• 17 مئی, 2024

مابہ سے حضرت سلمان فارسیؓ 

اطفال کارنر
مابہ سے حضرت سلمان فارسیؓ 

پیارے بچو! حضرت سلمان فارسیؓ کا نام اگر چہ کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں۔ایک عاشق اور فدائی صحابیٴ رسولؐ کی حیثیت سے کم از کم ہر ایک احمدی مسلمان بچہ ان سے واقف ہے۔مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسیؓ ہی وہ جلیل القدر صحابی ہیں، جن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہمارے پیارے نبیؐ نے فرمایا تھا کہ آنے والا مسیح و مہدی ان میں سے ہوگا۔اور پتا ہے کہ وہ آنے والا مسیح ومہدی کون ہے؟ جی ہاں! ہمارے پیارے امام حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ ہی وہی مسیح و مہدی ہیں، جن کے بارے میں خبر ہمارےپیارے نبیؐ نے آج سے کئی سوسال پہلے دی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ اہل فارس کی قوم برلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ اس طرح آپؑ کا سلسلہ نسب برلاس سے جو امیر تیمور کا چچا تھا ملتا ہے اور آپؓ کے جدامجد کا نام مرزا ہادی بیگ تھا۔

تو بچو! اس طرح حضرت مسیح موعودؑ کا تعلق حضرت سلمان فارسیؓ سے جا ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرےدل میں ڈالا کہ اس جلیل القدر صحابی کے بارے میں جس نے اہل فارس میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور جن کے مشورے پر ہی ہمارے پیارے نبیؐ نے غزوہ خندق کے موقع پر شہر مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا، ان کے حالات بیان کیے جائیں۔ تا کہ بچوں کو اس بات کا علم ہو کہ آخر وہ عظیم المرتبت صحابیؓ عرب کیسے پہنچے اور کس طرح اپنے دل کو اسلام کی شمع سے روشن کیا۔

تو آیئے بچو! جیسا کہ اب ہم جان چکے ہیں کہ اہل فارس دراصل کون تھے، جن کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ آخر ین کے زمانے میں آنے والےمسیح و مہدی کا نزول ان میں ہوا۔

میں نے اپنے طور پر کوشش کی ہے، کہ سادہ اور آسان عام فہم الفاظ میں اس کہانی کو بیان کروں۔ اس سلسلہ میں، میں نے اور بھی کہانیوں سے استعفادہ کیا اور کوشش کی کہ فرضی اور من گھڑت قصے کہانیاں بیان کر نے کی بجائے اچھے لوگوں کے حالات زندگی کو قلم بند کیا جائے تا کہ ان کی اچھائیوں سے ہماری نسلیں کچھ سیکھ سکیں اور ان بزرگوں کے بارے میں ان کے پاس اس قدرعلم ضرور ہو کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں تک منتقل کر سکیں۔امید کرتی ہوں کہ میری یہ کاوش آپ کو پسند آئے گی اور آپ اس سے کچھ فائدہ اٹھائیں گے۔ خاکسار کواپنی دعاؤں میں یادرکھیں۔ جزاک اللّٰہ۔

حضرت سلمان فارسیؓ کا پیدائشی نام مابه تھا۔ تقریباً پندرہ سوسال پہلے کا ذکر ہے کہ ملک فارس میں اصفہان کے علاقے کے ایک گاؤں میں ایک شخص بود خشاں نامی رہتا تھا وہ آتش پرست تھا۔ اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام مابہ رکھا گیا۔ مابہ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اس لئے قدرتی طور پر ماں باپ اسے بہت چاہتے تھے۔ مابہ نے جب ہوش سنبھالا تو اس کے والد نے اپنے عقیدے کے مطابق اس کی مذہبی تعلیم شروع کی۔لڑ کا ہونہار تھا بڑے شوق سے مذہبی تعلیم حاصل کرنے لگا نتیجہ یہ ہوا کہ چھوٹی ہی عمر میں اس کا شمار آتش پرستوں کےنیک لوگوں میں ہونے لگا۔

