• 8 مئی, 2025

ریگستان کا سفر

معاشرہ اس وقت تک نہیں چلتا جب تک معاشرے کے سب لوگ ہاتھ نہ ڈالیں اور آپس میں تعاون نہ کریں۔ایک حرف کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک دوسرے حرف کے ساتھ مل کر اپنا مافی الضمیر بیان نہ کرے یہی کیفیت ایک اخبار کی ہے۔ جب تک انتظامیہ کے تمام کارکنان، قاری و مضمون نگار اپنا حصہ نہ ڈالیں اس وقت تک اخبار کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتا۔ اسی طرح مضمون نگار کی سوچ اپنی ہوتی ہوگی۔ مواد بھی اکٹھا کر لیا ہوگا مگر اپنے کولیگ سے مدد ضرور لیتا ہے تب مضمون اشاعت کے قابل ہوتا ہے۔ اسی قسم کی کیفیت کا خاکسار کو اداریہ لکھتے وقت سامنا رہتا ہے۔ بسا اوقات سوچ بھی اپنی ہوتی ہے اور مواد بھی۔ بعض اوقات سوچ اپنی ہوتی ہے مگر مواد باہر سے آرہا ہوتا ہے۔مگر بعض کرم فرما ایسے بھی ہوتے ہیں جو عنوان بجھوا دیتے ہیں کہ اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو بعض ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا خلیفۃ المسیح کا کوئی اقتباس بغرض اشاعت بجھواتے ہیں یا کوئی سوشل میڈیا کا وائرل میسج۔جن میں سے خاکسار کو اداریہ کا عنوان تلاش کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں سیرالیون میں ہمارے مبلغ بھائی مکرم ذیشان محمود نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آخری کتاب پیغام صلح سے ایک ارشاد بجھوایا۔ خاکسار نے اِسے جب اصل کتاب پر سیاق و سباق سے پڑھا تو ایک ایسا مضمون ابھرکر سامنے آیا جس کی طرف توجہ دلانا وقت کی اشد ترین ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’آپ لوگ بفضلہ تعالیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوگئے۔ اب کینوں کو چھوڑ کر محبت میں ترقی کرنا زیبا ہے اور بے مہری کو چھوڑ کر ہمدردی اختیار کرنا آپ کی عقل مندی کے مناسب حال ہے۔دنیا کی مشکلات بھی ایک ریگستان کا سفر ہے۔ کہ جو عین گرمی اور تمازتِ آفتاب کے وقت کیا جاتا ہے پس اس دشوار گذار راہ کے لیے باہمی اتفاق کے اس سرد پانی کی ضرورت ہے جو اس جلتی ہوئی آگ کو ٹھنڈی کر دے اور نیز پیاس کے وقت مرنے سے بچاوے۔‘‘

(پیغامِ صلح،روحانی خزائن جلد23 صفحہ443-444)

پیغام صلح یعنی امن و آشتی کا پیغام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ تحریر ہے جو آپؑ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں تحریر فرمائی جس میں ہندووٴں اور مسلمانوں کو صلح صفائی کے ساتھ رہنے کی تلقین فرمائی خالصتاً ہمدردی کے طور پر ہندووٴں کو مسلمانوں سے محبت اور آشتی سے رہنے کی تلقین فرمائی اور اہل اسلام کی طرف سے صلح کا ہاتھ بڑھایا۔

آپ علیہ السلام کا یہ پیغام (مضمون) 21؍جون 1908ء کو پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ہال میں پڑھ کر سنایا گیا۔گو جیسا کہ اوپر ذکر کر آیا ہوں کہ اس پیغام میں خصوصاً ہندوؤں اور مسلمانوں کو مخاطب فرمایا ہے لیکن بعض جگہوں پر احباب جماعت کے درمیان ایک دوسرے سے نفرتیں دور کر کے ہمدردی، صلح اور محبت کی طرح ڈالنے کی تلقین فرمائی ہے۔ جیسا کہ اوپر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ سے عیاں ہے۔

