• 5 مئی, 2024

معلمین وقفِ جدید کے لئے مشعلِ راہ (قسط اوّل)

معلمینِ وقف جدید کے لئے مشعلِ راہ
قسط اوّل

راہ خدا کے متلاشی

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بنی نوع انسان کے سامنے ایک ایسے راستے کا ذکر فرمایا ہے جو بنی نوع انسان کو خدا تک پہنچا سکتا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا

(العنکبوت: 70)

اور وہ لوگ جو ہمارے بارے میں کوشش کرتے ہیں ہم ضرور انہیں اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے۔

خدا تعالیٰ کی راہ میں سب سے زیادہ جہد (کوشش) کرنے والے وجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اسی لئے تو خدا تعالیٰ نے آپؐ کے وجود کو قرآن کی عملی تفسیر اور آپؐ کے فرامین کو وحی حق کا درجہ دیا اور تمام مومنین کو نصیحت فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار سے جو ملے اسے لے لیا کرو کیونکہ یہ نبی وحی الٰہی سے کلام کرتا ہے۔

جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ آپؐ خدا تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں اس قدر گم تھے کہ غارِ حرا میں مادی زندگی کے شور و غوغا سے ہنگامہ آرائیوں سے دنیا کے عیش و آرام سے منقطع ہو کر ،سکون،یکسوئی اور تنہائی میں زندگی بسر کیا کرتے تھے وہ راتیں جن میں اہلیان مکہ شراب کی محفلوں میں مصروف رہنے کے بعد اپنے خالق سے دوری میں نیند کے مزے لینے میں مصروف ہوتے تھے تو اس لمحہ آپ ایک دیوانے کی طرح خدا کی تلاش میں ہوتے تھے آپ کے اسی عشق الٰہی کی وجہ سے کفار مکہ بھی کہنے پر مجبور ہوا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّہٗ اور آپؐ کی اسی تڑپ کا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے۔

وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ

(الضحیٰ: 8-6)

اور تیرا رب ضرور تجھے عطا کرے گا۔ پس تو راضی ہو جائے گا۔ کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا تھا؟ پس پناہ دی اور تجھے تلاش میں سرگرداں (نہیں) پایا۔ پس ہدایت دی۔

یہ خدا کا عاشق اور غار حرا کا مکین غار حرا سے ہادی اکبر بن کر لوٹا۔ جس کا اوڑھنا بچھونا رضائے الٰہی تھا۔ رضائے الٰہی ہی بلاشبہ مقصود و مطلوب مومن ہے اور حقیقی مؤمن کی نہ صرف یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ خود رضائے الٰہی کا متلاشی ہوتا ہے بلکہ اس کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ وہ مخلوق خدا کا تعلق اپنے خالق سے قائم کروا دے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ صرف اپنے وصل الہٰی کی تڑپ تھی بلکہ آپ کا دل دکھ میں مبتلا ہوتا تھا جب آپ خلق خدا کی اپنے خالق سے دوری کو دیکھتے تھے اور اپنی قوم کی اصلاح کےلئے سجدوں میں دعاؤں میں مصروف رہتے ،مخلوق خدا کی اپنے خالق سے دوری آپؐ پر بہت گراں گزرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی تڑپ کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ۔

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا

(الکہف: 7)

پس کیا تو شدت غم کے باعث ان کے پیچھے اپنی جان ہلاک کردے گا اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں۔

ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دعاؤ ں اور اضطراب کو خدا تعالیٰ نے قبول کیا اور آپؐ کو ہادی اکبر، رہبر اعظم اور انسان کامل بنا کردنیا پر رحم فرما دیا۔

چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس امی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اللّٰھم صل وسلم و بارک علیہ و آلہ بعدد ھمہ و غمہ و حزنہ لھذہ لامۃ و انزل علیہ انوار رحمتک الی الابد۔

(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد نمبر 6 صفحہ11)

