• 15 مئی, 2024

اپنے جائزے لیں (قسط 12۔ حصہ اول)

اپنے جائزے لیں
ازارشادات خطبات مسرور جلد12
قسط 12۔ حصہ اول

ہر احمدی کو اپنا جائزہ لیتے ہوئے
اپنی اصلاح کی بھی ضرورت ہے

’’مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ ہمارا نظامِ جماعت، ہمارے عہدیدار، ہماری ذیلی تنظیمیں ان عملی کمزوریوں کو دُور کرنے کا ذریعہ بنیں۔ لیکن اگر خود ہی یہ لوگ جن کی قوتِ ارادی میں کمی ہے، ان عہدیداروں کے بھی اور باقی لوگوں کے بھی علم میں کمی ہے، عملی کمزوری ہے تو وہ کسی کا سہارا کس طرح بن سکیں گے۔ پس جماعتی ترقی کے لئے نظام کے ہر حصے کو، بلکہ ہر احمدی کو اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھی ضرورت ہے اور اپنے دوستوں اور قریبیوں کا سہارا بننے کی ضرورت ہے جو کمزوریوں میں مبتلا ہیں تا کہ جماعت کا ہر فرد عملی اصلاح کے اعلیٰ معیاروں کو چھونے والا بن جائے اور اس لحاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ41)

اللہ تعالیٰ کے پیار کے سلوک کے معیار
کے جائزے لینے کی ضرورت ہے

’’ہمیں اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے اور جائزے کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں یہ شوق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ رمضان میں ایک مہینہ نہیں یا ایک مرتبہ اعتکاف بیٹھ کر پھر سارا سال یا کئی سال اس کا اظہار کر کے نہیں بلکہ مستقل مزاجی سے اس شوق اور لگن کو اپنے اوپر لاگو کر کے، تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب مستقل طور پر حاصل ہو،ہم میں سے کتنے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ پیار کا سلوک کرتے ہوئے دعاؤں کے قبولیت کے نشان دکھاتا ہے، اُن سے بولتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر یہ معیار حاصل کرنا یا حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر احمدی کا فرض ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ45-46)

ایمانی قوت اپنے اندر رکھنے کے جائزے لیں

’’جب ہم گہرائی میں جائزہ لیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ دنیا میں ایک طبقہ ایساہے جو ایمانی قوت اپنے اندر نہیں رکھتا۔ یعنی وہ معیار نہیں رکھتا جو اصلاحِ عمل کے لئے ایک انسان میں ہونا ضروری ہے۔ ایسے لوگوں کے دلوں میں اگر قوتِ ایمانیہ بھر دی جائے تو ان کے اعمال درست ہو جاتے ہیں اور ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو عدمِ علم کی وجہ سے گناہوں کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے لئے صحیح علم کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک طبقہ جو نیک اعمال بجا لانے کے لئے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ تین قسم کے لوگ ہیں اور اس کی احتیاج جو ہے وہ دو طرح سے پوری کی جاتی ہے۔ یا اُس کی بیرونی مدد دو طرح سے ہو گی۔ ایک تو نگرانی کر کے، جس کی میں نے ابھی تفصیل بیان کی ہے کہ نگرانی کی جائے تو بدیاں چھوٹ جاتی ہیں اور نیکیوں کی طرف توجہ پیداہو جاتی ہے لیکن وہ طبقہ جو بالکل ہی گرا ہوا ہو، جو نگرانی سے بھی باز آنے والا نہ ہو، اُسے جب تک سزا نہ دی جائے ا س کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ61)

قول و فعل کے تضاد کو
اپنے اندر ختم کرنے کے جائزے لیں

’’بیشک وفاتِ مسیح، ختمِ نبوت یا جو دوسرے مسائل ہیں جن کا اعتقاد سے تعلق ہے اُن کا علم ہونا تو بہت ضروری ہے اور ان پر دلیل کے ساتھ قائم رہنا بھی ضروری ہے، بغیر دلیل کے نہیں، لیکن عملی اصلاح کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہو گا اور اس کے لئے وہ ذرائع اپنانے ہوں گے جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دکھائے۔ ہمیں اپنے قول و فعل کے تضاد کو ختم کرنا ہو گا۔ جو ہم دوسروں کو کہیں اُس کے بارے میں اپنے بھی جائزے لیں کہ کس حد تک ہم اس پر عمل کر رہے ہیں۔

