• 5 مئی, 2024

واقعہ افک- تاریخ کے آئینہ میں (قسط اول)

واقعہ افک- تاریخ کے آئینہ میں
قسط اول

مدینہ سے آٹھ منزل کی دوری پر ایک قبیلہ بنومصطلق آباد تھا۔ جس کے سردارکانام حارث بن ضرار تھا اوریہ قبیلہ مسلسل قریش کے ساتھ مل کرمدینہ اور مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہا تھا اور جنگوں میں قریش کی حمایت میں رہتا تھا۔ 6ہجری میں یہ اطلاعات جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں کہ یہ قبیلہ مدینہ پر لشکرکشی کی تیاری کررہاہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لشکر لے کرشعبان 6ہجری میں بنومصطلق کی خبرلینے کے لئے روانہ ہوئے۔ اس غزوہ کو غزوۂ بنومصطلق کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی خبرسن کر بنومصطلق کا سردار تو اپنے ساتھیوں سمیت بھاگ گیا لیکن اس قبیلے کے قریب پہنچ کرمریسیع کے چشمہ پر مسلمانوں کامقابلہ ایک پارٹی نے کیا جس میں دشمنوں کے 10افراد مارے گئے اور سات سو کے قریب قیدی ہوئے، اس کے علاوہ بہت سے مال مویشی کے طور پر جومال غنیمت ہاتھ آیا۔ اسی چشمہ کے نا م کی وجہ سے اس غزوہ کو غزوۂ مریسیع بھی کہا جاتا ہے۔

جنگ کے اعتبارسے تو یہ مختصر سی جنگ سمجھی جاتی ہے۔ لیکن اس مہم میں بعض ایسے اہم ترین واقعات ہوئے کہ جواسلامی تاریخ کے نمایاں ترین اور ہمیشہ یادرکھے جانے والے واقعات کی فہرست میں شمارہونے لگے۔

آیت تیمم بھی اسی سفرمیں نازل ہوئی۔ (علامہ ابن حجر فتح الباری کتاب التیمم میں یہی بیان فرماتے ہیں) پھر اسی غزوہ کے نتیجہ میں قبیلہ بنومصطلق کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہؓ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ہوئی اور ساراقبیلہ بعدمیں مسلمان بھی ہوگیا۔ لیکن اسی سفرکے دو اور ایسے واقعات ہیں کہ جومنافقین کی کھلم کھلا سرگرمیوں پرروشنی ڈالتے ہیں۔

دراصل اس مہم میں منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہوئی تھی اور شایدہی اس سے پہلے یا اس کے بعد اتنی تعداد میں منافق کسی مہم میں شامل ہوئے ہوں۔ اس سے پہلے جنگ اُحد میں جب مسلمانوں کا ایک ہزار کا لشکر مدینہ سے کفار کا مقابلہ کرنے کے لئے نکلا تو راستے سے ہی منافقین کاسردار عبداللہ بن ابی اپنے تین سوساتھیوں کے ساتھ اس لشکر سے واپس لوٹ آیا اور یوں ایک ہزارکی بجائے سات سوکالشکررہ گیا اور صاف معلوم ہوتاہے کہ منافقین ایک منصوبہ بندی کے تحت شاملِ لشکر ہوئے تھے اورمقصد یہ تھا کہ اس طرح سے جب اچانک راستہ میں الگ ہوں گے تو باقی مسلمانوں کادل بیٹھ جائے گا اور شاید وہ دوسرے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ منافقین کاسارازور اسی طرح کی سازشوں میں صرف ہوتارہتا تھا کہ وہ کیا کیا طریق ہوسکتے ہیں کہ خاص طور پر مدینہ والوں کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بدظن کیاجائے اور ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ اہل مدینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین صحابہ سے منہ موڑ لیں اور یہ لوگ مدینہ سے چلے جائیں۔ کیونکہ عبداللہ بن ابی وہ شخص تھا کہ جس کو مدینہ کاوالی اور بادشاہ بنائے جانے کا فیصلہ ہوچکا تھا یہاں تک کہ بادشاہی کاتاج اس کے سر پر رکھنے کی تمام ترتیاریاں مکمل ہوچکی تھیں کہ حالات نے ایساپلٹا کھایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے اورجس کے نتیجہ میں اہل مدینہ کے رخ اس رُخِ انورکی طرف متوجہ ہوگئے اور روحانی سربراہی کے ساتھ ساتھ انتظامی سربراہی اور بادشاہی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہوگئی اور عبداللہ بن ابی کابادشاہی کاتاج سرپرسجانے کاخواب چکنا چورہوگیا اوریہ وہ حسدتھا، حسد کی وہ آگ تھی کہ جو اندرہی اندراس کو کھا رہی تھی اور اسی آگ میں وہ تمام لوگوں کو جلا کر راکھ کرنا چاہتا تھا۔ غزوہ بنومصطلق کی مہم کایہ سفراس کی سازشوں کا گویا عروج تھا۔

