• 20 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍دسمبر 2022ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 2؍دسمبر 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

’’…اللہ اکبر! ان دونوں (ابوبکرؓو عمرؓ) کے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے۔ وہ دونوں ایسے (مبارک) مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰؑ اور عیسیٰؑ زندہ ہوتے تو بصد رشک وہاں دفن ہونے کی تمنا کرتے‘‘

’’پہلے خلیفہ کی یاد مسلمانوں میں ہمیشہ ایک ایسے انسان کے طور پر جاگزیں رہی ہے جو کامل وفا دار، لطف و کرم کا پیکر تھا اور کوئی سخت سے سخت طوفان بھی ان کی مستقل تحمل مزاجی کو ہلا نہ سکا‘‘ (جے جے سانڈرز)

’’جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو ابوبکر آپؐ کے خلیفہ اور جانشین بنے اور پہاڑوں کو بھی ہلا دینے والے ایمان کے ساتھ انہوں نے بڑی سادگی اور سمجھداری سے تین یا چار ہزار عربوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی سی فوج کے ساتھ ساری دنیا کو اللہ کے تابع فرمان بنانے کا کام شروع کیا‘‘ (ایچ جی ویلز)

حضرت عمرؓ ہوں یا حضرت ابوبکرؓ یہ سب اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار اور کامل متبع اور عاشق تھے

حضرت ابوبکرؓ بھی بادشاہ ہوئے لیکن ان میں عجز تھا، انکسار تھا آپؓ فرماتے تھے مجھے خدا تعالیٰ نے لوگوں کی خدمت کے لیے مقرر کیا ہے۔ اور خدمت کے لیے جتنی مہلت مجھے مل جائے اس کا احسان ہے

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےمناقبِ عالیہ کا ایمان افروز بیان

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے محاسن اور مناقب

بیان ہو رہے تھے۔ اس سلسلہ میں ان کا لوگوں میں سب سے بہتر اور محبوب ہونے کے بارے میں لکھا ہے۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم لوگوں میں سے ایک کو دوسرے سے بہتر قرار دیا کرتے تھے۔ مقابلہ ہوتا تھا کہ کون بہتر ہے دوسرے سے اور اس وقت سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ سب سے بہتر ہیں، پھر حضرت عمر بن خطاب، پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب فضل ابی بکر بعد النبی ﷺ حدیث نمبر 3655)

حضرت جابر بن عبداللہؓ نے بیان کیا: حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اے لوگوں! میں سب سے بہتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد! حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی تعریف کی تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اگر تم ایسا کہتے ہو تو مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سورج طلوع نہیں ہوا کسی آدمی پر جو عمرؓ سے بہتر ہو۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب بَابُ فی مَنَاقِبِ عمربن الخطابؓحدیث 3684) یعنی آپؓ نے فوراً اپنی عاجزی کا اظہار فرمایا کہ مجھے کہتے ہو تم بہتر ہو حالانکہ میں نے تو تمہارے بارے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا ہے کہ تم بہتر ہو۔

عبداللہ بن شفیق نے بیان کیا کہ مَیں نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھا تو انہوں نے فرمایا حضرت ابوبکرؓ۔ مَیں نے کہا پھر کون؟ فرمایا حضرت عمرؓ۔ مَیں نے کہا پھر کون؟ فرمایا پھر حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ۔

وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا پھر کون؟ پھر آپؓ خاموش رہیں۔

(سنن الترمذی کتاب المناقب بَابُ مناقب ابی بکر الصدیق حدیث نمبر 3657)

محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ مَیں اس شخص کے بارے میں گمان نہیں کرتا جو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی تنقیص بیان کرتا یعنی ان میں نقص نکالتا ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہو۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب بَابُ فی مَنَاقِبِ عمربن الخطابؓ حدیث نمبر3685) اور پھر یہ بھی ساتھ دعویٰ ہو کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ میں نقص نکالنے کے بعد یہ دعویٰ غلط ہے کہ پھر ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے کیونکہ یہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑے پیارے تھے۔

حضرت عائذبن عمروؓ سے روایت ہے کہ حضرت سلمانؓ، حضرت صہیبؓ اور حضرت بلالؓ چند لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوسفیان آئے۔ اس پر اُن لوگوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! اللہ کی تلواروں نے اللہ کے دشمن کی گردن کے ساتھ ابھی تک اپنا حساب چُکتا نہیں کیا۔ یعنی صحیح طرح جو بدلہ لینا چاہیے تھا وہ نہیں لیا۔ راوی کہتے ہیں یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے کہا: کیا تم قریش کے بڑے سرداروں کے بارے میں اس طرح کہہ رہے ہو؟ ابوسفیان بھی قریش کے سرداروں میں سے ہیں۔ تم کہہ رہے ہو کہ ان سے ہم نے بدلہ نہیں لیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ کو یہ بات بتائی تو آپؐ نے فرمایا کہ اے ابوبکر! شاید تم نے ان لوگوں یعنی سلمان، صہیب اور بلال کو ناراض کر دیا۔ اگر تم نے انہیںناراض کیا تو سمجھ لو کہ تم نے اپنے رب کو ناراض کیا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ ان تینوں حضرات کے پاس آئے اور کہا: پیارے بھائیو! کیا میں نے آپ کو ناراض کر دیا؟ بڑے معذرت خواہانہ انداز میں یہ کہا۔ تو انہوں نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے اے ہمارے بھائی! اللہ آپ کو معاف کرے۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل سلمان و بلال وصہیب رضی اللّٰہ عنہم حدیث نمبر 6412) بہرحال یہاں یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ

حضرت ابوبکرؓ کی عاجزی

کس قدر تھی۔ ایسے لوگ جن کو آپؓ نے غلامی سے آزاد بھی کروایا ہوا ہے اس کے باوجود ان کے پاس آتے ہیں اور ان سے معافی مانگتے ہیں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اطاعت کا کیا معیار تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی کہ تم نے ناراض کر دیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ جا کے معافی مانگو لیکن آپؓ فوراً خود گئے اور اُن سے معافی مانگی۔ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے شرح میں لکھا گیا ہے کہ یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار کی جنگ بندی کے معاہدہ کے بعد کا ہے جب ابوسفیان ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت مسلمانوں کا خیال تھا کہ کیوں نہ ہم نے ان کو پہلے ہی مار دیا ہوتا۔

(صحیح مسلم بشرح النووی جزء16 صفحہ96 مؤسسۃ قرطبۃ 1991ء)

حفظِ قرآن کے بارے میں

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی تاریخ کے حوالے سے باتیں فرمائی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’ابوعبیدہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجر صحابہؓ میں سے مندرجہ ذیل کا حفظ ثابت ہے۔ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، سعدؓ، ابنِ مسعودؓ، حذیفہؓ، سالمؓ، ابوہریرہؓ، عبداللہ بن سائبؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، اور عورتوں میں سے عائشہؓ، حضرت حفصہؓ اور حضرت ام سلمہؓ۔ ان میں سے اکثر نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی قرآنِ شریف حفظ کر لیا تھا اور بعض نے آپؐ کی وفات کے بعد حفظ کیا۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ429-430)