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ64)

معلمین، مبلغین اور مربیان
یہ دیکھیں کہ انہوں نے دلوں میں
ایمان پیدا کرنے کی کتنی کوشش کی ہے

’’وہ زمانہ جو ان شاء اللّٰہ تعالیٰ آئندہ احمدیت کی ترقی کا آنے والا ہے، اس کی تیاری کے لئے مربیان بننے والے، مبلغین بننے والے اپنے آپ کو بہت زیادہ تیار کریں۔ کوئی معمولی کام نہیں جو اُن کے سپرد ہونے والا ہے۔ ابھی سے خدا تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا کریں اوراس کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو نشانات ہمیں دکھائے، اسلام کی جو حقیقی تعلیم دوبارہ کھول کر واضح فرمائی، اُسے سامنے رکھیں۔ صرف مسائل کو یاد کرنے تک ہی اپنے آپ کو محدود نہ رکھیں۔ مجھے قادیان سے کسی عالم نے لکھا کہ آجکل کھلے جلسے جو مخالفین کے جواب دینے کے لئے پہلے ہندوستان میں منعقد ہوتے تھے، اب نہیں ہوتے، ہم اُن جلسوں میں ایسے تابڑ توڑ حملے مخالف علماء پر کرتے تھے کہ ایک کے بعد دوسرے حملے نے اُنہیں زِچ کر دیا تھا۔ ٹھیک ہے یہ اچھی بات ہے کہ کرتے تھے۔ مخالفین کے جواب دینے چاہئیں، بلکہ دلائل کے ساتھ اُن کی باتوں کے ردّ اُن پر ہی پھینکنے چاہئیں لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور ضروری ہے کہ ہمارے معلمین اور مبلغین اور مربیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اپنی روحانی حالت میں بھی وہ ترقی کرتے کہ ہر ایک کا وجود خود ایک نشان بن جاتا۔ اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے بلکہ وہ ترقی کریں کہ خود ایک نشان بن جائے اور اسی نمونے کو دیکھ کر لوگ جماعت میں داخل ہوں۔ بعض دفعہ نمونے دیکھ کر داخل ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ معیار پیدا نہیں ہوا۔ اسی لئے ہندوستان میں بہت سے معلمین کو فارغ کرنا پڑا۔ لگتا تھا کہ بعض پر دنیا داری غالب آ گئی ہے۔ پس یہ خط لکھنے والے بھی اور ہم میں سے ہر ایک اپنے جائزے لے کہ اُس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ معلمین، مبلغین یہ دیکھیں کہ انہوں نے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کی کتنی کوشش کی ہے۔ خشک دلائل سے لوگوں کے دلوں پر اثر ڈالنے اور غیر احمدی مولویوں کو دوڑانے پر ہی ہمیں اکتفا نہیں کر لینا چاہئے اور اسی پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ ہمارے پاس جو خدا تعالیٰ کے زندہ نشانات اور معجزات ہیں، اُس سے خدا تعالیٰ کی ہستی دنیا کو دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے، اُس سے لوگوں کے دلوں کو قائل کریں۔

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ64-65)

ہر فردِ جماعت کو اپنے جائزے لے کر
اصلاح کرنے کی ضرورت ہے

’’جہاں مربیان کو اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے وہاں ہر فردِ جماعت کو اپنے جائزے لے کر اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ سب سے بڑا ہتھیار دعا کا ہے جس کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے صحیح استعمال اور اس سے صحیح فائدہ اُٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایمان میں ترقی کرو اور میں نے جو نیک اعمال بجا لانے کے لئے لائحہ عمل دیا ہے اُس پر عمل کرو۔ پس یہ عمل اور دعا اور دعا اور عمل ساتھ ساتھ چلیں گے تو حقیقی اصلاح ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے حصول کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ68-69)

اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کتنے ہیں جو ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرتے ہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’پس یہ درد ہے جس نے آپ کو بے چین کر دیا تھا۔ مختلف وقتوں میں آپ نے جماعت کو نصائح فرمائیں کہ احمدی کو کیسا ہونا چاہئے۔ دوسری کتابوں کے علاوہ ملفوظات جو آپ کی مجالس کی مختصراً رپورٹس ہوتی تھیں، تفصیلی نہیں، اُس کی بھی دس جلدیں ہیں اور ان دسوں میں سے کسی جلد کو بھی آپ لے لیں،اس میں آپ نے جماعت سے توقعات اور جماعت کو نصائح، عملی حالتوں کی تبدیلی کا یہ مضمون مختلف حوالوں اور مختلف زاویوں سے ہر جگہ، ہر مجلس میں بیان فرمایا ہوا ہے۔ ان میں سے چند ایک اس وقت میں پیش کرتا ہوں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجودِ و احد رکھوورنہ ہوا نکل جائے گی۔ نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔ برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی۔ اگر اختلاف ہو، اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دُعا کرو‘‘۔ (اب ہمیں یہ دیکھنے کی، جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کتنے ہیں جو ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرتے ہیں) ’’اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔ اگر انسان کی دعا منظور نہ ہوتو فرشتہ کی تو منظور ہوتی ہے۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ77)

اللہ تعالیٰ کی توحید کا حقیقی ادراک پانے کے لئے جائزہ لیتے رہنا چاہئے

’’ہماری بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس تعلیم کو سمجھیں۔ توحید کی حقیقت کو سمجھیں۔

فرمایا کہ: ’’ہماری جماعت کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر پاک تبدیلی کریں، کیونکہ ان کو تو تازہ معرفت ملتی ہے اور اگر معرفت کا دعویٰ کر کے کوئی اس پر نہ چلے تو یہ نری لاف گزاف ہی ہے۔ پس ہماری جماعت کو دوسروں کی سُستی غافل نہ کر دے‘‘ (دنیا کے نمونے دیکھ کر ان کے پیچھے نہ چل پڑو۔) ’’…اور اس کو کاہلی کی جرأت نہ دلادے۔ وہ ان کی محبت سرد دیکھ کر خود بھی دل سخت نہ کر لے۔‘‘ (دوسرے لوگوں کی دین کی طرف اور اللہ تعالیٰ کی طرف محبت نہیں ہے تو دیکھا دیکھی اپنے دل بھی کہیں سخت نہ کر لیں۔)

فرمایا ’’انسان بہت آرزوئیں اور تمنائیں رکھتا ہے۔ مگر غیب کی، قضاء و قدر کی کس کو خبر ہے۔ زندگی آرزوؤں کے موافق نہیں چلتی۔ تمناؤں کا سلسلہ اور ہے، قضا و قدر کا سلسلہ اور ہے۔ اور وہی سچا سلسلہ ہے۔‘‘ (جو قضا و قدر کا ہے۔) خدا کے پاس انسان کے سوانح سچے ہیں۔ اسے کیا معلوم ہے اس میں کیا لکھا ہے۔ اس لئے دل کو جگا جگا کر غور کرنا چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ241)

ہمیشہ جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توحید کا حقیقی ادراک عطا فرمائے اور ہمارا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا ہو۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ308-309)

امیر، صدر اور دوسرے عہدیدار پہلے اپنے جائزے لیں کہ کیا ان کی اطاعت کے معیار ایسے ہیں کہ ہر حکم جو خلیفہ وقت کی طرف سے آتا ہے اس کی بلا چون و چرا تعمیل کرتے ہیں