اسی سفر کے دوران ایک چشمہ پر دو مسلمانوں، ایک مہاجر اور ایک انصاری کی باہم تکرار ہوگئی اور اسی تکرار میں دونوں نے اپنے اپنے ساتھیوں کو آوازدی۔ عبداللہ بن ابی کوجب اس واقعہ کاعلم ہوا تو عبداللہ بن ابی نے اس موقعہ پربھی حسب عادت خوب بھڑ اس نکالی اور مہاجر مسلمانوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں بہت ہی گھٹیا اور غلیظ اور گندی زبان استعمال کی اور یہ کہنے لگا کہ تم لوگوں کو مہاجرین اور نبی اکرمؐ  پر کچھ بھی خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ تمہی نے ان سب کوسرپر چڑھا رکھا ہے۔ اب بہت ہوگئی اب ناقابل برداشت ہوگیا سب کچھ، اب مدینہ پہنچ لیں مجھے ہی سب کرنا ہوگا اور یہ بھی کہا کہ مدینہ کاسب سے معزز شخص یعنی اپنے آپ کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مدینہ کاسب سے معزز شخص مدینہ کے سب سے ذلیل ترین شخص یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ سے نکال باہر کرے گا۔ (نعوذباللّٰہ، نعوذباللّٰہ، نعوذباللّٰہ) اور بھی کئی سخت کلمات کہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوجب یہ ساری بات پہنچی توآپؐ نے علاوہ دوسرے پرحکمت انتظامی فیصلوں کے عبداللہ بن ابی کوبھی طلب فرما کرپوچھا کہ اس نے اس اس طرح کی باتیں کی ہیں تو وہ صاف مکرگیا بلکہ حلفیہ بیان دیا کہ ایسی کوئی بات اُس نے کی ہی نہیں۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت سے اس موقعہ پر اس تمام بگڑی ہوئی صورت حال کوکنٹرول کیا اور فوری طورپروہاں سے روانگی کااعلان فرماتے ہوئے سفرشروع کردیا اور ساری رات اور سارا دن مسلسل سفرجاری رہا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عموماً نہ تواس وقت سفرشروع فرماتے تھے اورنہ ہی ساری رات اور سارادن مسلسل سفر فرمایاکرتے تھے لیکن اس موقعہ پرآپؐ نے خلاف معمول یہ کام کیا۔ اس کی باقی تفصیلات کوچھوڑتے ہوئے اسی سفرکے ایک دوسرے اہم ترین واقعہ کی طرف چلتے ہیں جوآج کے مضمون کاعنوان ہے اور وہ ہے واقعۂ افک۔

