا دىا ہے اور خوشى مىں بىٹھے ہىں مگر جن لوگوں نے خدا کو پا لىا ہے وہ تلخ زندگى کو قبول کرنے کے واسطے تىار رہىں۔ مصائب کا آنا ضرورى ہے۔ خدا کى سُنّت ٹل نہىں سکتى۔ ہر اىک کو چاہىئے کہ خدا سے دُعا اور استغفار مىں مصروف رہے۔اور خدا تعالےٰ کى رضا کے ساتھ اپنى رضا کو ملائے۔ جو شخص پہلے سے فىصلہ کر لىتا ہے ٹھوکر نہىں کھاتا۔ مال، اولاد، بىوى، بھائىوں سے پہلے ہى سمجھ لے کہ مىرا ان سے کوئى تعلق نہىں۔ سب امانتِ خداوندى ہىں۔ جب تک ہىں ان کى قدر، عزّت، خاطر خدمت کرو۔ جب خدا اپنى امانت کو واپس لے لے تو پھر رنج نہ کرو۔

دىن کى جڑ اس مىں ہے کہ ہر امر مىں خدا تعالےٰ کو مقدم رکھو۔ در اصل ہم تو خدا کے ہىں اور خدا ہمارا ہے۔ اَور کسى سے ہم کو کىا غرض ہے۔ اىک نہىں کروڑ اولاد مر جائے پر خدا راضى رہے تو کوئى غم کى بات نہىں۔ اگر اَولاد زندہ بھى رہے تو بغىر خدا کے فضل کے وہ بھى موجب ابتلاء ہو جاتى ہے۔ بعض آدمى اولاد کى وجہ سے جىل خانوں مىں جاتے ہىں۔ شىخ سعدى الرحمۃ نے اىک شخص کا قصہ لکھا ہے کہ وہ اولاد کى شرارت کے سبب پا بہ زنجىر تھا۔ اولاد کو مہمان سمجھنا چاہىئے۔ اس کى خاطر دارى کرنى چاہىئے۔ اس کى دلجوئى کرنى چاہىئے مگر خدا تعالىٰ پر کسى کو مقدم نہىں کرنا چاہىئے۔ اولاد کىا بنا سکتى ہے۔ خدا تعالےٰ کى رضا ضرورى ہے۔

جن لوگوں کو خدا کى طرف پورا التفات نہىں ہوتا انہىں کو نماز مىں بہت وساوس آتے ہىں۔ دىکھو اىک قىدى جبکہ اىک حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو کىا اس وقت اس کے دل مىں کوئى وسوسہ گذر جاتا ہے۔ہر گز نہىں۔ وہ ہمہ تن حاکم کى طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس فکر مىں ہوتا ہے کہ ابھى حاکم کىا حکم سُناتا ہے۔ اس وقت تو وہ اپنے وجود سے بھى بالکل بے خبر ہوتا ہے۔ اىسا ہى جب صدق دل سے انسان خدا تعالےٰ کى طرف رجوع کرے اور سچے دل سے اس کے آستانہ پر گرے تو پھر کىا مجال ہے کہ شىطان وساوس ڈال سکے۔

شىطان انسان کا پورا دشمن ہے قرآن شرىف مىں اس کا نام عدو رکھا گىا ہے۔ اس نے اول تمہارے باپ کو نکالا۔ پھر وہ اس پر خوش نہىں۔ اب اس کا ىہ ارادہ ہے کہ تم سب کو دوزخ مىں ڈال دے۔ ىہ دوسرا حملہ پہلے سے بھى زىادہ سخت ہے۔ وہ ابتداء سے بدى کرتا چلا آىا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تم پر غالب آوے۔ لىکن جب تک کہ تم ہر بات مىں خدا تعالےٰ کو مقدم رکھو گے وہ ہر گز تم پر غالب نہ آ سکے گا۔ جب انسان خدا کى راہ مىں دُکھ اُٹھاتا ہے اور شىطان سے مغلوب نہىں ہوتا۔ تب اس کو اىک نُور مِلتا ہے۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ90۔91 اىڈىشن 1984ء)

