• 20 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احیائے ایمان

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احیائے ایمان
ارکان ایمان کے متعلق مسلمانوں کے غلط عقائد کی اصلاح از تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام

’’نازمت کر اپنے ایماں پر کہ یہ ایمان نہیں
اس کو ہیرا مت گماں کر ہے یہ سنگ ِکوہسار
پیٹنا ہوگا دو ہاتھوں سے کہ ہے ہے مر گئے جبکہ
ایماں کے تمہارے گندہوں گے آشکار‘‘

(براہىن احمدىہ، روحانى خزائن جلد21 صفحہ136۔137)

آنحضرتﷺ نے آخرى زمانہ مىں دنىا سے اىمان اٹھ جانے اور اسکے احىائےنو کى پىشگوئى ان الفاظ مىں فرمائى ’’لَوْ کَانَ الْاِىْمَانُ عِنْدَ الثُّرَىَّا لَنَا لَہٗ رِجَالٌ اَوْ رَجُلٌ مِّنْ ھٰٓؤُلَآءِ‘‘ (بخارى، کتاب التفىسر سورۃ الجمعۃ زىر آىت وَاٰخَرِىْنَ مِنْھُمْ۔۔۔) اگر اىمان ثرىا کے پاس بھى پہنچ گىا (ىعنى زمىن سے اٹھ گىا) تو ان لوگوں مىں سے کچھ لوگ اس کو واپس لے آئىں گے۔

ا س زمانہ مىں حضرت مرزا غلام احمد قادىانى ؑ نے خدا تعالىٰ سے خبر پاکر رجل فارسى ہونے کا دعوىٰ فر ماىا اور آپ ؑ کى بعثت بھى عىن اس وقت ہوئى جب کہ اىمان زمىن پر سے اٹھ چکا تھا۔

آپؑ فرماتے ہىں:
’’غرض تمام زمىن کا ظلم سے بھرنا اور اىمان کا زمىن پر سے اُٹھ جانا اس قسم کى مصىبتوں کا زمانہ آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے زمانہ کے بعد اىک ہى زمانہ ہے جس کو مسىح کا زمانہ ىا مہدى کا زمانہ کہتے ہىں اور احادىث نے اس زمانہ کو تىن پىراىوں مىں بىان کىا ہے رجل فارسى کا زمانہ۔ مہدى کا زمانہ۔ مسىح کا زمانہ۔‘‘

(تحفہ گولڑوىہ، روحانى خزائن جلد17 صفحہ116)

نىز فرماىا:
’’حدىث ہے لَوْکَانَ الْاِىْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَىَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَاِرسَ اور چونکہ اس فارسى شخص کى طرف وہ صفت منسوب کى گئى ہے جو مسىح موعود اور مہدى سے مخصوص ہے ىعنى زمىن جو اىمان اور توحىد سے خالى ہو کر ظلم سے بھر گئى ہے پھر اس کو عدل سے پُر کرنا۔ لہٰذا ىہى شخص مہدى اور مسىح موعود ہے اور وہ مىں ہوں۔‘‘

(تحفہ گولڑوىہ، روحانى خزائن جلد17 صفحہ15)

’’اىمان‘‘ وسىع المعانى لفظ ہے۔ مضمون ہٰذا مىں صرف اىمانىات ىعنى ارکانِ اىمان (اللہ پر اىمان،ملائکہ پر اىمان، کتابوں پر اىمان، رسولوں پر اىمان، آخرت پر اىمان، تقدىر پر اىمان) کے متعلق مسلمانوں کے غلط عقائد کا ذکر ہو گا جنکى نشاندہى اور اصلاح حضرت اقدسؑ نے فرمائى اور کھوئے ہوئے اىمان کو اعتقادى اور عملى طور پر دنىا مىں قائم فر ماىا۔ اور ىہى حقىقى اىمان ہے کہ اول انسان کا اعتقاد درست ہو کىونکہ صحىح اعتقاد صحىح عمل پىدا کرتا ہے۔ چنانچہ آپ ؑ اپنا مقصدِ بعثت بىان کرتے ہوئے فرماتے ہىں:
’’ہمارے دو کام ہىں۔اول ىہ کہ اعتقاد مىں نصوص کے بر خلاف جو غلطىاں پڑ گئى ہىں وہ نکالى جاوىں۔ دوم ىہ کہ لوگوں کى عملى حالتىں درست کى جائىں اور صحابہ ؓ کے مطابق ان کو تقوىٰ وطہارت حاصل ہوجائے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 515)

اختصار کے ساتھ ہر عقىدہ کے متعلق حضورؑ کے صرف اىک ىا دو اقتباس پىش کئے جا رہے ہىں:

’’اللہ پر اىمان‘‘ کے متعلق مسلمانوں کے عقائد
(1)وحدت الوجود کا نظرىہ

’’وجودى مذہب حق سے دور چلا گىا ہے اور اس نے صفاتِ الٰہىہ کے سمجھنے مىں ٹھوکر کھائى ہے۔ وہ معلوم نہىں کر سکتا کہ اس نے عبودىت اور الوہىت کے ہى رشتہ پر ٹھوکر کھائى ہے۔‘‘

 (ملفوظات جلد اول صفحہ 73)

’’قرآن شرىف کے شروع ہى مىں جو کہا گىا ہے اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِىۡنَ (الفاتحہ2) عالمىن کا رب۔ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رب اور ہے اور عالم اورہے۔ ورنہ اگر وحدت وجود والى بات صحىح ہوتى تو رب العىن کہا جاتا۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 489‏)

(2) حضرت عىسٰىؑ کا مردے زندہ کرنا

’’ان کے مردے زندہ کرنے کے معجزے کو بھى خواہ مخواہ خصوصىت دى گئى ہے تعجب آتاہے ان مولوىوں پر کہ حضرت عىسىٰ کے واسطے احىاء موتٰى کا لفظ آوے تو حقىقى مردے زندہ ہو جاوىں جو سنت اللہ اور قرآن مجىد کے خلاف ہىں۔ مگر جب وہى لفظ آنحضرت ﷺ کےواسطے آتے ہىں اس سے مراد روحانى مردے بن جاتے ہىں۔‘‘

(ملفوظات جلدپنجم صفحہ452)