خدا کی طرف سےبنی نوع انسان کے لئے ہدایت کا سب سے بڑا اور سب سے پیارا خزانہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اترا اور آپؐ کے وجود کی برکت سے خدا تعالیٰ نے عرب و عجم کے لوگوں کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ وہ قوم جس کو وحشیوں کے نام سے یاد کیا جاتا تھا آپؐ کے وجود کی برکت سے نہ صرف انسان بلکہ با اخلاق انسان اور با خدا انسان بن گئی تھی۔ وہ لوگ جو بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے ان کو تخت شاہی پر بٹھایا گیا غرض اس جہالت میں ڈوبی قوم کو ایک دنیا کا استادو معلم بنا دیا اور خدا نما وجود بنا دیا اور وہ لوگ فرش سے اٹھ کر عرش تک جا پہنچے،جن کو لوگ غلام کہتےتھے ان کو ’’سیدنا‘‘ کا لقب ملا۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔

صَادَفْتَھُمْ قَوْمًا کَرُوْثٍ ذِلَّۃً
فَجَعَلْتَھُمْ کَسَبِیْکَۃِ الْعِقْیَانٖ

تونے انہیں گوبر کی طرح ذلیل قوم پایا تو تونے انہیں خالص سونے کی ڈلی کی مانند بنا دیا۔

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ591)

آپؐ نے ہدایت کے وہ ستارے زمانے میں پیدا کردیے تھے جن کے بارے میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
’’میرے صحابہ آسمان کے ستاروں کی مانند ہیں پس جو کوئی بھی ان کی پیروی کرے گاہدایت پا جائے گا۔‘‘

(ترجمة الاحکام فی اصول الاحکام،ابن حزم جلد6 صفحہ244)

(ترجمہ مشکوۃ المصابیح کتاب المناقب حدیث نمبر 6018)

اسی طرح سیدنا حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف لطیف سر الخلافہ میں اپنے منظوم عربی کلام میں فرماتے ہیں کہ
’’یقیناً صحابہ سب کے سب سورج کی مانندہیں انہوں نے مخلوق کا چہرہ اپنی روشنی سے منور کر دیا۔

انہوں نے اپنے ارقاب کو اور عیال کی محبت کو بھی چھوڑ دیا اور رسول اللہ کے حضور میں فقراء کی طرح حاضر ہو گئے۔

وہ ذبح گئے اور اپنے صدق کی وجہ سے مخلوق سے نہ ڈرے بلکہ مصیبت کے وقت انہوں نے خدائے رحمان کو اختیار کیا۔

اپنے خلوص کی وجہ سے وہ تلواروں کے نیچے شہید ہو گئے اور مجالس میں انہوں نے صدق دل سے گواہی دی۔

اپنے صدق کی وجہ سے وہ تمام میدانوں میں حاضر ہوگئے۔ وہ ان میدانوں کی سنگلاخ سخت زمین میں جمع ہوگئے۔

وہ صالح تھے اپنے رب کے حضور عاجزی کرنے والے تھے وہ اس کے ذکر میں رو رو کر راتیں گزارنے والے تھے۔‘‘

(ترجمہ منظوم کلام سِر الخلافہ، روحانی خزائن جلد8 صفحہ397)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ غریب و نادار تھے مگر محض للہ اور اس کے رسول کی محبت میں مکہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ شریف لے آئے تھے اور رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے قریب ایک چبوترہ جو صفہ کے نام سے مشہور ہے تعمیر کروایا تھا۔ اس مقام پر ان حضرات کے شب و روز گزرتے تھے اور یہ اصحاب عبادت، ذکر الٰہی اور مجاہدہ نفس میں اپنے دن رات بسر کرتے تھے۔

صلحاءِ امت کی کوششیں

خدا تعالیٰ نے اسلام کو کسی زمانہ میں بھی اکیلا نہیں چھوڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تابعین، تبع تابعین اور پھر صوفیا کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو سنبھالے رکھا ان لوگوں نے دنیا کے کونے کونے میں خلق خدا کو خدا سے ملانے میں اہم کردار ادا کیا اور بلاشبہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان تھا جو نسل در نسل، صدی در صدی، علاقہ در علاقہ، قوم در قوم تقسیم ہوتا رہا ہے اور آج وہ حضرت مسیح موعودؑ کے وجود سے ہوتا ہوا خلافت احمدیہ کے ذ ریعہ سے دنیا کے کونے کونےمیں پھیل رہا ہے۔

چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’ہمیشہ کے لئے بشارت دی کہ اس دین کی کامل طور پر پیروی کرنے والے ہمیشہ آسمانی نشان پاتے رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہم یقینی اور قطعی طور پر ہر ایک طا لب حق کو ثبوت دے سکتے ہیں کہ ہمارے سید و مولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی میں ایسے باخدا لوگ ہوتے رہے ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیر قوموں کو آسمانی نشان دکھلا کر ان کو ہدایت دیتا رہا ہے۔ جیسا کہ سیّد عبد القادر جیلانی اور ابو الحسن خرقانی اور ابویزید بسطامی اور جنید بغدادی اور محی الدین ابن العربی اور ذوالنون مصری اور معین الدین چشتی اجمیری اور قطب الدین بختیار کاکی اور فرید الدین پاک پٹنی اور نظام الدین دہلوی اور شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی رضی اللہ تعالیٰ عنہم و رضوا عنہ اسلام میں گزرے ہیں اور ان لوگوں کا ہزارہا تک عدد پہنچا ہے اور اس قدر ان لوگوں نے خوارق علماء اور فضلاء کی کتابوں میں منقول ہیں کہ ایک متعصب کو باوجود سخت تعصب کے آخر ماننا پڑتا ہے یہ لوگ صاحب خوارق و کرامات تھے۔

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد نمبر 13 صفحہ نمبر91-92)

اسی طرح حضرت خلیفہ المسیح الاولؓ نے جنوری 1910ء میں ’’تصوف‘‘ کے موضوع پر ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے تفصیل سے صوفیائے کرام اور بزرگان اسلام کی اسلام کی خدمت پر روشنی ڈالی جس میں ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں:
معلمین میں سے ایک گروہ تو فقہا کا تھا۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ، شافعی، مالک، احمد بن حنبل، داؤد، امام بخاری، اسحاق بن راہو یہ رحمھم اللّٰہ، یہ سب لوگ حامی اسلام گزرے ہیں انہوں نے بادشاہوں کا ہاتھ خوب بٹایا۔

دوسرا گروہ متکلمین کا ہے جن میں امام ابو المنصور الماتریدی، الامام ابو الحسن الاشعری، ابن حزم، امام غزالی، امام رازی، شیخ تیمیہ، شیخ ابن قیم رحمھم اللّٰہ ہیں۔

تیسرا گروہ جنہوں نے احسان کو بیان کیا ہے۔ ان میں سیدنا عبد القادر جیلانی بڑا عظیم الشان انسان گزرا ہے ان کی دو کتابیں بہت مفید ہیں۔ ایک فتح ربانی دوم فتوح الغیب۔ دوسرا مرد خدا شیخ شہاب الدین سہروردی ہے جنہوں نے ’’عوارف لکھ کر‘‘ مخلوق پر احسان کیا تیسرا ا ٓدمی جس کے بارے میں بعض علماء نے جھگڑا کیا ہے مگر میں تو اچھا سمجھتا ہوں شیخ محی الدین ابن عربی ہے پھر ان سے اتر کر امام شعرانی گزرے ہیں پھر محمد انصاری ہیں۔

ہزار سال کے بعد شاہ ولی اللہ صاحب ہیں۔ مجدد الف ثانی ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی تصنیف پر بہت زور دیا ہے مگر صرف روحانیت سے۔

(خطبات نور صفحہ نمبر453)

یہ وہ وجود تھے جنہوں نے خلق خدا کوعشق سے سیراب کیا چنانچہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’عالم روحانی کے سب سے بڑے سمندر تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر ان سے آگے دنیا میں کئی قسم کی روحانی نہریں جاری ہوئیں چنانچہ دیکھ لو کہ ایک نہر شریعت کی چلی ۔ ۔ ۔ پھر ایک تصوف کی نہر چلی۔ ایک فلسفہ شریعت کی نہر چلی۔ ۔ ۔ اسی طرح تصوف میں، جنید، شبلی، معین الدین چشتی، بہاء الدین صاحب نقشبندی، شہاب الدین صاحب سہروردی وغیرہ جیسے عظیم الشان لوگ گزرے اور پھر یہ ساری نہریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں آکر مدغم ہو گئیں۔‘‘

(سیر روحانی(9) صفحہ23-24)