غرض ىاد رکھنا چاہىئے کہ نماز ہى وہ شے ہے جس سے سب مشکلات آسان ہو جاتے ہىں اور سب بلائىں دُور ہوتى ہىں۔ مگر نماز سے وہ نماز مراد نہىں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہىں بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے اور آستانۂ احدىت پر گِر کر اىسامحو ہو جاتا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے۔

اور پھر ىہ بھى سمجھنا چاہىئے کہ نماز کى حفاظت اس واسطے نہىں کى جاتى کہ خدا کو ضرورت ہے خدا تعالےٰ کو ہمارى نمازوں کى کوئى ضرورت نہىں۔ وہ تو غَنِىٌّ عَنِ الْعَالَمِىْن ہے اس کو کسى کى حاجت نہىں۔ بلکہ اس کا مطلب ىہ ہے کہ انسان کو ضرورت ہے اور ىہ اىک راز کى بات ہے کہ انسان خود اپنى بھلائى چاہتا ہے اور اسى لئے وہ خدا سے مدد طلب کرتا ہے۔ کىونکہ ىہ سچى بات ہے کہ انسان کا خدا تعالىٰ سے تعلق ہو جانا حقىقى بھلائى کا حاصل کر لىنا ہے۔ اىسے شخص کى اگر تمام دُنىا دشمن ہو جائے اور اس کى ہلاکت کے در پے رہے تو اس کا کچھ بگاڑ نہىں سکتى اور خدا تعالےٰ کو اىسے شخص کى خاطر اگر لاکھوں کروڑوں انسان بھى ہلاک کرنے پڑىں تو کر دىتا ہے اور اس اىک کى بجائے لاکھوں کو فنا کر دىتا ہے۔

ىاد رکھو۔ ىہ نماز اىسى چىز ہے کہ اس سے دنىا بھى سنور جاتى ہے اور دىن بھى۔ لىکن اکثر لوگ جو نماز پڑھتے ہىں تو وہ نماز ان پر لعنت بھىجتى ہے۔ جىسے فرماىا اللہ تعالےٰ نے فَوَىۡلٌ لِّلۡمُصَلِّىۡنَ۔ الَّذِىۡنَ ہُمۡ عَنۡ صَلَاتِہِمۡ سَاہُوۡنَ (الماعون: 5-6)۔ ىعنى لعنت ہے ان نمازىوں پر جو نماز کى حقىقت سے ہى بے خبر ہوتے ہىں۔

نماز تو وہ چىز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر اىک طرح کى بد عملى اور بىحىائى سے بچاىا جاتا ہے۔ مگر جىسے کہ مىں پہلے بىان کر چکا ہوں اس طرح کى نماز پڑھنى انسان کے اپنے اختىار مىں نہىں ہوتى۔ اور ىہ طرىق خدا کى مدد اور استعانت کے بغىر حاصل نہىں ہو سکتا۔ اور جب تک انسان دُعاؤں مىں نہ لگا رہے اس طرح کا خشوع اور خضوع پىدا نہىں ہو سکتا۔ اس لئے چاہىئے کہ تمہارا دن اور تمہارى رات غرض کوئى گھڑى دُعاؤں سے خالى نہ ہو۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ66-67، اىڈىشن 1984ء)

نفس کے ہم پر کىا حقوق ہىں

اس وقت مَىں سِرًّا وَّ عَلَانِىَۃً پر بحث نہىں کرتا بلکہ نفس کى ملونى کا ذکر کرتا ہوں مىں ىہ نہىں کہتا کہ ہمىشہ خفىہ ہى خىرات کرو اور علانىہ نہ کرو۔ نىک نىتى کے ساتھ ہر کام مىں ثواب ہوتا ہے۔ اىک نىک طبع انسان اىک کام مىں سبقت کرتا ہے اس کى دىکھا دىکھى دوسرے بھى اس کارِخىر مىں شرىک ہو جاتے ہىں۔ اس طرح سے اس شخص کو بھى ثواب ملتا ہے بلکہ ان کے ثواب مىں سے بھى حصہ لىتا ہے۔ پس اس رنگ مىں کوئى نىک کام اس نىّت سے کرنا کہ دوسروں کو بھى ترغىب و تحرىص ہو بڑا ثواب ہے۔