واقعہ افک کی تفصیل

اسی سفرسے واپسی پرکہ جب قافلہ ایک منزل پرپڑاؤکئے ہوئے تھا۔ روانگی سے قبل جب لوگ اپنی ضروریات سے فارغ ہوکرروانہ ہونے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اپنی ضرورت سے فارغ ہوکرواپس آرہی تھیں کہ انہیں معلوم ہواکہ ان کے گلے میں پڑاہواایک ہارجوکہ وہ اپنی بہن حضرت اسماءؓ سے عاریۃً مانگ کرلائی تھیں وہ کہیں راستہ میں گرگیاہے۔ یہ ظفارنامی بستی کابنا ہوا کسی خوشبودار لکڑی کے منکوں کاہارتھا۔ حضرت عائشہؓ ہارکی تلاش میں دوبارہ نکل پڑیں۔ اسی تلاش کے بعد جب واپس تشریف لائیں تو قافلہ روانہ ہو چکا تھا۔ قافلے منہ اندھیرے ہی نکل پڑتے تھے اور قافلہ سواروں کو حضرت عائشہؓ کے نہ ہونے کااحساس اس لئے بھی نہ ہوسکا کہ ہودج اٹھانے والوں نے آپؓ کاہودج اٹھاکراونٹ پررکھ دیا۔ حضرت عائشہؓ خود بیان فرماتی ہیں کہ آپؓ بہت دبلی پتلی اورہلکے وزن کی تھیں اور ان لوگوں کویہ احساس ہی نہ ہوسکا کہ میں ا س کے اندرنہیں ہوں۔ بہرحال جیساکہ طریق تھا لشکرکی روانگی کے بعد ایک بہادراور شجاع صحابی حضرت صفوان بن معطلؓ کو پیچھے رکھاگیا تاکہ قافلہ والوں کی رہ جانے والی اشیاء کواکٹھا کریں اور دن چڑھنے کے بعد ساری کھوج کے بعد پھرروانہ ہوں۔ بنو خزرج کے یہ صحابی 5ہجری میں اسلام لائے تھے اور نیکی اور تقویٰ میں بہت نمایاں ہوئے۔ بہادری اور شجاعت میں بھی نمایاں شمارہوتے تھے۔ یہ قافلے کی پڑاؤ کی جگہ پرگھومتے ہوئے جب ایک جگہ پہنچے تووہاں حضرت عائشہؓ کو سوئے ہوئے دیکھا۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب وہ واپس قافلے کی جگہ پرپہنچیں اور قافلہ کی روانگی کاعلم ہواتو وہ وہیں ایک جگہ ٹیک لگاکر بیٹھ گئیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نہ پائیں گے تو میری تلاش میں لوگ بھیجیں گے اور مجھے وہ یہیں اسی جگہ پرپا لیں گے۔ لہذا میں وہیں بیٹھ گئی اور بیٹھے بیٹھے آنکھ لگ گئی۔ بہرحال جب حضرت صفوانؓ نے انہیں سوئے ہوئے دیکھا تو زور سے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہا۔ اب نہ جانے اس وجہ سے کہ خدانخواستہ زندہ نہ ہونے کاخیال آیا یازیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ متنبہ کرنے کے لئے اونچی آوازسے یہ جملہ بولا ہوگا کہ تا حضرت عائشہؓ بیدار ہوجائیں۔ حضرت صفوانؓ نے حضرت عائشہؓ کو اپنے اونٹ پر بٹھایا اور انہیں لے کر قافلے تک پہنچ گئے۔ اوپر ذکر ہوچکا ہے منافقین کے ٹولے اور ان کے سرغنہ کاکہ کس طرح وہ گِدھوں کی طرح تاڑمیں رہتے تھے۔ انہوں نے جب حضرت عائشہؓ کی گمشدگی کا سنا اور بعد میں ان کے ساتھ واپس آتے ہوئے دیکھا تو ان کے گندے ذہنوں نے وہ جھوٹ تراشا کہ شاید شیطان کے وہم وگمان میں بھی نہ آسکتاتھا۔ ان منافقوں نے الزامات اورتہمت لگانے اور اس کاچرچاکرنے میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی۔ ہرچند کہ مومنوں کی اکثریت نے اس الزام پرکان نہ دھرے بلکہ بات کرنابھی روانہ رکھا۔ جیساکہ ایک روایت میں حضرت ابوایوب انصاریؓ کے بارہ میں آتاہے کہ وہ دونوں میاں بیوی آپس میں بات کررہے تھے اور جب حضرت ابو ایوبؓ کی بیوی نے اس افواہ کاذکرکیا کہ لوگ جوباتیں بنارہے ہیں ان کی کیاحقیقت ہے تو حضرت ابوایوبؓ جوکہ ایک فدائی عاشق رسول تھے اور ہجرت مدینہ کے موقعہ پرانہیں میزبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی سعادت نصیب ہوچکی تھی، انہوں نے اپنی بیوی کوبہت ہی سادہ لیکن دلنشین اندازمیں اس فتنہ سے آگاہ کرتے ہوئے سمجھایا۔ ابوایوبؓ اپنی بیوی کوکہنے لگے کہ اے ام ایوب ! کیا تم ویسا فعل کرسکتی ہو جیسے فعل کی بات پھیلائی جارہی ہے تو وہ کہنے لگیں کہ کبھی بھی نہیں۔ تو حضرت ابوایوبؓ کہنے لگے کہ جب تم اپنے بارہ میں ایساکرنے کاسوچ بھی نہیں سکتی تو ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے بارہ میں کیسے سوچ لیاجائے جوکہ تم سے ہزاردرجے نیک اور متقی ہیں۔ اس لئے یہ ساری بات ہے ہی سراسر جھوٹ۔

(سیرت ابن ہشام، الاکتفاء)