ثانی اثنین کے بارے میں

حضرت ابوبکرؓ کی اپنی روایت یوں ہے۔ حضرت انسؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے روایت کی۔ وہ کہتے تھے کہ مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اور مَیں اس وقت غار میں تھا (یعنی حضرت ابوبکرؓ نے کہا جبکہ وہ غار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے) کہ اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں کے نیچے نگاہ ڈالے (یعنی کافر جو باہر کھڑے تھے اگر نیچے دیکھے) تو ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر آپ کا کیا خیال ہے ان دو شخصوں کی نسبت جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہو۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب المہاجرین و فضلہم حدیث نمبر3653) بخاری کی روایت ہے یہ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’(حضرت) ابوبکر صدیقؓ کے محاسن اور خصوصی فضائل میں سے ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سفرِ ہجرت میں آپ کو رفاقت کے لئے خاص کیا گیا اور مخلوق میں سے سب سے بہترین شخص‘‘ یعنی آنحضرت ’’(صلی اللہ علیہ وسلم) کی مشکلات میں آپ ان کے شریک تھے اور آپ مصائب کے آغاز سے ہی حضورؐ کے خاص انیس بنائے گئے تھے‘‘ یعنی خاص دوست بنائے گئے تھے ’’تاکہ محبوب خداؐ کے ساتھ آپؓ کا خاص تعلق ثابت ہو اور اس میں بھید یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ خوب معلوم تھا کہ صدیقِ اکبرؓ صحابہؓ میں سے زیادہ شجاع، متقی اور ان سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اور مردِ میدان تھے اور یہ کہ سید الکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فنا تھے۔ آپؓ‘‘ یعنی حضرت ابوبکرؓ ’’ابتدا سے ہی حضورؐ کی مالی مدد کرتے اور آپؐ کے اہم امور کا خیال فرماتے تھے۔ سو اللہ نے تکلیف دہ وقت اور مشکل حالات میں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آپؓ کے ذریعہ تسلی فرمائی اور الصّدیق کے نام اور نبی ثقلینؐ کے قرب سے مخصوص فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثَانِیَ اثْنَیْنِ کی خلعتِ فاخرہ سے فیضیاب فرمایا اور اپنے خاص الخاص بندوں میں سے بنایا۔‘‘

(سر الخلافہ مترجم صفحہ59-60، روحانی خزائن جلد8 صفحہ338-339)

غیر مسلم مصنفین نے بھی حضرت ابوبکرؓ کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

الجیریا کا بیسویں صدی کا ایک مؤرخ ہے آندرے سرویئر (André Servier) وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ ابوبکر کا مزاج سادہ تھا۔ غیر متوقع عروج کے باوجود انہوں نے غربت والی زندگی بسر کی۔ جب انہوں نے وفات پائی تو انہوں نے اپنے پیچھے ایک بوسیدہ لباس، ایک غلام اور ایک اونٹ ترکہ میں چھوڑا۔ وہ اہلِ مدینہ کے دلوں پر سچی حکومت کرنے والے تھے۔ ان میں ایک بہت بڑی خوبی تھی اور وہ تھی قوت و توانائی۔ لکھتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس خوبی کے ذریعہ غلبہ حاصل کیا تھا اور جو آپ کے دشمنوں میں کمیاب تھی وہ خوبی حضرت ابوبکرؓ میں پائی جاتی تھی اور وہ کیا خوبی تھی،

غیرمتزلزل ایمان اور مضبوط یقین

اور ابوبکر صحیح جگہ پر صحیح آدمی تھا۔ پھر لکھتا ہے کہ اس معمر اور نیک سیرت انسان نے اپنے موقف کو اختیار کیا جبکہ ہر طرف بغاوت برپا تھی۔ آپ نے اپنے مومنانہ اور غیر متزلزل عزم سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو از سرِ نو شروع کیا۔

(Islam and the Psychology of the Muslim by André Servier page:51)

پھر ایک برطانوی مؤرخ ہے جے جے سانڈرز(J.J. Saunders)۔ وہ لکھتا ہے کہ

پہلے خلیفہ کی یاد مسلمانوں میں ہمیشہ ایک ایسے انسان کے طور پر جاگزیں رہی ہے جو کامل وفا دار، لطف و کرم کا پیکرتھا اور کوئی سخت سے سخت طوفان بھی ان کی مستقل تحمل مزاجی کو ہلا نہ سکا۔

ان کا عہدِ حکومت اگرچہ مختصر تھا لیکن اس میں جو کامیابیاں حاصل ہوئیں وہ بہت عظیم تھیں۔ ان کی طبیعت کے ٹھہراؤ اور ثبات و استقلال نے ارتداد پر قابو پا کر عرب قوم کو دوبارہ دائرہ ٔاسلام میں داخل کر دیا اور ان کے تسخیرِ شام کے مصمم ارادے نے عرب دنیا کی سلطنت کی بنیاد رکھ دی۔

(A History of Medieval Islam by J.J. Saunders page 44-45 London 2002)

پھر ایک اَور انگریز مصنف ہے ایچ جی ویلز (H.G. Wells)۔ یہ کہتا ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی سلطنت کی اصل بنیاد رکھنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ابوبکر تھے جو آپؐ کے دوست اور مددگار تھے۔ خیر یہ تو مبالغہ کر رہا ہے یہاں۔ بہرحال یہ لکھ رہا ہے۔ پھر آگے لکھتا ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متزلزل کردار کے باوجود ابتدائی اسلام کا دماغ اور تصور تھے۔ (العیاذ باللہ، نعوذ باللہ) تو ابوبکر اس کا شعور اور عزم تھے۔ جب کبھی محمد متزلزل ہوتے (صلی اللہ علیہ وسلم) تو ابوبکر ان کی ڈھارس بندھاتے تھے۔ بہرحال یہ باتیں تو اس کی فضول گوئی اور لغو باتیں ہیں جس میں کوئی سچائی نہیں ہے لیکن یہ آگے جو صحیح بات لکھ رہا ہے وہ یہ لکھ رہا ہے کہ

جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو ابوبکر آپؐ کے خلیفہ اور جانشین بنے اور پہاڑوں کو بھی ہلا دینے والے ایمان کے ساتھ انہوں نے بڑی سادگی اور سمجھداری سے تین یا چار ہزار عربوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی سی فوج کے ساتھ ساری دنیا کو اللہ کے تابع فرمان بنانے کا کام شروع کیا۔

(A Short History Of the World by H.G. Wells page 76)