مذہبی خیالات میں تبدیلی

بودخشاں کھیتی باڑی کا کام کرتا تھا۔ ایک دن وہ کسی وجہ سے باہر نہ جاسکا اس نے کھیتوں کی دیکھ بھال کے لئے ما بہ کو بھیج دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مابہ ا کیلا گھرسے باہر نکلا۔ کھیتوں کو جاتے راستے میں ایک عیسائیوں کا گر جا تھا جب مابہ گرجے کے پاس پہنچا تو عیسائی لوگ اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کر رہے تھے مابہ کو مذہبی جستجو کا شوق تھا۔ بڑے غور سے طریق عبادت کو دیکھنے لگا۔ چنانچہ اس نے فوراً ہی فیصلہ کر لیا کہ آتش پرستی کے مقابلے میں عیسائی مذہب زیادہ اچھا ہے۔ وہ تمام دن سوچتا رہا کہ عیسائی مذہب کی پوری پوری واقفیت کیسے حاصل ہوسکتی ہے۔ یہاں تک کہ شام ہوگئی شام کو مابہ گھر واپس آیا۔ اب وہ ہر وقت اسی تلاش میں رہتا تھا کہ عیسائی مذہب کی واقفیت کہاں سے حاصل کرے۔ آخر بڑی دوڑ دھوپ کے بعد معلوم ہوا کہ ملک شام میں عیسائی راہب رہتے ہیں جو اس مذہب کے عالم سمجھے جاتے ہیں۔ اس نے ارادہ کرلیا کہ میں اپنی مذہبی پیاس بجھانے کے لئے شام جاؤں گا۔

شام کوروانگی

ایک دن موقع پا کر مابہ نے اپنا ارادہ باپ پر ظاہر کیا اور بتایا کہ کس طرح اس کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ باپ نے بہت سمجھایا کہ ہمارا مذہب سچاہے مگر جو بات مابہ کے دل میں گھر کر چکی تھی وہ باپ کے سمجھانے سے نہ نکل سکی۔اب باپ کو فکر ہوئی کہ ما بہ کہیں عیسائی نہ ہو جائے۔اس لئے وہ سختی سے اس کی نگرانی کرنے لگا۔ ادھر ما بہ بھی شام جانے والے کسی قافلے کی ٹوہ میں لگا رہا۔ وہ خوب سمجھتا تھا کہ حق کے مقابلے میں ماں باپ کی محبت کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ آخر وہ ایک قافلے کے ساتھ شام روانہ ہو گیا۔

راہب سے ملاقات

قافلہ والوں نے شام کے ملک میں مابہ کوراہب کے سپرد کیا جہاں مابہ نے عیسائی مذہب کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔ اگر چہ کتابی تعلیم کو اب بڑے شوق سے حاصل کرتا تھا مگر راہب کی عملی زندگی اس کے دل پرکوئی اثر نہ کرسکی۔ خدا کی قدرت چند ہی دن بعد ما بہ کواس راہب کی صحبت سے نجات حاصل ہوگئی۔ راہب بیمار ہوا اور فوت ہو گیا۔ لوگ اس راہب کی بڑی عزت کرتے تھے اس لئے رواج کے مطابق اس کی تجہیز و تکفین کے لئے اعلیٰ سامان کرنے لگے۔ مابہ سے نہ رہا گیا وہ لوگوں کوراہب کی ایک کوٹھری میں لے گیا جہاں سونے سے بھرے ہوئے سات مٹکے رکھے تھے لوگ یہ دیکھ کر ہکے بکے رہ گئے اور سب کو معلوم ہو گیا کہ جس راہب کو ہم عابد، زاہد اور متقی سمجھتے تھے وہ حقیقت میں پکا دنیا دار تھا اور محتاجوں کے نام پر جو مال لوگوں سے وصول کرتا تھا اس کا سونا خرید کر جمع کرتا جا تا تھا۔ غرض لوگوں نے اس راہب کی لاش کوعزت سے دفن کرنے کی بجائے ذلت کے ساتھ سولی پر لٹکا دیا اور پتھروں کی بارش کی۔اس راہب کے بعد جو راہب مقرر ہواوہ ہر لحاظ سے نیک انسان تھاما بہ اس کی صحبت میں بہت خوش تھا اور بڑے شوق سے علم حاصل کرتا تھا۔ مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد راہب کو یقین ہو گیا کہ میرا آخری وقت آ پہنچا ہے۔ اس نے ما بہ کواپنےپاس بلایا اور وصیت کی کہ میرے بعد موصل کے راہب کے ہاں چلے جانا یہ کہ کر اس نے دم توڑ دیا۔ اب اس کو خدا کی شان کہیے یا ما بہ کا امتحان کہ وہ راہب کی وصیت کے مطابق موصل پہنچا۔ یہاں آئے ہوئے ما بہ کو تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ موصل کا راہب بھی چل بسا اور ما بہ کو نصیبین جانے کی وصیت کر گیا نصیبین میں بھی زیادہ عرصہ ٹھہر نانصیب نہ ہوا اور ما بہ راہب کی وصیت کے مطابق عمور یہ چلا آیا۔

