• 20 اپریل, 2024

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 8)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ 
قسط 8

نواب صاحب اور نماز

جیسے شرعاً جائز ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک ہی پاجامہ ہو اور اُس پر پیشاب کےِ چھینٹے پڑے ہوئے ہوں اور نماز کا وقت آجائے تو وہ اُسی پاجامہ کے ساتھ نماز پڑھ لے۔ مگر اِس کے یہ معنے نہیں کہ دوسرے وقتوں میں بھی جب اُس کے پاس صاف پاجامہ موجود ہو یا اُسی کو دھو سکتا ہو، وہ اُسی پاجامہ کے ساتھ نماز پڑھنے لگ جائے کیونکہ یہ اجازت ضرورت کے وقت کے لئے ہے ہر وقت کے لئے نہیں۔

عورتوں میں اکثر یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ نماز چھوڑ دیتی ہیں اور جب پوچھا جاتا ہے کہ کیوں نہیں پڑھی؟ تو وہ جواب دیتی ہیں کہ ہمارے کپڑے صاف نہیں، بچے اِن پر پیشاب کر دیتے ہیں حالانکہ اِس قسم کے عذرات سے نماز کا چھوڑنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ مجھ سے جب بعض دفعہ عورتیں یہ مسئلہ پوچھتیں اور اِس کے متعلق میرا فتویٰ طلب کرتی ہیں تو میں اُنہیں کہا کرتا ہوں کہ پیشاب کے چھینٹے کیا اگر کپڑا پیشاب میں رنگا ہوا بھی ہو اور نماز کا وقت آجائے اور نہ اَور کپڑا ہو اور نہ اُسے دھویا جا سکتا ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم اُنہی کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھ لو۔

ایک دفعہ ایک نواب صاحب جوہِزاگزالٹڈہائی نس نظام حیدر آباد کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہیں یہاں آئے۔ میں نے انہیں نصیحت کی کہ آپ نماز ضرور پڑھا کریں اور سفر و حضر میں اِس کی پابندی کیا کریں۔ وہ کہنے لگے کہ سفر میں مجھے یہ وہم رہتا ہے کہ طہارت درست نہیں ہوئی اِس لئے میں نماز پڑھنے سے ہچکچاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ بعض عورتیں جب مجھ سے یہ مسئلہ پوچھتی ہیں اور کہا کرتی ہیں کہ ہمارے کپڑوں پر بچے پیشاب کرتے رہتے ہیں ہم کیا کریں؟ تو میں انہیں یہی جواب دیا کرتا ہوں کہ اول تو یہی بہتر ہے کہ کپڑے بدل لو یا اِنہی کپڑوں کو دھو لو لیکن اگر تمہارے پاس کوئی اور کپڑا نہیں اور ان کپڑوں کو دھونے لگو تو نماز کا وقت فوت ہو جانے کا خطرہ ہو تو تم اِس بات کی مت پرواہ کرو کہ تمہارے کپڑوں پر پیشاب کے چھینٹےپڑے ہوئے ہیں بلکہ اگر کپڑا پیشاب میں ڈوبا ہوا ہو تب بھی اُس کے ساتھ نماز پڑھ لو۔ سو یہی نصیحت میں آپ کو کرتا ہوں۔ آپ بھی اس قسم کے وہم کرکے نماز کے تارک نہ بنیں۔