بہرحال جیساکہ میں نے کہا کہ مصنف نے حضرت ابوبکرؓ کی بعض خوبیوں کا ذکر کیا ہے جو بلاشبہ اُن میں موجود تھیں لیکن چونکہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلیٰ و ارفع مقامِ نبوت کی حقیقت کا ادراک اور شعور نہیں رکھتے تھے اس لیے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ وغیرہ کی تعریف میں اس حد تک مبالغہ آمیزی سے کام لے جاتے ہیں کہ جو کسی بھی طور پر درست نہیں ہو سکتا حالانکہ

حضرت عمرؓ ہوں یا حضرت ابوبکرؓ یہ سب اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار اور کامل متبع اور عاشق تھے۔

یہ لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شعور نہ تھے بلکہ خادمانہ رنگ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہاتھ اور پاؤں تھے۔ ایسا ہی دینِ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دماغ کا نام یا کام نہ تھا جس طرح اس نے یہ لکھا ہے کہ اسلام جو تھا اس کا دماغ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے بلکہ سراسر خدائی راہنمائی اور وحیٔ الٰہی کے نتیجہ میں ایک کامل اور مکمل شریعت اور دین کا نام اسلام ہے اور نہ ہی کسی بھی گھبراہٹ یا تزلزل کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھارس بنے بلکہ اوّل تو اس اشجع الناس، جری اور بہادر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں ہم کبھی کسی گھبراہٹ یا تزلزل کو دیکھ نہیں سکتے اور اگر کوئی پریشانی کا موقع آیا بھی ہو تو خدائے قادر و توانا ان کے لیے ڈھارس بنتا رہا۔ مصنف نے تو لکھا ہے کہ ابوبکر آپؐ کی ڈھارس بندھاتے تھے جبکہ اس کے بالکل الٹ ہم نے دیکھا ہے کہ اگر حضرت ابوبکرؓ کی زندگی میں کسی پریشانی یا گھبراہٹ کا وقت آیا بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے ڈھارس بنا کرتے تھے جیساکہ ہجرت کے موقع پر جب حضرت ابوبکرؓ سخت پریشان ہوئے اور گھبرائے۔ بےشک یہ گھبراہٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی تھی لیکن حضرت ابوبکرؓ کی اس گھبراہٹ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ڈھارس بنے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے یہ کہا کہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (التوبہ: 40) کہ اے ابوبکر! تم گھبراؤ نہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اور جیساکہ ابھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے خود بیان فرمایا جب یہ گھبراہٹ تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلی دلائی۔ پس

یہ ایک واقعہ ہی آپؐ کے عزم، توکل اور اللہ تعالیٰ کے خاص نبی ہونے کی واضح دلیل ہے

لیکن بہرحال یہ عقل کے اندھے اگر ایک بات سچ کہنے میں مجبور ہوتے ہیں تو کچھ نہ کچھ بیچ میں گند ملانے کی ضرور کوشش کرتے ہیں۔

پھر ایک اَور برطانوی مستشرق ہے ٹی ڈبلیو آرنلڈ (T.W. Arnold) ۔کہتا ہے کہ وہ (ابوبکرؓ) ایک دولت مند تاجر تھے۔ اعلیٰ کردار اور اپنی ذہانت اور قابلیت کی بنا پر ان کے ہم وطن ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنی دولت کا بڑا حصہ اُن مسلمان غلاموں کو خریدنے پر صرف کر دیا جنہیں کفار ان کے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر ایمان لانے کے سبب اذیتیں دیتے تھے۔

(The Preaching of Islam by T.W. Arnold page 10 Archibald constable & co 1896)

پھر سکاٹ لینڈ کا ایک مستشرق اور برطانوی ہندوستان میں شمال مغربی صوبوں کا لیفٹیننٹ گورنر سر ولیم میور (Sir William Muir)ہے۔ یہ لکھتا ہے کہ

حضرت ابوبکرؓ کا عہدِ حکومت مختصر تھا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام ابوبکر سے زیادہ کسی اَور کا ممنون نہیں۔

یعنی محمدؐ کے بعد ابوبکرؓ سے زیادہ اسلام کی خدمت کسی اَور نے نہیں کی۔

(The Caliphate its rise, decline and fall by Sir William Muir. P. 86 The religious tract society 1892)

حضرت ابوبکرؓ کے اخلاقِ حسنہ کے بارے میں

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’کیا یہ سچ نہیں کہ بڑے بڑے زبردست بادشاہ ابوبکرؓ اور عمرؓ بلکہ ابوہریرہؓ کا نام لے کر بھی رضی اللہ عنہ کہہ اٹھتے رہے ہیں اور چاہتے رہے ہیں کہ کاش ان کی خدمت کا ہی ہمیں موقعہ ملتا۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ ابوبکر اور عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم نے غربت کی زندگی بسر کر کے کچھ نقصان اٹھایا۔ بےشک انہوں نے دنیاوی لحاظ سے اپنے اوپر ایک موت قبول کر لی۔ لیکن وہ موت ان کی حیات ثابت ہوئی اور اب کوئی طاقت ان کو مار نہیں سکتی۔ وہ قیامت تک زندہ رہیں گے۔‘‘

(شکریہ اور اعلان ضروری، انوارالعلوم جلد2 صفحہ74)

پھر فرماتے ہیں کہ ’’ابوبکرؓ کو اللہ تعالیٰ نے محض اِس لئے ابوبکرؓ نہیں بنایا تھا کہ وہ اتفاقی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہو گئے تھے۔ عمرؓ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے عمرؓ کا درجہ عطا نہیں کیا تھا کہ وہ اتفاقی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہو گئے تھے۔ عثمانؓ اور علیؓ کو محض اس لئے خدا تعالیٰ نے عثمانؓ اور علیؓ کا جو مرتبہ ہے وہ عطا نہیں کیا تھا کہ وہ اتفاقی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دامادی کے مقام پر پہنچ گئے تھے یا طلحہؓ اور زبیرؓ کو محض اس لئے کہ وہ آپؐ کے خاندان یا آپؐ کی قوم میں سے تھے اور آپؐ کے زمانہ میں پیدا ہو گئے تھے عزتیں اور رتبے عطا نہیں کئے۔ بلکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی قربانیوں کو ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا تھا کہ جس سے زیادہ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آتا۔‘‘

(خطبات محمود جلد26 صفحہ384-385)