(3)حضرت عىسىٰؑ کا خالقِ طىور ہونا

’’مىں نے اىک دفعہ اىک غىر مقلّدسے جو اہل حدىث کہلاتے ہىں پوچھا کہ جبکہ بقول تمہارے حضرت مسىح نے ہزارہا پرندے بنائے تو کىا تم ان دو قسم کے پرندوں مىں کچھ فرق کر سکتے ہو کہ مسىح کے کونسے ہىں اور خدا کے کونسے۔ اُس نے جواب دىا کہ آپس مىں مل گئے۔ اب کىونکر فرق ہو سکتا ہے۔ اس اعتقاد سے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خدا تعالىٰ بھى دھوکہ باز ٹھہرتا ہے کہ اپنے بندوں کو تو حکم دىا کہ مىرا کوئى شرىک نہ بناؤ اور پھر آپ حضرت مسىح کو اىسا بڑا شرىک اور حصّہ دار بنا دىا کہ کچھ تو خدا کى مخلوقات اور کچھ حضرت مسىح کى مخلوقات ہے بلکہ مسىح خدا کے بعث بعد الموت مىں بھى شرىک اور علم غىب مىں بھى شرىک کىا اب بھى نہ کہىں کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَى الْکَاذِبِىْنَ۔‘‘

(تحفہ گولڑوىہ، روحانى خزائن جلد17 صفحہ206 حاشىہ در حاشىہ)

(4) حىاتِ مسىح کا عقىدہ اور حضرت عىسٰىؑ کو حىّ و قىّوم ٹھہرانا

’’سب سے بڑى غلطى ىہ ہے کہ خدا تعالىٰ کى عظمت اور جلال کو خاک مىں ملا دىا گىا ہے اور رسول اﷲ صلى اللہ علىہ وسلم کى سچى اور اہم اور اعلىٰ تعلىم توحىد کو مشکوک کىا گىا ہے۔ اىک طرف تو عىسائى کہتے ہىں کہ ىسوع زندہ ہے اور تمہارے نبى صلى اللہ علىہ وسلم زندہ نہىں ہىں اور وہ اس سے حضرت عىسىٰ کو خدا اور خدا کا بىٹا قرار دىتے ہىں۔ کىونکہ وہ دو ہزار برس سے زندہ چلے آتے ہىں۔ نہ زمانہ کا کوئى اثر اُن پر ہوا۔ دوسرى طرف مسلمانوں نے ىہ تسلىم کر لىا کہ بىشک مسىح زندہ آسمان پر چلا گىا ہے اور دو ہزار برس سے ابتک اسى طرح موجود ہے۔ کوئى تغىّر وتبّدل اس کى حالت اور صورت مىں نہىں ہوا۔‘‘

 (ملفوظات جلد دوم صفحہ 186)

(5) انبىاء و اولىاء کو خدائى صفات مىں شرىک ٹھہرانا

’’دعاوٴں کا سننے والا اور قدرت رکھنے والا خدا ہى ہے اس کو ىقىن کر نا ىہى اسلام ہے جو اس کو چھوڑتا ہے وہ اسلام کو چھوڑتا ہے پھر کس قدر قابل شرم ىہ امر ہے کہ ىا شىخ عبدالقادر جىلانى تو کہتے ہىں ىا محمدﷺ، ىا ابابکر، ىا عمر نہىں کہتے البتہ ىا على کہنے والے ان کے بھائى موجود ہىں ىہ شرک ہے کہ اىک تخصىص بلاوجہ کى جاوے۔ جب خدا کے سوا کسى چىز کى محبت بڑھ جاتى ہے تو پھر انسان صُمٌّۢ بُکۡمٌ ہو جاتا ہے جو اسلام کے خلاف ہے جب توحىد کے خلاف چلے تو پھر مسلمان کىسا؟ تعجب کى بات ہے کہ جن لوگوں کو ىہ خدا کا حصّہ دار بناتے ہىں خود ان کو بھى ىہ مقام توحىد ہى کے ماننے سے ملا تھا۔ اگر وہ بھى اىسے ’’ىا‘‘ کہنے والے ہوتے تو ان کو ىہ مقام ہرگز نہ ملتا بلکہ انہوں نے خدا ئے تعالىٰ کى اطاعت اختىار کى تب ىہ رتبہ ان کو ملا ىہ لوگ شىعوں اور عىسائىوں کى طرح اىک قسم کا شرک کرتے ہىں‘‘۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 604)

(6)آنحضرتﷺ کا حاضر ناظر ہونا

’’ىہ ہم مانتے ہىں کہ ىہ لوگ خدا کے نزدىک زندہ ہىں مگر ہم نہىں مان سکتے کہ ان کو سماع کى قوت بھى ہے۔حاضر ناظر ہو نااىک الگ صفت ہے جو خدا ہى کو حاصل ہے دىکھو ہم بھى زندہ ہىں مگر لاہور ىا امرتسر کى آوازىں نہىں سن سکتے خدا تعالىٰ کے شہىد اور اولىاء اللہ بىشک خدا کے نزدىک زندہ ہو تے ہىں مگر ان کو حاضر ناظر نہىں کہہ سکتے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ604)

(7) آنحضرت ﷺ کا علم غىب

’’آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم اور انبىاء علىہم السلام نے کبھى دعوىٰ نہىں کىا کہ وہ عالم الغىب ہىں۔ عالم الغىب ہونا خدا کى شان ہے۔ ىہ لوگ سنت انبىاء علىہم السلام سے اگر واقف اور آگاہ ہوں تو اس قسم کے اعتراض ہرگز نہ کرىں‘‘۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ457)

’’خدا کے علم کے ساتھ بشر کا علم مساوى نہىں ہو سکتا۔ اس لىے انبىاء سے اجتہاد مىں غلطىاں واقع ہوتى رہى ہىں اور پھر جب خدا تعالىٰ نے اس پر اطلاع دى تو ان کو علم ہوا۔۔۔ آئندہ کے امور بعض وقت اىک نبى پر منکشف کئے جاتے ہىں مگر تفصىلى علم نہىں دىا جاتا۔پھر جب ان کا وہ وقت آتا ہے تو خود بخود حقىقت کھل جاتى ہے۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ274۔275)

