• 5 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ) (قسط 50)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے(مسیح موعودؑ)
قسط 50

دعا اس وقت تک اثر نہیں کرسکتی جب تک انسان پورا اور کامل پرہیز گار نہ ہو

جتنے بھی بزرگ اور اولیاء گزرے ہیں وہ سب مجاہدات اور ریاضات میں اپنے اوقات گزارتے تھے۔ دیکھو باوا فرید صاحب اور جتنے بھی اولیاء اور ابدال گزرے ہیں یہ سب گروہ ایک وقت تک خاص ریاضات اور مجاہدات شاقہ کرنے کی وجہ سے ان مدارج پر پہنچے ہیں اور ان لوگوں نے بڑی سختی سے اور پورےطور سے اتباع سنت کی ہے جب جا کر ان کی مشیخت، ننگ و ناموس اور خواہ نخواہ کی کبریائی نکلی اور وہ گویا کہ سوئی کے ناکے میں سے ہو کر نکلے ہیں جس سے ہمیشہ ایسے لوگ نکلا کرتے ہیں جب جا کر کہیں ان لوگوں کو یہ حالتیں نصیب ہوئی ہیں۔ دعائیں بھی انہی لوگوں کی قبول ہوتی ہیں۔ ورنہ دیکھو جس طرح سے ایک حکیم کی دوائی بجز پرہیز کرنے کے مؤثر نہیں ہوتی اسی طرح سے دعا کی قبولیت کا بھی یہی راز ہے۔ دعا کچھ اثر نہیں کرسکتی جب تک انسان پورا اور کامل پرہیز گار نہ ہو۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ208 ایڈیشن 1984ء)

حقیقی راحت اور تسلی اہر وقت دل ہی دل میں دعائیں کرنے والوں کو ملتی ہے

علم طب یونانیوں سے مسلمانوں کے ہاتھ آیا مگر مسلمان چونکہ موحد اور خدا پرست قوم تھی انہوں نے اسی واسطے اپنے نسخوں پر ھوالشافی لکھنا شروع کر دیا۔ ہم نے اطباء کے حالات پڑھے ہیں۔ علاج الامراض میں مشکل امر تشخیص کو لکھا ہے۔ پس جو شخص تشخیص مرض میں ہی غلطی کرے گا وہ علاج میں بھی غلطی کرے گا کیونکہ بعض امراض ایسے اَدَق اور باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ پس مسلمان اطباء نے ایسی دقتوں کے واسطے لکھا ہے کہ دعاؤں سے کام لے۔ مریض سے سچی ہمدردی اور اخلاص کی وجہ سے اگر انسان پوری توجہ اور درد دل سے دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پرمرض کی اصلیت کھول دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی غیب مخفی نہیں۔

پس یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ سے الگ ہو کر صرف اپنے علم اور تجربہ کی بناءپر جتنا بڑا دعویٰ کرے گا اتنی ہی بڑی شکست کھائے گا۔ مسلمانوں کو توحید کا فخر ہے۔ توحید سے مراد صرف زبانی توحید کااقرار نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ عملی رنگ میں حقیقتاً اپنے کاروبار میں اس امر کا ثبوت دے دو کہ واقعی تم موحد ہو اور توحید ہی تمہارا شیوہ ہے۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہر ایک امر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے۔ اس واسطے مسلمان خوشی کے وقت اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور غمی اور ماتم کے وقت اِنَّالِلّٰہ واِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن کہہ کر ثابت کرتا ہے کہ واقع میں اس کا ہر کام میں مرجع صرف خدا ہی ہے۔ جولوگ خدا تعالیٰ سے الگ ہو کر زندگی کا کوئی حظ اٹھانا چاہتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ ان کی زندگی بہت ہی تلخ ہے کیونکہ حقیقی تسلی اور اطمینان بجز خدا میں محو ہونے اور خدا کو ہی ہر کام کا مرجع ہونے کے حاصل ہو سکتا ہی نہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی تو بہائم کی زندگی ہوتی ہے اور وہ تسلی یافتہ نہیں ہو سکتے۔ حقیقی راحت اور تسلی انہیں لوگوں کو دی جاتی ہے جو خدا سے الگ نہیں ہوتے اور خدا تعالیٰ سے ہر وقت دل ہی د ل میں دعائیں کرتے رہتے ہیں۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ345-346 ایڈیشن 1984ء)

بڑے بڑے عظیم الشان کاموں کی کنجی
صرف دعا ہی ہے

میں تو یہاں تک بھی کہتا ہوں کہ اس بات سے مت رکو کہ نماز میں اپنی زبان میں دعائیں کرو۔ بیشک اردو میں، پنجابی میں، انگریزی میں جو جس کی زبان ہو اُسی میں دعا کر لے۔ مگر ہاں یہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو اِسی طرح پڑھو۔ اس میں اپنی طرف سے کچھ دخل مت دو۔ اس کو اِسی طرح پڑھو اور معنی سمجھنے کی کوشش کرو۔ اِسی طرح ماثورہ دعاؤں کا بھی اسی زبان میں التزام رکھو۔ قرآن اور ماثورہ دعاؤں کے بعد جو چاہو خدا تعالیٰ سے مانگو اور جس زبان میں چاہو مانگو۔ وہ سب زبانیں جانتا ہے۔ سنتا ہے قبول کرتا ہے۔