’’قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ اطاعت اور فرمانبرداری کے حکم دیئے گئے ہیں۔ اس لئے کہ یہی ایک راز ہے جو جماعتی ترقی کے لئے جاننا ضروری ہے۔ ہر اس شخص کے لئے جاننا ضروری ہے جو جماعت سے منسلک ہے۔ پس اس بات کو سمجھنے کی افراد جماعت کو بہت زیادہ ضرورت ہے۔ خاص طور پر آجکل کے دور میں جبکہ آزادی کے نام پر ان غلط خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ کیوں ہم پابندیاں کریں؟ کیوں ہمارے پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں؟ کیوں ہمیں بعض معاملات میں آزادی نہیں؟ ایک احمدی مسلمان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے ہر جائز آزادی اپنے ماننے والوں کو دی ہے اور جتنی آزادیاں اسلام میں ہیں شاید ہی کسی دوسرے مذہب میں ہوں بلکہ اس کے مقابلے میں نہیں ہیں۔ لیکن بعض حدود جو قائم کی ہیں وہ انسان کے اپنے اخلاق کی درستی کے لئے، روحانی ترقی کے لئے اور جماعتی یکجہتی کے لئے اور جماعتی ترقی کے لئے قائم کی گئی ہیں اور ان کے اندر رہنا ضروری ہے۔یہاں میں عہدیداروں کو بھی کہوں گا کہ اگر جماعتی ترقی میں ممد و معاون بننا ہے اور عہدے صرف بڑائی کی خاطر نہیں لئے گئے۔ اپنے اظہار کی خاطر نہیں لئے گئے۔ اپنی انا کی تسکین کی خاطرنہیں لئے گئے تو اطاعت کے مضمون کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہر سطح کے عہدیداروں کو ہے۔ اگر عہدیدار اس مضمون کو سمجھ جائیں تو افراد جماعت خودبخود اس کی طرف توجہ کریں گے اور ہر سطح پر اطاعت کے نمونے ہمیں نظر آئیں گے۔ہمیں اونٹوں کی قطار کی پیروی کرتے ہوئے سب نظر آئیں گے۔ایک رخ پر چلتے ہوئے نظرآئیں گے۔ امام کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ پس امیر بھی، صدر بھی اور دوسرے عہدیدار بھی پہلے اپنے جائزے لیں کہ کیا ان کی اطاعت کے معیار ایسے ہیں کہ ہر حکم جو خلیفہٴ وقت کی طرف سے آتا ہے اس کی بلا چون و چرا تعمیل کرتے ہیں یا اس میں تاویلیں نکالنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اگر تاویلیں نکالتے ہیں تو یہ اطاعت نہیں۔ روایات میں ایک واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا آتا ہے۔ جب گلی میں چلتے ہوئے آپ کے ایک صحابی عبداللہ بن مسعود نے ’’بیٹھ جاؤ‘‘ کی آواز سنی اور بیٹھ گئے۔ آواز سن کر یہ نہیں کہا کہ یہ حکم تو اندر مسجد والوں کے لئے ہے بلکہ آواز سنی اور بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے مشکل سے قدم قدم مسجد کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ یہ آپ کو کیا ہوا ہے جو اس طرح گھسٹ رہے ہیں۔ آپ نے یہی جواب دیا کہ اندر سے مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ تو میں بیٹھ گیا۔ پوچھنے والے نے کہا کہ یہ حکم تو اندر والوں کے لئے تھا۔ آپ نے جواب دیا مجھے اس سے غرض نہیں کہ یہ اندر والوں کے لئے ہے یا باہر والوں کے لئے یا سب کے لئے۔ میرے کان میں اللہ کے رسول کی آواز پڑی اور میں نے اطاعت کی۔ پس یہی میرا مقصد ہے۔

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ345-346)

اپنی عملی اصلاح کے جائزے بھی لیتے رہیں

’’جلسہ پر آنا صرف اس مقصد کے لئے ہونا چاہئے کہ اس نے یا آپ نے دین سیکھنا ہے اور اس ماحول میں اپنی روحانی ترقی کے سامان کرنے ہیں اور پھر اس روحانی ترقی میں اپنی نسلوں کو بھی شامل کرنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس درد کو ہمیشہ محسوس کرتے رہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’میں بار بار کہتا ہوں کہ آنکھوں کو پاک کرو اور ان کو روحانیت کے طور سے ایسا ہی روشن کرو جیسا کہ وہ ظاہری طور پر روشن ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’انسان اس وقت سوجاکھا کہلا سکتا ہے جب کہ باطنی رؤیت یعنی نیک و بد کی شناخت کا اس کو حصہ ملے اور پھر نیکی کی طرف جھک جائے۔‘‘ فرمایا: ’’نجات انہیں کو ہے کہ جو دنیا کے جذبات سے بیزار اور بری اور صاف دل تھے۔‘‘ فرمایا کہ ’’جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے۔ جیسا کہ قربانیوں کاخون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتی ہے ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی ہیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود وقیام نہ ہو۔‘‘ فرمایا کہ ’’دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے اور سجود یہ کہ اس کے لئے اپنے وجود سے دست بردار ہو۔‘‘

