• 25 اپریل, 2024

عملی حالت کی روک میں عادت کا بہت بڑا دخل ہے

عملی حالت کی روک میں عادت کا بہت بڑا دخل ہے
بسا اوقات انسان کو بیوی بچوں کی تکالیف عملی طور پر ابتلا میں ڈال دیتی ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ایک واقعہ ہے کہ ایک صاحب کو گالی دینے کی، ہر وقت گالی دینے کی، ہر بات پر گالی دینے کی عادت تھی اور اُن کو بعض دفعہ پتہ بھی نہیں لگتا تھا کہ میں گالی دے رہا ہوں۔ اُن کی شکایت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کسی نے کی۔ آپ نے جب اُن کو بلا کر پوچھا کہ سنا ہے آپ گالیاں بڑی دیتے ہیں تو گالی دے کر کہنے لگے کون کہتا ہے مَیں گالی دیتا ہوں۔ تو عادت میں احساس ہی نہیں ہوتا کہ انسان کیا کہہ رہا ہے۔ بعض بالکل ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ عادت کی وجہ سے اُن کو احساس ختم ہو جاتے ہیں، احساس مٹ جاتے ہیں۔ لیکن اگر انسان کوشش کرے تو اُن مٹے ہوئے احساسات کو، ختم ہوئے ہوئے احساسات کو دوبارہ پیدا بھی کیا جا سکتا ہے، اصلاح بھی کی جا سکتی ہے۔

بہرحال عملی حالت کی روک میں عادت کا بہت بڑا دخل ہے۔ آجکل ہم دیکھتے ہیں، بیہودہ فلمیں دیکھنے کا بڑا شوق ہے۔ انٹرنیٹ پر لوگوں کے شوق ہیں اور بعض لوگوں کی ایسی حالت ہے کہ اُن کی نشے والی حالت ہے۔ وہ کھانا نہیں کھائیں گے اور بیٹھے فلمیں دیکھ رہے ہیں تو دیکھتے چلے جائیں گے۔ انٹرنیٹ پر بیٹھے ہیں تو بیٹھے چلے جائیں گے۔ نیند آ رہی ہے تب بھی وہ بیٹھے دیکھتے رہیں گے۔ نہ بچوں کی پرواہ، نہ بیوی کی پرواہ تو ایسے لوگ بھی ہیں۔ پس یہ جوعادتیں ہیں، یہ عملی اصلاح میں روک کا بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ عملی اصلاح میں روک کا پانچواں سبب بیوی بچے بھی ہیں۔ یہ عملی اصلاح کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ375 خطبہ جمعہ 12؍جون 1936ء)

بسا اوقات انسان کو بیوی بچوں کی تکالیف عملی طور پر ابتلا میں ڈال دیتی ہیں۔ مثلاً اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ کسی کا مال نہیں کھانا۔ اب اگر کسی نے کسی کے پاس کوئی رقم بطور امانت رکھوائی ہو لیکن اُس کا کوئی گواہ نہ ہو، کوئی ثبوت نہ ہو تو جس کے پاس امانت رکھوائی گئی ہے اُس کی نیت میں بعض دفعہ اپنے بیوی بچوں کی ضروریات کی وجہ سے کھوٹ آ جاتا ہے، نیت بد ہو جاتی ہے، اُسے خیال آتا ہے کہ میری بیوی نے کچھ رقم کا مطالبہ مجھ سے کیا تھا اور اس وقت میرے پاس رقم نہیں تھی میں نے مطالبہ پورا نہیں کیا۔ یا میرے بچے نے فلاں چیز کے لئے مجھ سے رقم مانگی تھی اور میں اُسے دے نہ سکا تھا۔ اب موقع ہے۔ یہ رقم مار کر میں اپنے بیوی اور بچے کے مطالبہ کو پورا کر سکتا ہوں یا بچے کی بیماری کی وجہ سے علاج کے لئے رقم کی ضرورت ہے، رقم نہیں ہے۔ اس امانت سے فائدہ اُٹھا کر اور یہ رقم خرچ کر کے میں اس کا علاج کروا لوں، بعد میں دیکھا جائے گا کہ رقم دینی ہے یا نہیں دینی۔ یا کسی اور مقصد کے لئے جو بیوی بچوں سے متعلقہ مقصد ہے، انسان کسی دوسرے کی رقم غصب کر لیتا ہے۔ تو یہ امانت کے متعلق اسلامی تعلیم کے خلاف ہے کہ جب امانت رکھوائی جائے تو تم نے بہرحال واپس کرنی ہے، چاہے اُس کے گواہ ہیں یا نہیں ہیں، کوئی ثبوت ہے یا نہیں ہے۔ بعض دفعہ بعض لوگ اپنے بچوں کے فوائد کے لئے، اُن کے لئے جائیداد بنانے کے لئے نابالغ یتیموں کا حق مار لیتے ہیں یا کچھ حد تک اُنہیں نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ پھر صرف مالی معاملات کی بات نہیں ہے۔ صرف یہی مثالیں نہیں ہیں۔ اس آزاد اور ترقی پسند معاشرے میں بعض ماں باپ خاص طور پر اور عموماً یہ بات کرتے ہیں، لیکن غریب ممالک میں بھی یہ چیزیں سامنے آ جاتی ہیں کہ لاڈ پیار کی وجہ سے بچوں کو اسلامی تعلیم کی پابندی کروانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہ باتیں جو مَیں کر رہا ہوں، افسوس سے مَیں کہوں گا کہ یہ ہمارے احمدی معاشرے میں نظر آ جاتی ہیں، وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔ کسی نے کسی کی امانت کھا لی۔ کسی نے کسی کو کسی اَور قسم کا مالی دھوکہ دے دیا۔ کسی نے یتیم کا مال پورا ادا کرنے کا حق ادا نہیں کیا۔ قضاء میں بعض ایسے معاملات آتے ہیں یا شکایات آتی ہیں کہ کوئی امیر ممالک میں رہنے والا اپنی بیٹی کی شادی پاکستان میں کرتا ہے اور داماد کو پہلے دن ہی کہہ دیتا ہے کہ مَیں نے اپنی بچی بڑے لاڈ پیار سے پالی ہے اور اس کو ہر قسم کی آزادی ہے۔ اس پر کسی قسم کی پابندی نہ لگانا اور بیٹی کا دماغ باپ کی شَہ پر عرش پر پہنچا ہوتا ہے۔ خاوند کو وہ کوئی چیز نہیں سمجھتی۔ حالانکہ اسلامی تعلیم ہے کہ بیوی خاوند کے حقوق ادا کرے اور اپنے گھر کی ذمہ داریاں نبھائے، یہ اُس کے فرائض میں داخل ہے۔ کبھی لڑکے پاکستان سے لڑکیاں بیاہ کر لاتے ہیں اور لڑکی کو ظلم کی چکی میں پیستے چلے جاتے ہیں اور لڑکے کے ماں باپ کہتے ہیں کہ لڑکی سب کچھ برداشت کرے، مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ بچوں کا لاڈ جہاں ماں باپ کی عملی حالت کو برباد کر رہا ہوتا ہے، وہاں گھروں کو بھی برباد کر رہا ہوتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 20؍دسمبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے اندر قناعت پیدا کرو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2022