(8)خدا تعالىٰ کى صفت تکلم کا انکار

’’ىہ کس قدر لغو اور باطل عقىدہ ہے کہ اىسا خىال کىا جائے کہ بعد آنحضرت صلى اللہ علىہ و سلم کے وحى الٰہى کا دروازہ ہمىشہ کے لئے بند ہو گىا ہے اور آئندہ کو قىامت تک اس کى کوئى بھى امىد نہىں۔ صرف قصّوں کى پوجا کرو پس کىا اىسا مذہب کچھ مذہب ہو سکتا ہے جس مىں براہ راست خدا تعالىٰ کا کچھ بھى پتہ نہىں لگتاجو کچھ ہىں قصّے ہىں۔ اور کوئى اگرچہ اس کى راہ مىں اپنى جان بھى فدا کرے اُس کى رضا جوئى مىں فنا ہو جائے اور ہر اىک چىز پر اُس کو اختىار کرلے تب بھى وہ اس پر اپنى شناخت کا دروازہ نہىں کھولتا اور مکالمات اور مخاطبات سے اس کو مشرف نہىں کرتا‘‘۔

(براہىن احمدىہ حصہ پنجم، روحانى خزائن جلد21 صفحہ354)

(9)خدا کى صفت قدرت مىں امکانِ کذب کو داخل کرنا

’’عَلٰى کُلِّ شَىۡءٍ قَدِىۡرٌ کے ىہ معنے تو نہىں کہ اللہ تعالىٰ خودکشى پر بھى قادر ہے۔ اس طرح تو وہ اپنا بىٹا بنانے پر بھى قادر کہا جاسکتاہے؟ پھر عىسائى مذہب کے اختىار کرنے مىں کىا تامل ہے۔ ىاد رکھو اللہ تعالىٰ بے شک قادر ہے مگر وہ اپنے تقدس اور ان صفات کے خلاف نہىں کرتا جو قدىم سے الہامى کتب مىں بىان کى جارہى ہىں۔ گو ىاان کے خلاف اس کى توجہ ہوتى ہى نہىں۔ وہ ذات پاک اپنے مواعىد کے خلاف بھى نہىں کرتا اور نہ اس طرف وہ متوجہ ہوتاہے۔ پس ازلى ابدى اس کى صفت ہر کتاب الہٰى مىں پڑھ کر پھر اس بات کے امکان پر بحث کرنا کہ وہ خودکشى پر قادر ہے ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمۡ ىَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ ىُوۡلَدۡ۔ (االاخلاص 2تا4) پڑھتے ہوئے پھر اس کے بىٹے کے امکان کا قائل ہونا نہاىت لغو حرکت ہے۔ پس اىسى باتوں کے بارے مىں اس بہانے سے گفتگو کرنا کہ ہم نفس امکان پر بحث کرتے ہىں سخت درجہ کى گستاخى ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ205،204)

’’ملائکہ پر اىمان‘‘ کے متعلق مسلمانوں کے عقائد
(10) فرشتوں کو مخلوق کى بجائےقوائے انسانى ماننا

’’فرشتوں کا وجود ماننے کىلئے نہاىت سہل اور قرىب راہ ىہ ہے کہ ہم اپنى عقل کى توجہ اس طرف مبذول کرىں کہ ىہ بات طے شدہ اور فىصل شدہ ہے کہ ہمارے اجسام کى ظاہرى تربىت اور تکمىل کے لئے اور نىز اس کام کىلئے کہ تا ہمارے ظاہرى حواس کے افعال مطلوبہ کَمَا ىَنۡۢبَغِىۡ صادر ہوسکىں خدا تعالىٰ نے ىہ قانون قدرت رکھا ہے کہ عناصر اور شمس و قمر اور تمام ستاروں کو اس خدمت مىں لگا دىا ہے کہ وہ ہمارے اجسام اور قوىٰ کو مدد پہنچا کر ان سے بو جہ احسن ان کے تمام کام صادر کرا دىں اور ہم ان صداقتوں کے ماننے سے کسى طرف بھاگ نہىں سکتے کہ مثلاً ہمارى آنکھ اپنى ذاتى روشنى سے کسى کام کو بھى انجام نہىں دے سکتى جب تک آفتاب کى روشنى اس کے ساتھ شامل نہ ہو اور ہمارے کان محض اپنى قوت شنوائى سے کچھ بھى سن نہىں سکتے جب تک کہ ہوا متکىّف بصوت ان کى ممدو معاون نہ ہو۔ پس کىا اس سے ىہ ثابت نہىں کہ خدا تعالىٰ کے قانون نے ہمارے قوىٰ کى تکمىل اسباب خارجىہ ہى پر رکھى ہے اور ہمارى فطرت اىسى نہىں ہے کہ اسباب خارجىہ کى مدد سے مستغنى ہو اگر غور سے دىکھو تو نہ صرف اىک دو بات مىں بلکہ ہم اپنے تمام حواس تمام قوىٰ تمام طاقتوں کى تکمىل کے لئے خارجى امدادات کے محتاج ہىں پھر جب کہ ىہ قانون اور انتظام خدائے واحد لاشرىک کا جس کے کاموں مىں وحدت اور تناسب ہے ہمارے خارجى قوىٰ اور حواس اور اغراض جسمانى کى نسبت نہاىت شدت اور استحکام اور کمال التزام سے پاىا جاتا ہے تو پھر کىا ىہ بات ضرورى اور لازمى نہىں کہ ہمارى روحانى تکمىل اور روحانى اغراض کىلئے بھى ىہى انتظام ہوتا دونوں انتظام اىک ہى طرز پر واقع ہو کر صانع واحد پر دلالت کرىں اور خود ظاہر ہے کہ جس حکىم مطلق نے ظاہرى انتظام کى ىہ بنا ڈالى ہے اور اسى کو پسند کىا ہے کہ اجرام سماوى اور عناصر وغىرہ اسباب خارجىہ کے اثر سے ہمارے ظاہر اجسام اور قوىٰ اور حواس کى تکمىل ہو اس حکىم قادر نے ہمارى روحانىت کىلئے بھى ىہى انتظام پسند کىا ہوگا کىونکہ وہ واحد لا شرىک ہے اور اس کى حکمتوں اور کاموں مىں وحدت اور تناسب ہے اور دلائل اِنّىہ بھى اسى پر دلالت کرتى ہىں۔ سو وہ اشىاء خارجىہ جو ہمارى روحانىت پر اثر ڈال کر شمس اور قمر اور عناصر کى طرح جو اغراض جسمانى کىلئے ممد ہىں ہمارى اغراض روحانى کو پورا کرتى ہىں انہىں کا نام ہم ملائک رکھتے ہىں۔ پس اس تقرىر سے وجود ملائک کا بوجہ احسن ثابت ہوتا ہے اور گو ہم پر ان کى کُنہ کھل نہ سکے اور کھلنا کچھ ضرور بھى نہىں۔ لىکن اجمالى طور پر قانون قدرت کے توافق اور اتحاد پر نظر کر کے ان کا وجود ہمىں ماننا پڑتا ہے کىونکہ جس حالت مىں ہم نے بطىبِ خاطر ظاہرى قانون کو مان لىا ہے تو پھر کىا وجہ کہ ہم اسى طرز اور طرىق پر باطنى قانون کو تسلىم نہ کرىں۔ بے شک ہمىں باطنى قانون بھى اسى طرح قبول کرنا پڑے گا کہ جس طرح ہم نے ظاہرى قانون کو مان لىا۔‘‘