پھر آپ نے یہ بھی دعا دی کہ ’’خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے‘‘

(شہاد ۃ القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ397-398)

پس ہماری عملی اصلاح کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ دعائیں ہیں۔ یہ دلی جذبات ہیں۔ یہ درد ہے اور ان جلسوں کا مقصد بھی یہی عملی اصلاح ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ موقع عطا فرمایا ہے کہ ان تین دنوں میں اپنی عملی اصلاح کے جائزے بھی لیتے رہیں اور اس طرف توجہ بھی دیں۔ ہمارے یہ معیار اس وقت قائم ہوں گے جب ہم ایک فکر کے ساتھ اس کی کوشش کریں گے۔ آپ علیہ السلام کا ایک ایک فقرہ اور ایک ایک لفظ درد انگیز اور ہمیں ہلا دینے والا ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ357-358)

جلسہ پر آنے والے اپنا جائزہ لیں کہ کس حد تک وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ ہم سے چاہتے ہیں

’’جلسہ پر آنے والے اپنا جائزہ لیں اوردیکھیں کہ کس حد تک ہم وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے چاہتے ہیں۔ جلسہ کے دنوں میں یہ ماحول اللہ تعالیٰ نے میسر فرمایا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کے عملی اظہار ہو سکتے ہیں اور پھر ان عملی اظہاروں کو زندگی کا مستقل حصہ بنانے کی کوشش ہو۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ360)

عہدیداران، نیشنل عاملہ کے عہدیداران اور مرکزی کارکنان کو اپنی حالتیں بہتر کرنے کے جائزے لینےکی ضرورت ہے

’’اب مَیں بعض باتیں وہ بھی کرنا چاہتا ہوں جو ہمیں اپنے جائزوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں۔ جہاں ہمیں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے اور ہوتے ہیں کہ وہ کس کس طرح اپنی تائیدات اور نصرت کے نظارے دکھاتا ہے وہاں ہمیں اس بات کی بھی فکر ہونی چاہئے کہ کہیں ہم میں سے کسی ایک کی بھی کوئی ایسی حرکت یا ہماری شامت اعمال اسے ان فضلوں کا حصہ بننے سے محروم نہ کر دے۔ دوسروں کو تو عموماً خوبیاں نظر آتی ہیں لیکن ہمیں اپنی کمی اور خامیوں کی طرف بھی نظر رکھنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ کس طرح ہم اپنی حالتوں اور اپنے کاموں کو بہتر کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر عہدیداران اور ان میں سے بھی خاص طور پر نیشنل عاملہ کے عہدیداران اور مرکزی کارکنان کو اس جائزے کی ضرورت ہے۔

وہاں بعض باتیں ایسی توجہ طلب تھیں یا خامیاں اور کمزوریاں تھیں (کہ جن کی طرف مَیں نے جب توجہ دلائی) تو اس کے بعد جرمنی کے امیر صاحب نے مجھے یہ لکھ دیا کہ ہم میں جو کمزوریاں رہ گئی ہیں اس کے لئے معذرت اور معافی۔ لیکن یہ لکھ دینا کافی نہیں جب تک سارا سال ان باتوں کے جائزے نہ لیں اور عملی طو رپر اس کی درستی کے سامان نہیں کرتے، اس معذرت کا کوئی فائدہ نہیں۔ معذرتیں اور معافیاں تو کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ اصل چیز اصلاح ہے اور عملی کوشش ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ384)

ہر فرد جماعت اور ہر مومن بننے والے کی خواہش رکھنے والے کو اپنے انفرادی جائزے لیتے ہوئے تقویٰ کے معیاروں کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے

’’ہمیں صرف اس بات پر ہی تسلی نہیں پکڑ لینی چاہئے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان لیا اور خلافت کا نظام ہم میں موجود ہے اور ہم ایک نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ روزوں کے ساتھ تقویٰ کے معیاروں کو بلند کرنے کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کی ذمہ داری لگا دی ہے کہ جماعت کی برکات سے، خلافت کی برکات سے حصہ لینے کے لئے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا صحیح فائدہ اٹھانے کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہونے کا صحیح فیض پانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کے لئے تقویٰ شرط ہے اور یہ رمضان کا مہینہ اس تقویٰ میں ترقی کا ایک ذریعہ ہے۔ پس اس سے فائدہ اٹھا لو جتنا اٹھا سکتے ہو۔ اس لئے ہر فرد جماعت کو اور ہر مومن بننے والے کی خواہش رکھنے والے کو اپنے انفرادی جائزے لیتے ہوئے تقویٰ کے معیاروں کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے‘‘

(خطبات مسرورجلد12 صفحہ414-415)

رمضان میں اپنا جائزہ لو کہ کس حد تک
تم قرآن کریم پر عمل کر رہے ہو

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں روزوں کے ساتھ جو ایک مجاہدہ ہے اس علم و عرفان کے خزانے کو پڑھنے اور سیکھنے کی بھی کوشش کرو اور اس کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ۔ اس کے احکامات پر غور کرو اور اپنی زندگیوں پر لاگو کرو۔ اس کے بھولے ہوئے حصے کو اس مہینے میں بار بار دہرا کر تازہ کرو۔ اس کی تعلیمات کی جگالی کر کے اس مہینے میں اپنا جائزہ لو کہ کس حد تک تم قرآن کریم پر عمل کر رہے ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ ہمیں فرماتا ہے کیونکہ یہی باتیں ہیں جو دنیا و عاقبت سنوارنے والی بنتی ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ423)

اپنی دعاؤں کا ہر کوئی جائزہ لے سکتا ہے

’’جب ہم نے ہر ترقی دعاؤں کے طفیل دیکھنی ہے اور ہر دشمن کو دعاؤں سے زیر کرنا ہے تو پھر دعا کی اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے کس قدر توجہ ہمیں دعاؤں کی طرف دینی چاہئے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہم کس قدر توجہ دعاؤں کی طرف دے رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اور جائزہ ہم میں سے ہر ایک اپنی حالت کو دیکھ کر لگا سکتا ہے اور جائزہ لے سکتا ہے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد12 صفحہ481)

ہر ایک اپنی حالتوں کے ہر وقت جائزے لیتا رہے کہ کبھی ہم اپنے مسائل میں اس قدر نہ الجھ جائیں کہ لوگوں کے لئے دعاؤں کا احساس نہ رہے

’’یہ تو ایک حقیقی مومن کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ خدا سے تعلق کاٹے لیکن بعض دفعہ کمزوریوں کی وجہ سے دعاؤں میں کمی آ جاتی ہے اور دنیاوی معاملات کی وجہ سے اسباب کی طرف توجہ ہو جاتی ہے یا دعاؤں کا حق ادا نہیں ہوتا۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی حالتوں کے ہر وقت جائزے لیتا رہے کہ کبھی ہم اپنے مسائل میں اس قدر نہ الجھ جائیں کہ ان لوگوں کے لئے دعاؤں کا احساس نہ رہے جو جماعت کے افراد ہونے کی وجہ سے مشکلات میں گرفتار ہیں۔ یاد رکھیں ہر فرد جماعت کی دعا اور اللہ تعالیٰ کو اس کے رحم، مغفرت، بخشش اور مختلف صفات کا واسطہ دے کر جو دعا ہے یہ جماعتی تکالیف کو بھی دُور کرنے کا باعث بنتی ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ488)

ہمیں جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ
چھوٹے بڑے جھگڑے ختم ہوں

’’ہمیں جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم اس پر عمل کرنے لگ جائیں تو جتنے چھوٹے بڑے جھگڑے ہمارے ہوتے ہیں یہ سب ختم ہو جائیں۔ ذاتی اناؤں کا وہیں سوال پیدا ہوتا ہے، بغض اور غصہ وہیں بھڑکتا ہے جب تقویٰ نہ ہو۔ جب خدا تعالیٰ کا خوف نہ ہو جب ذاتی مفادات کو دوسروں کے مفادات پر ترجیح دی جا رہی ہو۔ پس یہ تقویٰ پیدا کرنا ہر مؤمن کا فرض ہے۔ ہر اس شخص کا فرض ہے جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی طرف منسوب کرتا ہے۔ ہر اس شخص کا فرض ہے جو جلسے میں شامل ہو رہا ہے۔ کیونکہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بننا ہے، جلسے کی برکات سے فیض اٹھانا ہے تو تمام جھگڑوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، ان باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد12 صفحہ521)