اس لئے اکثریت تو ایسے ہی متقی اورپرہیزگاروں کی تھی لیکن منافقین کاپراپیگنڈہ ایساپُرزورتھا کہ منافق تومنافق کچھ ایسے لوگ بھی ہاں میں ہاں ملانے لگے کہ کیاممکن ہے کہ ایساہی ہو۔ ۔ ۔ ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جویہ ساری باتیں سن رہے تھے اس تکلیف دہ صورت حال پر کمال صبروتحمل اور ضبط کامظاہرہ فرمارہے تھے۔ آپؐ کی سیرت کے بے شمارپہلو ہیں جو ان تاریک گھڑیوں میں ہیروں کی طرح چمکتے ہوئے سامنے آتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ شایدمدینہ کے لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کوکاٹ کررکھ دیتے۔ منافقین اور الزام لگانے والوں کی گردنیں کاٹ کررکھ دیتے۔ حضرت صفوانؓ جوکہ ایک جنگجو بہادرتھے انہیں جب معلوم ہواکہ منافق تو چلو تھے ہی اب حضرت حسانؓ جیسے مخلص صحابی بھی اس الزام میں شامل ہوگئے ہیں تو وہ آپے سے باہرہوگئے اور تلوارلے کران پرجھپٹے اور انہیں زخمی کردیا۔

(اسدالغابہ،زیرلفظ صفوان بن معطل)

حضرت عائشہؓ جو کہ ’’المؤمنات الغافلات‘‘ کے مصداق معصومہ شہزادی کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ ایسی پاکدامن اور معصوم کہ انہیں خبرتک نہیں۔ ایک مہینہ اس سانحہ پر گزر جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خیرکم خیرکم لاھلہٖ کے مصداق اپنے گھروالوں کے ساتھ اتنے شفیق اور نرم دل، اتنے کریم اور روؤف رحیم کہ اپنی اس بیوی کومحسوس تک نہیں ہونے دیا کہ تمہارے بارہ میں کس قدر بھیانک الزامات لگائے جارہے ہیں اور باہر کیاشورپڑا ہوا ہے۔ صرف اسی ایک واقعہ کوسامنے رکھا جائے اور اس نیک فطرت اورپاک ومعصوم، بلکہ نیکوں کے سردار اور معصوموں کے راج دلاروں کے جوڑے کی سیرت بیان کی جائے تو دفتردرکارہوں گے۔ ایک ماہ گزرنے کے بعد جب اتفاقاً ایک عورت سے بات سنی تو حضرت عائشہؓ کوعلم ہوا اور یہ علم ہوتے ہی حضرت عائشہؓ پرتوجیسے ایک قیامت گزرگئی۔ تب انہیں یہ بھی احساس ہوا کہ اب میں سمجھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنے خاموش خاموش کیوں تھے۔ ۔ ۔ بہرحال وہ نبی اکرمؐ سے اجازت لے کراپنے والدین کے گھرآئیں۔

حضرت عائشہؓ کے والدین کاقابل رشک کردار

واقعہ افک کے بیان میں بہت کم سیرت نگارہیں جنہوں نے حضرت عائشہؓ کے نیک فطرت اور عاشق رسولؐ ماں باپ کے کردار کو نمایاں کیا ہو۔ جب کہ بہت ہی اہم کردار ہمیں نظر آتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ مواقع ہوتے ہیں کہ بعض اوقات بڑے بڑے مخلص اور معقول لوگ بھی لڑکھڑا جایا کرتے ہیں۔ یہاں اپنی بیٹی تھی جس پربہت ہی گھناؤنا الزام لگایا گیا تھا۔ لیکن یہ دونوں بھی انتہائی صابر اور تحمل وبرداشت کے گویا مجسمے بنے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس وقت بھی ان کی نگاہیں ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ انہیں گویا کوئی فکر ہی نہیں کہ ہماری بیٹی لٹ گئی، تباہ ہوگئی، برباد ہوگئی یا خدانخواستہ کیا ہوگیا۔ ایک ماں باپ سے زیادہ اپنی بچی کواورکون جانتاہے اور ماں باپ بھی ایسے صاحب فراست۔ صرف اسی ایک بات سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس ہولناک واقعہ پرایک مہینہ گزرجاتاہے۔ لیکن نہ ماں اورنہ باپ، کوئی بھی اپنی بیٹی کی طرف اس کے گھراس کی خبرلینے نہیں آتا۔ اس کو حوصلہ دینے بھی نہیں آتا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ ہماری اس ننھی سی معصوم جان پرکتنے پہاڑٹوٹ پڑے ہیں۔ ان کے جگرکاٹکڑاتھی وہ، آخرکیاوجہ تھی۔ یقیناً یہی ایک وجہ تھی کہ وہ سب کچھ نثارکرچکے تھے خدااوراس کے رسولؐ پر،ان کے لئے ان کی ساری تکلیفیں، سارے دکھ بہت ہی چھوٹے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے سامنے، وہ ہردکھ اور سکھ کی گھڑی میں صرف اورصرف ایک ہی چہرہ دیکھنا جانتے تھے اوروہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ تھا۔ یہ لوگ رسول اللہؐ کے ہم وغم کے سامنے اپنے سارے دکھ بھول چکے تھے۔ یہ کمال درجے کاعشق تھا اور ادب تھا کہ جو وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ رسول کریمؐ کوچھوڑکر، ان سے آگے قدم بڑھا کراپنی بیٹی کاسوچیں گے۔

