• 17 مئی, 2024

اسلامی سال کا پانچواں قمری مہینہ جُمادی الاولیٰ

اسلامی سال کا پانچواں قمری مہینہ
جُمادی الاولیٰ

اسلامی سال کا پانچواں قمری مہینہ ’’جُمادی الاولیٰ‘‘ ہے۔ علماء نے اس مہینہ کے نام ’’جُمادی‘‘ کو موٴنث قرار دیا ہے اور ان کے بقول تمام مہینوں کے نام مذکر ہیں سوائے جمادیان یعنی جمادی الاولیٰ اور جمادی الآخرة کے۔ علامہ ابو زکریا یحی بن زیاد الفراء لکھتے ہیں کہ ’’جُمادی الاولیٰ اور جُمادی الآخرة دونوں کا نام مؤنث ہے کیونکہ ’’جُمادی‘‘ ’’فُعالیٰ‘‘ کے وزن پر ہے اور ’’فُعالیٰ‘‘ مؤنث ہوتا ہے۔ اس لیے ان دونوں مہینوں کو جمادی الاولیٰ اور جمادی الآخرة کہا جاتا ہے۔‘‘

(الایام واللیالی للفراء صفحہ42)

علامہ جلال الدین سیوطی اور شیخ ابو العباس احمد قلشقندی کا بھی یہی قول ہے۔

(الشماریخ فی علم التاریخ للسیوطی صفحہ29)

علامہ فراءلکھتے ہیں کہ ’’اگر آپ نے جمادی کا نام بطور مذکر کہیں کسی شعر میں سناہو تو وہ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ جمادی کو ’’شھر‘‘ یعنی مہینہ کی طرف لوٹایا جائے اور اس کے لفظی معنی کو چھوڑدیا گیا ہو۔‘‘

(الایام واللیالی للفراء صفحہ42)

جمادی الاولیٰ کی لغوی بحث

جمادی کا لفظ ’’جَمَدَ‘‘ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ہیں جم جانا، رک جانا، حرکت نہ کرنا وغیرہ۔ اسی طرح ’’جَمَدَ‘‘ کے معنی سکون، قحط، قلت اشیاء، بخل اور خشکی اورسختی کے بھی ہیں۔ ’’سنة جامدة‘‘ وہ سال ہوتا ہے جس میں کوئی بارش اور روئیدگی نہ ہوئی ہو۔ ’’ارض جماد‘‘ اس زمین کو کہتے ہیں جو سخت ہو، نہ اس میں بارش ہو اورنہ ہی اس میں کوئی چیز اگے۔

’’شاةجماد‘‘ یا ’’ناقة جماد‘‘ سے مراد ایسی بکری یا اونٹنی ہے جس میں دودھ نہ ہو۔ امام کسائی کہتے ہیں کہ ’’ظلت العین جمادی‘‘ یعنی ’’جامدة لا تدمع‘‘ ایسی آنکھ جو ساکن ہو اور آنسو نہ بہاتی ہو۔ ’’عین جمود‘‘ کے معنی ہیں ایسی آنکھ جس میں آنسو نہ ہو یعنی خشک ہو۔

اگر کسی شخص کے لیے ’’جامد‘‘ کا لفظ استعمال ہوتو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص کوئی کام کرنے سے رک گیا اور اس میں بخل کرنے لگا۔ بخیل کےلیے ’’جامد‘‘ یا ’’جماد‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

(تاج العروس زیر لفظ جمد جزء7 صفحہ 519)

جمادی کی تثنیہ جمادیان اور جمع جمادیات ہے۔

جمادی الاولیٰ کی وجہ تسمیہ

اس مہینہ کا نام شدیدسردی کے موسم میں رکھا گیا جب پانی جم کر برف بنا ہوا تھا۔ اس لیے یہ مہینہ ’’جُمادی‘‘ کے نام سے موسوم ہوا۔ ایام جاہلیت میں جمادی الاولیٰ کو جمادی خمسة کہا جاتا تھا۔یہ بھی کہا جاتا ہےکہ عرب میں سردیوں میں پانی جمنے کی مدت زیادہ تھی اس لیے اہل عرب دو مہینوں کو جمادی کے نام سے پکارتے تھے۔ اس طرح وہ سال کے پانچویں مہینہ کو ’’جمادی خمسة‘‘ اور چھٹے مہینے کو ’’جمادی ستة‘‘ کہہ کر تفریق کرتے تھے۔ اسلام میں ان دو مہینوں کو جمادی الاولیٰ اور جمادی الآخرة یا جمادی الاخریٰ کہا جاتا ہے۔

جمادی الاولیٰ کے دیگر نام

قبل از اسلام اس مہینہ کو ’’حَنین‘‘ اور ’’حُنین‘‘ بھی کہا جاتا تھا جس کی تثنیہ ’’حَنینان‘‘ یا ’’حُنینان‘‘ اور جمع ’’حنائن‘‘ ہے۔

(الایام واللیالی صفحہ51)

اور اس کو حنین اس لیے کہا جاتا تھا کہ ربیع الاول اور ربیع الثانی میں گھروں میں قیام اور کھانے پینے سے لطف اندوز ہونے کے بعد جب اہل عرب سفر پر نکلتے تھے تو وہ اپنے گھروں میں قیام کے وقت کو یاد کرتے تھے اور ان میں اس عرصہ قیام کے طویل ہونے کی شدید خواہش پیدا ہوتی تھی اور وہ اپنے وطن کےلیے تڑپتے تھے۔