(آئىنہ کمالاتِ اسلام،روحانى خزائن جلد5صفحہ133تا135 حاشىہ)

(11)ملائکہ کے جسمانى نزول کا عقىدہ

’’فرشتے اپنے اصلى مقامات سے جو ان کے لئے خدائے تعالىٰ کى طرف سے مقرر ہىں اىک ذرہ کے برابر بھى آگے پىچھے نہىں ہوتے جىسا کہ خدائے تعالىٰ ان کى طرف سے قرآن شرىف مىں فرماتا ہے وَ مَا مِنَّاۤ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعۡلُوۡمٌ۔ وَّ اِنَّا لَنَحۡنُ الصَّآفُّوۡنَ۔ سورۃ صافات جزو 23‘‘

(توضىح مرام، روحانى خزائن جلد3 صفحہ67)

(12) ملائکہ کے ہمراہ نزول مسىح کا نظرىہ

’’لکھا ہے کہ مسىح موعود دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہوگا اس کا ىہى مطلب ہے کہ اس کے ظہور کے ساتھ ملائکِ تصرفات شروع ہوجائىں گے اور لوگ رفتہ رفتہ خوابِ غفلت سے جاگتے جائىں گے‘‘

(اىام الصلح، روحانى خزائن جلد14 صفحہ287)

(13)ابلىس کو فرشتہ ماننا

’’اہل عرب اس قسم کے استثناء کرتے ہىں۔ صرف و نحو مىں بھى اگر دىکھا جاوے تو اىسے استثناء بکثرت ہوا کرتے ہىں اور اىسى نظىرىں موجود ہىں جىسے کہا جاوے کہ مىرے پاس سارى قوم آئى مگر گدھا اس سے ىہ سمجھنا کہ سارى کى سارى قوم جنس حمار مىں سے تھى غلط ہے۔ کَانَ مِنَ الْجِنِّ کے بھى ىہى معنے ہوئے کہ وہ فقط ابلىس ہى قوم جن مىں سے تھا ملائکہ مىں سے نہىں تھا۔ ملائک اىک الگ پاک جنس ہے اور شىطان الگ۔ ملائکہ اور ابلىس کا راز اىسا مخفى در مخفى ہے کہ بجز اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا کے انسان کو چارہ نہىں اللہ تعالىٰ نے ابلىس کو اقتدار اور تو فىق نہىں دى مگروسوسہ اندازى مىں وہ محرک ہے جىسے ملائکہ پاک تحرىکات کے محرک ہىں وىسے ہى شىطان ناپاک جذبات کا محرک ہے۔ ملائکہ کى منشاء ہے کہ انسان پاکىزہ ہو، مطہر ہو اور اسکے اخلاق عمدہ ہوں اور اس کے بالمقابل شىطان چاہتا ہے کہ انسان گندہ اور ناپاک ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 312)

(14)جبرائىل کا وحى لانے مىں غلطى کھا جانا

’’شىعہ مذہب اسلام کا سخت مخالف ہے اول شىعہ کا اعتقاد ہے کہ جبرائىل وحى لانے مىں غلطى کھا گىا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ96)

’’خدا نے خود آسمان پر فرشتوں کىلئے جدا قانون بناىا۔ اور زمىن پر انسانوں کىلئے جدا۔ اور خدا نے اپنى آسمانى بادشاہت مىں فرشتوں کو کوئى اختىار نہىں دىا۔ بلکہ اُن کى فطرت مىں ہى اطاعت کا مادہ رکھ دىا ہے وہ مخالفت کر ہى نہىں سکتے اور سہوونسىان اُن پر وارد نہىں ہوسکتا۔‘‘

(کشتى نوح،روحانى خزائن جلد19 صفحہ34)

’’کتابوں پر اىمان‘‘ کے متعلق مسلمانوں کے عقائد
(15)انجىل کو کتابِ شرىعت ماننا

’’انجىل مىں ہرگز کوئى شرىعت نہىں ہے بلکہ تورىت کى شرح ہے اور عىسائى لوگ تورىت کو الگ نہىں کرتے جىسے مسىح تورىت کى شرح بىان کرتے تھے۔اسى طرح ہم بھى قرآن شرىف کى شرح بىان کرتے ہىں۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 666)

’’حضرت عىسىٰؑ کى نسبت جو موسىٰؑ سے کمتر اور اس کى شرىعت کے پىرو تھے اور خود کوئى کامل شرىعت نہ لائے تھے اور ختنہ اور مسائل فقہ اور وراثت اور حرمت خنزىر وغىرہ مىں حضرت موسىٰؑ کى شرىعت کے تابع تھے۔‘‘

(دافع البلاء، روحانى خزائن جلد18 صفحہ 219حاشىہ)

(16)قرآنِ کرىم مىں تقدىم و تأخىر ماننا

’’بعض متعصب اس جگہ لاجواب ہو کر کہتے ہىں کہ آىت کو اِس طرح پڑھنا چاہىئے کہ ىٰعِىۡسٰۤى اِنِّىۡ رَافِعُکَ اِلَىَّ وَ مُتَوَفِّىۡکَ۔ گوىا خدا تعالىٰ سے ىہ غلطى ہو گئى کہ اس نے مُتَوَفِّىۡکَ کو رَافِعُکَ پر مقدّم کر دىا اور ىہ فرماىا کہ ىٰعِىۡسٰۤى اِنِّىۡ مُتَوَفِّىۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَىَّ۔ حالانکہ کہنا ىہ تھا کہ ىٰعِىۡسٰۤى اِنِّىۡ رَافِعُکَ اِلَىَّ وَ مُتَوَفِّىۡکَ۔‘‘

(ضمىمہ براہىن احمدىہ حصہ پنجم، روحانى خزائن جلد 21 صفحہ347)