شرىعت اسلام مىں بڑے بڑے بارىک امور اىسے ہىں تا کہ اخلاص کى قوت پىدا ہو جائے۔ اخلاص اىک موت ہے جو مخلص کو اپنے نفس پر وارد کرنى پڑتى ہے۔ جو شخص دىکھے کہ علانىہ خرچ کرنے اور خىرات دىنے ىا چندوں مىں شامل ہونے سے اس کے نفس کو مزا آتا ہے اور رىا پىدا ہوتى ہے تو اس کو چاہىئے کہ رىاکارى سے دست بردار ہو جائے اور بجائے علانىہ خرچ کرنے کے خفىہ طور سے خرچ کرے اور اىسا کرے کہ اس کے بائىں ہاتھ کو بھى علم نہ ہو۔ پھر خدا قادر ہے کہ نىک کو اس کى نىکى اور پاک تبدىلى کى وجہ سےبخش دے۔ اس مىں کوئى سو برس کى ضرورت نہىں، اخلاص کى ضرورت ہے۔

دىکھو حضرت ابو بکر صدىق رضى اللہ تعالےٰ عنہ اىک بُڑھىا کو بلا ناغہ حلوا کھلاىا کرتے تھے اور ان کے اس فعل کى کسى کو خبر نہ تھى۔ اىک دن جب بُڑھىا کو حلوا نہ پہنچا۔ اُس نے اِس سے ىقىن کر لىا کہ حضرت ابو بکر صدىق رضى اللہ تعالےٰ عنہ وفات پا گئے۔ اب جائے غور ہے کہ آپ رضى اللہ عنہ کىسے تعاھد سے اس بُڑھىا کى جو کہ اور کچھ نہ کھا سکتى تھى خدمت کىا کرتے تھے کہ اىک دن حلوا نہ پہنچنے سے اس کو ىقىن ہو گىا کہ آپ وفات پا گئے۔ ىعنى اس بُڑھىا کے وہم مىں بھى نہىں آ سکتا تھا کہ آپؓ زندہ ہوں اور اس کو حلوا نہ پہنچے۔ ىہ ممکن ہى نہ تھا۔

غرض ىہ ہے اخلاص اور ىہ ہىں محض خدا کى راہ مىں محض نىک نىتى کے اعمال۔ اخلاص جىسى اور کوئى تلوار دلوں کو فتح کرنے والى نہىں۔ اىسے ہى امور سے وہ لوگ دُنىا پر غالب آ گئے تھے۔ صرف زبانى باتوں سے کچھ ہو نہىں سکتا۔ اب نہ پىشانى مىں نُور اور نہ رُوحانىّت ہے اور نہ معرفت کا کوئى حصّہ۔ خدا تعالےٰ ظالم نہىں ہے۔ اصل بات ہى ىہى ہے کہ ان کے دلوں مىں اخلاص نہىں۔ صرف ظاہرى اعمال سے جو رسم اور عادت کے رنگ مىں کئے جاتے ہىں کچھ نہىں بنتا۔ اس سے کوئى ىہ نہ سمجھ لے کہ مىں نماز کى تحقىر کرتا ہوں۔ وہ نماز جس کا ذکر قرآن مىں ہے اور وہ معراج ہے۔ بھلا ان نمازىوں سے کوئى پُوچھے تو سہى کہ ان کو سُورہ فاتحہ کے معنے بھى آتے ہىں۔ پچاس پچاس برس کے نمازى ملىں گے مگر نماز کا مطلب اور حقىقت پوچھو تو اکثر بىخبر ہوں گے حالانکہ تمام دنىوى علوم ان علوم کے سامنے ہىچ ہىں۔ با اىں دنىوى علوم کے واسطے تو جان توڑ محنت اور کوشش کى جاتى ہے اور اس طرف سے اىسى بے التفاتى ہے کہ اُسے جنتر منتر کى طرح پڑھ جاتے ہىں۔ مىں تو ىہانتک بھى کہتا ہوں کہ اس بات سے مت رُکو کہ نماز مىں اپنى زبان مىں دُعائىں کرو۔ بىشک اُردو مىں، پنجابى مىں، انگرىزى مىں، جو جس کى زبان ہو اسى مىں دُعا کر لے۔ مگر ہاں ىہ ضرورى ہے کہ خدا تعالىٰ کے کلام کو اسى طرح پڑھو۔ اس مىں اپنى طرف سے کچھ دخل مت دو۔ اس کو اسى طرح پڑھو اور معنے سمجھنے کى کوشش کرو۔ اسى طرح ماثورہ دعاؤں کا بھى اسى زبان مىں التزام رکھو۔ قرآن اور ماثورہ دعاؤں کے بعد جو چاہو خدا تعالىٰ سے مانگو اور جس زبان مىں چاہو مانگو۔ وہ سب زبانىں جانتا ہے۔ سُنتا ہے قبول کرتا ہے۔