دوسری بات جو اہمیت کی حامل ہے یہ ہے کہ یہ حضور علیہ السلام کی آخری تحریر یا امت کے نام آخری پیغام ہے جو آپ نے اپنی وفات سے قبل دیا، ہم روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ خاندان میں کسی بزرگ کی وفات پر بالعموم اس کی آخری نصیحت یا وصیت کو یاد رکھا جاتا ہے اور یہ آوازیں عام سنائی دیتی ہیں کہ ’’بابا جی اے کہہ گئے نیں‘‘۔ اسی طرح روحانی دنیا میں بھی انبیاء، اولیاء، اصفیاء اور الٰہی نمائندوں کے آخری پیغامات کو مقام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اس آخری پیغام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صلح، آشتی اور امن کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی ہے۔

تیسری اہم اور ضروری بات جو اصل موضوع تحریر ہے کی طرف آتے ہوئے یہ بتلانا مقصود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کی مشکلات اور مصائب کو ریگستان کا سفر قرار دیا ہے جو دن کے وقت جب سورج عین سر پر ہو اور سورج کی گرمائش سے ریت بھی تپ رہی ہوتی ہے اور فضا اورہوا بھی لُو بن کر جسم میں آگ کی کیفیت پیدا کر رہی ہوتی ہے۔ اس وقت ٹھنڈا پانی آگ کی گرمائش کو ختم کرتا بلکہ موت سے بھی بچاتا ہے۔ گویا ریگستان کا سفر کرنے والا اردگرد کے ماحول کو اپنا لیتا ہے۔ دوستی کر لیتا ہے۔ اسی طرح روحانی دنیا میں بھی ایک مومن کو بہت سی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ انسان کے چاروں طرف بدیوں، برائیوں اور گناہوں کی آگ انسان کو بھسم کرنے کے لئے تیار ملتی ہے۔ جہاں دنیا کی مشکلات ریگستان کا ایک سفر ہے اسی طرح مذہب اور دین کی عزت اور حفاظت کی خاطر جو مشکلات ایک مومن کو برداشت کرنا پڑتی ہیں وہ بھی ریگستان کے سفر سے کم نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ رضی اللہ عنہم پر ہونے والے کفار کے مظالم کو دیکھیں اور آج پاکستان میں احمدیوں پر اللہ، اس کے رسول، اس کی کتاب اور اسلام کی خاطر یا اسلام کا نام لے کر وہی مظالم دہرائے جاتے ہیں جو قرون اولیٰ میں مسلمانوں پر کفار کی طرف سے ڈھائے گئے اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ احمدی، صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح استقامت کی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور اعلائے کلمۃاللہ و کلمہ اسلام کی خاطر یہ مشکلات برداشت کر رہے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد ان پر پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ مشہور زمانہ شاعر لبید (بن ربیعہ عامری) نے کیا ہی سچی بات کہی ہے جو کسی اور شاعر نے نہیں اَلَا کُلُّ شَیءٍمَا خَلَا اللّٰہ بَاطِلُ (مسلم کتاب الشعر) کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز بے کار اور بے سود ہے ایک وہی سود و زیاں کا مالک ہے۔

اس مضمون کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْموْمِنُ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ (حدیقۃ الصالحین از ملک سیف الرحمان صفحہ753) کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے کہہ کر بیان فرمایا ہے۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اوپر بیان فرمودہ ارشاد کے مطابق مادی اور روحانی دنیا میں جو آگ معاشرہ میں لگی نظر آتی ہے اس کو سرد کرنے کا ذریعہ آپس میں ہمدردی، پیار اور محبت کو ہوا دینا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو اپنے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو کی گئی اس نصیحت کو حرزِجاں بنائے رکھنا چاہیے کہ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْعَابِرُسَبِیْلٍ

(حدیقۃ الصالحین صفحہ 752)

کہ تو دنیا میں ایسا بن گویا تو پردیسی ہے یا راہ گزرمسافر ہے۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے اندر قناعت پیدا کرو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2022