’’اس آىت مىں جو ترتىب رکھى گئى ہے وہ واقعات کى بناء پر ہے۔ وہ احمق ہے جو کہتا ہے کہ ترتىب واؤ سے نہىں ہوتى۔ اگر اىسا ہى غبى ہے کہ وہ اس کو نہىں سمجھ سکتا تو اس کو واقعات پر نظر کرنى چاہىے اور دىکھے کہ تطہىر رفع کے بعد ہوتى ہےىا پہلے۔‘‘

(ملفوظات جلداول صفحہ285)

(17)ناسخ ومنسوخ کا عقىدہ

’’حق ىہى ہے کہ حقىقى نسخ اور حقىقى زىادہ قرآن پر جائز نہىں کىونکہ اس سے اس کى تکذىب لازم آتى ہے۔‘‘

(الحق مباحثہ لدھىانہ، روحانى خزائن جلد4 صفحہ93)

(18)حدىث کو قرآن پر قاضى قرار دىنا

’’اىک اور غلطى اکثر مسلمانوں کے درمىان ہے کہ وہ حدىث کو قرآن شرىف پر مقدم کرتے ہىں۔ حالانکہ ىہ غلط بات ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ647)

’’فَبِاَىِّ حَدِىۡثٍۭ بَعۡدَ اللّٰہِ وَ اٰىٰتِہٖ ىُؤۡمِنُوۡنَ ىعنى بعد اللہ جلّ شانہ، کى آىات کے کس حدىث پر اىمان لاؤ گے؟ اس آىت مىں صرىح اس بات کى طرف ترغىب ہے کہ ہر اىک قول اور حدىث کتاب اللہ پرعرض کر لىنا چاہئے۔ اگر کتاب اللہ نے اىک امر کى نسبت اىک فىصلہ ناطق اور مؤ ىّد دے دىاہے جو قابل تغىر اور تبدىل نہىں تو پھر اىسى حدىث دائرہ صحت سے خارج ہوگى جو اسکے مخالف ہے۔ لىکن اگر کتاب اللہ فىصلہ مؤ ىّدہ اور ناقابل تبدىل نہىں دىتى تو پھر اگر وہ حدىث قانون رواىت کے رو سے صحىح ثابت ہو تو ماننے کے لائق ہے۔‘‘

(الحق مباحثہ لدھىانہ،روحانى خزائن جلد4صفحہ107۔108)

(19)اصلى قرآن کا امام مہدى کے پاس ہونے کا عقىدہ

’’کہتے ہىں کہ اصل قرآن شرىف نہىں رہا۔جو اَب موجود ہے وہ محّرف مبّدل ہو گىا ہے اور اصل قرآن مہدى کسى غار مىں لے کر چھپا ہوا ہے اب تک نہىں نکلتا۔ دُنىا گمراہ ہو رہى ہے اور اسلام پر حملے ہو رہے ہىں۔مخالف ہنسى کرتے ہىں اور خطرناک توہىن کر رہے ہىں اور مسلمانوں کے ہاتھ مىں بقول اُن کے قرآنِ شرىف بھى نہىں ہے اور مہدى ہے کہ وہ غار سے ہى نہىں نکلتا۔کوئى سمجھدار آدمى خدا تعالىٰ سے ڈر کر ہمىں بتائے کہ کىا ىہ بھى دىن ہو سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوئم صفحہ 529)

’’رسولوں پر اىمان‘‘ کے متعلق مسلمانوں کے عقائد
(20) صرف حضرت عىسىٰ علىہ السلام اور ان کى والدہ کا مسِ شىطان سے پاک ہونا

’’چونکہ آنحضرت ﷺ اور آپ کى والدہ ماجدہ کے متعلق کبھى کسى کافر کو وہم وگمان بھى نہ ہواتھا بلکہ سب کے نزدىک آپ اپنى ولادت کى رو سے طىب اور طاہر تھے اور آپ کى والدہ عفىفہ اور پاک دامن تھىں اس لئے آپ کى نسبت ىا آپ کى والدہ ماجدہ کى نسبت اىسے الفاظ بىان کرنے ضرورى نہ تھے کہ وہ مسِ شىطان سے پاک ہىں مگر حضرت عىسىٰ اور ان کى والدہ کى نسبت ىہودىوں کے بہتان کى وجہ سے اىسے برى کرنے والے الفاظ کى ضرورت پڑى۔ ىہى حال دىگر انبىاء علىھم السلام کا ہے۔ ان کے متعلق بھى نہ کبھى اىسا اعتراض ہوا اور نہ ان کے دفعىہ کى ضرورت کبھى محسوس ہوئى افسوس ہے کہ ان علماء کو ىہ خبر بھى نہىں کہ ىہ باتىں کىوں قرآن وحدىث مىں ذکر کى گئى ہىں۔ وہ نہىں جانتے کہ اىسى باتىں کسى بہتان کے دفعہ کرنے کے لئے آتى ہىں۔۔۔اگر قرآنِ شرىف مىں خدا کے بندوں کا مسِ شىطان سے پاک ہونے کا ذکر بھى نہ ہوتا تب بھى رسول کرىم ﷺ کى محبت اور عظمت اور آپ پر اىمان کا ىہ تقاضاہوناچاہئے تھا کہ اىسا نا پاک عقىدہ آپ کے متعلق نہ رکھا جاتا۔‘‘

 (ملفوظات جلد پنجم صفحہ44۔343)

(21)صرف حضرت عىسىٰ علىہ السلام کے ساتھ روح القدس کى دائمى رفاقت

’’حال کے مولوىوں کا ىہ عقىدہ ہے کہ حضرت عىسىٰ کے ساتھ تىتىس برس تک برابر دن رات جبرائىل رہا کبھى اس عرصہ مىں اُن سے جدا نہىں ہوا اور کہتے ہىں کہ ىہ اعلىٰ درجہ کى فضىلت حضرت عىسىٰ کو دى گئى ہے اور کوئى نبى اس مىں شرىک نہىں ىہاں تک کہ ہمارے نبى صلعم بھى اس فضىلت سے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ محروم ہىں۔‘‘

(آئىنہ کمالات اسلام، روحانى خزائن جلد5 صفحہ105 حاشىہ در حاشىہ)