عموریہ کے راہب کی وصیت

عمور یہ پہنچ کر مابہ نے گزراوقات کے لئے کچھ بکریاں پال لیں۔ فرصت کے وقت راہب کی خدمت میں حاضر ہوتا اور اپنی دینی پیاس بجھاتا۔ راہب بھی دل و جان سے ما بہ کو چاہتاتھا اور بڑے شوق سے ما بہ کو پڑھاتا تھا مگر آخری وقت آپہنچا اور راہب کو اپنی موت کا یقین ہو گیا اور اس نے ما بہ کو اپنے پاس بلایا اور وصیت کی بیٹا تمہاری مشکلات کے ختم ہونے کا وقت آپہنچا ہے۔انجیل میں جس آخری نبی کے ظاہر ہونے کی خبر دی گئی ہے میں اس کے ظہور کی نشانیاں دیکھ رہا ہوں اگر تمہارےپاس اس نبی کا پیغام پہنچے تو فوراً اس پر ایمان لے آنا۔ اس کا دین، دین ابراہیم ہوگا وہ ملک عرب میں پیدا ہوگا اور ایسے شہر کی طرف ہجرت کرے گا جس میں کھجور کےدرخت بہت ہو نگے۔ وہ صدقہ کا مال کھانے سے انکار کرے گا۔ البتہ جو چیز بطور تحفہ پیش کی جائے گی اسے قبول کرے گا۔ اس کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت بھی ہوگی۔ یہ وصیت کر کے راہب نے تو ملک عدم کی راہ لے لی اور مابہ عرب جانے کی تیاریاں کرنے لگا۔

عموریہ سے مدینہ

اتفاق سے ایک قافلہ عرب جانے والا تھا۔ مابہ نے اپنی گائیں اور بکریاں اس شرط پر قافلہ والوں کو دے دیں کہ وہ اسے عرب پہنچادیں گے۔ جب قافلہ وادی القری میں پہنچا تو ما بہ کو ایک نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ قافلے والوں نے اپنا غلام ظاہر کر کے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ مگر چند دن کے بعد اس یہودی کا چچا زاد بھائی مدینے سے آیا اور مابہ کوخرید کر اپنے ساتھ لے گیا۔ مدینہ پہنچتے ہی مابہ کی پہلی نظر کھجور کے درختوں پر پڑی اسے فوراً راہب کی وصیت یاد آگئی اور اسے اس خیال سے تسکین ہوئی کہ ہونہ ہو یہی وہ جگہ ہے جہاں میری قسمت کا ستارہ چمکنے والا ہے۔ غرض ما بہ تو مدینہ میں غلامی کی زندگی بسر کر رہا تھا اور ادھر مکہ میں آفتاب رسالت پوری آب و تاب سے طلوع ہو چکا تھا۔ما بہ گھڑیاں گن رہاتھا مگر کیا کر تا غلام تھا۔دل میں امنگیں اٹھتی تھیں اور بیٹھ جاتی تھیں۔ خدا کا آخری پیغمبرؐ دنیا کوخدا کا پیغام دے رہا تھا۔مگر ما به مجبور تھا وہ مدینہ میں تھا جہاں سے مکہ بہت دور تھا۔

