• 3 مئی, 2024

سود اور انٹرسٹ میں فرق

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آن لائن ملاقات میں ایک خادم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
‘‘پچھلی دفعہ ایک سوال ہوا تھا کہ جو بینک سے loan لیتے ہیں یا بینکنگ سسٹم ہے یا brokerage ہے یہ جائز ہے یا نہیں۔ اس کا جواب تو میں نے دیا تھا۔ لیکن نیوز میں اس کے آخری حصے کا جواب نہیں آیا تھا۔ اس لیے کہ مجھے خود بھی کچھ اس پر تسلی نہیں تھی۔ میں نے کہا مزید تحقیق ہو جائے اور بعض لوگوں نے لکھا بھی کہ اگر یہ brokerage منع ہے تو پھر ہم اپنا بزنس ختم کر دیتے ہیں۔ انہوں نے اچھا اخلاص دکھایا۔ تو بہر حال اس کے بارے میں مَیں بتا دوں کہ یہ جو کمیشن لینے والی بات ہے اس میں کیونکہ آپ ڈائریکٹ interest نہیں لے رہے۔ اس لیے یہ جائز ہے کمیشن لے رہے ہیں۔ یہ لینا جائز ہے اور حضرت مسیح موعودؑ نے بھی جائز فرمایا ہے۔ مثلاَ جو منی ایکسچینج والے ہیں، وہ بھی جو زائد کمیشن لیتے ہیں، حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا وہ بھی جائز ہے یہ سود نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی بھی ایسا کاروبار جس میں directly آپ involve نہیں ہیں سود میں، وہ سود نہیں ہے۔ باقی میں نے پچھلی دفعہ بھی بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ یہ سارا نظام بالکل اپ سیٹ ہو چکا ہے،زیر و زبر ہو چکا ہے،نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اگر اس طرح باریکی میں جا کر دیکھنے لگیں تو پھر بینک کی نوکری بھی جائز نہیں ہو سکتی۔ پھر آج کل جوساری انڈسٹری ہے سارے کاروبار ہیں۔ وہ جو سارے اکنامک سسٹم پر چل رہے ہیں۔ وہ سارا ہی base interest ہے۔ تو پھر آپ کپڑے بھی نہیں پہن سکتے، پرانے لوگوں کی طرح پتے باندھ کے ہی پھرنا پڑے گا۔ اس لیے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے سارا نظام ہی آج کل کیونکہ اپ سیٹ ہو چکا ہے اور ویسے بھی directly involved نہیں ہے،جائز ہے۔ میں نے پچھلی دفعہ بھی مثال دی تھی کہ اگر کوئی اپنی چیز کی زیادہ قیمت مقرر کرتا ہے کہ بعد میں پیسے دینے ہیں تو یہ بھی جائز ہے۔ بلکہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ سے پوچھا گیا کہ جو شراب وغیرہ کے بزنس میں نوکری کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ لائسنس ہے یا نہیں۔ فرمایا تم نوکری کر رہے ہوتم براہ راست شراب نہیں بیچ رہے۔ گورنمنٹ کی نوکری ہے،صرف یہ چیک کر رہے ہو کہ اس کے مطابق وہ بیچ رہا ہے یا نہیں۔ تو اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں۔ بہرحال حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اگر اس سے بھی بہتر نوکری مل جائےجس میں کسی طرح بھی involvement نہ ہو تو ٹھیک ہے۔ بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے کسی نے سوال کیا کہ میں ایک سردار صاحب کے ہاں ملازمت کرتا ہوں۔ جو سود کا کاروبار کرتاہے۔ سود پر پیسے دیتاہے اور اس کا حساب میں رکھتا ہوں۔ تو کیا یہ جائز ہے؟آپ نے فرمایا ٹھیک ہے تم نوکری کر رہے ہو تمہارے لیے جائز ہے۔ اس لیے brokerage والا جو commission agent ہے اس کے لیے یہ جائز ہے۔ اگر آپ کسی سے سود وصول کر رہے ہو تو وہ ناجائز ہے اور یہ صرف آسٹریلیا میں نہیں دنیا میں ہرجگہ ہو رہا ہے۔ تو آپ کمیشن ایجنٹ والا کام کر سکتے ہیں کیونکہ آپ اپنی سروس کی محنت لے رہے ہیں۔ ہاں بعض دفعہ یہ ہوتا ہےکہ بعض لوگ مجبور ہوتے ہیں ان کو loan چاہیے ہوتا ہے اور جو loan دینے والی ایجنسیاں ہیں، lending agencies وہ (lend) نہیں کرتیں، تو جو بیچ میں broker ہوتا ہے وہ کام کروا دیتا ہے۔ وہ دیکھ لیتا ہے کہ بندہ مجبور ہے تو اگر اس کی فیس 100 روپیہ ہے،100 پاؤنڈ ہے یا 100 ڈالر ہے۔ تو 500 یا1000 ڈالر لیتا ہےتو وہ فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ ہاں مدد کے لیے جو فیس آپ نے مقرر کی ہوئی ہےوہی رکھیں۔ یہ نہیں ہے کہ کوئی مجبور آدمی دیکھا تو اس کو ایکسٹرا چارج کرنا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ broker والا کام جائز ہے اور جس نے سوال کیا تھا اس کو بھی بتا دیں۔

(روزنامہ الفضل آن لائن 30؍ستمبر 2022ء)

پچھلا پڑھیں

سیمینار تحریک جدید لائبیریا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اکتوبر 2022