؂عجب تھا عشق اس دل میں محبت ہو تو ایسی ہو

وہ اپنا سب کچھ رسولؐ کی خدمت میں دینے کے بعد مطمئن تھے کہ وہ جوبھی سوچیں گے، جوبھی کریں گے وہ ہم سب کے لئے بہتر بلکہ بہترین ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ اس ایک مہینے کے بعد جب روتی ہوئی یہ معصوم جان، حضرت عائشہؓ اپنے ماں باپ کے گھرداخل ہوئی ہے اور رونے کی آوازسن کربالاخانے سے حضرت ابوبکرؓ نیچے آئے ہیں توانہوں نے بھرائی ہوئی آوازمیں اپنی پیاری بیٹی سے صرف ایک جملہ کہاہے کہ بیٹی تجھے خداکی قسم ہے کہ واپس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرچلی جاؤ۔

(بخاری 4757)

سبحان اللہ! رسول کی محبت میں فنا کامقام پانے والا یہ عجیب عاشق تھا۔

حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے اپنی ماں سے کہا کہ ماں! میرے متعلق تو مدینہ میں یہ یہ باتیں ہورہی ہیں تو حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جومیں نے سوچا تھا کہ میری ماں یا باپ کا کچھ ردعمل ہوگا اس میں سے کچھ بھی ایسانہ ہوا اور مجھے مزیدحیرت یہ ہوئی کہ انہیں پہلے سے ہی سب پتہ تھا۔ ہاں میری ماں نے صرف اتنا کہا کہ يَا بُنَيَّةُ، هَوِّنِي عَلَيْكِ، فَوَاللّٰهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةً عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا، لَهَا ضَرَائِرُ، إِلَّا كَثَّرْنَ عَلَيْهَا اے میری بچی! حوصلہ رکھو،بخدا !کم ہی ایساہوتاہے کہ کسی شخص کی خوب صورت اور خوب سیرت بیوی ہو اوراس کی سوکنیں بھی ہوں اورپھراس کے خلاف باتیں نہ بنائی جائیں۔

