• 26 اپریل, 2024

انسانی ارتقاء کا قرآنی تصور

قرآن کریم کے مطابق زندگی کا ارتقاء الٰہی ارادہ اور ہدایت الٰہی کا نتیجہ ہے۔ قرآن کر یم اعلان کرتا ہے کہ ہم آہنگی اور پیچیدگی جو کہ تخلیق میں پائی جاتی ہے وہ اپنی مرضی سے اور اپنے آپ نہیں ہو سکتی اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بالاتر طاقت ہو جو کہ خدا کی طاقت ہے۔ اس کے بر عکس جدید نظریہ ارتقاء اس بات کی طرف لانا چاہتا ہے کہ زندگی کی بقاء اور اس کی پیچیدگی محض حا دثانی تغیرات سے ہوئی ہے۔ یہ بس ان کا دعویٰ ہے اس کی دلیل اور ثبوت ان کے پاس کوئی نہیں یہ ابھی تک یہ بتانے میں ناکام ہیں کہ زندگی پیدا کیسے ہوئی اور حادثات زندگی کوپیچید گی اور ہم آ ہنگی کی طرف کیسے لے جاسکتے ہیں۔

زندگی کا ارتقاء خدائی مرضی یا قدرتی انتخاب

قرآن کریم مانتا ہے اور بیان بھی کرتا ہے کہ زندگی ارتقاء کا نتیجہ ہے لیکن یہ ارتقاء اندھا یا بے ترتیب نہیں ہے بلکہ ارتقاء الٰہی ہاتھ سے کنٹرول کیا گیا ہے اور یہی الٰہی ہاتھ زندگی کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ زندگی میں ہونے والی تمام تبدیلیوں اور پیچیدگیوں کو عمل میں لانے والا ہے اور اسی الٰہی ہاتھ اور خدائی طاقت اور ارادے سے زندگی کا آغاز ہوا۔ تاہم جدید حیاتیات جو کہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء پر مبنی ہے ارتقاء کو محض قدرتی انتخاب کے اصول سے منسوب کرتی ہے۔ اس اصول کے مطابق انسان، جانور اور تمام پودے محض قدرتی حادثات سے تیار ہوئےاور انسانی جسم کا ارتقاء محض اربوں سالوں میں پھیلے ہوئے خود کار قدرتی عمل کا نتیجہ ہے۔ اس بے حد طویل عمل میں انسان بغیر کسی خدائی مدد اور رہنمائی اور بغیر کسی مقصد کے یک خلوی جاندار سے ارتقاء پذیر ہوا۔ قدرتی انتخاب کا تصور ڈارون کے نظریہ ارتقار پر مبنی ہے۔ قرآن کریم کے برعکس اس قدرتی انتخاب کے خیال نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ تمام کائنات ایک سب سے زیادہ ذہین دماغ کے ذریعے بنائی گئی ہے اور چلائی جارہی ہے اور یہ ذہین دماغ خدا تعالیٰ کا دماغ اور خدائی ہا تھ ہے۔

قرآنی تصور اور اس فطری انتخاب کے نظریہ میں ایک اور فرق

قرآن کریم کی تعلیمات اور اس فطری انتخاب کے نظریہ میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ یہ قدرتی انتخاب بتاتا ہے کہ انسان اور بندر ایک ہی آباؤاجداد سے تیار ہوئے ہیں۔ اسی منطق کی پیروی کرتے ہوئے جدید علوم حیاتیات انسان کو بندر کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ حالت مانتے ہیں اور بندروں کو انسان کے سب سے حالیہ حالت اجداد مانتے ہیں۔ اس کے بالکل برعکس قرآن کریم ایک مشترکہ آباؤ اجداد کا خیال پیش نہیں کرتا اور اسی طرح بندر کو انسانی ارتقائی سلسلہ کا حصہ نہیں مانتا۔

فطری (قدرتی) انتخاب

فطری انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ خدائی مرضی نے نہیں بلکہ قدرت نے خود ارتقاء کی رہنمائی کی ہے

فطری انتخاب کی تین شرائط

نیو ڈارون کے مطابق قدرتی انتخاب ہونے سے پہلے تین شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے۔ پہلی شرط تولید ہے یعنی اولاد کا ہونا ضروری ہے۔ دوم میوٹیشن (زنده اجسام میں ڈی این اے کی ساخت میں اچانک تبدیلیاں ہونا) کی وجہ سے اولاد کو والدین سے مختلف ہونا چاہیے۔ خواہ نہ ہونے کے برابر ہو۔ تیسری شرط اولاد میں حادثاتی تغیر کو آخر کار زندہ رہنے اور مزید تولید کرنے کی صلاحیت میں فرق پیدا کرنا چا ہے۔