میری اس نصیحت کا ان پر بہت گہرا اثر ہوا اور ان کا دل بالکل پگھل گیا اور انہوں نے وعدہ کیاکہ میں اب نماز پڑھنا نہیں چھوڑوں گا۔ دوسرے دن ان کے نوکر نے ہمارے کسی آدمی کو بتایا کہ نواب صاحب پر آپ کے خلیفہ صاحب کی نصیحت کا خوب اثر ہوا۔ رات کے بارہ ایک بجے تک وہ نواب صاحب کو سمجھاتے رہے۔ جب وہ اُٹھے تو اُن کو سخت نیند آئی ہوئی تھی مگر مجھے بلا کر کہنے لگے کہ آج صبح کی نماز کے وقت مجھے ضرور جگا دینا میں وعدہ کر چکا ہوں کہ اب نماز پڑھنی نہیں چھوڑوں گا۔ میں نے کہا سرکار کو جگانا ذرا مشکل ہی ہے۔ وہ کہنے لگے اگر میں نہ اُٹھوں تو میری چارپائی اُلٹا دینا۔ چنانچہ صبح کے وقت میں نے اُنہیں جگا دیا، وہ اُٹھ بیٹھے۔ میں نے وضو کرا دیا اور وہ مسجد کی طرف چل پڑے۔ مگر آنکھیں نیند سے بند ہو رہی تھیں۔ وہاں بھی جاکر نیند کی حالت میں ہی اُنہوں نے نماز پڑھی اور جب سلام پھیر کر واپس آنے لگے تو اُسی نیند کی حالت میں بجائے اپناجوتا پہننے کے کسی اور شخص کا نہایت پھٹا پرانا جوتاپہن کر چل پڑے۔ راستہ میں کسی نے دیکھا تو پوچھا نواب صاحب آپ کے پاوٴں میں کس کا جوتا ہے؟ اِس پر اُنہوں نے آنکھیں کھولیں اور جوتا دیکھ کر گھبرا گئے اور نوکر سے کہنے لگے جلدی سے یہ جوتا مسجد میں لے جاوٴ اور وہیں جاکر رکھ دو کہیں اس جوتے کا مالک مجھے چور نہ سمجھ لے۔

اس کے بعد کچھ پتہ نہیں چلا کہ انہوں نے نماز قائم رکھی یا نہیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ338-340)

قابل قدر اخلاص اور جذبہ تبلیغ

1934ء میں جب میں نے یہ تحریک کی اور اعلان کیا کہ نوجوانوں کو غیرممالک میں نکل جانا چاہئے تو یہ نوجوان جو غالباً دینیات کی متفرق کلاس میں پڑھتا تھا اور عدالت خان اِس کا نام تھا، تحصیل خوشاب ضلع شاہ پور کا رہنے والا تھا، میری اِس تحریک پر بغیر اطلاع دیئے کہیں چلا گیا۔ قادیان کے لوگوں نے خیال کر لیا کہ جس طرح طالب علم بعض دفعہ پڑھائی سے دل برداشتہ ہو کر بھاگ جایا کرتے ہیں اِسی طرح وہ بھی بھاگ گیا ہے۔ مگر دراصل وہ میری اِس تحریک پر ہی باہر گیا تھا مگر اس کا اس نے کسی سے ذکر تک نہ کیا۔

چونکہ ہمارے ہاں عام طور پر صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید اور دوسرے شہداءکا ذکر ہوتا رہتا ہے اِس لئے اُسے یہی خیال آیا کہ میں بھی افغانستان جاوٴں اور لوگوں کو تبلیغ کروں۔ اُسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ غیر ملک میں جانے کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اُسے پاسپورٹ مہیا کرنے کے ذرائع کا علم تھا۔ وہ بغیر پاسپورٹ لئے نکل کھڑا ہوا اور افغانستان کی طرف چل پڑا۔ جب افغانستان میں داخل ہوا تو چونکہ وہ بغیر پاسپورٹ کے تھا اس لئے حکومت نے اُسے گرفتار کر لیا اور پوچھا کہ پاسپورٹ کہاں ہے؟ اُس نے کہا کہ پاسپورٹ تو میرے پاس کوئی نہیں۔ انہوں نے اسے قید کر دیا مگر جیل خانہ میں بھی اُس نے قیدیوں کو تبلیغ کرنی شروع کر دی۔ کوئی مہینہ بھر ہی وہاں رہا ہوگا کہ افسروں نے رپورٹ کی کہ اسے رہا کر دینا چاہئے ورنہ یہ قیدیوں کو احمدی بنا لے گا۔ چنانچہ انہوں نے اس کو ہندوستان کی سرحد پر لاکر چھوڑ دیا۔ جب وہ واپس آیا تو اُس نے مجھے اطلاع دی کہ میں آپ کی تحریک پر افغانستان گیا تھا اور وہاں میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ اب آپ بتائیں کہ مَیں کیا کروں؟