ایک گھناؤنی سازش

ماں بھی کیسی صابر اور صاحب فہم وفراست ماں تھی۔ عشق رسولؐ سے تولبریزتھی ہی، بات بھی کتنے پتے کی بتادی۔ کہ امام کاقرب پانے والوں کے لئے حاسدین ایسے حملے کیاہی کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ گھرانہ بھی جوکہ نیک اور دانا گھرانہ تھا یہ جانتاتھا کہ بات کچھ اورہے اور یہ ہے وہ اہم کڑی کہ جس کی طرف ہمارے سیرت نگار اور مفسرین وشارحین کی کم ہی نظرگئی ہے اور وہ یہ کہ یہ محض ایک الزام نہ تھا بلکہ ایک گھناؤنی سازش تھی۔ وہ سازش کیا تھی؟ حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے بصیرت افروز اقتباس کودیکھتے ہیں۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں:
’’اب میں یہ بتاتا ہوں کہ پہلے چار رکوعوں کا باقی پانچ رکوعوں سے جن میں خلافت کا ذکر آتا ہے کیا تعلق ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ پہلے چار رکوعوں میں بدکاری کے الزامات کا ذکر اصل مقصود ہے اور اُن میں خصوصًا اس الزام کو رد کرنا مقصود ہے جو حضرت عائشہؓ سے کوئی دشمنی تھی۔ ایک گھر میں بیٹھی ہوئی عورت سے جس کا نہ سیاسیات سے کوئی تعلق ہو نہ قضاء سے۔ نہ عہدوں سے نہ اموال کی تقسیم سے نہ لڑائیوں سے۔ نہ مخالف اقوام پر چڑھائیوں سے نہ حکومت سے نہ اقتصادیات سے۔ اُس سے کسی نے کیا بغض رکھنا ہے۔ پس حضرت عائشہؓ سے براہ راست بُغض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ اس الزام کے بارہ میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو یہ کہ نعوذ باللہ یہ الزام سچا ہو جس کو کوئی مومن ایک لمحہ کیلئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ خصوصًا اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر سے اس گندے خیال کو رد کیا ہے او ر دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت عائشہؓ پر الزام بعض دوسرے وجودوں کو نقصان پہنچانے کیلئے لگا یا گیا ہو۔ اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام منافقوں کیلئے یا اُن کے سرداروں کیلئے فائدہ بخش ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے۔ ایک ادنیٰ تدبیر سے بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہؓ پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی۔ ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے او ر ایک حضرت ابوبکرؓ سے۔ کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی تھیں۔ یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کیلئے فائدہ بخش ہو سکتی تھی یا بعض لوگوں کی اغراض اُن کو بدنام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں۔ ورنہ خود حضرت عائشہؓ کی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ آپ سے سوتنوں کا تعلق ہو سکتا تھا اور یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شائد حضرت عائشہؓ کی سوتنوں نے حضرت عائشہؓ کو رسول کریمؐ کی نظروں سے گرانے اور اپنی نیک نامی چاہنے کیلئے اس معاملہ میں کوئی حصہ لیا ہو۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عائشہؓ کی سوتنوں نے اس معاملہ میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حضرت عائشہؓ کا اپنا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے جس بیوی کو میں اپنا رقیب اور مد مقابل خیال کیا کرتی تھی وہ حضرت زینب بنت حجشؓ تھیں۔ ان کے علاوہ اور کسی بیوی کو میں اپنا رقیب خیال نہیں کرتی تھی مگر حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں زینبؓ کے اس احسان کو کبھی بھول نہیں سکتی کہ جب مجھ پر الزام لگا یا گیا تو سب سے زیادہ زور سے اگر کوئی اس الزام کی تردید کیا کرتی تھیں تو وہ حضرت زینبؓ ہی تھی۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ310-316)