(Charles worth Deberah and Brian, (2003) Evolution orbert Uni press 7)

مندرجہ بالا تین شرائط کا مظاہرہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔

اول شرط کے مطابق بندر اولاد تو پیدا کر سکتا ہے مگر بندر انسانی اولاد کو جنم نہیں دے سکتا۔ اس کی اولاد ہو سکتی ہے جو قدرے انسان جیسی ہو بعد میں یہ انسان نما بندر ایک ایسی اولاد کو جنم دے گا جو اپنے والدین کی نسبت زیادہ انسانوں سے ملتی جلتی ہوگی۔ کافی وقت دئیے جانے پر بندر کے آباؤ اجداد کو انسانی نسل سے جوڑنے والے بہت سے چھوٹے اقدامات کا ایک سلسلہ ہو سکتا ہے قدرتی انتخاب کے یہ تین عناصر ایک ایسا طریقہ کار فراہم کرتے ہیں جس کے ذریعہ چیزیں بغیر کسی بیرونی ذریعہ یا مدد کے ڈیزائن بدل سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک گھڑی ساز اس گھڑی کا منصوبہ بناتا ہے جو وہ شروع کرنے سے پہلے بنائے گا۔ دوسری طرف قدر تی انتخاب حیاتیات میں معمولی تبدیلیاں لاتا ہے جس کا کوئی خاص انجام نظر نہیں آتا۔ ایک طویل عرصے میں یہ بہت سی چھوٹی تبدیلیاں آخر کار بندر کو انسان میں تبدیل کر سکتی ہے۔

ڈارون کے نظریہ اور جدید حیاتیات کے ماہرین کے نظریہ میں ایک اختلاف

ڈارون کے نظریہ کے مطابق جانوروں میں ہونے والی تبدیلیاں ان کے ماحول میں ہونے والے تغیرات کی وجہ سے ہے ہیں یعنی جیسا ماحول ویسے ہی اس ماحول کے مطابق جانداروں کے اجسام میں تغیرات ہوئے۔ اس کے بر عکس حیاتیات کے ماہرین کے مطابق جانداروں کے اندر ہی ہونے والے تغیرات ہی ارتقاء کی بنیاد ہیں۔

اس کی مثال ایسے ہے کہ ڈارون کے مطابق زرافہ کی لمبی گردن اس کے ماحول میں اونچے اونچے درخت ہونے کی وجہ سے ہے جبکہ حیاتیات کے ماہرین کے مطابق چھوٹی گردن والے جانوروں میں ہونے والی تبدیلیاں ہی لمبی گردن ہونے کی باعث ہیں۔

ڈارون کی نظریہ ارتقاء کی تاریخ

قدرتی انتخاب کے اصول کو چارلس ڈارون نے اپنی مشہور کتاب میں پوری طرح واضح کیا تھا۔ ڈارون کی مشہور کتاب

On the Origin of Species

1889ء میں شائع ہوئی۔ اس نے یہ کتاب اپنی جنوبی امریکہ میں کی جانے والی تحقیقات کی بناء پر لکھی۔ اس نے اس سفر میں مختلف جانوروں، پودوں، فوسلز اور معدوم جانوروں کے کو فوسلز پر دریافتیں کیں۔ ان معدوم جانوروں کی کچھ نشانیاں زندہ بچ جانے والے جانوروں میں پائیں۔ ان معدوم ہونے والے اور زندہ بچ جانے والے جانوروں میں مماثلتیں دیکھ کر اس کی تو جہ ان سوالوں کی طرف ہوئی۔