میں نے اُسے کہا کہ تم چین میں چلے جاوٴ۔ چنانچہ وہ چین گیا اور چلتے وقت اُس نے ایک اَور لڑکے کو بھی جس کانام محمدرفیق ہے اور ضلع ہوشیارپور کا رہنے والا ہے تحریک کی کہ وہ ساتھ چلے۔ چنانچہ وہ بھی ساتھ تیار ہو گیا۔ اُس کے چونکہ رشتہ دار موجود تھے اور بعض ذرائع بھی اسے میسر تھے اِس لئے اُس نے کوشش کی اور اسے پاسپورٹ مل گیا۔

جس وقت یہ دونوں کشمیر پہنچے تو محمد رفیق تو آگے چلا گیا مگر عدالت خاں کو پاسپورٹ کی وجہ سے روک لیا گیا اور بعد میں گاوٴں والوں کی مخالفت اور راہ داری کی تصدیق نہ ہو سکنے کی وجہ سے وہ کشمیر میں ہی رہ گیا اور وہاں اِس انتظار میں بیٹھ رہا کہ اگرمجھے موقع ملے تو میں نظر بچا کر چین چلا جاوٴں گا مگر چونکہ سردیوں کا موسم تھا اور سامان اُس کے پاس بہت کم تھا اِس لئے کشمیر میں اسے ڈبل نمونیہ ہو گیا اور دو دن بعد فوت ہوگیا۔

ابھی کشمیر سے چند دوست آئے ہوئے تھے اُنہوں نے عدالت خاں کا ایک عجیب واقعہ سنایا جسے سن کر رشک پیدا ہوتا ہے کہ احمدیت کی صداقت کے متعلق اسے کتنا یقین اور وثوق تھا۔

وہ ایک گاوٴں میں بیمار ہوا تھا جہاں کوئی علاج میسر نہ تھا۔ جب اس کی حالت بالکل خراب ہو گئی تو اُن دوستوں نے سنایا کہ وہ ہمیں کہنے لگا کسی غیر احمدی کو تیار کرو جو احمدیت کی صداقت کے متعلق مجھ سے مباہلہ کر لے۔ اگر کوئی ایسا غیر احمدی تمہیں مل گیا تو مَیں بچ جاوٴں گا اور اُسے تبلیغ بھی ہو جائے گی ورنہ میرے بچنے کی اور کوئی صورت نہیں۔

شدید بیماری کی حالت میں یہ یقین اور وثوق بہت ہی کم لوگوں کو میسر ہوتا ہے کیونکہ ننانوے فیصدی اِس بیماری سے مر جاتے ہیں اور بعض تو چند گھنٹوں کے اندر ہی وفات پاجاتے ہیں۔

ہماری مسجد مبارک کا ہی ایک مؤذن تھا وہ عصر کے وقت بیمار ہوا اور شام کے وقت فوت ہوگیا۔ ایسی خطرناک حالت میں جبکہ اُس کی موت کا ننانوے فیصدی یقین کیا جاسکتا تھا اُس نے اپنا علاج یہی سمجھا کہ کسی غیر احمدی سے مباہلہ ہو جائے اور اُس نے کہا کہ اگر مباہلہ ہو گیا تو یقیناً خدا مجھے شفا دے دے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ میں اِس مرض سے مر جاوٴں۔

بہرحال اِس واقعہ سے اُس کا اخلاص ظاہر ہے۔ اِسی طرح اُس کی دوراندیشی بھی ثابت ہے کیونکہ اُس نے ایک اَور نوجوان کو خود ہی تحریک کی کہ میرے ساتھ چلو اور وہ تیار ہو گیا۔