پس حضرت عائشہؓ سے اگر کسی کو دشمنی ہو سکتی تھی تو ان کی سوتنوں کو ہی ہو سکتی تھی اور وہ اگر چاہتیں تو اس میں حصہ لے سکتی تھیں تا حضرت عائشہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں سے گِر جائیں اور اُن کی عزت بڑھ جائے۔ مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں دیا اور اگر کسی سے پوچھا گیا تو اس نے حضرت عائشہؓ کی تعریف ہی کی۔ غرض مردوں کی عورتوں سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ پس آپ پر الزام یا تو رسول کریمؐ کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے۔ انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وہ اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکرؓ ہی ہے۔ پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگا دیاتا حضرت عائشہؓ رسول کریمؐ کی نگاہ میں گِر جائیں اور اُن کے گِرجانے کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپؓ سے بدظن ہو کر اس عقیدت کو ترک کردیں جو انہیں آپؓ سے تھی اور اس طرح رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا بھی ذکر کیا۔ حدیثوں میں صریح طور پر ذکر آتا ہے کہ صحابہؓ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکرؓ کا ہی مقام ہے۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریمؐ نے ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے کہا۔ اے عائشہؓ! میں چاہتا تھا کہ ابوبکرؓ کو اپنے بعد نامزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ اللہ اور مومن اسکے سوا اور کسی پر راضی نہیں ہونگے اس لئے میں کچھ نہیں کہتا۔ غرض صحابہؓ یہ یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ رسول کریمؐ کے بعد اُن میں اگر کسی کا درجہ ہے تو ابوبکرؓ کا ہے اور وہی آپؐ کا خلیفہ بننے کے اہل ہیں۔ مکی زندگی تو ایسی تھی کہ اس میں حکومت اور اس کے نظام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد حکومت قائم ہوگئی اور طبعًا منافقوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ آپؐ کے بعد کوئی خلیفہ ہوکر نظامِ اسلامی لمبا نہ ہو جائے اور ہم ہمیشہ کیلئے تباہ نہ ہو جائیں۔ کیونکہ آپؐ کے مدینہ میں تشریف لانے کی وجہ سے اُن کی کئی اُمیدیں باطل ہوگئی تھیں۔ تاریخوں سے ثابت ہے کہ مدینہ میں عربوں کے دوقبیلے اوس اور خزرج تھے اور یہ ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے اور قتل و خون ریزی کا بازار گرم رہتا تھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اس لڑائی کے نتیجہ میں ہمارے قبائل کا رعب مٹتا چلا جاتا ہے تو انہوں نے آ پس میں صلح کی تجویز کی اور قرار دیا کہ ہم ایک دوسرے سے اتحاد کرلیں اور کسی ایک شخص کو اپنا بادشاہ بنا لیں چنانچہ اوس اور خزرج نے آپس میں صلح کر لی اور فیصلہ ہوا کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کو مدینہ کا بادشاہ بنا دیا جائے۔ اس فیصلہ کے بعد انہوں نے تیاری بھی شروع کر دی اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کیلئے تاج بننے کا حکم دیدیا گیا۔ اتنے میں مدینہ کے کچھ حاجی مکہ سے واپس آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ آخری زمانہ کا نبی مکہ میں ظاہر ہو گیا ہے اور ہم اُس کی بیعت کر آئے ہیں۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور چند دنوں کے بعد اور لوگوں نے بھی مکہ جاکر رسول کریمؐ کی بیعت کر لی اور پھر انہوں نے رسول کریمؐ سے درخواست کی کہ آپ ہماری تربیت اور تبلیغ کیلئے کوئی معلم ہمارے ساتھ بھیجیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیؓ کو مبلغ بنا کر بھیجا اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔ انہی دنوں چونکہ مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کو بہت تکالیف پہنچائی جارہی تھیں اس لئے اہل مدینہ نے آپؐ سے درخواست کی کہ آپؐ مدینہ تشریف لے آئیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ سمیت مدینہ ہجرت کرکے آگئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کیلئے جو تاج تیار کروایا جا رہا تھا وہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ کیونکہ جب انہیں دونوں جہانوں کا بادشاہ مل گیا تو انہیں کسی اور بادشاہ کی کیا ضرورت تھی۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیں تو اسے سخت غصہ آیا اور گووہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام میں رخنے ڈالتا رہتا تھا اور چونکہ اب وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس کے دل میں اگر کوئی خواہش پیدا ہو سکتی تھی تو یہی کہ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو ں تو میں مدینہ کا بادشاہ بنوں لیکن خداتعالیٰ نے اس کے اس ارادہ میں بھی اسے زک دی کیونکہ اس کا اپنا بیٹا بہت مخلص تھا۔ جس کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ بادشاہ ہو بھی جاتا تو اس کے بعد حکومت پھر اسلام کے پاس آجاتی اس کے علاوہ خداتعالیٰ نے اُسے اس رنگ میں بھی زک دی کہ مسلمانوں میں جونہی ایک نیا نظام قائم ہوا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دئے کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے۔ آپ کے بعد اسلام کا کیا بنے گا اور اس بارہ میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے ۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اُسے خوف پید ا ہونے لگا کہ اب اسلام کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اُس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس کے لئے جب اس نے غور کیا تو اُسے نظر آیا کہ اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کر سکتا ہے تو وہ ابو بکرؓ ہے اور رسول کریمؐ کے بعد مسلمانوں کی نظریں انہی کی طرف اٹھتی ہیں اور وہ اُسے تمام لوگوں سے معزز سمجھتے ہیں۔ پس اُس نے اپنی خیر اسی میں دیکھی کہ انکو بدنام کرد یا جائے اور لوگوں کی نظروں سے گِرا دیا جائے بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے بھی آپکو گرا دیا جائے اور اس بدنیتی کے پورا کرنے کا موقع اُسے حضرت عائشہؓ کے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپؓ پر ایک نہایت گندا الزام لگا دیا جو قرآن کریم میں تو اشارۃً بیان کیا گیا ہے لیکن حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اس سے غرض یہ تھی کہ اس طرح حضرت ابوبکرؓ ان لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہو جائیں گے اور آپ کے تعلقات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خراب ہو جائیں گے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑجائیگا جس کا قائم ہونا اُسے یقینی نظر آتا تھا اور جس کے قائم ہونے سے اسکی اُمیدیں برباد ہو جاتی تھیں …… چونکہ منافق اپنی موت کو ہمیشہ دُور سمجھتا ہے اور وہ دوسروں کی موت کے متعلق اندازے لگاتا رہتا ہے۔ اس لئے عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی اپنی موت کو دُور سمجھتا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا۔ وہ یہ قیاس آرائیاں کرتا رہتا تھا کہ رسول کریمؐ فوت ہوں تو میں عرب کا بادشاہ بنوں۔ لیکن اب اُس نے دیکھا کہ ابوبکرؓ کی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابوبکرؓ آپ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں۔ رسول کریمؐ سے کوئی فتویٰ پوچھتے ہیں یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی ابن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے کی اُمیدیں لگائے بیٹھا تھا سخت فکر لگا اور اُس نے چاہا کہ اس کا ازالہ کرے۔ چنانچہ اسی امر کا ازالہ کرنے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شہرت اور آپ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہوں سے گرانے کیلئے اُس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہؓ پر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ سے نفرت پیدا ہواور حضرت عائشہؓ سے رسول کریمؐ کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ حضرت ابو بکرؓ کو رسول کریمؐ اور مسلمانوں کی نگاہوں میں جو اعزاز حاصل ہے وہ کم ہو جائے اور اُن کے آئندہ خلیفہ بننے کا کوئی امکان نہ رہے چنانچہ اسی امر کااللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا ہے وہ تم لوگوں میں سے ہی مسلمان کہلانے والا ایک جتھا ہے۔ مگر فرماتا ہے لَا تَحۡسَبُوۡہُ شَرًّا لَّکُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ تم پر خیال مت کرو کہ یہ الزام کوئی برا نتیجہ پیدا کرے گا بلکہ یہ الزام بھی تمہاری بہتری اور ترقی کا موجب ہوجائیگا چنانچہ لو اب ہم خلافت کے متعلق اصول بھی بیان کر دیتے ہیں اور تم کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ یہ منافق زورمار کر دیکھ لیں یہ ناکام رہیں گے اور ہم خلافت کو قائم کرکے چھوڑیں گے کیونکہ خلافت نبوت کا ایک جزو ہے اور الٰہی نور کے محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے …… اس الزام کا ذکر کرنے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اس شرارت کو بیان کرنے کے بعد کہ اُس نے خلافت میں رخنہ اندازی کرنے کیلئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا یا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مگر اس کے نور کو مکمل کرنیکا ذریعہ نبوت ہے اور اُس کے بعد اس کو دنیا میں پھیلانے اور اُسے زیادہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ خلافت ہی ہے۔ گویا نبوت ایک چمنی ہے جو اس کو آندھیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور خلافت ایک ری فلیکٹر ہے جو اس کے نور کو دُور تک پھیلاتا ہے۔ پس ان منافقوں کی تدبیروں کی وجہ سے ہم اس عظیم الشان ذریعہ کو تباہ نہیں ہونے دیں گے بلکہ اپنے نور کو دیر تک دنیا میں قائم رکھنے کیلئے اس سامان کا مہیا کریں گے۔ اس بات کا مزید ثبوت کہ اس آیت میں جس نو ر کا ذکر ہے وہ نور خلافت ہی ہے اس سے اگلی آیتوں میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ یہ نور کہاں ہے۔ فرماتا ہے فِيْ بُیُوْتٍ یہ نور خلافت چند گھروں میں پایا جاتا ہے۔ نورِ نبوت تو صرف ایک گھر میں تھا مگر نورِ خلافت ایک گھر میں نہیں بلکہ فِيْ بُیُوْتٍ چند گھروں میں ہے۔ پھر فرماتا ہے اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وہ گھر ابھی چھوٹے سمجھے جاتے ہیں مگر خداتعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ ان گھروں کو اونچا کرے کیونکہ نبوت کے بعد خلافت اس خاندان کو بھی اونچا کر دیتی ہے جس میں سے کوئی شخص منصب خلافت حاصل کرتا ہے۔ اس آیت نے بتا دیا کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کا مقصد نور خلافت کو بیان کرنا ہے اور یہ بتانا مدنظر ہے کہ نورِ خلافت نورِ نبوت اور نورِ الوہیت کے ساتھ کلی طور پر وابستہ ہے اور اس کو مٹانا دوسرے دونوں نوروں کو مٹانا ہے پس ہم اسے مٹنے نہیں دیں گے اور اس نور کو ہم کئی گھروں کے ذریعہ سے ظاہر کریں گے تا نورِ نبوت کا زمانہ اور اس کے ذریعہ سے نورِ الٰہیہ کے ظہور کا زمانہ لمبا ہو جائے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ324-329)

(باقی کل ان شاءاللہ)

(ابو مصور خان)

پچھلا پڑھیں

سیمینار تحریک جدید لائبیریا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اکتوبر 2022