مدینہ میں نبیؐ کی آمد

حضرت محمدؐ نے مکہ میں اسلام کی دعوت دی۔ قدرتی طور پراکثر لوگوں نے مخالفت کی اور آپؐ اور آپ کے ساتھیوں کوستانا شروع کر دیا کچھ مسلمان کافروں سے تنگ آ کر مدینہ چلے گئے اور مدینہ والوں کو اسلام کا پیغام دینے لگے۔ جب کافروں نے دیکھا کہ مکہ میں بہت تھوڑے مسلمان رہ گئے ہیں تو انہوں نےمشورہ کیا کہ آنحضرت ﷺ کو نعوذ باللّٰہ قتل کر کے دین اسلام کا خاتمہ کر دیں لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ آنحضرت ﷺ صرف ایک ساتھی حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ راتوں رات گھر سے نکل گئے اور تین راتیں جبل ثور کے غار میں گزار کر صحیح سلامت مدینہ پہنچ گئے۔

مابه کو نبیؐ کی اطلاع

ایک دن مابہ کھجور کے ایک درخت پر چڑھ کر کام کر رہا تھا نیچے اس کا مالک بیٹھا تھا۔ کچھ دیر کے بعد مالک کا ایک رشتے دار وہاں آیا اور کہنے لگا تمہیں کچھ خبرہے محلہ میں مکہ سے ایک شخص آیا ہے اور نبی ہونے کا دعوی ٰکرتا ہے مابہ نے جب یہ باتیں سنیں تو خوشی سے اس کا چہرہ تمتما اٹھا وہ جلدی جلدی نیچے آیا اور چاہا کے نبی کے متعلق کچھ اور بات چیت کرے۔ مالک کو اس کی اس حرکت پر غصہ آیا اور ایک زور کا تھپڑ مارا اور کہا کہ جا اپنا کام کر۔ ما بہ غلام تو تھا ہی پھر درخت پر چڑھ گیا۔ جب کام ختم ہوا تو سیدھا قبا کے محلے پہنچا۔

نبیؐ کی پہچان

ما بہ کو عمور یہ کی وصیت یادتھی۔ اس نے چلتے ہوئے اپنے ساتھ کچھ کھجور یں بھی لے لیں اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کھجوروں والا ہاتھ آگے بڑھایا اور عرض کیا حضور! یہ صدقہ قبول کیجئے۔ آپﷺ نے کھجور ہاتھ میں لے کر اپنے غریب ساتھیوں میں تقسیم کر دیں اور خود نہ کھائیں۔ دوسرے دن ما بہ کچھ کھانا لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا حضور! یہ تحفہ قبول فرمائیے۔حضورؐ نے کھانالےکر خود بھی کھایا اور ساتھیوں کو بھی کھلایا۔ اب تو مابہ کے شوق کی کوئی انتہا نہ رہی۔ راہب کی بتائی ہوئی دونشانیاں اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔اب صرف ایک نشانی اور تھی جس کو دیکھنے کیلئے ما بہ بیتاب تھاوہ بار بار نبی کریمﷺ کے کندھوں کی طرف دیکھتا رہا۔ نبی کریم ﷺ اس کامطلب پاگئے۔ چادر کوذ را سرکا دیا۔ چادر کا سرکا نا تھا مہر نبوت چمک اٹھی۔اس چمک نے نہ صرف ما بہ کی آنکھوں کو روشن کیا بلکہ دل کو بھی نور ایمان سے منور کر دیا۔ بےاختیار بول اٹھا۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمداللہ کے رسول ہیں۔

مابه سے حضرت سلمانؓ

حضرت رسول مقبول ﷺ نے محبت سے مابہ کو اپنے پاس بٹھالیا۔ مابہ نے اول سے آخر تک اپنی داستان بیان کی۔ جب نبی کریمﷺ کو معلوم ہوا کہ اب وہ ایک یہودی کا غلام ہے تو دل بھر آیا۔ غرض جب مابہ اپنی داستان کہہ چکا تو جناب رسالت مآب ﷺ نے اسے حلقہ بگوش اسلام میں داخل کر لیا اور سلمان نام رکھا۔ سلمان چونکہ فارس کے رہنے والے تھے اس لئے سلمان فارسیؓ کے نام سے مشہور ہوئے۔ آئندہ ان کا ذکر خیر مابہ کی بجائے سلمان کے نام سے ہوگا۔ حضرت سلمانؓ مسلمان ہوکراپنے یہودی مالک کے گھر چلے گئے۔