اِس طرح گو عدالت خاں فوت ہو گیا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کے بیج کو ضائع نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے شخص نے جسے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا احمدیت کے جھنڈے کو پکڑ کر آگے بڑھنا شروع کر دیا اور مشرقی شہر کاشغر میں پہنچ گیا اور وہاں تبلیغ شروع کر دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے ایک دوست کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما دی۔ حاجی جنود اللہ صاحب اُن کا نام ہے۔ وہ اِسی تبلیغ کے نتیجہ میں قادیان آئے اور تحقیق کرکے احمدیت میں شامل ہوگئے۔ پھر کچھ عرصہ بعد حاجی جنود اللہ صاحب کی والدہ اور ہمشیرہ بھی احمدی ہو گئیں اور اب تو وہ قادیان ہی آئے ہوئے ہیں۔

تو عدالت خاں کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکہ احمدیت کو اس علاقہ میں پھیلانے کاموجب بن گئی۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس میں احمدیت کی اشاعت کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایسے ایسے خطرناک اور دشوار گزار رستے ہیں کہ اُن کو عبور کرنا ہی بڑی ہمت کا کام ہے۔ حاجی جنود اللہ صاحب کی والدہ نے بتایا کہ رستہ میں ایک مقام پر وہ تین دن تک برف پر گھٹنوں کے بل چلتی رہیں۔

ایسے سخت رستوں کو عبور کرکے ہماری جماعت کے ایک نوجوان کا اُس علاقہ میں پہنچنا اور لوگوں کو تبلیغ کرنا بہت بڑی خوشی کی بات ہے۔

تو تحریک جدید کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے عدالت خاں کو پہلے یہ توفیق دی کہ وہ افغانستان جائے چنانچہ وہ افغانستان میں کچھ عرصہ رہا اور جب وہ واپس آیا تو میری تحریک پر وہ چین کے لئے روانہ ہوگیا اور خود ہی ایک اور نوجوان کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ راستہ میں عدالت خاں کو خداتعالیٰ نے شہادت کی موت دے دی مگر اُس کے دوسرے ساتھی کو اس امر کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ آگے بڑھے اور مشرقی ترکستان میں جماعت احمدیہ قائم کر دے۔

یہ دو واقعاتِ شہادت بتاتے ہیں کہ گو یہ اپنی جدوجہد میں کامیاب نہیں ہوئے مگر اِن کی کوششیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول تھیں۔ چنانچہ اِن دو آدمیوں میں سے ایک کو تو اللہ تعالیٰ نے عملی رنگ میں شہادت دے دی اور دوسرے کی وفات ایسے رنگ میں ہوئی جو شہادت کے ہمرنگ ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ367-369)

عہدے کی اصل غرض

گبن جو ایک مشہور مؤرخ ہے، اُس نے روم کی ترقی و تنزّل کے حالات کے متعلق ایک تاریخی کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں وہ ایک مسلمان بادشاہ کا ذکر کرتا ہے جس کی اٹھارہ سال کی عمر تھی، اُس کا باپ فوت ہو گیا تھا اور وہ اُس کی جگہ بادشاہ بنا دیا گیا تھا۔ جب وہ بادشاہ بنا تو اُس کے چچا اور دوسرے بھائیوں نے بغاوت کر دی اور اس قدر شورش پیدا کر دی کہ اس کی حکومت چاروں طرف سے خطرات میں گھر گئی۔

اس بادشاہ کا ایک وزیر تھا جس کا نام نظام الدین طوسی تھا۔ نظام الدین طوسی علمی دُنیا میں ایسی شہرت رکھتا تھا جیسے سیاسی دُنیا میں سکندر اور نیپولین شہرت رکھتے ہیں۔ تمام اسلامی مدارس جو آجکل مشرقی دُنیا میں جاری ہیں اِسی کی نقل میںجاری ہیں کیونکہ سب سے پہلے اِسی نے ان مدرسوں کا طریق ایجاد کیا تھا۔ وہ نظام الدین طوسی مذہب کے لحاظ سے شیعہ تھا۔