اگر تم اپنى نماز کو باحلاوت اور پُر ذوق بنانا چاہتے ہو تو ضرورى ہے کہ اپنى زبان مىں کچھ نہ کچھ دعائىں کرو۔ مگر اکثر ىہى دىکھا گىا ہے کہ نمازىں تو ٹکرىں مار کر پُورى کر لى جاتى ہىں پھر لگتے ہىں دعائىں کرنے۔ نماز تو اىک ناحق کا ٹىکس ہوتا ہے۔ اگر کچھ اخلاص ہوتا ہے تو نماز کے بعد مىں ہوتا ہے۔ ىہ نہىں سمجھتے کہ نماز خود دُعا کا نام ہے جو بڑے عجز، انکسار، خلوص اور اضطراب سے مانگى جاتى ہے۔ بڑے بڑے عظىم الشّان کاموں کى کُنجى صرف دُعا ہى ہے۔ خدا تعالىٰ کے فضل کے دروازے کھولنے کا پہلا مرحلہ دعا ہى ہے۔

نماز کو رسم اور عادت کے رنگ مىں پڑھنا مفىد نہىں بلکہ اىسے نمازىوں پر تو خود خدا تعالىٰ نے لعنت اوروىل بھىجا ہے چہ جائىکہ ان کى نماز کو قبولىّت کا شرف حاصل ہو۔ وَىۡلٌ لِّلۡمُصَلِّىۡنَ ۙ﴿۵﴾ (الماعون: 5) خودخدا تعالىٰ نے فرماىا ہے۔ ىہ ان نمازىوں کے حق مىں ہے جو نماز کى حقىقت سے اور اس کے مطالب سے بىخبر ہىں۔ صحابہؓ  تو خود عربى زبان رکھتے تھے اور اس کى حقىقت کو خوب سمجھتے تھے۔ مگر ہمارے واسطے ىہ ضرورى ہے کہ اس کے معانى سمجھىں اور اپنى نماز مىں اس طرح حلاوت پىدا کرىں مگر ان لوگوں نے تو اىسا سمجھ لىا ہے جىسے کہ دوسرا نبى آ گىا ہے اور اس نے گوىا نماز کو منسوخ ہى کر دىا ہے۔

دىکھو خدا تعالىٰ کا اس مىں فائدہ نہىں بلکہ خود انسان ہى کا اس مىں بَھلا ہے کہ اس کو خدا تعالىٰ کى حضورى کا موقعہ دىا جاتا ہے اور عرض معروض کرنے کى عزت عطا کى جاتى ہے جس سے ىہ بہت سى مشکلات سے نجات پا سکتا ہے۔ مىں حىران ہوں کہ وہ لوگ کىونکر زندگى بسر کرتے ہىں جن کا دن بھى گذر جاتا ہے اور رات بھى گر جاتى ہے مگر وہ نہىں جانتے کہ ان کا کوئى خدا بھى ہے۔ ىاد رکھو کہ اىسا انسان آج بھى ہلاک ہوا اور کل بھى۔

مىں اىک ضرورى نصىحت کرتا ہوں۔ کاش لوگوں کے دل مىں پڑ جاوے۔ دىکھو عُمر گذرى جا رہى ہے۔ غفلت کو چھوڑ دو اور تضرع اختىار کرو۔ اکىلے ہو ہو کر خدا تعالىٰ سے دُعا کرو کہ خدا اىمان کو سلامت رکھے اور تم پر وہ راضى اور خوش ہوجائے۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ410-413 اىڈىشن 1984ء)