غلامی سے چھٹکارا

سلمان کی غلامی نبی کریمﷺ کو بہت کھٹکتی تھی۔ایک دن آپ نے حضرت سلمان کو بلا کرفرمایا کہ اپنے مالک سے دریافت کرو کہ وہ تمہیں کس قیمت پر آزادکرسکتا ہے۔حضرت سلمانؓ نے مالک سے اپنی آزادی کی بات چیت کی اوربارگاہ رسالت کی خدمت میں آ کر عرض کیا کہ یہودی نے کھجور کے تین سو درخت اور چالیس اوقیہ سونا طلب کیا ہے۔ رسالت مآبؐ نے یہ واقعہ مسلمانوں کے سامنے بیان فرمایا اور اس بات پر زور دیا کہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اپنے بھائی سلمان کو آزاد کرانےمیں پوری مدد کرے۔ مسلمانوں نے نبی کریمﷺ کے ارشاد کو دل و جان سے قبول کیا اور دس دس بیس بیس کر کے تین سو درخت کر دیے جب درختوں کا انتظام ہو گیا تو حضورپرنورؐ نے حضرت سلمانؓ سے فرمایا کہ یہودی جس زمین میں درخت لگوانا چاہتا ہے تم اس کو تیار کرو درخت میں اپنے ہاتھ سے لگاؤں گا پھر کیا تھا حضرت سلمانؓ نےزمین جوتی۔ رسول اللہﷺ نے درخت لگائے اور ایسے لگائے کہ خدا کی قدرت سے سب ہر بھرے ہو گئے۔غرض جب درخت لگ گئے تو رسول مقبولؐ نے چالیس اوقیہ سونا اپنی گرہ سے دے کر حضرت سلمانؓ کو آزاد کرادیا۔ حضرت سلمانؓ اس شان کر یمی پر ایسے فدا ہوئے کہ مرتے دم تک شمع رسالتؓ کا پروانہ بنے رہے۔ غلامی سے چھٹکارا پا کر حضرت سلمانؓ نے ایک نئی زندگی میں قدم رکھا۔ یہی زندگی تھی جس کے لئے انہوں نے گھر بار چھوڑا۔ ماں باپ سے رشتہ توڑا اور مال و دولت سے منہ موڑاتھا۔ مدینہ میں حضرت سلمانؓ کا کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ وہ بھی ایک طرح سے مہاجر تھے۔ اس لئے نبی کریم ﷺ نے مدینہ کے ایک مشہور انصاری حضرت ابو درداؓ سے حضرت سلمانؓ کا بھائی چارہ کر دیا۔ اب حضرت سلمانؓ اپنے دینی بھائی حضرت ابو درداؓ کے مکان میں رہنے لگے اور اس طرح ان کی تمام پریشانیوں کا خاتمہ ہو گیا۔

مسلمانوں کے لئے اللہ کی راہ میں جنگ کرنا سب سے بڑی عبادت ہے اور سچ تو یہ ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج اسی بڑی عبادت کے لئے تیاری کا سبق دیتی ہیں۔ شروع شروع میں مسلمانوں کو اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے کافروں کے خلاف بہت لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ اس وقت حضرت سلمانؓ غلام تھے۔ اس لئے وہ ان لڑائیوں میں حصہ نہ لے سکے۔ جب آزاد ہوئے تو سب سے پہلے جنگ خندق پیش آئی۔ اس دفعہ مکہ کے گردونواح کے تمام کافر یہ طے کر کے آئے تھے کہ مسلمانوں کا بالکل خاتمہ کر دیں گے۔ رسول کریمﷺ نے جب یہ خبرسنی تو مسلمانوں سے مشورہ کیا۔ حضرت سلمانؓ نے یہ عرض کیا کہ میری رائے یہ ہے کہ شہر کے گرد ایک خندق کھودی جائے تا کہ دشمن شہر کے اندر داخل نہ ہوسکیں۔ حضرت سلمانؓ کی یہ رائے بہت پسند کی گئی۔ چنانچہ تین ہزار مسلمانوں نے مدینہ کے گرد چند دنوں میں کافی چوڑی اورگہری خندق تیار کر دی۔ کافروں نے خندق کے باہر ڈیرے ڈال دئے اور ادھر مسلمان بھی مقابلے کے لئے تیار تھے۔ کافر بہت دن تک مدینے کوگھیرے بیٹھے رہے۔مگر آخر فتح مسلمانوں کی ہوئی اور کافر نا کام ہوکر واپس چلے گئے۔ یہ بات حضرت سلمانؓ کے لئے فخر کا سبب بنی کہ ان کی رائے پر عمل کرنے سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔اس کے بعد چھوٹی بڑی جتنی لڑائیاں پیش آئیں حضرت سلمانؓ سب میں شریک ہوئے اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب مسلمانوں نے ایران پر چڑھائی کی تو حضرت سلمانؓ بھی لشکر کے ہمراہ تھے۔انہوں نے اہل وطن کو مخاطب کر کے کہا کہ اگرچہ میرا وطن ایران ہے۔مگر خدا کے فضل سے اب میں مسلمان ہوں۔ اگر تم بھی اسلام قبول کرو تو ہمارے بھائی بن جاؤ گے ورنہ جزیہ دینا قبول کرو اور اسلام کی حفاظت میں آ جاؤ اگر یہ شرط بھی قبول نہیں تو جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ۔ ایرانیوں نے آخری شرط قبول کی۔ اسلامی لشکر نے حملہ کیا اور ایرانیوں کا قلعہ فتح کرلیا۔