یہ وہ روحانیت کے باغ تھے جس کا پھل گذشتہ اور آنے والوں نےکھانا تھا چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’پھر مادی باغوں سے علیحدہ ہو کر روحانی باغوں نے اپنی نشو ونما شروع کردی۔ محمدی باغوں میں ایک پودا حسن بصری کا لگا ایک جنید بغدادی کا لگا ایک سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک ابراہیم ادہم رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک محی الدین ابن عربی کا لگا، ایک امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک ابن قیمؒ کا لگا، ایک بہا الدین صاحب نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک قطب الدین صاحب بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک فرید الدین صاحب گنج شکر کا لگا، ایک نظام الدین صاحب اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک حضرت باقی باللہ صاحب کا لگا، ایک داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک مجدد صاحب سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک سید احمد صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا اور سب سے آخر پر باغ محمدی کی حفاظت کرنے والے درخت مسیح موعود کا پوادا لگا۔‘‘

(سیر روحانی(10) صفحہ 19-20)

بلاشبہ یہ بزرگان دین خدا کی طرف سے ہمارے سامنے ایک واضح نشان تھے جن سے لوگوں نے خدا کو پہچانا اور اسلام کو مانا چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’اسلام میں ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ کے ذریعہ اسلام کی روشنی کو ظاہر کرتے رہے چنانچہ ابتدائی اسلام میں حضرت جنید بغدادی ہوئے، حضرت سید عبد القادر جیلانی ہوئے، شبلی ہوئے، ابراہیم ادہم ہوئے، ابن تیمیہ ہوئے، ابن قیم ہوئے، امام غزالی ہوئے، حضرت محی الدین ابن عربی ہوئے اور ان کے علاوہ ہزاروں اور بزرگ ہوئے پھر آخری زمانہ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہوئے، خواجہ باقی با للہ ہوئے، خواجہ معین الدین صاحب چشتی ہوئے، شیخ شہاب الدین صاحب سہروردی ہوئے، خواجہ بہاء الدین صاحب نقشبندی ہوئے، نظام الدین صاحب اولیاء ہوئے، خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکی ہوئے، فرید الدین صاحب گنج شکر ہوئے، حضرت احمد صاحب بریلوی ہوئے ، حضرت شیح احمد سرہندی مجدد الف ثانی ہوئے یہ سب لوگ خدا کا قرب پاکر آیات مبینات کا مقام حاصل کر گئے اور ان میں سے ہر شخص کو دیکھ کر لوگ اپنا ایمان تازہ کرتے تھے پھر ان کا نور دھندلا ہوا تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے اندر پیدا کیا اور آپ کا وجود ہمارے لئے آیات مبینات بن گیا۔

(تفسیر کبیر جلد ششم تفسیر سورہ النور صفحہ358-359)