ہم نے کسى کتاب مىں اىک حکاىت پڑھى ہے۔ لکھا ہے کہ حضرت علىؓ کى اىک کافر سے جنگ ہوئى۔ جنگ مىں مغلوب ہو کر وہ کافر بھاگا۔ حضرت على کرم اللہ وجہہٗ نے اس کا تعاقب کىا اور آخر اُسے پکڑا۔ اس سے کُشتى کر کے اس کو زىر کر لىا۔ جب آپ رضى اللہ عنہ اس کى چھاتى پر خنجر نکال کر اس کے قتل کرنے کے واسطے بىٹھ گئے تو اس کافر نے آپ کے مُنہ پر تھوک دىا۔ اس سے حضرت على کرم اللہ وجہہٗ اس کى چھاتى سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اُس سے الگ ہو گئے۔ وہ کافر اس معاملہ سے حىران ہوا اور تعجب سے اس کا باعث درىافت کىا۔ حضرت على کرم اللہ وجہہٗ نے کہا کہ اصل بات ىہ ہے کہ ہم لوگ تم سے جنگ کرتے ہىں تو محض خدا کے حکم سے کرتے ہىں۔ کسى نفسانى غرض سے نہىں کرتے بلکہ ہم تو تم لوگوں سے محبت کرتے ہىں۔ مىں نے تم کو پکڑا خدا کے لئے تھا۔ مگر جب تم نے مىرے مُنہ پر تھوک دىا تو اس سے مجھے بشرىت کى وجہ سے غصّہ آگىا تب مىں ڈرا کہ اگر اس وقت جبکہ اس معاملہ مىں مىرا نفسانى جوش بھى شامل ہو گىا ہے تم کو قتل کروں تو مىرا ساراسارا ساختہ پرداختہ ہى برباد نہ ہو جاوے اور جوش نفس کى ملونى کى وجہ سے مىرے نىک اور خالصاً للہ اعمال بھى حبط نہ ہو جاوىں۔ ىہ ماجرا دىکھ کر کہ ان لوگوں کا اتنا بارىک تقوىٰ ہے۔ اس نے کہا کہ مىں نہىں ىقىن کر سکتا کہ اىسے لوگوں کا دىن باطل ہو۔ لہٰذا وہ وہىں مسلمان ہو گىا۔

غرض اسى طرح ہمارى جماعت کے بھى جنگ ہوتے ہىں ان مىں جوش نفس کو شامل نہ کرنا چاہىئے۔ دىکھو۔ اگر ہم خدا تعالىٰ کے نزدىک کافر اور دجّال نہىں ہىں تو پھر کسى کے کافر اور دجّال وغىرہ کہنے سے ہمارا کچھ بگڑتا نہىں اور اگر واقع مىں ہى ہم خدا تعالىٰ کے حضور مىں مقبول نہىں بلکہ مردود ہىں تو پھر کسى کے اچھا کہنے اور نىک بنانے سے ہم خدا تعالىٰ کى گرفت سے بچ نہىں سکتے۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ340-341، اىڈىشن 1984ء)

بنى نوع کے ہم پر کىا کىا حقوق ہىں

قرآن شرىف جہاں والدىن کى فرمانبردارى اور خدمت گذارى کا حکم دىتا ہے وہاں ىہ بھى فرماتا ہے کہ رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا فِىۡ نُفُوۡسِکُمۡ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا صٰلِحِىۡنَ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلۡاَوَّابِىۡنَ غَفُوۡرًا (بنى اسرائىل رکوع 2) (اسراء: 26) اللہ تعالےٰ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں مىں ہے اگر تم صالح ہو تو وہ اپنى طرف جھکنے والوں کے واسطے غفور ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علىہم اجمعىن کو بھى بعض اىسے مشکلات پىش آ گئے تھے کہ دىنى مجبورىوں کى وجہ سے ان کى ان کے والدىن سے نزاع ہو گئى تھى۔ بہر حال تم اپنى طرف سے ان کى خىرىت اور خبرگىرى کے واسطے ہر وقت تىار رہو۔ جب کوئى موقعہ ملے اسے ہاتھ سے نہ دو۔ تمہارى نىت کا ثواب تم کو مل کے رہے گا۔ اگر محض دىن کى وجہ سے اور اللہ تعالےٰ کى رضا کو مقدم کرنے کے واسطے والدىن سے الگ ہونا پڑا ہے تو ىہ اىک مجبورى ہے۔ اصلاح کو مد نظر رکھو اور نىت کى صحت کا لحاز رکھو اور ان کے حق مىں دعا کرتے رہو۔ ىہ معاملہ کوئى آج نىا نہىں پىش آىا۔ حضرت ابراہىم کو بھى اىسا ہى واقعہ پىش آىا تھا۔ بہر حال خدا کا حق مقدم ہے۔ پس خدا تعالےٰ کو مقدم کرو اور اپنى طرف سے والدىن کے حقوق ادا کرنے کى کوشِش مىں لگے رہو اور اُن کے حق مىں دُعا کرتے رہو اور صحتِ نىّت کا خىال رکھو۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ131 اىڈىشن 1984ء)