’’آىت ىعنى اِنۡ کُلُّ نَفۡسٍ لَّمَّا عَلَىۡہَا حَافِظٌ جس کے ىہ معنىٰ ہىں کہ ہر اىک نفس پر اىک فرشتہ نگہبان ہے ىہ صاف دلالت کر رہى ہے کہ جىسا کہ انسان کے ظاہر وجود کىلئے فرشتہ مقرر ہے جو اُس سے جدا نہىں ہوتا وىسا ہى اس کے باطن کى حفاظت کىلئے بھى مقرر ہے جو باطن کو شىطان سے روکتا ہے اور گمراہى کى ظلمت سے بچاتا ہے اور وہ رُوح القدس ہے جو خدا تعالىٰ کے خاص بندوں پر شىطان کا تسلّط ہونے نہىں دىتا اور اسى کى طرف ىہ آىت بھى اشارہ کرتى ہے کہ اِنَّ عِبَادِىۡ لَىۡسَ لَکَ عَلَىۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ اب دىکھو کہ ىہ آىت کىسى صرىح طورپر بتلا رہى ہے کہ خدا تعالىٰ کا فرشتہ انسان کى حفاظت کىلئے ہمىشہ اور ہر دم اس کے ساتھ رہتا ہے اور اىک دم بھى اس سے جدا نہىں ہوتا ۔۔۔۔ پس اس نص قطعى اور ىقىنى سے ثابت ہے کہ رُوح القدس ىا ىوں کہو کہ اندرونى نگہبانى کا فرشتہ ہمىشہ نىک انسان کے ساتھ اىسا ہى رہتا ہے جىسا کہ اس کى بىرونى حفاظت کىلئے رہتا ہے۔‘‘

(آئىنہ کمالات اسلام، روحانى خزائن جلد5 صفحہ77۔78)

 (22)مسىح ناصرى کا دوبارہ نزول آنحضرتﷺ کى غىرت کے خلاف

’’آنحضرت ﷺ کى غىرت کب تقاضہ کرتى ہے کہ آپ کى کرسى پر دوسرا بىٹھے اور اللہ تعالىٰ آپ کى تعرىف کرے اور آپ کا درجہ بلند کر کے آپ کو ہر طرح کے سکھ اور آرام کا مالک بنا دے۔ اور آخر مىں آکر ىہ دکھ دىوے کہ آپ کى کرسى پر غىر کو بىٹھا دىوے ىہ کبھى نہىں ہو سکتا‘‘۔

 (ملفوظات جلدسوئم صفحہ282)

(23)حضرت عىسىٰؑ کا اصالتا ًنزول آنحضرتﷺ کے مقامِ خاتم النبىىن کے منافى ہونا

’’قرآن شرىف صاف فرماتا ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم خاتم الانبىاء ہىں مگر ہمارے مخالف حضرت عىسىٰ علىہ السلام کو خاتم الانبىاء ٹھہراتے ہىں اور کہتے ہىں کہ جو صحىح مسلم وغىرہ مىں آنے والے مسىح کو نبى اللہ کے نام سے ىاد کىا ہے وہاں حقىقى نبوت مراد ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جب وہ اپنى نبوت کے ساتھ دنىا مىں آئے تو ہمارے نبى صلى اللہ علىہ وسلم کىونکر خاتم الانبىاء ٹھہر سکتے ہىں؟ نبى ہونےکى حالت مىں حضرت عىسىٰ علىہ السلام نبوت کے لوازم سے کىونکر محروم رہ سکتے ہىں؟‘‘

(کتاب البرىہ، روحانى خزائن جلد13 صفحہ224۔225 حاشىہ)

(24)حىاتِ مسىح کا عقىدہ آنحضرتﷺ کى غىرت کے خلاف ہونا

’’توہىن کے کئى پہلو ہوتے ہىں۔ حضرت عىسىٰ کى اتنى تعرىف کى جاتى ہے کہ گوىا ان پر جب مصىبت آئى تو خداتعالىٰ کو زمىن پر انکے بچاؤ کى کوئى راہ نظر نہ آئى اور ان کو آسمان پر اور پھر دوسرے آسمان پر جا چھپاىا۔ بالمقابل آنحضرت ﷺ پر جب سخت مصائب اور شدائد آئے تو اللہ تعالىٰ نے نَعُوْذُبِاللّٰہِ بقول مولوىوں کے آپ کو بالکل بے مدد اور کسمپرس چھوڑ دىا اورآپ کو اىک غار مىں جو آسمان کے مقابل مىں جس طرح وہ بلند ىہ اسفل مىں واقع تھى، پناہ دى۔ غار کى تعرىف بھى کىا کہ بچھوؤں، سانپوں اور ہر قسم کے موذى حشرات الارض کا گھر تھا۔ بھلا اب سوچو ىہ توہىن نہىں تو کىا ہے؟۔‘‘

(ملفوظات جلدسوئم صفحہ210)

(25)جسمانى معراج کا عقىدہ آنحضرتﷺ کى شان کے منافى ہے

’’آنحضرت ﷺ کو معراج کى رات مىں کسى نے نہ چڑھتا دىکھا اور نہ اترتا تو پھر کىا ان لوگوں کا فرضى مسىح آنحضرت ﷺ سے افضل تھا؟۔‘‘

(اربعىن نمبر2، روحانى خزائن جلد17 صفحہ370 حاشىہ)

’’آخرى زمانہ مىں بڑے کرو فر اور جلالى فرشتوں کے ساتھ آسمان پر سے اُترے گا۔ اور گو ہمارے نبى صلى اللہ علىہ وسلم کا معراج کى رات مىں نہ چڑھنا دىکھا گىا اور نہ اترنا مگر حضرت مسىح کا اُترنا دىکھا جائے گا۔ تمام مولوىوں کے روبرو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُترے گا ۔۔۔۔۔ اب بتلاؤ کہ اس قدر خصوصىتىں حضرت عىسىٰ علىہ السلام مىں جمع کرکے کىا اِن مولوىوں نے حضرت عىسىٰ ؑ کو خدائى کے مرتبہ تک نہىں پہنچاىا۔ اور کىا کسى حد تک پادرىوں کے دوش بدوش نہىں چلے؟۔‘‘

(تحفہ گولڑوىہ،روحانى خزائن جلد17صفحہ206۔205 حاشىہ)

(26)ہر نبى کے لئے کتاب لانا شرط ہونے کا عقىدہ

’’بنى اسرائىل مىں کئى اىسے نبى ہوئے ہىں جن پر کوئى کتاب نازل نہىں ہوئى۔ صرف خدا کى طرف سے پىشگوئىاں کرتے تھے جن سے موسوى دىن کى شوکت و صداقت کا اظہار ہوتا۔ پس وہ نبى کہلائے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ447)