صوفیائے اسلام کی ہندوستان میں خدمات

صوفیائے اسلام اور صلحائے امت نے دامن رسول سے ملنے والے فیضان کو جہاں پوری دنیا میں بانٹا اس میں سے ایک اہم کام ہندوستان میں تبلیغ اور اصلاح امت کا تھا جس کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ نے اسلام بزورتلوار پھیلائے جانےکے الزام کے جواب فرمایا ہےآپ فرماتے ہیں:
’’یہ بالکل غلط ہے کہ ہند میں اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا۔ ہرگز نہیں۔ ہند میں اسلام بادشاہوں نے بجبر نہیں پھیلایا بلکہ ان کو تو دین کی طرف بہت ہی کم توجہ تھی۔ اسلام ہند میں ان مشائخ اور بزرگان دین کی توجہ، دعا اور تصرفات کا نتیجہ ہے جو اس ملک میں گزرے تھے۔ بادشاہوں کو یہ توفیق کہاں ہوتی ہے کہ دلوں میں اسلام کی محبت ڈال دیں۔ جب تک کوئی آدمی اسلام کا نمونہ خود اپنے وجود سے ظاہر نہ کرے تب تک دوسرے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ یہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے حضور میں فنا ہوکر خود مجسم قرآن اور مجسم اسلام اور مظہر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بن جاتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ایک جذب عطاء کیا جاتا ہے اور سعید فطرتوں میں ان کا اثر ہوتا چلا جاتا ہے۔ نوے کروڑ مسلمان ایسے لوگوں کی توجہ اور جذب سے بن گیا ۔ تھوڑے سے عرصہ میں کوئی دین اس کثرت کے ساتھ کبھی نہیں پھیلا۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے صلاح و تقویٰ کا نمونہ دکھلایا اور ان کی برہان قوی نے جوش مارا اور لوگوں کو کھینچا۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ523 ایڈیشن1988ء)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ملفوظات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہندوستان میں اسلام کے پھیلاؤ کا سب سے بہترین اور بھرپور ذریعہ صوفیائے کرام تھے ۔ چنانچہ ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کی مرکزی وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں۔
ہندوستان میں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا نام سکھایا ہے ان میں حضرت معین الدین چشتی ہیں۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی ہیں حضرت فرید الدین شکر گنج ہیں حضرت نظام الدین محبوب الہی ہیں۔ حضرت نصیر الدین چراغ دہلی رحمہم اللّٰہ ہیں یہ سب کے سب خدا کے خاص بندے تھے ان کی تصانیف سے پتا لگتا ہے کہ ان کو قرآن شریف اور احادیث سے کیا محبت تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تعلق تھا۔ یہ بے نظیر مخلوقات تھیں بڑا بد بخت ہے وہ جو ان میں سے کسی کے ساتھ نقار رکھتا ہے۔ یہ باتیں میں نے علیٰ وجہ البصیرت کہی ہیں۔

(خطبات نور صفحہ نمبر453)

تصوف کیا ہے

سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ تصوف ہے کیا۔ اس حوالہ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو حضرت شہاب الدین سہروردی کی مشہور و معروف کتاب ’’عوارف المعارف‘‘ جو رہتی دنیا تک بلاشبہ علم تصوف پر ایک سند کی حیثیت رکھتی رہے گی، اس کتاب میں حضرت شہاب الدین سہروردی ؒ نے تصوف کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے تین احتمالات کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔

(1) تصوف یا صوفی کا مادہ صوف (اون) ہے۔ ابتدائی زمانہ میں صوف کے پیرہن ہی استعمال ہوتے تھے۔ انبیاء کرام اور ان کے اصحاب یہی لباس زیب تن کیا کرتے تھے (نیز آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد بھی منقول فرمایا ہے کہ اِنَّ عَیْسٰی عَلِیْہَ السَّلَامُ کَانَ یَلْبِسُ الصُّوْفَ وَا لشَّعْرَ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صوف اور بالوں کا لباس پہنا کرتے تھے، ان کی غذا درختوں کے پھل تھے اور جہاں شام ہو جاتی وہیں رات بسر کرنے کے لئے رہ جاتے (وہی ان کی منزل اور مکان ہوتا بحوالہ عوارف المعارف باب نمبر 6) اسی بنا پر دنیا کی نعماء سے کم رغبت رکھنے والے امت کے نیکوں اور صالحین نے صوف کے لباس کو اپنایا تا انکساری کا اظہار ہو۔ نیز یہ کہ یہ معمولی قیمت کے کرخت اونی کپڑے انہیں بیدار کر سکیں لہذا ایسا لباس زیب تن کرنے والوں کو صوفی کہتے ہیں۔

(2) بعض اہل علم کے نزدیک تصوف صفہ سے ماخود ہے۔ صفہ مدینہ منورہ میں وہ مقام تھا جہاں 72 کے قریب صحابہ کرام تعلیم وتربیت اور اصلاح نفس میں مصروف رہتے تھے اور تکمیل تربیت و اصلاح کے بعد انہیں دین کی دعوت دینے کے لئے ملک کے اطراف میں انہیں بھجوایا جاتا تھا اس رعایت سے داعیان دین خود کو صوفی کہلانے لگے۔

(3) تصوف کا مادہ صفوۃ ہے جس کے معنی صفائی اور پاکیزگی کے ہیں اور io اصل لفظ صَفَوِیّ تھا جو علم صرف کے قاعدہ تقلیب کے تحت صفوی کے حروف میں تبدیلی سے صوفی بن گیا یعنی ایسا شخص جو دل وجان سے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرتے ہوئے صفائی اور تزکیہ نفس میں مشغول رہتا ہے اور نفسانی خواہشات سے اپنے آپ کو پاک رکھتا ہے وہ صوفی ہے اور اس کے اس طریق کا نام تصوف ہے۔