پس یہ قربانیاں ہیں جو انسان کو مقام دلاتی ہیں۔

پھر حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کتنی عزت ہمارے دلوں میں ہے مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ عزت اُن کی اولاد کی وجہ سے ہے؟ ہم میں سے تو اکثر ایسے ہیں جو جانتے تک نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کی نسل کہاں تک چلی اور ان کی نسل کے حالات ہی محفوظ نہیں ہیں۔ آج بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں جو اپنے آپ کو حضرت ابوبکرؓ کی اولاد ظاہر کر کے اپنے آپ کو صدیقی کہتے ہیں۔ لیکن اگر ان سے کوئی کہے کہ تم قسم کھاؤ کہ واقعی تم صدیقی ہو اور تمہارا سلسلہ نسب حضرت ابوبکرؓ تک پہنچتا ہے؟ تو وہ ہرگز قسم نہیں کھا سکیں گے اور اگر وہ قسم کھا بھی جائیں تو ہم کہیں گے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں اور بے ایمان ہیں۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی نسل کے حالات اتنے محفوظ ہی نہیں ہیں کہ آج کوئی اپنے آپ کو صحیح طور پر ان کی طرف منسوب کر سکے۔ پس ہم حضرت ابوبکرؓ کی عزت اس لئے نہیں کرتے کہ ان کی نسل کا کام عالی شان ہے، ہم حضرت عمرؓ کی عزت اس لئے نہیں کرتے کہ ان کی نسل کا کام نہایت اعلیٰ پایہ کا ہے، ہم حضرت عثمانؓ کی عزت اس لئے نہیں کرتے کہ اُن کی نسل کارہائے نمایاں کر رہی ہے اور ہم حضرت علیؓ کو اس لئے نہیں یاد کرتے کہ ان کی نسل میں خاص خوبیاں ہیں۔ (حضرت علیؓ کا تو سلسلہ نسب بھی اب تک چل رہا ہے مگر ان کی عزت اس لئے نہیں کی جاتی کہ ان کی نسل اب تک قائم ہے۔) باقی بھی جتنے صحابہؓ تھے اُن میں سے کوئی ایک بھی تو ایسا نہیں جسے اُس کی نسل کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہو۔ پس حقیقت یہ ہے کہ ہم اُن کو اُن کی ذاتی قربانیوں کی وجہ سے یاد کرتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد27 صفحہ657)

پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ لو۔ آپؓ مکہ کے ایک معمولی تاجر تھے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوتے اور مکہ کی تاریخ لکھی جاتی تو مؤرخ صرف اتنا ذکر کرتا کہ ابوبکرؓ عرب کا ایک شریف اور دیانت دار تاجر تھا۔ مگر

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ابوبکرؓ کو وہ مقام ملا تو آج ساری دنیا اُن کا ادب اور احترام کے ساتھ نام لیتی ہے۔

جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور حضرت ابوبکرؓ کو مسلمانوں نے اپنا خلیفہ اور بادشاہ بنا لیا تو مکہ میں بھی یہ خبر جاپہنچی۔ ایک مجلس میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے جن میں حضرت ابوبکرؓ کے والد ابو قحافہ بھی موجود تھے۔ جب انہوں نے سنا کہ ابوبکرؓ کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کر لی ہے تو اُن کے لئے اس امر کو تسلیم کرنا نا ممکن ہو گیا اور انہوں نے خبر دینے والے سے پوچھا کہ تم کس ابوبکرؓ کاذکر کر رہے ہو؟ اس نے کہا۔ وہی ابوبکرؓ جو تمہارا بیٹا ہے۔ انہوں نے‘‘، ان کے والد نے، حضرت ابوبکرؓ کے والد ابوقحافہ نے ’’عرب کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر کہنا شروع کر دیا کہ اس نے بھی ابوبکرؓ کی بیعت کر لی ہے؟‘‘ پھر پوچھنا شروع کیا کہ یہ جوبڑے بڑے قبائل ہیں کیا انہوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی ہے؟ ہر ایک کا نام لے لے کر پوچھا۔ ’’اور جب اس نے کہا کہ سب نے متفقہ طور پر ابوبکرؓ کو خلیفہ اور بادشا ہ بنا لیا ہے تو ابو قحافہ بےاختیار کہنے لگے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ یعنی مَیں گواہی دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے سوا اَور کوئی معبود نہیں اور مَیں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ رسول اللہ اس کے سچے رسول ہیں۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’حالانکہ وہ دیر سے مسلمان تھے۔‘‘ ابوقحافہ فتح مکہ کے بعد یا شاید اس سے پہلے مسلمان ہو گئے تھے۔ ’’انہوں نے جو یہ کلمہ پڑھا۔ اور دوبارہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کیا تو اسی لئے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے سمجھا کہ یہ اسلام کی سچائی کا ایک زبردست ثبوت ہے ورنہ میرے بیٹے کی کیا حیثیت تھی کہ اس کے ہاتھ پر سارا عرب متحد ہو جاتا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ205-206)

پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ’’حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لو۔ انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مکہ کا ایک لیڈر تھا اَب ذلیل ہو گیا مگر اسلام سے پہلے اُنکی اِس سے زیادہ کیا عزت ہو سکتی تھی کہ دو سو یا تین سو آدمی ان کا نام عزت سے لیتے ہوں گے۔ لیکن اسلام کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں خلافت اور بادشاہت کی برکت سے نوازا۔ اور انہیں دنیا بھر میں دائمی عزت اور ایک لازوال شہرت کا مالک بنا دیا…کہاں ایک قبیلہ کی لیڈری اور کہاں یہ کہ تمام مسلمانوں کا خلیفہ اور مملکتِ عرب کا بادشاہ ہونا جس نے ایران اور روم سے ٹکر لی اور انہیں نیچا دکھایا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ87)

پھر ایک جگہ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو بادشاہت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ہی نہیں آپؐ کے خادموں کے قدموں پر بھی آ گری لیکن آپؐ نے نہ اُس وقت خواہش کی جب آپؐ کو ابھی بادشاہت نہیں ملی تھی اور نہ اس وقت‘‘ بادشاہت کی ’’خواہش کی جب آپؐ کو بادشاہت مل گئی۔ نہ حضرت ابوبکرؓ نے بادشاہت کی خواہش کی، نہ حضرت عمرؓ نے بادشاہت کی خواہش کی، نہ حضرت عثمانؓ نے بادشاہت کی خواہش کی اور نہ حضرت علیؓ نے بادشاہت کی خواہش کی بلکہ ان میں بادشاہت کے آثار پائے ہی نہیں جاتے تھے حالانکہ وہ دنیا کے اتنے زبردست بادشاہ تھے جن کی تاریخ میں مثال ہی نہیں ملتی۔ ان کی طبائع اتنی سادہ تھیں، ان کی ملاقاتیں اِتنی سادہ تھیں، ان میں تواضع اِس قدر پایا جاتا تھا کہ ظاہری طور پر یہ بھی معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ بادشاہ ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میری حکومت ہے، مَیں بادشاہ ہوں۔ ان میں سے کوئی شخص بھی کبھی اِس بات پر آمادہ نہیں ہواکہ وہ اپنی بادشاہت کا اظہار کرے اور نہ ہی وہ اِس بات کی کبھی خواہش کرتے تھے۔ درحقیقت جو خداتعالیٰ کے ہو جاتے ہیں دنیا خود ان کے قدموں پر آ گرتی ہے۔ لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہتوں سے انہیں مدد ملے گی لیکن

جو خداتعالیٰ کے ہو جاتے ہیں بادشاہتیں سمجھتی ہیں کہ انہیں ان کی غلامی سے عزت ملے گی۔’’

(اللہ تعالیٰ سے سچا اور حقیقی تعلق قائم کرنے میں ہی ہماری کامیابی ہے، انوارالعلوم جلد21 صفحہ99)