’’نبى کے معنے صرف ىہ ہىں کہ خدا سے بذرىعہ وحى خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہىہ سے مشرف ہو۔ شرىعت کا لانا اس کے لئے ضرورى نہىں۔ اور نہ ىہ ضرورى ہے کہ صاحب شرىعت رسول کا متبع نہ ہو۔‘‘

 (براہىن احمدىہ حصہ پنجم، روحانى خزائن جلد21 صفحہ306)

(27)نبى اور رسول مىں فرق کا ماننا

’’نبى کے معنىٰ لغت کى رو سے ىہ ہىں کہ خدا کى طرف سے اطلاع پا کر غىب کى خبر دىنے والا۔ پس جہاں ىہ معنے صادق آئىں گے نبى کا لفظ بھى صادق آئے گا اور نبى کا رسول ہونا شرط ہے کىونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غىب مصفّٰى کى خبر اس کو مل نہىں سکتى اور ىہ آىت روکتى ہے لَا ىُظۡہِرُ عَلٰى غَىۡبِہٖۤ اَحَدًا۔ اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰى مِنۡ رَّسُوۡلٍ۔‘‘

(اىک غلطى کا ازالہ، روحانى خزائن جلد18 صفحہ208)

 (28) عصمت ِ انبىاء علىھم السلام
حضرت آدم علىہ السلام

’’عَصٰٓى اٰدَمُ کے معنے ہىں کہ صورت عصىان کى ہے۔ مثلاً آقا اىک غلام کو کہے فلاں رستہ جا کر فلاں کام کر آؤ تو وہ اجتہاد کرے اور دوسرے راہ سے جاوے تو عصىان تو ضرور ہے لىکن وہ نافرمان نہ ہوگا صرف اجتہادى غلطى ہو گى جس پر مؤاخذہ نہىں۔‘‘

(البدر 14نومبر 1902ء جلد1 نمبر3 بحوالہ تفسىر حضرت مسىح موعودؑ صفحہ228۔229)

’’وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا ىعنى آدم نے ىہ کام ارادۃً نہىں کىا اب گناہ تو ارادہ پر منحصر ہے۔ اگر اىک شخص زہر پى لے اور اس کو علم ہو کہ ىہ زہر ہے اور اس کا نتىجہ موت ہو گا تو اىسى صورت مىں وہ اىک گناہ کا مرتکب ہوتا ہے لىکن اگر وہ اس کو بغىر علم کے پى لے تو اگر چہ اس کو نتىجہ بھگتنا پڑے گا مگر ىہ نہىں کہا جاسکتا کہ اس نے گناہ کىا۔ ىہى حال حضرت آدم ؑ کا ہے۔‘‘

(رىوىو آف رىلىجنز جلد2 صفحہ250 بحوالہ تفسىر حضرت مسىح موعودؑ جلد3 صفحہ227۔228)

حضرت ىوسف علىہ السلام

’’(ىوسف نے) باراں برس کا جىل خانہ اپنے لئے منظور کىا مگر بدکارى کى درخواست کو نہ مانا بلکہ اىک لحظہ کے لئے بھى دل پلىد نہ ہوا۔‘‘

(ترىاق القلوب، روحانى خزائن جلد15صفحہ503 حاشىہ)

حضرت موسىٰ علىہ السلام

’’وہ گناہ نہىں تھا ان کا اىک اسرائىلى بھائى نىچے دبا ہوا تھا طبعى جوش سے انہوں نے اىک مکا مارا وہ مر گىا جىسے اپنى جان بچانے کے لئے اگر کوئى خون بھى کردے تو وہ جرم نہىں ہوتا۔ موسىٰ کا قول جو قرآن شرىف مىں ہے ھٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّىْطَانِ (القصص14) ىعنى قبطى نے اس اسرئىلى کو عمل شىطان (فاسد ارادہ) سے دباىا ہوا تھا۔‘‘

(ملفوظات جلددوئم صفحہ444)

حضرت سلىمان علىہ السلام

’’قرآن شرىف مىں اىک شاہزادى بِلْقِىس نام کا اىک عجىب قصہ لکھا ہے جو سورج کى پوجا کرتى تھى شاىد وىد کى پىرو تھى۔ حضرت سلىمان نے اُس کو بلاىا اور اُس کے آنے سے پہلے اىسامحل طىّار کىا جس کا فرش شىشہ کا تھا اور شىشہ کے نىچے پانى بہ رہا تھا جب بلقىس نے حضرت سلىمان کے پاس جانے کا قصد کىا تو اُس نے اُس شىشہ کو پانى سمجھا اور اپنا پاجامہ پنڈلى سے اُوپر اٹھا لىا۔ حضرت سلىمان نے کہا کہ دھوکا مت کھا ىہ پانى نہىں ہے بلکہ ىہ شىشہ ہے پانى اس کے نىچے ہے۔ تب وہ عقلمند عورت سمجھ گئى کہ اس پىراىہ مىں مىرے مذہب کى غلطى انہوں نے ظاہر کى ہے اور ىہ ظاہر کىا ہے کہ سورج اور چاند اوردوسرے روشن اجرام شىشہ کى مانند ہىں اور اىک پوشىدہ طاقت ہے جو ان کے پردہ کے نىچے کام کر رہى ہے اور وہى خدا ہے۔ جىسا کہ قرآن شرىف مىں اس جگہ فرماىا صَرۡحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنۡ قَوَارِىۡرَ سو دُنىا کو خدا نے شىش محل سے مثال دى ہے جاہل ان شىشوں کى پرستش کرتے ہىں اور دانا اس پوشىدہ طاقت کے پرستار ہىں مگر وىد نے اس شىش محل کى طرف کچھ اشارہ نہىں کىا اور ان ظاہرى شىشوں کو پرمىشور سمجھ لىا اور پوشىدہ طاقت سے بے خبر رہا۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانى خزائن جلد23 صفحہ390)