ہم اپنے جائزے لیتے رہیں کہ کس حد تک ہمارے اندر احمدیت کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہیں

’’یاد رکھنا چاہئے کہ جو بھی واقعات یہاں بیان ہوتے ہیں، یہ قصے کہانیاں نہیں بلکہ حقائق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چلائی ہوئی ہوا کے وہ چند نمونے ہیں جو میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ایسے بیشمار واقعات ہوتے ہیں جن میں سے چند ایک میں لیتا ہوں اور جلسے کے لئے جو واقعات چنے جاتے ہیں۔ وہ بھی وہاں بیان نہیں ہو سکتے۔ اس لئے گزشتہ سال میں نے کہا تھا کہ دوران سال بھی میں موقع ملا تو بیان کرتا رہوں گا۔ لیکن کچھ بیان ہوئے،کچھ نہیں ہو سکے۔ پھر اس سال کےبہت سارے واقعات جمع ہو گئے۔

بہر حال یہ واقعات بیان میں اس لئے کرتا ہوں کہ ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہو اور ہم بھی اپنے جائزے لیتے رہیں کہ کس حد تک ہمارے اندر بھی احمدیت کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہیں کس طرح ہمیں بھی اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ کس طرح ہمیں بھی احمدیت قبول کرنے کے بعد خدا تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔

بہر حال اس حوالے سے آج میں نئے شامل ہونے والوں کے کچھ واقعات بیان کروں گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی فرماتا ہے۔ انہیں صرف دلچسپ واقعات سمجھ کر ہمیں نہیں سننا چاہئے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور بننی چاہئے۔ اپنی حالتوں کے جائزے لینے والی ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے جماعت کے ساتھ سلوک پر شکر گزاری کے جذبات کا اظہار کرنے والی ہونی چاہئے۔ اپنی ذمہ داری کا احساس اور اس کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے۔ دنیا تک صداقت کا پیغام پہنچانا، ان کی رہنمائی کرنا آج ہمارا کام ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ پس اس کام کی ادائیگی کی طرف جہاں ہمیں کوششوں کی ضرورت ہے وہاں اپنی عملی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھالنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہمارے عملی نمونے نئے آنے والوں کے ایمانوں کو مزید مضبوط کرتے چلے جائیں۔ بہر حال جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور کس طرح اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتا ہےاس کے نمونے پیش کروں گا۔‘‘

(خطبات مسرورجلد12 صفحہ551-552)

ہمیں جائزے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نمازوں کا حق ادا کر کے نمازیں پڑھتے ہیں؟

’’یہ بڑی قابل غور بات ہے۔ کہنے کو تو ہر مسلمان یہی کہتا ہے کہ مجھے خدا سے محبت ہے، مجھے رسول سے محبت ہے۔ اسی لئے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ کبھی کسی مسلمان کے منہ سے ہم یہ نہیں سنیں گے کہ مجھے خدا یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ہے۔ لیکن کتنے ہیں جو خدا اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرنے والے ہیں۔ صرف نماز کو ہی لے لیں۔ ہمیں جائزے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نمازوں کا حق ادا کر کے نمازیں پڑھتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جن کے جواب یہ ہیں کہ تین نمازیں یا چار نمازیں پڑھتے ہیں۔ پھر بہت سے ایسے ہیں جو نماز کی ادائیگی میں اتنی جلدی کرتے ہیں کہ جیسے ایک بوجھ گلے سے اتار رہے ہوں۔ نماز جو خداتعالیٰ کے قریب کرنے اور اس سے محبت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ اگر اس کی ادائیگی ہم سنوار کر نہیں کر رہے تو محبت کے تقاضے ہم پورے نہیں کر رہے۔ پھر ایمان لانے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہیں اللہ اور رسول کسی فیصلے کے بارے میں بلاتے ہیں، کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔

پس ہر ایک کو اس معیار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ خود اپنا جائزہ ہی ہمیں اپنی حالتوں کے بارے میں بتا سکتا ہے۔ قرآن کریم نے بے شمار احکام دئیے ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ سات سو حکم ہیں۔ اور جو اُن کو نہیں مانتا، ان پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتا وہ مجھ سے دُور ہو رہا ہے اپنا تعلق مجھ سے کاٹ رہا ہے۔

(ماخوذ از کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ26)

پس اللہ تعالیٰ پر ہمارا ایمان تب مکمل ہو گا جب ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر رہے ہوں گے۔ پھر ہم کہتے تو یہ ہیں کہ ہم آخرت پر ایمان لاتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ یہ آخرت پر ایمان کا دعویٰ صرف منہ کی باتیں ہیں کیونکہ اگر آخرت پر ایمان کامل ہو تو انسان بہت سے گناہوں اور حقوق کے غصب کرنے سے بچتا ہے۔ ہم دنیاوی قانون کے خوف سے تو بہت سے کام کرنے سے رُک جاتے ہیں کہ پکڑے گئے تو کیا ہو گا اور افسروں کی اطاعت بھی ہم ان کے خوف سے کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے غلط کام ہم میں سے بہت سے اس لئے کرتے ہیں کہ آخرت کے بارے میں باوجود دعوے کے ہم سوچتے نہیں۔ بہت سے ہم میں سے اگر کبھی خشوع سے نمازیں پڑھ بھی رہے ہوں گے تو اس لئے پڑھتے ہیں کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دعا کریں۔ دنیاوی مقاصد ان میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ مسجدوں میں بعض اس لئے بھی آ جاتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اتنا عرصہ ہوا مسجد میں نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ مسجدوں کو آباد کرنے والے قیام نماز خدا تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں۔ باجماعت نمازیں، ان کی پابندی، وقت پر ادائیگی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتے ہیں۔ ان کی عبادتیں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتی ہیں۔ ان کی مالی قربانیاں بھی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کے علاوہ انہیں کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو صرف ایمان کا دعویٰ کرنے والے نہیں ہیں بلکہ انہیں ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت بھی نظر آتی ہے۔ ہر قدم ان کا ہدایت کے نئے سے نئے راستوں کی طرف اٹھتا ہے۔ ہر راستہ ان کے لئے فلاح کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے۔ کامیابیوں کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے۔ یہ ہدایت انہیں کامیابیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ انہیں کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر یہ احسان ہے کہ اس نے جماعت کو ایسے مومنین عطا کئے ہیں جن کے ایمان کے دعوے ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ان کا مقصد ہوتا ہے اور یہی راز ہے جس کی وجہ سے جماعت احمدیہ من حیث الجماعت ترقی کی منازل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پس ان فضلوں کا حصہ بننے کے لئے، مسجد کی آبادی کا حق ادا کرنے کے لئے، جیسا کہ مَیں نے کہا ہم میں سے ہر ایک کو ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے تا کہ کوئی احمدی مرد عورت ایسا نہ رہے جو اس ترقی کی برکات اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے سے محروم رہے۔ ہمارے خوف دنیاوی خوف نہ ہوں بلکہ اگر کوئی خوف ہو تو اس محبت سے بھرا ہوا ہو کہ ہمارا پیارا خدا ہم سے ناراض نہ ہو جائے۔ پس اس مسجد کے بننے کے بعد جب دنیا کی نظر ہم پر ہو گی تو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہمیں پہلے سے بڑھ کر اپنے جائزے لینے ہوں گے۔ ہمیں اپنے عملوں کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہو گی، تبھی ہم مسجد دیکھ کر اس طرف متوجہ ہونے والوں کی صحیح رہنمائی کر سکیں گے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد12 صفحہ581-583)

(باقی آئندہ ہفتہ کو ان شاءاللّٰہ)

(ابو مصور خان۔ رفیع ناصر)

پچھلا پڑھیں

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے اندر قناعت پیدا کرو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2022