عزت و وقار

حضرت سلمانؓ کی عزت اور وقار کا یہ حال تھا کہ انصار کہتے تھے کہ حضرت سلمانؓ ہم سے ہیں کیونکہ ہجرت سے پہلے وہ مدینہ میں مقیم تھے۔ مہاجر کہتے تھے کہ حضرت سلمانؓ ہم سے ہیں کیونکہ ہماری طرح انہوں نے وطن اور رشتہ داروں کو چھوڑا ہے۔ یہ جھگڑا بارگاہ رسالت میں پیش ہوا۔ آپؐ نے ارشادفرمایا! سلمان نہ انصار سے ہے نہ مہاجرین سے بلکہ اہل بیت سے ہیں۔ اللہ اکبر کس قدر عزت اور وقار ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ آنحضرت ﷺ کی بہت خدمت کرتے تھے۔ حضورﷺ بھی حضرت سلمانؓ کو بہت چاہتے تھے اور اکثر راتوں کو بہت دیر تک باتیں کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ! جنت کو تین آدمیوں کا انتظار ہے وہ تین آدمی علی، عمار اور سلمان ہیں۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ ’’جس شخص سے بلال، صہیب اور سلمانؓ ناراض ہونگے اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا۔ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں چار شخص ایسے ہیں جو پورے ملک میں سب سے پہلے مسلمان ہیں عرب میں پہلا مسلمان میں ہوں، حبشہ میں بلال، روم میں صہیب اور ایران میں سلمان۔‘‘