جب بغاوت زیادہ بڑھ گئی تو اُس نے بادشاہ کو تحریک کی کہ حضرت موسیٰ رضا کے مقبرہ پر جا کر کامیابی کے لئے دعا کی جائے۔ اِس کی غرض یہ تھی کہ اگر بادشاہ کو کامیابی حاصل ہو گئی تو یہ بھی شیعہ ہو جائے گا۔ گبن لکھتا ہے کہ نظام الدین طوسی کی اِس تحریک پر نوجوان بادشاہ موسیٰ رضا کے مقبرہ پر گیا اور وہاں دونوں نے دعا کی۔

جب وہ دعاسے فارغ ہو گئے تو بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ میں نے بھی دعا کی ہے اور آپ نے بھی دعا کی ہے، کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ آپ نے کیا دعا کی ہے؟

نظام الدین طوسی نے کہا میں نے یہ دعا کی ہے کہ خدایا تُو ہمارے بادشاہ کو فتح دے اور اِس کے دشمنوں کو شکست دے۔ بادشاہ نے کہا میں نے تو یہ دعا نہیں کی۔ نظام الدین نے پوچھا پھر آپ نے کیا دعا کی ہے؟

بادشاہ نے کہا میں نے یہ دعا کی ہے کہ اے خدا! بادشاہت تیری ایک امانت ہے جو بندوں کے سپرد کی جاتی ہے اور یہ ایک بوجھ ہے جو ان کے کندھوں پر تیری طرف سے ڈالا جاتا ہے اِس عہدے کی صرف ایک ہی غرض ہے اور وہ یہ کہ ملک اور رعایا کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور ان کے لئے ترقی کے زیادہ سے زیادہ مواقع بہم پہنچائے جائیں۔ مگر اے میرے رب! مجھے معلوم نہیں کہ میں اس عہدہ کے قابل ہوں یا میرا چچا اور میرے بھائی اِس عہدے کے لئے مجھ سے زیادہ موزوں ہیں، میں حالات سے بالکل ناواقف ہوں اور میں غیب کی کوئی بات نہیں جانتا، پس میں تجھ سے نہایت عاجزانہ طور پر التجا کرتا ہوں کہ اگر تیرے نزدیک میں ہی اس عہدے کے زیادہ قابل ہوں تو کل کی جنگ میں مجھے فتح دیجیو اور اگر میری فتح میرے ملک اور میری قوم کے لئے نقصان رساں ہے اور میرا چچا اور میرے بھائی مجھ سے زیادہ قابل اور زیادہ موزوں ہیں تو اے خدا! کل مجھے موت دیجیو اور میرے چچا اور میرے بھائیوں کو فتح دیجیو تاکہ ملک کا بھلا ہو اور وہ بادشاہت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکے۔

گبن ایک عیسائی مؤرخ اور نہایت ہی متعصب مؤرخ ہے مگر وہ اس عظیم الشان واقعہ سے اِس قدر شدید طور پر متأثر ہوا ہے کہ بے اختیار ہو کر اس مقام پر لکھتا ہے کہ مسلمان بے شک کافر ہیں اور ہماری قوم ان کی بُرائیاں بیان کرتی ہے اور میں بھی انہیں بُرا ہی سمجھتا ہوں مگر میں عیسائی دُنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ کیا تم سارے مل کر بھی وہ نمونہ پیش کر سکتے ہو جو ایک مسلمان نوجوان نے دُنیا کے سامنے پیش کیا۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ378-379)

خدمت دین کی برکت

میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے سُنا ہے کہ ایک دفعہ تیمور یا محمود غزنوی کو ایک جنگ میں شکست ہونے لگی تو اُس نے دعا کی کہ خدایا! میں تو اسلام کی خدمت کے لئے لڑ رہا تھا اور میری نیت کاتجھے علم ہے، اگر میں اپنی بڑائی یا اپنی حکومت کی توسیع کے لئے جنگ کرتا تو اور بات تھی مگر میری نیت تو تیرے دین کی خدمت ہے اور اب میری شکست کا اثر صرف مجھ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ تیرے دین تک بھی پہنچے گا پس تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ یہ شکست فتح سے بدل جائے۔