علم طب ىونانىوں سے مسلمانوں کے ہاتھ آىا مگر مسلمان چونکہ مؤحد اور خدا پرست قوم تھى۔ انہوں نے اسى واسطے اپنے نسخوں پر ہُوَالشَّافِى لکھنا شروع کر دىا۔ ہم نے اطبّاء کے حالات پڑھے ہىں۔ علاج الامراض مىں مشکل امر تشخىص کو لکھا ہے۔ پس جو شخص تشخىص مرض مىں ہى غلطى کرے گا وہ علاج مىں بھى غلطى کرے گا کىونکہ بعض امراض اىسے ادق اور بارىک ہوتے ہىں کہ انسان ان کو سمجھ ہى نہىں سکتا۔ پس مسلمان اطباء نے اىسى دقتوں کے واسطے لکھا ہے کہ دعاؤں سے کام لے۔ مرىض سے سچى ہمدردى اور اخلاص کى وجہ سے اگر انسان پورى توجہ اور درد دل سے دعا کرے گا تو اللہ تعالىٰ اس پر مرض کى اصلىت کھول دے گا کىونکہ اللہ تعالىٰ سے کوئى غىب مخفى نہىں۔

پس ىاد رکھو کہ خدا تعالىٰ سے الگ ہو کر صرف اپنے علم اور تجربہ کى بناء پر جتنا بڑا دعوىٰ کرے گا اتنى ہى بڑى شکست کھائے گا۔ مسلمانوں کو توحىد کا فخر ہے۔ توحىد سے مراد صرف زبانى توحىد کا اقرار نہىں بلکہ اصل ىہ ہے کہ عملى رنگ مىں حقىقتاً اپنے کاروبار مىں اس امر کا ثبوت دے دو کہ واقعى تم موحّد ہو اور توحىد ہى تمہارا شىوہ ہے۔ مسلمانوں کا اىمان ہے کہ ہر اىک امر خدا تعالےٰ کى طرف سے ہوتا ہے۔ اس واسطے مسلمان خوشى کے وقت الحمدللّٰہ اور غمى اور ماتم کے وقت اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَىۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہہ کر ثابت کرتا ہے کہ واقع مىں اس کا ہر کام مىں مرجع صرف خدا ہى ہے جو لوگ خدا تعالىٰ سے الگ ہو کر زندگى کا کوئى حظّ اُٹھانا چاہتے ہىں وہ ىاد رکھىں کہ ان کى زندگى بہت ہى تلخ ہے کىونکہ حقىقى تسلّى اور اطمىنان بجُز خدا مىں محو ہونے اور خدا کو ہى ہر کام کا مرجع ہونے کے حاصل ہو سکتا ہى نہىں۔ اىسے لوگوں کى زندگى تو بہائم کى زندگى ہوتى ہے۔ اور وہ تسلّى ىافتہ نہىں ہو سکتے۔ حقىقى راحت اور تسلّى انہىں لوگوں کو دى جاتى ہے جو خدا سے الگ نہىں ہوتے اور خدا تعالىٰ سے ہر وقت دل ہى دل مىں دعائىں کرتے رہتے ہىں۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ345-346 اىڈىشن 1984ء)

(ترتىب وکمپوزڈفضل عمر شاہد۔خاقان اور صائم لٹوىا)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ سوئٹزرلینڈ کے 39ویں جلسہ سالانہ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اکتوبر 2021