پھر ایک جگہ آپؓ فرماتے ہیں: ’’دیکھو! ابوبکر بادشاہ بن گئے۔ لیکن ان کا باپ یہ سمجھتا تھا کہ ان کا بادشاہ ہونا ناممکن ہے۔ کیونکہ انہیں بادشاہت خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی تھی۔ اس کے مقابلہ میں تیمور بھی ایک بڑا بادشاہ تھا لیکن وہ اپنی دنیوی تدابیر کی وجہ سے بادشاہ ہوا تھا۔ نپولین بھی بڑا بادشاہ تھا لیکن وہ اپنی محنت اور دنیوی تدابیر سے بادشاہ بن گیا تھا۔ نادر شاہ بھی بڑا بادشاہ تھا لیکن اسے بھی بادشاہت اپنی ذاتی محنت اور کوشش اور دنیوی تدابیر سے ملی تھی۔ پس بادشاہت سب کو ملی۔ لیکن ہم کہیں گے تیمور کو بادشاہت آدمیوں کے ذریعہ ملی۔ لیکن

ابوبکرؓ کو بادشاہت خدا تعالیٰ سے ملی۔

ہم کہیں گے نپولین کو بادشاہت دنیوی تدابیر سے ملی تھی لیکن حضرت عمرؓ کو بادشاہت خدا تعالیٰ سے ملی۔ ہم کہیں گے چنگیز خان کو بادشاہت دنیوی ذرائع سے ملی تھی لیکن حضرت عثمانؓ کو بادشاہت خدا تعالیٰ نے دی۔ ہم کہیں گے نادرشاہ دنیوی تدابیر سے بادشاہ بنا تھا لیکن حضرت علیؓ کو بادشاہت خداتعالیٰ نے دی۔

پس بادشاہت سب کوملی، دنیوی بادشاہوں کا بھی دبدبہ تھا، رُعب تھا۔ اُن کا بھی قانون چلتا تھا اور خلفاء کا بھی۔ بلکہ ان کا قانون ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ سے زیادہ چلتا تھا۔ لیکن یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بادشاہ مقرر ہوئے تھے‘‘ یعنی یہ چاروں ’’اور وہ آدمیوں کے ذریعہ بادشاہ ہوئے تھے۔‘‘ جو دنیادار بادشاہ تھے۔ ’’پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی اہم کام سے پہلے بِسْمِ اللّٰہ نہیں پڑھتا‘‘ بِسْمِ اللّٰہ کی برکات کا آپ یہاں ذکر فرما رہے ہیں ’’اسے برکت نہیں مل سکتی۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اپنے مقصد میں ناکام رہتا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ اسے وہ مقصد خداتعالیٰ سے نہیں مل سکتا۔ جو بادشاہت خدا تعالیٰ کے ذریعہ ملنے والی تھی وہ حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ کو ملی۔ ان کے سوا دوسرے لوگوں کونہیں ملی۔ دوسروں کو جو بادشاہت ملی وہ شیطان سے ملی یا انسانوں سے ملی۔ ورنہ لینن، سٹالن اور مالنکوف نے بِسْمِ اللّٰہ نہیں پڑھی لیکن بادشاہت ان کو بھی ملی۔ روزویلٹ، ٹرومین اور آئزن ہاور نے بھی بِسْمِ اللّٰہ نہیں پڑھی لیکن بادشاہت ان کو بھی ملی۔ وہ بِسْمِ اللّٰہ کو جانتے بھی نہیں اور نہ بِسْمِ اللّٰہ کی ان کے دلوں میں کوئی قدر ہے۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بِسْمِ اللّٰہ پڑھنے کے بغیر برکت نہیں ملتی تو اس کا یہ مطلب تھا کہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے کچھ نہیں ملتا۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے صرف اسی کو ملتا ہے جو ہر اہم کام سے پہلے بِسْمِ اللّٰہ پڑھ لیتا ہے۔ اب ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی چیز زیادہ برکت والی ہوتی ہے یا بندوں سے ملنے والی چیز زیادہ برکت والی ہوتی ہے۔ انسانی تدابیر سے حاصل کی ہوئی بادشاہت بند بھی ہو سکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بادشاہت بند نہیں ہو سکتی۔‘‘

کاش کہ یہ نکتہ مسلمانوں کو بھی آج سمجھ آ جائے۔ گو بسم اللہ پڑھتے بھی ہیں لیکن وہ بھی لگتا ہے صرف ظاہری منہ سے ادائیگی ہو رہی ہے اور دل سے نہیں۔

پھر لکھتے ہیں کہ ’’یزید بھی ایک بادشاہ تھا اُسے کتنا غرور تھا۔ اُسے طاقت کا کتنا دعویٰ تھا۔ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو تباہ کیا۔‘‘ بظاہر اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا تھا۔ ’’اس نے آپؐ کی اولاد کو قتل کیا اور اس کی گردن نیچے نہیں ہوتی تھی۔‘‘ بڑا اکڑ کے رہتا تھا ’’وہ سمجھتا تھا کہ میرے سامنے کوئی نہیں بول سکتا۔

حضرت ابوبکرؓ بھی بادشاہ ہوئے لیکن ان میں عجز تھا، انکسار تھا۔ آپؓ فرماتے تھے مجھے خدا تعالیٰ نے لوگوں کی خدمت کے لیے مقرر کیا ہے۔ اور خدمت کے لیے جتنی مہلت مجھے مل جائے اس کا احسان ہے۔

لیکن یزید کہتا تھا مجھے میرے باپ سے بادشاہت ملی ہے۔ میں جس کو چاہوں مار دوں اور جس کو چاہوں زندہ رکھوں۔ بظاہر یزید اپنی بادشاہت میں حضرت ابوبکرؓ سے بڑھا ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا میں خاندانی بادشاہ ہوں۔ کس کی طاقت ہے کہ میرے سامنے بولے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ فرماتے تھے کہ میں اس قابل کہاں تھا کہ بادشاہ بن جاتا۔ مجھے جو کچھ دیا ہے خدا تعالیٰ نے دیا ہے۔ میں اپنے زور سے بادشاہ نہیں بن سکتا تھا۔ میں ہر ایک کا خادم ہوں۔ میں غریب کا بھی خادم ہوں اور امیر کا بھی خادم ہوں۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو تو مجھ سے اس کا ابھی بدلہ لے لو۔ قیامت کے دن مجھے خراب نہ کرنا۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں ’’ایک سننے والا کہتا ہو گا کہ یہ کیا ہے۔ اسے تو ایک نمبردار کی سی حیثیت بھی حاصل نہیں۔ لیکن وہ یزید کی بات سنتا ہو گا تو کہتا ہو گا یہ باتیں ہیں جو قیصر و کسریٰ والی ہیں۔‘‘ یہ بادشاہوں والی باتیں ہیں جو یزید کر رہا ہے۔ ’’لیکن جب حضرت ابوبکرؓ فوت ہو گئے تو اُن کے بیٹے، اُن کے پوتے اور پڑپوتے پھر پڑپوتوں کے بیٹے اور پھر آگے وہ نسل جس میں پوتا اور پڑپوتا کا سوال ہی باقی نہیں رہتا وہ برابر ابوبکرؓ سے اپنے رشتہ پر فخر کرتے تھے۔ پھر اُن کو بھی جانے دو۔ وہ لوگ جو ابوبکرؓکی طرف منسوب بھی نہیں، جو آپ کے خاندان کو بھی کبھی نہیں ملے وہ بھی آپ کے واقعات پڑھتے ہیں تو آج تک ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ ان کی محبت جوش میں آجاتی ہے۔ کوئی شخص آپؓ کو برا کہہ دے تو ان کا خون کھولنے لگتا ہے۔ غرض