اللہ تعالیٰ نے اُس کی اِس دعا کو قبول کیا اور معاً ایسے سامان پیداہو گئے کہ دشمن نے غلطی سے یہ سمجھ کر کہ یہ مقابل کی فوج ہے، اپنے اُسی دستہ پر حملہ کر دیا جو مسلمانوں کی فوج کو شکست دیتا چلا جا رہا تھا اور اِس طرح مسلمانوں کی شکست فتح میں تبدیل ہو گئی۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ379-380)

ووٹ ڈال دیا

بعض چھوٹی چھوٹی باتیں بہت بڑا اثر پیدا کردیتی ہیں۔لاہور میں ایک صاحب الیکشن میں کھڑے ہوئے غیر احمدیوں نے فیصلہ کیا کہ کوئی اُس کو ووٹ نہ دے۔ اُنہوں نے ایک احمدی کے متعلق یہ بات بیان کی کہ ایک بوڑھا احمدی باوجود بہت تکلیف اور دِقّت کے ووٹ دینے کے لئے گیا اور اس نے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ ہمارے امام نے ہمیں ووٹ اِس طرف دینے کے لئے کہا ہے۔

اِس بات کا اُس پر اِتنا اثر ہوا کہ سالہا سال بعد بھی جب وہ ملتا تو کہتا کہ اگر کوئی چیز ہے تو یہ ہے حالانکہ یہ ایک معمولی بات تھی۔ لیکن اگر ساری جماعت میں یہی پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے فرائض کو پوری طرح سمجھیں تو اس سے سینکڑوں گنا احمدی ہو جائیں گے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ386)

تقویٰ وروحانیت سے خالی لسان
اور لیکچرار انقلاب پیدا نہیں کر سکتے

یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ دُنیا کی نگاہ میں بڑے ہیں وہ زیادہ مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ یا جو دُنیا کی نگاہ میں چھوٹے ہیں وہ ہمارے کام نہیں آسکتے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب وحی ہوئی کہ جا اور فرعون کو تبلیغ کر تو اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور عذر کیا اور کہا کہ مَیں اچھی طرح بولنا نہیں جانتا، میرے بھائی ہارون کو میرے ساتھ کر دیجئے۔ وہ زیادہ عمدگی سے بولنا جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اِس درخواست پر حضرت ہارون علیہ السلام کو اُن کا نائب تو مقرر کر دیا مگر موسیٰ علیہ السلام کو اپنے فرض سے سبکدوش نہیں کیا بلکہ فرمایا تم ہارون کو ساتھ لے کر فرعون کے پاس جاؤ۔ چنانچہ وہ فرعون کے پاس گئے مگر جب وہاں پہنچے تو بجائے اِس کے کہ وہ اپنے بھائی کو بولنے دیں، تمام باتیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود کیں اور اُنہیں ایک موقع پر بھی یہ ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ حضرت ہارون علیہ السلام اُن کی اعانت کریں حالانکہ وہ خود کہہ چکے تھے کہ ہارون مجھ سے زیادہ اچھا بولتاہے اسے میرے ساتھ کر دیں مگر جب فرعون کے پاس پہنچتے ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام ہارونؑ کو ایک لفظ بھی بولنے نہیں دیتے۔

چنانچہ قرآن کریم میں جو گفتگو بیان ہوئی ہے وہ سب وہی ہے جو حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوئی ہارونؑ کا کہیں ذکربھی نہیں آتا۔ حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام شروع میں کہتے ہیں کہ اے خدا ہارون کو وزیر بنا کر میرے ساتھ بھیج دے کیونکہ وہ بولنا جانتے ہیں مگر میں بولنا نہیں جانتا۔

اِس طرح خدا نے یہ ظاہر کر دیا کہ جس کا انتخاب ہم نے کیا تھا وہی کام کے لئے زیادہ موزوں تھا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بظاہر بولنا نہیں جانتے تھے مگر جب خداتعالیٰ کی تائید اور نصرت کے ساتھ وہ بولے تو اُنہیں اس بات کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی کہ ہارون ان کی مدد کریں۔