’’آخرت پر اىمان‘‘ کے متعلق مسلمانوں کے عقائد
(29) نعماءِ جنت

’’خدا فرماتا ہے فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِىَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡىُنٍ۔ ىعنى کوئى نفس نىکى کرنے والا نہىں جانتا کہ وہ کىا کىا نعمتىں ہىں جو اس کے لئے مخفى ہىں۔ سو خدا نے ان تمام نعمتوں کو مخفى قرار دىا جن کا دنىا کى نعمتوں مىں نمونہ نہىں۔ ىہ تو ظاہر ہے کہ دنىا کى نعمتىں ہم پر مخفى نہىں ہىں اور دودھ اور انار اور انگور وغىرہ کو ہم جانتے ہىں اور ہمىشہ ىہ چىزىں کھاتے ہىں تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چىزىں اور ہىں اور ان کو ان چىزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے۔ پس جس نے بہشت کو دنىا کى چىزوں کا مجموعہ سمجھا۔ اس نے قرآن شرىف کا اىک حرف بھى نہىں سمجھا۔ اس آىت کى شرح مىں جو ابھى مىں نے ذکر کى ہے ہمارے سىد و مولىٰ نبى صلى اللہ علىہ و سلم فرماتے ہىں کہ بہشت اور اسکى نعمتىں وہ چىزىں ہىں جو نہ کبھى کسى آنکھ نے دىکھىں اور نہ کسى کان نے سنىں اور نہ دلوں مىں کبھى گذرىں۔ حالانکہ ہم دنىا کى نعمتوں کو آنکھوں سے بھى دىکھتے ہىں اور کانوں سے بھى سنتے ہىں اور دل مىں بھى وہ نعمتىں گزرتى ہىں۔ پس جبکہ خدا اور رسول اس کا ان چىزوں کو اىک نرالى چىزىں بتلاتا ہے تو ہم قرآن سے دور جا پڑتے ہىں۔ اگر ىہ گمان کرىں کہ بہشت مىں بھى دنىا کا ہى دودھ ہوگا جو گائىوں اور بھىنسوں سے دوہا جاتا ہے۔ گوىا دودھ دىنے والے جانوروں کے وہاں رىوڑ کے رىوڑ موجود ہوں گے۔ اور درختوں پر شہد کى مکھىوں نے بہت سے چھتے لگائے ہوئے ہونگے اور فرشتے تلاش کرکے وہ شہد نکالىں گے اور نہروں مىں ڈالىں گے کىا اىسے خىالات اس تعلىم سے کچھ مناسبت رکھتے ہىں جس مىں ىہ آىتىں موجود ہىں کہ دنىا نے ان چىزوں کو کبھى نہىں دىکھا اور وہ چىزىں روح کو روشن کرتى ہىں اور خدا کى معرفت بڑھاتى ہىں اور روحانى غذائىں ہىں۔ گو ان غذاؤں کا تمام نقشہ جسمانى رنگ پر ظاہر کىا گىا ہے مگر ساتھ ساتھ بتاىا گىا ہے کہ انکا سرچشمہ روح اور راستى ہے۔‘‘

(اسلامى اصول کى فلاسفى، روحانى خزائن جلد10 صفحہ397-398)

(30)عذابِ جہنم غىر منقطع نہىں ہے

’’ہمارا ىہ مذہب ہرگز نہىں ہے کہ گناہ گاروں کو اىسى سزا ابدى ملے گى کہ اس سے پھر کبھى نجات ہى نہ ہوگى بلکہ ہمارا ىہ مذہب ہے کہ آخر اللہ تعالىٰ کا فضل اور رحم گنہ گاروں کو بچا لے گا اور اسى لئے قرآن شرىف مىں جہاں عذاب کا ذکر کىا ہے وہاں فَعَّالٌ لِّمَا ىُرِىۡدُ فرماىا ہے۔‘‘

 (الحکم جلد7 نمبر31، مؤرخہ 24 اگست 1903ء صفحہ2)

’’ىہ بات فى نفسہ غىر معقول ہے کہ انسان کو اىسى ابدى سزا دى جائے کہ جىسا خدا ہمىشہ کىلئے ہے اىسا ہى خدا کى ابدىت کے موافق ہمىشہ دوزخى دوزخ مىں رہىں۔ آخر ان کے قصوروں مىں خدا کا بھى دخل ہے کىونکہ اسى نے اىسى قوتىں پىدا کىں جو کمزور تھىں۔ پس دوزخىوں کا حق ہے جو اس کمزورى سے فائدہ اٹھاوىں جو ان کى فطرت کو خداکى طرف سے ملى ہے۔‘‘

(حاشىہ چشمہ مسىحى، روحانى خزائن جلد20 صفحہ368-369)

’’تقدىر پر اىمان‘‘ کے متعلق مسلمانوں کے عقائد
(31)مسئلہ تقدىر

’’تقدىر کے معنىٰ صرف اندازہ کرنا ہے جىسے کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَ خَلَقَ کُلَّ شَىۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِىۡرًا ىعنى ہر اىک چىز کو پىدا کىا تو پھر اس کے لئے اىک مقرر اندازہ ٹھہرا دىا اِس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے اختىارات سے روکا گىا ہے بلکہ وہ اختىارات بھى اسى اندازہ مىں آگئے جب خداتعالىٰ نے انسانى فطرت اور انسانى خوئے کا اندازہ کىا تو اس کا نام تقدىر رکھا۔ اور اسى مىں ىہ مقرر کىا کہ فلاں حد تک انسان اپنے اختىار ات برت سکتا ہے ىہ بہت بڑى غلط فہمى ہے کہ تقدىرکے لفظ کو اىسے طورپر سمجھا جائے کہ گوىا انسان اپنے خدا داد قوىٰ سے محروم رہنے کے لئے مجبور کىا جاتا ہے۔ اِس جگہ تو اىک گھڑى کى مثال ٹھىک آتى ہے کہ گھڑى کا بنانے والا جس حد تک اس کا دَور مقرر کرتا ہے اس حد سے وہ زىادہ چل نہىں سکتى۔ ىہى انسان کى مثال ہے کہ جو قوىٰ اس کو دى گئى ہىں اُن سے زىادہ وہ کچھ کر نہىں سکتا اور جو عمر دى گئى ہے اس سے زىادہ جى نہىں سکتا۔‘‘

(جنگ مقدس، روحانى خزائن جلد 6 صفحہ232)

نِلْنَا ثُرَىَّا السَّمَآءَ وَ سَمْکَہٗ
لِنُرَدَّ اِىْمَاناً اِلىَ الْغَبْرَآءِ

ہم نے آسمان کے ثرىا اور اس کى بلند ى کو پا لىا ہے تا کہ ہم اىمان کو زمىن کى طرف لوٹائىں۔

(انجام آتھم، روحانى خزائن جلد11 صفحہ280)

(ایچ۔ایس۔کاہلوں)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ سوئٹزرلینڈ کے 39ویں جلسہ سالانہ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اکتوبر 2021