اولاد تو الگ رہی غیر بھی اپنی جان ان پر نثار کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
ہر کلمہ گو جب آپ کا نام سنتا ہے تو کہتا ہے رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔

مگر وہ فخر کرنے والا یزید جو اپنے آپ کو بادشاہ ابنِ بادشاہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا تھا جب فوت ہوا تو لوگوں نے اس کے بیٹے کو اس کی جگہ بادشاہ بنا دیا۔ جمعہ کا دن آیا تو وہ منبر پر کھڑا ہوا اور کہا کہ اے لوگو! میرا دادا اُس وقت بادشاہ بنا جب اُس سے زیادہ بادشاہت کے مستحق لوگ موجود تھے۔ میرا باپ اُس وقت بادشاہ بنا جب اُس سے زیادہ مستحق لوگ موجود تھے۔ اب مجھے بادشاہ بنا دیا گیا ہے حالانکہ مجھ سے زیادہ مستحق لوگ موجود ہیں۔ اے لوگو! مجھ سے یہ بوجھ اٹھایا نہیں جاتا۔ میرے باپ اور میرے دادا نے مستحقین کے حق مارے ہیں لیکن میں اُن کے حق مارنے کو تیار نہیں۔ تمہاری خلافت یہ پڑی ہے جس کو چاہو دے دو۔ میں نہ اِس کا اہل ہوں اور نہ اپنے باپ دادا کو اس کا اہل سمجھتا ہوں۔ انہوں نے جابرانہ اور ظالمانہ طور پر حکومت پر قبضہ کیا تھا۔ میں اب حقداروں کو ان کا حق واپس دینا چاہتا ہوں۔ یہ کہہ کر گھر چلا گیا۔اس کی ماں نے جب یہ واقعہ سنا تو کہا۔ کمبخت! تُو نے اپنے باپ دادا کی ناک کاٹ دی۔ اس نے جواب دیا۔ ماں! اگر خدا تعالیٰ نے تجھے عقل دی ہوتی تو تُو سمجھتی کہ میں نے باپ دادا کی ناک نہیں کاٹی۔ میں نے ان کی ناک جوڑ دی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں گوشہ نشین ہو کر بیٹھ گیا اور مرتے دم تک گھر سے باہر نہیں نکلا۔‘‘

(خطبات محمود جلد34 صفحہ86 تا 88)

پس یہ بادشاہت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اس کا حق بھی ادا کیا جاتا ہے۔ یہ بھی ہمارے مسلمان لیڈروں کے لیے، بادشاہوں کے لیے سبق ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ پھر بیان فرماتے ہیں: ’’اسلام کی خدمت اور دین کے لئے قربانیاں کرنے کی وجہ سے آج حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو عظمت حاصل ہے وہ کیا دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل ہے؟ آج دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جسے اتنی عظمت حاصل ہو جتنی حضرت ابوبکرؓ کو حاصل ہے بلکہ حضرت ابوبکرؓ تو الگ رہے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی اتنی عظمت حاصل نہیں جتنی مسلمانوں کے نزدیک حضرت ابوبکرؓ کے نوکروں کو حاصل ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ ہمیں حضرت ابوبکرؓ کا کتا بھی بڑی بڑی عزتوں والوں سے اچھا لگتا ہے۔ اس لئے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا خادم ہو گیا۔‘‘ فرماتے ہیں

’’…وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دَر کا غلام ہو گیا تو اس کی ہر چیز ہمیں پیاری لگنے لگ گئی اور اب یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اس عظمت کو ہمارے دلوں سے محو کر سکے۔‘‘

(خطبات محمود جلد19 صفحہ681)

ہمارے پہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں لیکن ہمارے یہ خیالات ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے جو دیر کے بعد اسلام میں داخل ہوئے تھے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے مختلف باتیں ہو رہی تھیں کہ وہ باتوں باتوں میں حضرت ابوبکرؓ سے کہنے لگے ابا جان! فلاں جنگ کے موقع پر مَیں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہؤا تھا۔ آپ میرے سامنے سے دو دفعہ گزرے۔ میں اگر اُس وقت چاہتا تو آپ کو مار دیتا مگر میں نے اِس خیال سے ہاتھ نہ اٹھایا کہ آپ میرے باپ ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے مَیں نے تجھے اس وقت دیکھا نہیں اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو چونکہ تُو خدا کا دشمن ہو کر میدان میں آیا تھا اِس لئے میں تجھے ضرور مار دیتا۔‘‘

(خطبات محمود جلد16 صفحہ621-622)

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اخلاق فاضلہ کے بارے میں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں: ’’ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ تھا جس کی فطرت میں سعادت کا تیل اور بتّی پہلے سے موجود تھے۔‘‘ یعنی اس میں جلنے کی صلاحیت تھی، روشن ہونے کی صلاحیت تھی۔ ’’اس لئے

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم نے اس کو فی الفور متاثر کر کے روشن کر دیا۔ اس نے آپؐ سے کوئی بحث نہیں کی۔ کوئی نشان اور معجزہ نہ مانگا۔ معاً سن کر صرف اتنا ہی پوچھا کہ کیا آپؐ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں۔ تو بول اٹھے کہ آپؐ گواہ رہیں۔ میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ سوال کرنے والے بہت کم ہدایت پاتے ہیں۔ ہان حسنِ ظن اور صبر سے کام لینے والے ہدایت سے پورے طور پر حصہ لیتے ہیں۔ اس کا نمونہ ابوبکرؓ اور ابو جہل دونوں موجود ہیں۔ ابو بکرؓ نے جھگڑا نہ کیا اور نشان نہ مانگے۔ مگر اس کو وہ دیا گیا جو نشان مانگنے والوں کو نہ مِلا۔ اس نے نشان پر نشان دیکھے۔ اور خود ایک عظیم الشّان نشان بنا۔ ابو جہل نے حجت کی اور مخالفت اور جہالت سے باز نہ آیا۔ اس نے نشان پر نشان دیکھے مگر دیکھ نہ سکا۔ آخر خود دوسروں کے لئے نشان ہو کر مخالفت ہی میں ہلاک ہوا۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ165 ایڈیشن 1984ء)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مکہ کی مٹی ایک ہی تھی جس سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو جہل پیدا ہوئے۔ مکہ وہی مکہ ہے جہاں اب کروڑوں انسان ہر طبقہ اور ہر درجہ کے دنیا کے ہرحصہ سے جمع ہوتے ہیں۔ اسی سر زمین سے یہ دونو انسان پیدا ہوئے۔ جن میں سے اوّل الذکر اپنی سعادت اور رشد کی وجہ سے ہدایت پاکر صدیقوں کا کمال پا گیا۔ اور دوسرا شرارت، جہالت، بےجا عداوت اور حق کی مخالفت میں شہرت یافتہ ہے۔