تو لسّانی کوئی چیز نہیں، نہ کسی کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا کوئی چیز ہے۔ بڑائی وہی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور بات وہی ہے جو دل پر اثر کرتی ہے۔ ہزاروں لیکچرار دُنیا میں ایسے ہوتے ہیں جن کی زبان نہایت منجھی ہوئی ہوتی ہے مگر جب وہ تقریر کرتے ہیں تو اس کا دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا اورنہ ان کے ذریعہ کسی قسم کا تغیر رونما ہوتا ہے۔

بو علی سینا ایک بہت بڑے حکیم گزرے ہیں۔ طب میں ان کا نہایت اعلیٰ مقام ہے۔ منطق اور فلسفہ کے بھی ماہر تھے اور دین سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ آدمی نیک اور نمازی تھے۔

ایک دفعہ وہ فلسفہ کی باتیں کر رہے تھے کہ ان کا ایک شاگرد ان کی باتوں سے بہت متأثر ہوا اور کہنے لگا حضرت آپ تو نبی ہیں اور آپ کی نبوت میں کسی قسم کا شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں اس کی یہ بات بہت بُری محسوس ہوئی اور اُنہوں نے کہا کہ تم کیسی احمقانہ باتیں کرتے ہو۔ مجھے نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں اور نہ مجھے نبی کہنا جائز ہے۔ وہ کہنے لگا آپ خواہ دعوےٰ کریں یانہ کریں واقعہ یہی ہے کہ آپ نبی ہیں کیونکہ اِس قسم کی باتیں سوائے نبی کے اورکوئی نہیں کر سکتا۔ خیر وہ خاموش رہے۔

کچھ دنوں کے بعد سردی کا موسم شروع ہو گیا۔ جس علاقہ میں وہ اُس وقت تھے وہ یوں بھی سرد تھا۔ مگر جب سردی بہت زیادہ تیز ہو گئی تو حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ پانی بھی جم گیا۔

ایک دن وہ ایک حوض کے کنارے بیٹھے تھے سخت سردی پڑ رہی تھی اور پانی جم کربرف بنا ہوا تھا کہ اُنہوں نے اپنے اسی شاگرد سے کہا کہ میاں کپڑے اُتارو اور اس حوض میں کود جاؤ۔ پہلے تو اس نے سمجھا کہ یہ مجھ سے مذاق کررہے ہیں چنانچہ کہنے لگا اِس حوض میں اگر کوئی کودے تووہ یقینا مر جائے، آپ مجھے مارنا چاہتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا پھر کیا ہوا، میں جوکہتا ہوں کہ کود جاؤ۔ وہ پھر کہنے لگا میں اس حوض میں کس طرح کود سکتا ہوں،اس میں کودوں توفوراً مر جاؤں۔ وہ کہنے لگے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اس حوض میں کود جاؤ۔ جب اس نے سمجھا کہ یہ سچ مچ مجھےکودنے کاحکم دے رہے ہیں تووہ حیرت سے ان کامنہ دیکھنے لگ گیا اورکہنے لگا کہ کیا آپ پاگل ہو گئے ہیں؟

بوعلی سینا کہنے لگے کہ نالائق تجھے وہ بات بھول گئی کہ تو نے مجھے کہا تھا کہ آپ تو نبی ہیں۔ ارے! تو تو اِس حوض میں کودنے کے لئے تیار نہیں حالانکہ مجھے نبی کہہ چکا ہے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی وہ تھے جو ہزاروں کی تعداد میں موت کے حوض میں کود گئے اور اُنہوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ ان کا کیا انجام ہو گا۔

تو بو علی سینا ممکن ہے فنِّ لیکچراری میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھے ہوئے ہوں، اِسی طرح موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھے ہوئے ہوں اور بو علی سینا پر ہی کیا منحصر ہے، دُنیا میں ہزاروں لسّان ہیں، ہزاروں کامیاب لیکچرار ہیں، ہزاروں ایسے ہیں جو باتیں کرتے وقت تمام مجلس پر چھا جاتے ہیں مگر کیا اُنہوں نے دُنیا میں کبھی کوئی تغیر پیدا کیا؟ اور کیا ان کے ذریعہ کبھی کوئی سچی قوم بھی پیدا ہوئی؟