(صبح الأعشی فی صناعة الانشاء جزء2 صفحہ405)

اسی طرح جمادی الاولیٰ کو ’’رُبّی‘‘ بھی کہاجاتا تھا۔

(لسان العرب جزء4 صفحہ34)

مؤرخین کے نزدیک قوم ثمود جمادی الاولیٰ کو ’’مُصْدِرٌ‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔

(لسان العرب جزء4 صفحہ450)

اسی طرح اس مہینہ کو زمانہ جاہلیت میں ’’شیبان‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔

(تاج العروس جزء7 صفحہ147)

جمادی الاولیٰ کی فضیلت کا بیان

ماہ جمادی الاولیٰ کے بارہ میں قرآن و سنت میں کوئی خاص فضیلت بیان نہیں ہوئی۔ بعض توہم پرست یہ سمجھتے ہیں کہ جمادی الاولیٰ میں عظیم حوادث رونما ہوئے یہاں تک کہ ایسے لوگ یہ کہتے ہیں ’’العجب کل العجب بین جمادی و رجب‘‘ یعنی حیران کن بات ہے کہ تمام عجیب و غریب واقعات جمادی الاولیٰ اور رجب کے درمیان ہی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ فاسد گمان ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں۔

ماہ جمادی الاولیٰ کے اہم تاریخی واقعات

عہد نبویؐ، عہد خلفائے راشدین اور اسلامی تاریخ میں ماہ جمادی الاولیٰ میں کئی اہم تاریخی واقعات ہوئے۔جن میں سے بعض یہ ہیں:

ابن اسحاق کے نزدیک غزوہ ذات الرقاع جمادی الاولیٰ4ہجری میں ہوا جبکہ صاحب الروضة کے نزدیک یہ غزوہ محرم 5ہجری میں ہوا۔ واللّٰہ اعلم

غزوہ بنوسلیم 6؍جمادی الاولیٰ 3ہجری کو ہوا۔ نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن عثمانؓ بن عفان جو حضرت رقیہؓ بنت رسولؐ کے بطن سے ہوئے،6سال کی عمر میں جمادی الاولیٰ 4 ہجری کو وفات پاگئے۔

سریہ حضرت زید بن حارثہؓ ازطرف عیص اور بنی ثعلبہ جمادی الاولیٰ6 ہجری کو ہوا۔ ایک قول کے مطابق غزوہ بنی لحیان جمادی الاولیٰ6 ہجری میں ہوا۔

طبقات الکبریٰ لابن سعد کے مطابق غزوہ خیبر جمادی الاولیٰ 7ہجری میں ہوا۔ جبکہ علامہ طبری کے نزدیک یہ محرم کے آخری ایام میں اور علامہ ابن اسحاق کے نزدیک ماہ صفر میں ہوا۔

غزوہ موتہ جمادی الاولیٰ 8 ہجری کو ہوا۔غزوہ موتہ میں حضرت زیدؓ کی شہادت جمادی الاولیٰ 8 ہجری کو ہوئی۔حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کی شہادت بھی جمادی الاولیٰ 8ہجری میں غزوہ موتہ میں ہوئی۔

ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق کسریٰ کا قتل اس کے بیٹے کے ہاتھوں 10؍جمادی الاولیٰ 9 ہجری میں ہوا۔

جمادی الاولیٰ 10ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالدؓ بن ولید کو بنی حارث بن کعب کی طرف نجران بھجوایا۔

عہد صدیقیؓ میں جنگ اجنادین جمادی الاولیٰ 13؍ ہجری میں ہوئی۔اسی طرح واقعہ مرج الصفر بھی جمادی الاولیٰ 13ہجری میں ہوا۔

عہد فاروقیؓ میں فتح ہمدان جمادی الاولیٰ 23 ہجری میں ہوئی۔

جمادی الاولیٰ 36ہجری میں حواریٔ رسولؐ حضرت زبیرؓ بن عوام کی شہادت ہوئی۔

واقعہ عین وردة65 ہجری میں ہوا۔

حضرت مصعب بن زبیر کی شہادت 13؍جمادی الاولیٰ71 ہجری اور بعض کے نزدیک 72ہجری میں ہوئی۔ اور 17 جمادی الاولیٰ73 ہجری میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی شہادت ہوئی۔ حضرت اسماء بنت حضرت ابوبکرؓ کی وفات بھی اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی شہادت کے کچھ دنوں بعد جمادی الاولیٰ 73 ہجری میں ہوگئی۔

13؍جمادی الاولیٰ 86ہجری کو عبدالعزیز بن مروان بن حکم کی مصر میں وفات ہوئی۔

جمادی الاولیٰ 460ہجری میں فلسطین میں شدید زلزلہ آیا جس سے بہت تباہی ہوئی۔

21؍جمادی الاولیٰ 857ہجری کو فتح قسطنطنیہ ہوئی جس کی فتح کی بشارت رسول اللہﷺ نے عطا فرمائی تھی۔

(ان تمام واقعات کی تواریخ کے مآخذ الطبقات الکبریٰ لابن سعد،فتح الباری، تفسیر ابن کثیر، البدایة والنھایة اور المنتظم فی تاریخ الملوک والامم وغیرہ ہیں۔)

(ابو فاضل بشارت)

پچھلا پڑھیں

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے اندر قناعت پیدا کرو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2022