جانور معدوم کیوں ہو جاتے ہیں؟

زندہ بچ جانے والے اور معدوم ہونے والے جانوروں میں مماثلت کیوں ہے؟

ڈارون سے پہلے کے زمانے میں ارتقاء کا تصورنمایاں تھا۔ تاہم یہ غیر یقینی تھا کہ ارتقاء کا عمل کیسے ہوا۔ ڈارون نے ارتقاء کے عمل کی وضاحت کے لیے قدر تی انتخاب کا نظریہ پیش کیا۔اس کے نتائج جو کہ حیاتیات کی دنیا میں کم و بیش قبول کیے جاتے تھے۔ وہ یہ ہیں کہ ارتقاء زمانہ کےآغاز سے ہورہا ہے اور آج بھی جاری ہے۔ انسانی ارتقاء کا ایک تصور یہ بھی ہے کہ انسان بونی مچھلی کی اولاد ہیں۔ جو کہ چار سو ملین سال پہلے سمندروں میں پہلی بار نمودار ہوئی تھی۔ اپنی ہڈیوں کے پنکھوں کا استعمال کرتے ہوئے یہ مچھلیاں سمندر سے باہر نکلیں اور آہستہ آہستہ زمین پر زندہ رہنے کے لیے ڈھل گئیں۔ یہ ہڈیوں والی مچھلی 370 ملین سال پہلے زمین پر رہنے والے تمام ایمفیبئنز، رینگنے والے جانوروں اور پرندوں کی آباؤ اجدار تھیں۔ جب کچھ رینگنے والے جانور پرندوں میں تبدیل ہوئے تو اگلی دو ٹانگیں آہستہ آہستہ پنکھ بن گئیں۔ دیگر رینگنے والے جانور چار ٹانگوں والے جانوروں میں تبدیل ہوئے۔ انسانوں میں اگلی ٹانگیں بازؤوں میں تبدیل ہوئیں۔ وہیل مچھلی میں یہ سب اعضار غائب ہو چکے ہیں بندر 35 ملین سال پہلے نمودار ہوئے اور جنگلوں میں درختوں پر رہتے تھے۔ قدرتی انتخاب کے مطابق کچھ غیر یقینی وجوہات کی بنیاد پر بندر کے ایک مخصوص گروہ کو تقریباً پچاس لاکھ سال پہلے جنگل سے نکال دیا گیا تھا۔ بالآخر اس جلاوطن بندر نے سیدھا چلنا سیکھ لیا اور آہستہ آہستہ انسان بن گیا۔

مسئلہ ارتقاء اور قرآنی کتب خانہ

پھر نیچرل ہسٹری والے بیان کرتے ہیں کہ انسان بندر سے بنا ہے۔ چنانچہ ڈارون نے اس تھیوری کو پیش کیا کہ پہلے دنیا میں چھوٹے جانور بنے پھر اس سے بڑے جانور بنے پھر ان جانوروں میں سے کسی جانور سے ترقی کر کے انسان بنا مگر وہ جانور جس سے انسان بنا اب ملتا نہیں، ہاں اتنا پتہ چلتا ہے کہ اس جانور کی اعلیٰ قسم بندر ہے۔ گویا اس کے نزدیک انسانی ارتقاء بندروں کی قسم کے ایک جانور سے ہوا ہے۔ مگر بعض دوسرے محققین کہتے ہیں کہ گو انسان نے ارتقائی قانون کے ماتحت ہی ترقی کی ہے مگر وہ حیوانات کی نسل سے بہت پہلے جدا ہو چکا تھا اور اسی وقت سے آزادانہ ترقی کر رہا ہے۔ چونکہ دنیا اس بارہ میں صحیح علم کی سخت محتاج تھی اِس لئے قرآنی کتب خانہ نے اس اہم موضوع کے متعلق بھی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ

مَا لَکُمۡ لَا تَرۡجُوۡنَ لِلّٰہِ وَقَارًا ﴿ۚ۱۴﴾ وَقَدۡ خَلَقَکُمۡ اَطۡوَارًا ﴿۱۵﴾

(نوح: 14-15)

یعنی اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا کہ تم اللہ کے متعلق وقار کا خیال نہیں رکھتے۔وقار کے معنی عام طور پر سنجیدگی کے سمجھے جاتے ہیں حالانکہ وقار کے معنی ہوتے ہیں حکمت کے ساتھ کام کرنا پس مَا لَکُمۡ لَا تَرۡجُوۡنَ لِلّٰہِ وَقَارًا کے یہ معنی ہیں تمہیں کیا ہو گیا کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ خیال کرتے ہو کہ وہ یونہی بغیر حکمت کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ ہر کام حکمت کے ساتھ کرتا وَقَدۡ خَلَقَکُمۡ اَطۡوَارًا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے تم کو درجہ بدرجہ مختلف تبدیلیوں میں سے گزارتے ہوئے پیدا کیا ہے تاکہ تمہاری پیدائش میں کوئی نقص نہ رہے اگر وہ بغیر کسی حکمت کے کام کرتا تو مختلف دوروں سے وہ انسان کو کیوں گزارتا وہ اُسے یک دم پیدا کر دیتا مگر اس نے انسان کو یک دم پیدا نہیں کیا بلکہ قدم بقدم کئی دوروں میں سے گزارتے ہوئے پیدا کیا ہے۔ کبھی اُس پر عدم کا دور تھا، کبھی ایک وجود تو تھا مگر بغیر دماغ کے، کبھی نطفہ سے اُس کی پیدائش ہونے لگی اور پھر آخر میں اُس پر وہ دور آیا جبکہ اُس کا دماغ کا مل ہو گیا اور وہ صحیح معنوں میں انسان کہلانے لگ گیا۔