طبیعت کی سادگی

حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت سلمانؓ مدائن کے گورنر تھے۔ مگر سادگی کا یہ حال تھا کہ جب بھی آپؓ بازار میں نکلتے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس شہرکے حاکم ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپؓ حسب معمول اپنے سادہ لباس میں بازار آئے۔ ایک شخص نے بازار سے کچھ گھاس خریدی اور آپ کو مزدور سمجھ کر کہنے لگا کہ یہ گھاس میرے گھر تک پہنچادو۔ آپؓ نے گھاس کا گٹھا سر پر اٹھالیا اور اس کے ساتھ چل پڑے۔ تھوڑی دور گئے تھے کہ لوگوں نے آپؓ کو پہچان لیا وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور آپؓ سے معافی مانگنے لگا۔مگر حضرت سلمانؓ نے فرمایا کہ میں نے یہ کام اللہ کے لئے کیا ہے۔اس میں معافی کی کونسی بات ہے۔ آپؓ اپنی پوری تنخواہ فقیروں، مسکینوں اور محتاجوں پر خرچ کر دیتے تھے اور اپنے ہاتھ سے کام کر کے روزی کماتے تھے۔ کھجور کے پتوں کی چٹایاں بنا کر بازار میں بیچتے تھے اور جو کچھ حاصل ہوتا تھا اس کا تیسرا حصہ خیرات کر دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص آپؓ سے ملنے آیا تو آپؓ بیٹھے آٹا گوندھ رہے تھے اس شخص نے حیران ہوکر پو چھا کہ آج آپؓ کا غلام کہاں ہے جو خود آٹا گوندھ رہے ہیں۔ فرمایا کہ غلام کو میں نے کسی کام کے لئے باہر بھیجا ہے۔اس لئے میں اس کا کام کر رہا ہوں کہ غلام کو دو کام نہ کرنے پڑیں۔ آپؓ دنیا میں مسافروں کی حیثیت سے رہے یہاں تک رہنے کا مستقل مکان تک نہ بنایا۔ لوگ بہت اصرار کرتے تھے کہ ہم آپؓ کے لئے مکان بنا دیتے ہیں مگر آپ ہمیشہ انکار کرتے رہے۔ آخر کار ایک معتقد نے مختصر سا مکان بنا دیا۔ جس میں آپؓ نے رہنا شروع کیا۔ایک دفعہ قریش کے ایک سردار ایک جگہ بیٹھ کر اپنے اپنے نسب اور خاندان پر فخر کر رہے تھے۔ حضرت سلمانؓ بھی موجود تھے۔ چپ چاپ سنتے رہے۔ جب سب کہہ چکے تو بڑی سادگی سے بولے میں مٹی سے پیدا کیا گیا ہوں اور مٹی میں ہی مل جاؤں گا۔ اگر قیامت کے دن میری نیکیوں کا پلہ بھاری رہا تو میں کریم ہوں گا ورنہ ذلیل۔

راضی برضا

حضرت ابو درداءؓ آپؓ کی شادی کا پیغام لے کر بنی لیث کے قبیلے لیث کی ایک عورت کی خواستگاری کرنے لگے۔عورت کے وارثوں نے خود حضرت ابو درداءؓ سےاس کی شادی کر دی۔ جب حضرت سلمانؓ کو یہ بات معلوم ہوئی تو اپنے دینی بھائی حضرت ابو درداءؓ سے کہنے لگے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں نے آپؓ کو اس عورت کے لئےکیوں بھیجا۔ جس کو خدا نے آپؓ کے لئے مقرر کر رکھا تھا۔ اللہ اکبر! کس قدر خیالات کی بلندی ہے کہ حضرت ابو درداءؓ کی طرف سے نہ دل میں میل نہ ماتھے پر بل۔

اطاعت رسولؐ

حضرت سلمانؓ زندگی کے ہر معاملے میں جناب رسالت ماب ﷺ کی زندگی سے سبق حاصل کرتے تھے اور بھی ایسا کام نہ کرتے تھے جوان کے خیال میں رسول کریمؓ نے نہ کیا ہو۔ جب آپؓ کی شادی ہوئی اور آپ سسرال گئے تو آپ کو بڑے پر تکلف مکان میں اتارا گیا اور بہت سی لونڈیاں خدمت کے لئے پیش کی گئیں۔آپؓ نے تکلف کا سارا سامان اٹھوادیا اوراپنی بیوی کے سوا جتنی عورتیں تھیں سب کو رخصت کر دیا پہلی ملاقات میں بیوی سے جو بات کی وہ خدا اور رسول کی اطاعت سے متعلق تھی۔

علم دین

جناب رسالت مآبؐ فرمایا کرتے تھے کہ سلمانؓ علم سے بھرا ہوا ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ نے اپنے شاگردوں سے فرمایا علم چار شخصوں سے حاصل کرو۔ ان چاروں میں ایک حضرت سلمانؓ تھے۔ ایک دفعہ حضرت سلمانؓ کو اپنے دینی بھائی حضرت ابو درداءؓ کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ ضرورت سے زیادہ وقت عبادت میں گزار دیتے ہیں کھانے کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ حضرت ابو در داءؓ نفلی روزہ سے ہیں حضرت سلمانؓ نے اصرار کر کے حضرت ابو درداءؓ کو روزہ افطار کرایا اور اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا۔ رات کو ابو درداءؓ عبادت کے لئے اٹھنے لگے تو حضرت سلمانؓ نے ہاتھ پکڑ لیا جب نماز فجر کا وقت ہوا تو خود جگا کر کہنے لگے اٹھ نماز پڑھو۔ تم پر صرف اللہ ہی کا حق نہیں بلکہ اپنی جان، بیوی، بچے، مہمان سب کا حق ہے۔ یہ معاملہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا۔ آپؐ نے ارشادفرمایا: ’’سلمان سچ کہتے ہیں اور اے ابو درداء! سلمان تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔

اچھی اچھی باتیں

حضرت سلمانؓ چاہتے تھے کہ علم کی جو دولت ان کو حاصل ہوئی ہے وہ ہر شخص کو حاصل ہو جائے۔ اس لئے وہ جس کسی کو ملتے تھے اسے اچھی اچھی باتیں سناتے اور قیمتی نصیحتیں کرتے تھے۔ ان کی چند نصیحتیں درج ذیل ہیں:

  1. علم سمندر ہے۔ اس میں کبھی کمی نہیں آسکتی۔
  2. عمر بہت کم ہے اور علم بہت زیادہ ہے۔ جتنا علم ضروری ہے اسے حاصل کر وباقی چھوڑ دو۔
  3. اگر برائی ظاہر کرتے ہوتو نیکی بھی ظاہر کر واور اگر برائی چھپ کر کرتے ہو تو نیکی بھی چھپ کر کرو۔
  4. خراب باتیں کرنے سے چپ رہنا بہتر ہے۔
  5. جب غصہ آئے تو زبان اور ہاتھ کو قابو میں رکھو۔
  6. اگرلوگوں سے تعلق رکھو تو سچی بات کہو اور امانت کو ادا کرتے رہو۔
  7. دکھ ہو یا سکھ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کو یادرکھو جو سکھ میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور دکھ کے وقت دعا کرتا ہے فرشتے اس کی آواز کو پہچان لیتے ہیں۔
  8. پاک جگہ پر رہنے سے انسان پاک نہیں بن جا تا بلکہ خوبی یہ ہے کہ وہ خود پاک ہو۔
  9. مال ودولت کی زیادتی، آل اولاد کی کثرت آخرت میں کچھ فائدہ نہ دے گی۔اس دن علم اور عمل کام آئے گا۔
  10. جب کسی کام کا ارادہ کرو،کوئی فیصلہ کرویا کچھ تقسیم کروتو اللہ کو یادرکھو۔

وفات

حضرت سلمانؓ نے بہت لمبی عمر پائی تھی۔32 ہجری میں جب کہ حضرت عثمانؓ کی خلافت کا زمانہ تھا شہر مدائن میں انتقال کیا۔ جب وفات کا وقت آیا تو زاروقطار رونے لگے۔حاضرین میں سے حضرت سعد بن وقاصؓ نے پوچھا کہ آپ کیوں اس طرح رورہے ہیں حالانکہ رسول اللہﷺ آپؓ سے خوش گئے ہیں اور تھوڑی دیر میں حوض کوثر پر آپؓ سے ملنے والے ہیں۔ حضرت سلمانؓ نے جواب دیا۔ میں نہ صرف موت کے خوف سے روتا ہوں نہ دنیا کو چھوڑ نے کے غم سے بلکہ اس لیے روتاہوں کہ میرے پاس دنیا کا بہت سارا سامان جمع ہو گیا ہے بعد میں معلوم ہوا کہ اپنے جس سامان پر اس قدررور ہے تھے اس کی مالیت مشکل سے بیس درہم تھی۔ آپؓ نے مشک کا ایک ٹکرا اپنی بیوی کے پاس رکھا تھا۔ آپ نے بیوی کو بلایا اور حکم دیا کہ اس ٹکڑے کو پانی میں گھول کر میری چار پائی کے اوپر چھڑک دو کیونکہ ابھی میرے پاس کچھ ایسے مہمان آنے والے ہیں جو نہ تو جن ہیں نہ تو انسان ہیں نہ ان کو کوئی دیکھ سکتا ہے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا اور سلمان کی خواہش کے مطابق سب لوگ باہر چلےگئے۔ خود حضرت سلمانؓ چپ چاپ لیٹ گئے۔ کچھ دیر کے بعد جب سب لوگ واپس آئے تو دیکھا کہ روح پرواز کر چکی تھی۔

اِنََالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

اللہ تعالیٰ ان پراپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرے۔آمین

(درثمین احمد۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے اندر قناعت پیدا کرو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2022