اگر تم اپنی نماز کو باحلاوت اور پُرذوق بنانا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ اپنی زبان میں کچھ نہ کچھ دعائیں کرو۔ مگر اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ نمازیں تو ٹکریں مار کر پوری کر لی جاتی ہیں۔ پھر لگتے ہیں دعائیں کرنے۔ نماز تو ایک ناحق کا ٹیکس ہوتا ہے۔ اگر کچھ اخلاص ہوتا ہے تو نماز کے بعدمیں ہوتا ہے۔ یہ نہیں سمجھتے کہ نماز خود دعا کا نام ہے جو بڑے عجز، انکسار، خلوص اور اضطراب سے مانگی جاتی ہے۔ بڑے بڑے عظیم الشان کاموں کی کنجی صرف دعا ہی ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھولنے کا پہلا مرحلہ دعا ہی ہے۔

نماز کو رسم اور عادت کے رنگ میں پڑھنا مفید نہیں بلکہ ایسے نمازیوں پر تو خود خدا تعالیٰ نے لعنت اور ویل بھیجا ہے چہ جائیکہ ان کی نماز کو قبولیت کا شرف حاصل ہو۔ فَوَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ (الماعون: 5) خود خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ یہ ان نمازیوں کے حق میں ہے جو نماز کی حقیقت سے اور اس کے مطالب سے بے خبر ہیں۔ صحابہؓ تو خود عربی زبان رکھتے تھے اور اس کی حقیقت کو خوب سمجھتے تھے مگر ہمارے واسطے یہ ضروری ہے کہ اس کے معانی سمجھیں اور اپنی نماز میں اس طرح حلاوت پیدا کریں۔ مگر ان لوگوں نے تو ایسا سمجھ لیا ہے جیسے کہ دوسرا نبی آ گیا ہے اور اس نے گویا نماز کو منسوخ ہی کر دیا ہے۔ دیکھو خدا تعالیٰ کا اس میں فائدہ نہیں بلکہ خود انسان ہی کا اس میں بھلا ہے کہ اس کو خدا تعالیٰ کی حضوری کا موقع دیا جاتا ہے اور عرض معروض کرنے کی عزت عطا کی جاتی ہے جس سے یہ بہت سی مشکلات سے نجات پا سکتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ وہ لوگ کیونکر زندگی بسر کرتے ہیں جن کا دن بھی گزر جاتا ہے اور رات بھی گزر جاتی ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ ان کا کوئی خدا بھی ہے۔ یاد رکھو کہ ایسا انسان آج بھی ہلاک ہوا اور کل بھی۔

میں ایک ضروری نصیحت کرتا ہوں کاش لوگوں کے دل میں پڑ جاوے۔ دیکھو عمر گزری جارہی ہے غفلت کو چھوڑ دو اور تضرع اختیار کرو۔ اکیلے ہو ہو کر خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ خدا ایمان کو سلامت رکھے اور تم پر وہ راضی اور خوش ہو جائے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ411-413 ایڈیشن 1984ء)

احسان کے درجہ سے بھی آگے بڑھو

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احسان کے درجہ سے بھی آگے بڑھو اور ایتاء ذی القربےٰ کے مرتبہ تک ترقی کرو اور خلق اللہ سے بغیر کسی اجر یا نفع و خدمت کے خیال کے طبعی اور فطری جوش سے نیکی کرو۔ تمہاری خلق اللہ سے ایسی نیکی ہو کہ اس میں تصنع اور بناوٹ ہرگز نہ ہو۔ ایک دوسرے موقع پر یوں فرمایا ہے لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُکُوۡرًا (الدھر: 2) یعنی خدا رسیدہ اور اعلیٰ ترقیات پر پہنچے ہوئے انسان کا یہ قاعدہ ہے کہ اس کی نیکی خالصًا للہ ہوتی ہے اور اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ اس کے واسطےدعا کی جاوے یا اس کا شکریہ ادا کیا جاوے نیکی محض اس جوش کے تقاضا سے کرتا ہے جو ہمدردی بنی نوع انسان کے واسطے اس کے دل میں رکھا گیا ہے۔ ایسی پاک تعلیم نہ ہم نے توریت میں دیکھی ہے اور نہ انجیل میں۔ ورق ورق کرکے ہم نے پڑھا ہے مگر ایسی پاک اور مکمل تعلیم کا نام و نشان نہیں۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ416-417 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

سیمینار تحریک جدید لائبیریا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اکتوبر 2022