یاد رکھو! کمال دو ہی قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک رحمانی، دوسرا شیطانی۔ رحمانی کمال کے آدمی آسمان پر ایک شہرت اور عزت پاتے ہیں۔ اسی طرح شیطانی کمال کے آدمی شیاطین کی ذرّیت میں شہرت رکھتے ہیں۔

غرض ایک ہی جگہ دونو تھے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کچھ فرق نہیں کیا۔ جو کچھ حکم اللہ تعالیٰ نے دیا وہ سب کا سب یکساں طور پر سب کو پہنچا دیا۔ مگر بد نصیب بدقسمت محروم رہ گئے۔ اور سعید ہدایت پا کر کامل ہو گئے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے بیسیوں نشان دیکھے۔ انوار وبر کاتِ الٰہیہ کو مشاہدہ کیا۔ مگر اُن کو کچھ بھی فائدہ نہ ہوا۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ164 ایڈیشن 1984ء)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: ’’دیکھو! مکہ معظمہ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تو ابو جہل بھی مکہ ہی میں تھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی مکہ ہی کے تھے لیکن ابوبکرؓ کی فطرت کو سچائی کے قبول کرنے کے ساتھ کچھ ایسی مناسبت تھی کہ ابھی آپؓ شہر میں بھی داخل نہیں ہوئے تھے۔ راستہ ہی میں جب ایک شخص سے پو چھا کہ کوئی نئی خبر سناؤ اور اُس نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو اسی جگہ ایمان لے آئے اور کوئی معجزہ اور نشان نہیں مانگا اگرچہ بعد میں بے انتہا معجزات آپؓ نے دیکھے اور خود ایک آیت ٹھہرے۔ لیکن ابو جہل نے باوجود یکہ ہزاروں ہزار نشان دیکھے لیکن وہ مخالفت اور انکار سے باز نہ آیا اور تکذیب ہی کرتا رہا۔

اِس میں کیا سِر تھا؟‘‘ کیا بھید تھا؟ ’’پیدائش دونوں کی ایک ہی جگہ کی تھی۔ ایک صدیق ٹھہرتا ہے اور دوسرا جو ابو الحکم کہلاتا تھا وہ ابو جہل بنتا ہے۔ اس میں یہی راز تھا کہ اس کی فطرت کو سچائی کے ساتھ کوئی مناسبت ہی نہ تھی۔ غرض ایمانی امور مناسبت ہی پر منحصر ہیں۔ جب مناسبت ہوتی ہے تو وہ خود معلّم بن جاتی ہے اور امورِحقہ کی تعلیم دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہلِ مناسبت کا وجود بھی ایک نشان ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ11-12 ایڈیشن 1984ء)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’میرے رب نے مجھ پر یہ ظاہر کیا کہ صدیق اور فاروق اور عثمان (رضی اللہ عنہم) نیکو کار اور مومن تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے چُن لیا اور جو خدائے رحمٰن کی عنایات سے خاص کئے گئے اور اکثر صاحبانِ معرفت نے ان کے محاسن کی شہادت دی۔

انہوں نے بزرگ و برتر خداکی خوشنودی کی خاطر وطن چھوڑے۔ ہر جنگ کی بھٹی میں داخل ہوئے اور موسمِ گرما کی دوپہر کی تپش اور سردیوں کی رات کی ٹھنڈک کی پرواہ نہ کی بلکہ نوخیز جوانوں کی طرح دین کی راہوں پر محوِ خرام ہوئے اور اپنوں اور غیروں کی طرف مائل نہ ہوئے اور اللہ ربّ العالمین کی خاطر سب کو خیر باد کہہ دیا۔ اُن کے اعمال میں خوشبو اور اُن کے افعال میں مہک ہے اور یہ سب کچھ ان کے مراتب کے باغات اور ان کی نیکیوں کے گلستانوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ان کی بادِ نسیم اپنے معطر جھونکوں سے ان کے اسرار کا پتہ دیتی ہے اور ان کے انوار اپنی پوری تابانیوں سے ہم پر ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘

(سر الخلافہ مترجم صفحہ25-26)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’بخدا، اللہ تعالیٰ نے شیخین‘‘ یعنی ’’(ابو بکرؓ و عمرؓ) کو اور تیسرے جو ذوالنورین ہیں‘‘ یعنی حضرت عثمانؓ ’’ہر ایک کو اسلام کے دروازے اور خیر الانام (محمد رسول اللہؐ) کی فوج کے ہراول دستے بنایا ہے۔ پس

جو شخص ان کی عظمت سے انکار کرتا ہے اور ان کی قطعی دلیل کو حقیر جانتا ہے اور ان کے ساتھ ادب سے پیش نہیں آتا بلکہ ان کی تذلیل کرتا اور اُن کو بُرا بھلا کہنے کے درپے رہتا اور زبان درازی کرتا ہے مجھے اس کے بد انجام اور سلبِ ایمان کا ڈر ہے۔

اور جنہوں نے ان کو دکھ دیا، اُن پر لعن کیا اور بہتان لگائے تو دل کی سختی اور خدائے رحمٰن کا غضب ان کا انجام ٹھہرا۔ میرا بارہا کا تجربہ ہے اور مَیں اس کا کھلے طور پر اظہار بھی کر چکا ہوں کہ ان سادات سے بُغض و کینہ رکھنا برکات ظاہر کرنے والے اللہ سے سب سے زیادہ قطع تعلقی کا باعث ہے اور جس نے بھی ان سے دشمنی کی تو ایسے شخص پر رحمت اور شفقت کی سب راہیں بند کر دی جاتی ہیں اور اس کے لئے علم و عرفان کے دروازے وا نہیں کئے جاتے۔‘‘

(سر الخلافہ مترجم صفحہ28-29)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’تم ایسے شخص پر کیسے لعنت کرتے ہو جس کے دعویٰ کو اللہ نے ثابت کر دیا۔‘‘ بعض لوگ، فرقے بھی ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو غلط ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ ’’ایسے شخص پر کیسے لعنت کرتے ہو جس کے دعویٰ کو اللہ نے ثابت کر دیا اور اس نے اللہ سے مدد مانگی تو اللہ نے اس کی مدد کی اور اس کی نُصرت کے لئے نشانات دکھائے اور بداندیشوں کی تدبیروں کو پارہ پارہ کر دیا۔ اور آپ‘‘ یعنی ’’(ابوبکرؓ) نے اسلام کو شکستہ کر دینے والی آزمائش اور جورو جفا کے سیلاب سے بچایا، اور پھنکارنے والے اژدھا کو ہلاک کیا۔ آپ نے امن و امان قائم کیا اور اللہ ربّ العالمین کے فضل سے ہر دروغ گو کو ناکام و نامراد کیا۔