(سیر روحانی صفحہ779)

انسانی پیدائش اور اس کے ادوار، چار مراحل

قرآن پاک کے مطابق خدا تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ مرحلہ وار تخلیق کرتا ہے انسانوں کو بھی مراحل میں بنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بھی مرحلہ وار اور آہستہ آہستہ کی اور فرمایا اس میں حکمت تھی اگر انسان کی تخلیق یک دم ہوجاتی تو اس میں بہت سے نقص رہ جاتے۔ خدا تعالیٰ ان مراحل کی مکمل تفصیل کو پیش نہیں کرتا لیکن ایسے اصول پیش کرتا ہے جو انسانوں کے ارتقاء کے چار بڑے مراحل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں انسان بے جان مادہ تھا۔دوسرے مرحلے میں انسان جسمانی طور پر انسان تھا مگر ذہنی طور پر جانوروں کےدرجے پر تھا۔ تیسرے مرحلے میں انسان نے سوچنے کی صلاحیتیں پیدا کیں۔ آخری مرحلے میں انسانوں نے ایک معاشرے کے طور پر اپنا وجود سیکھا۔

چنا نچہ قرآن کریم انسانی ارتقاء کے بارے میں بات کرتا ہے مادے سے ذہن تک کے مراحل میں۔ یہ ارتقاء ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ تک ہوا اور الٰہی مرضی اور خدائی ہاتھ سے ہوا۔ نہ کہ اپنے آپ۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

نَحۡنُ خَلَقۡنٰکُمۡ فَلَوۡلَا تُصَدِّقُوۡنَ ﴿۵۸﴾ اَفَرَءَیۡتُمۡ مَّا تُمۡنُوۡنَ ﴿ؕ۵۹﴾ ءَاَنۡتُمۡ تَخۡلُقُوۡنَہٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الۡخٰلِقُوۡنَ ﴿۶۰﴾

(الواقعہ: 58-60)

پیدائش انسانی کے متعلق عام قرآنی اصول

پھر عام اصول پیدائش کا قرآن کریم نے یہ بتایا کہ

وَاَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الۡمُنۡتَہٰی ﴿ۙ۴۳﴾ وَاَنَّہٗ ہُوَ اَضۡحَکَ وَاَبۡکٰی ﴿ۙ۴۴﴾ وَاَنَّہٗ ہُوَ اَمَاتَ وَاَحۡیَا ﴿ۙ۴۵﴾ وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوۡجَیۡنِ الذَّکَرَ وَالۡاُنۡثٰی ﴿ۙ۴۶﴾ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اِذَا تُمۡنٰی ﴿۪۴۷﴾ وَاَنَّ عَلَیۡہِ النَّشۡاَۃَ الۡاُخۡرٰی ﴿ۙ۴۸﴾

(النجم: 43-48)

کہ دیکھو تمہاری ابتداء خدا سے ہوئی اور تمہاری انتہاء بھی خدا تک جاتی ہے۔ تمہاری حالت ایسی ہی ہے جیسے قوس کے درمیان وتر ہوتا ہے جس طرح کمان کو خم دے دیا جائے۔ تو اس کے دونوں اطراف آپس میں مل جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر تم اپنی پیدائش کی طرف چلتے چلے جاؤ اور دیکھو کہ تم کس طرح پیدا ہوئے تو تمہیں ایک خدا اس تمام خلق کے پیچھے نظر آئے گا اور اگر تم دیکھو کہ مرنے کے بعد انسان کہاں جاتا ہے۔ تو وہاں بھی تمہیں خدا ہی دکھائی دے گا، گویا انسان کی پیدائش بھی خدا تعالیٰ سے شروع ہوتی ہے اور اس کی انتہاء بھی خدا تعالیٰ پر ہے اور باریک در باریک ہوتے ہوئے آخر خدا تعالیٰ پر سبب اولیٰ ختم ہو جاتا ہے۔یہ اوپر کی آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان سے یہ نتائج نکلتے ہیں کہ:

  1. انسان ماده ازلی نہیں ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے ہاتھوں سے پیدا کیا گیا ہے۔
  2. دوسرے یہ کہ انسان کی پیدائش ارتقاء سے ہوئی ہے یہ نہیں ہوا کہ وہ یکدم پیدا ہوگیا۔
  3. تیسرے یہ کہ انسان، انسان کی حیثیت سے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ بندروں کی کسی قسم سے ترقی کر کے انسان بنا جیسا کہ ڈارون کہتا ہے۔
  4. چوتھے یہ کہ پہلے وہ جمادی دور سے گزرا ہے یعنی ایسی حالت سے جو جمادات والی حالت تھی۔
  5. پانچویں یہ کہ اس کے بعد وہ حیوانی حالت میں آیا جب کہ اس میں زندگی پیدا ہو گئی تھی۔ لیکن ابھی اس میں عقل پیدا نہ ہوئی تھی وہ جانوروں کی طرح چلتا پھرتا اور کھاتا پیتا تھا۔
  6. اس کے بعد اس میں عقل پیدا ہوئی اور وہ حیوان ناطق ہوگیا مگر ابھی چونکہ اس میں کچھ کسرباقی تھی اس لیے پھر
  7. اُس نے اور زیادہ ترقی کی اور وہ اس حالت سے بڑھ کر متمدن انسان ہو گیا۔ جس کا اشارہ اللہ تعالیٰ نے ثم جَعلکم ازواجاً میں کیا ہے۔ یعنی انفرادی ترقی کی جگہ نظام اور قانون کی ترقی نے لے لی اور پارٹی سسٹم شروع ہو گیا اور اب بجائےاس کے کہ ہر انسان الگ الگ کام کرتا جیسے بندر اور سؤر اور کتے وغیرہ کرتے ہیں۔ انسان نے مل کر کام کرنا شروع کر دیا اور قانوں کی ترقی شروع ہوئی۔

یہ چار بڑے بڑے دور ہیں جو قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں یعنی:

  1. جمادی دور
  2. حیوانی دور
  3. عقل کا دور اور
  4. متمدن انسان کا دور

اس تمہید کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسانی دور دراصل وہی کہلا سکتا ہے جب کہ بشر نے عقل حاصل کرلی جب تک اسے عقل حاصل نہیں تھی وہ ایک حیوان تھا۔ گو خدا کے مد نظر یہی تھا کہ وہ اسے ایک باشعور اور متمدن انسان بنائے۔ مگر بہرحال جب تک اس میں عقل نہیں تھی وہ انسان نہیں کہلا سکتا تھا۔ اُس وقت اس کی ایسی ہی حالت تھی جیسے ماں کے پیٹ میں بچہ ہوتا ہے۔ اب ماں کے پیٹ میں جب بچہ ہوتا ہے تو وہ انسانی بچہ ہی ہوتا ہے کتا نہیں ہوتا مگر چونکہ اس میں ابھی بہت کچھ کمزوری ہوتی ہے اس لئے وہ کامل انسان بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح انہیں انسانی شکل تو حاصل تھی مگر انسا نیت کے کمالات انہوں نے حاصل نہیں کیے تھے اور نہ ابھی تک ان میں عقل پیدا ہوئی تھی۔ انسان کہلانے کا وہ اسی وقت مستحق تھا جب کہ اس نے عقل حاصل کی، لیکن اس دور کو بھی حقیقی معنوں میں دور انسانیت نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انسان کی کامل خصوصیت عقل نہیں بلکہ نظام اور قانون کے ماتحت زندگی بسر کرنا ہے اور یہی انسانی پیدائش کا مقصود ہے اسی لئے میں اصطلاحاً عقل والے دور کو بشری دور اول کہوں گا اور نظام والے دور کو انسانی دور کہوں گا۔ یعنی پہلے دور میں وہ صرف بشر تھا اور دوسرے دور میں بشر و انسان دونوں اس کے نام تھے۔

(سیر روحانی صفحہ24-25)

واخر دعوا نا الحمد للّٰه رب العالمین

(احتشام فرخ)

پچھلا پڑھیں

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے اندر قناعت پیدا کرو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2022