(بحوالہ تصوف روحانی سائنس صفحہ نمبر 16)

ایک صوفیانہ تحریک وقف جدید

ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح قدیم زمانہ میں ہندوستان تمام جرائم کی آماجگاہ بنا ہوا تھا، اسلام سے بے رغبتی تھی، جہالت کی سیاہ رات تھی صوفیائے اسلام نے اس اندھیرے کو اجالے میں بدلہ مشرکوں کو توحید کا عاشق، تفریق شدہ معاشرے کو برابری دینے والا بنایا تھا۔ اسی طرح آج کے زمانہ میں بھی دنیا ظاہری و باطنی شرک میں مبتلاء ہے۔ تو اس ظاہری و باطنی شرک، معاشرے کی تفریق، دین اسلام سے بے رغبتی، خلق خدا کی خدا سے دوری، الغرض موجودہ زمانہ کی روحانی ویرانی اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ آج بھی ا ن صوفیائے کرام کی بہت ضرورت ہے جب 1947ء میں برصغیر تقسیم ہوا اور تربیتی اور اشاعت کے میدان میں کمزوری محسوس کی گئی تو اس زمانہ کی حالت زار کی پکار کو سنتے ہوئے اور اذن الٰہی سے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک صوفیانہ تحریک یعنی وقف جدید کا آغاز فرمایا تاکہ وہ کام جو صوفیائے امت نے اپنے اپنے زمانہ میں انفرادی حیثیت سے کیا تھااس کو اجتماعی حیثیت میں آگے بڑھایا جائے۔

چنانچہ وقف جدید کے آغاز کی بنیادی وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں۔
جب حضورؓ نے دیکھا کہ جماعت نے تعلیم و تربیت اور اشاعت کے ضمن میں اپنے فرض پورے طور پر انجام نہیں دیا ہے تو حضورؓ نے اس خیال کے پیش نظر کہ اگر میں پردہ پوشی کروں گا تو خدا بھی پردہ پوشی سے کام لے گا۔ جماعت کو اس کی غفلت پر تنبیہ کرنے کی بجائے ’’وقف جدید‘‘ کے نام سے ایک نئی تحریک چلادی۔

(خطبات وقف جدید صفحہ نمبر 95)

جس طرح قرون اولیٰ میں صوفیا نے ہندوستان میں تبلیغ کی اور تعلیم و تربیت میں سعی کی اور ہندوستان کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا اور روحانی ویرانی کو بدل دیا تھا اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ نے الٰہی منشاء کے مطابق جب اس تحریک کا آغاز فرمایا تو جماعت کےنوجوانوں کے سامنے تین صوفیا کو بطور نمونہ پیش کرتے ہوئے فرمایا:
’’چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی صاحب اور شہاب الدین سہروردی ؒ صاحب کے نقشے قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے تحت وقف کرتے ہیں۔ وہ اپنی زندگیاں براہ راست میرے سامنے وقف کریں تاکہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کر سکیں۔ وہ مجھ سے ہدایتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں۔ ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے، اور آج بھی اس میں چشتوں کی ضرورت ہے سہروردیوں کی ضرورت ہے اور نقشبندیوں کی ضرورت ہے۔ اگر یہ لوگ آگے نا آئے اور حضرت معین الدین چشتیؒ حضرت شہاب الدین سہروردی ؒ اور حضرت فرید الدین شکر گنجؒ جیسے لوگ پیدا نا ہوئے تو یہ ملک روحانیت کےلحاظ سے اور بھی ویران ہو جائے گا بلکہ یہ اس سے بھی زیادہ ویران ہو جائے گا جتنا کہ مکہ مکرمہ کسی زمانہ میں آبادی کے لحاظ سے ویران تھا۔‘‘

(خطبات وقف جدید صفحہ نمبر 4)

(باقی ان شاء اللہ آئندہ، بدھ)

(ندیم احمد فرخ)

پچھلا پڑھیں

سیمینار تحریک جدید لائبیریا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اکتوبر 2022