• 4 مئی, 2024

فقہی کارنر

لائف انشورنس

ایک دوست کا خط حضرت اقدس (مسیح موعودؑ) کی خدمت میں پیش ہوا جس میں لکھا تھا کہ مارچ 1900ء میں، مَیں نے اپنی زندگی کا بیمہ واسطے دو ہزار روپے کے کرایا تھا۔ شرائط یہ تھیں کہ اس تاریخ سے تا مرگ میں چھیالیس روپے سالانہ بطور چندہ کے ادا کرتا رہوں گا۔ تب دو ہزار روپیہ بعد مرگ کے میرے وارثان کو ملے گا اور زندگی میں یہ روپیہ لینے کے حقدار نہ ہوں گا۔ اب تک میں نے تقریباً مبلغ چھ سو روپیہ کے بیمہ کرنے والی کمپنی کو دے دیا ہے۔ اب اگر میں اس بیمہ کو توڑ دوں تو بموجب شرائط اس کمپنی کے صرف تیسرے حصہ کا حقدار ہوں یعنی دو صد روپیہ ملے گا اور باقی چار صد روپیہ ضائع جائے گا۔ مگر چونکہ میں نے آ پ کے ہاتھ پر اس شرط کی بیعت کی ہوئی ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ اس واسطے بعد اس مسئلہ کے معلوم ہو جانے کے میں ایسی حرکت کا مرتکب ہونا نہیں چاہتا جو خدا اور اس کے رسول کے احکام کے بر خلاف ہو اور آپ حَکَم اور عدل ہیں، اس واسطے نہایت عجز سے ملتجی ہوں کہ جیسا مناسب حکم ہو صادر فر ما یا جاوے تا کہ اس کی تعمیل کی جاوے اس کے جواب میں (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے فرمایا:
زندگی کا بیمہ جس طرح رائج ہے اور سنا جاتا ہے اس کے جواز کی ہم کوئی صورت بظاہر نہیں دیکھتے کیونکہ یہ ایک قمار بازی ہے۔ اگر چہ بہت سا روپیہ خرچ کر چکے ہیں لیکن اگر وہ جاری رکھیں گے تو یہ روپیہ اُن سے اور بھی زیادہ گناہ کرائے گا۔ اُن کو چاہئے کہ آئندہ زندگی، گناہ سے بچنے کے واسطے اس کو ترک کر دیویں اور جتنا روپیہ اب مل سکتا ہے واپس لے لیں۔

(بدر 9؍اپریل 1908ء صفحہ3)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے اندر قناعت پیدا کرو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2022