دُنیا میں ایسے لوگوں کے ذریعہ کبھی کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا۔ اِس وجہ سے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں دل سے نہیں کہتے۔ اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے رسول اور ان کے خلفاء اور ان رسولوں کے سچے تابعین جوکچھ کہتے ہیں اپنے دل سے کہتے ہیں اور جب ان کی زبان پر الفاظ جاری ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی ان کا دل غم سے پگھل رہا ہوتا ہے اور وہ ہر لفظ کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور یہ دعا بھی کرتے جاتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمارے ان الفاظ کا تو شیریں پھل پیدا کر، ایسا نہ ہو کہ ہم بے مراد اور بے ثمر رہیں۔

اِسی لئے ان کی باتوں میں برکت ہوتی ہے اور جب ان کی زبان سے الفاظ نکل رہے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُن کے ساتھ دوڑتے چلے جاتے ہیں اور وہ کانوں کے راستے ان الفاظ کو لوگوں کے قلوب میں بٹھادیتے ہیں یہاں تک کہ آہستہ آہستہ دُنیا میں ایک نہایت خوشگوار تغیر رونما ہو جاتا ہے۔ مگر اپنے زمانہ میں لوگ ان کے متعلق یہی سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی بڑے خطیب نہیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بعض دفعہ عربوں کے وفد آتے اور وہ آکر کہتے کہ لسّانی میں ہمارا مقابلہ کر لیا جائے۔ گویا وہ خیال کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کایہ دعویٰ ہے کہ میں بڑا لسّان اور ادیب ہوں۔ حالانکہ آپ کا یہ دعوےٰ نہ تھا بلکہ آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ میں خداتعالیٰ کا ایک پیغامبر ہوں۔ پس اِس قسم کے آدمیوں کا جمع ہونا، ان کا مشوروں میں شامل ہونا اور آئندہ کے متعلق ان کا تدابیر سوچنا مفید ثابت نہیں ہوسکتا جو محض لسّان اور لیکچرار ہوں اور جن کے دل تقویٰ و طہارت اور روحانیت سے خالی ہوں۔

بلکہ ایسے ہی لوگ مفید ہو سکتے ہیں جو نیک اور پاک ہوں، اور وہی تدابیر سلسلہ کے لئے مفید ہو سکتی ہیں جن کے ساتھ دل کا خون شامل ہو۔ جن تدابیر کے ساتھ مومن کے دل کا خون شامل نہیں اور جن مشوروں کے ساتھ مومن کی عاجزانہ دعائیں شامل نہیں وہ تدابیر اور مشورے دین کے لئے مفید نہیں ہوسکتے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ436-438)

مہاراج دہلی سے آئے ہیں

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کے دربار میں دہلی کا ایک طبیب آیا اور ان کے وزیر فقیر عزیز الدین سے مل کر اصرار کیا کہ مجھے مہاراجہ کے پیش کر دیا جائے۔

وہ شریف آدمی تھے اِس لئے انکار بھی نہ کر سکتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان کی وزارت طب ہی کی وجہ سے ہے۔ اُنہوں نے اسے مہاراجہ کے پیش تو کر دیا مگر ساتھ کہا کہ مہاراج! یہ دہلی سے آئے ہیں، طب خوب پڑھ چکے ہیں اور حضور کے طفیل اب اِن کو تجربہ بھی ہو جائے گا۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ تھے تو اَن پڑھ مگر ذہین بہت تھے فوراً سمجھ گئے اور کہا کہ تجربہ کے لئے غریب رنجیت سنگھ کی جان ہی نظر آتی ہے؟ اسے کچھ انعام دیا اور رخصت کردیا۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ441)

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے اندر قناعت پیدا کرو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2022