اور حضرت (ابوبکر) صدیق ؓکی اَور بہت سی خوبیاں اور بے حساب و بےشمار برکتیں ہیں اور مسلمانوں کی گردنیں آپؓ کے زیرِ بار احسان ہیں اور اس بات کا انکار صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اوّل درجہ کا زیادتی کرنے والا ہو۔

جس طرح اللہ نے آپ کو مومنوں کے لئے موجبِ امن اور مرتدوں اور کافروں کی آگیں بجھانے والا بنایا اسی طرح اس نے آپ کو اول درجہ کا حامیٔ فرقان اور خادمِ قرآن اور اللہ تعالیٰ کی کتابِ مبین کی اشاعت کرنے والا بنایا۔ پس آپؓ نے قرآن جمع کرنے اور رحمان خدا کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کی بیان کردہ ترتیب دریافت کرنے میں پوری کوشش صرف فرما دی۔ اور دین کی غمخواری میں آپؓ کی آنکھیں ایک چشمۂ جاری کے بہنے سے بھی بڑھ کر اشکبار ہوئیں۔‘‘

(سر الخلافہ مترجم صفحہ57-58)

پھر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’عجیب بات یہ ہے کہ شیعہ حضرات‘‘ بعض لوگ جو شیعہ ہیں ’’یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ (حضرت) ابوبکر صدیقؓ دشمنوں کی کثرت کے ایام میں ایمان لائے اور آپؓ نے ابتلاء کی سخت گھڑی میں (حضرت محمد) مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اختیار کی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مکّہ) سے نکلے تو آپؓ بھی کمال صدق و صفا سے حضورؐ کی معیت میں نکل کھڑے ہوئے اور تکالیف برداشت کیں اور وطنِ مالوف اور دوست احباب اور اپنا پورے کا پورا خاندان چھوڑ دیا اور خدائے لطیف کو اختیار فرمایا۔ پھر ہر جنگ میں آپؓ شریک ہوئے۔ کفار سے لڑے اور نبی (احمد) مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی۔ پھر آپؓ اُس وقت خلیفہ بنائے گئے جب منافقوں کی ایک جماعت مرتد ہو گئی اور بہت سے کاذبوں نے دعویٰ نبوت کر دیا جس پر آپؓ ان سے جنگ و جدال کرتے رہے یہاں تک کہ ملک میں دوبارہ امن و امان ہو گیا اور فتنہ پردازوں کا گروہ خائب و خاسر ہوا۔

پھر آپؓ فوت ہوئے اور سیدالانبیاء اور معصوموں کے امام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی قبر کے پہلو میں دفن کئے گئے اور آپؓ خدا کے حبیب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہ ہوئے۔ نہ زندگی میں اور نہ موت کے بعد۔ معدودے چند ایام کی مفارقت کے بعد آپس میں مل گئے اور محبت کا تحفہ پیش کیا۔ انتہائی تعجب کی بات یہ ہے کہ بقول ان (شیعہ حضرات) کے‘‘ یعنی اعتراض کرنے والوں کے ’’اللہ نے نبی کے مرقد کی تُربت کو خاتم النبیین ؐ اور دو کافروں، غاصبوں اور خائنوں کے درمیان مشترک کر دیا۔ اور اپنے نبی اور حبیبؐ کو ان دونوں (ابوبکرؓ اور عمرؓ) کی ہمسائیگی کی اذیت سے نجات نہ دی۔ بلکہ ان دونوں کو دنیا اور آخرت میں آپ کے اذیت رساں رُفقاء بنا دیا اور (نعوذ باللہ) ان دونوں ناپاکوں سے آپؐ کو دُور نہ رکھا۔ ہمارا ربّ ان کی بیان کردہ باتوں سے پاک ہے۔‘‘ جو یہ کہتے ہیں یہ غلط کہتے ہیں۔ یہ ایسا نہیں ہے جیسا بیان کیا جاتا ہے ’’بلکہ اللہ نے ان دونوں پاکبازوں کو‘‘ یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو ’’ان دونوں پاکبازوں کو پاکبازوں کے امام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملا دیا۔ یقیناً اس میں اہلِ بصیرت کے لئے نشانات ہیں۔‘‘

(سر الخلافہ مترجم صفحہ72-73)

پھر آپؑ متعصّب شیعوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

’’اگر متعصب شیعوں سے یہ پوچھا جائے کہ مخالف منکروں کی جماعت سے نکل کر بالغ مردوں میں سے اسلام لانے والا پہلا شخص کون تھا؟ تو اُنہیں یہ کہنے کے سوا چارہ نہیں کہ وہ حضرت ابوبکرؓ تھے۔

پھر جب یہ پوچھا جائے کہ وہ کون تھا جس نے سب سے پہلے حضرت خاتم النبیینؐ کے ساتھ ہجرت کی اور تمام تعلقات کو پسِ پشت ڈالا اور وہاں چلے گئے جہاں حضورؐ گئے تھے تو ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا کہ وہ کہیں کہ وہ حضرت ابوبکرؓ تھے! پھر جب یہ پوچھا جائے کہ بفرضِ محال غاصب ہی سہی تاہم خلیفہ بنائے جانے والوں میں سے پہلا کون تھا؟ تو انہیں یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہ ہو گا کہ ابوبکر۔ پھر جب یہ پوچھا جائے کہ ملک ملک میں اشاعت کے لئے قرآن کو جمع کرنے والا کون تھا؟ تو لامحالہ کہیں گے کہ وہ (حضرت) ابوبکرؓ تھے۔ پھر جب یہ پوچھا جائے کہ خیر المرسلین اور سید المعصومینؐ کے پہلو میں کون دفن ہوئے تو یہ کہے بغیر انہیں کوئی چارہ نہ ہو گا کہ وہ ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں۔ تو پھر کتنے تعجب کی بات ہے کہ (معاذ اللہ) ہر فضیلت کافروں اور منافقوں کو دے دی گئی اور اسلام کی تمام تر خیر و برکت دشمنوں کے ہاتھوں سے ظاہر ہوئی۔

کیا کوئی مومن یہ خیال کر سکتا ہے کہ وہ شخص جو اسلام کے لئے خِشتِ اوّل تھا وہ کافر اور لئیم تھا؟ پھر وہ کہ جس نے فخر المرسلین کے ساتھ سب سے پہلے ہجرت کی وہ بے ایمان اور مرتد تھا؟ اس طرح تو ہر فضیلت کافروں کو حاصل ہو گئی۔ یہاں تک کہ سید الابرارؐ کی قبر کی ہمسائیگی بھی!‘‘

(سر الخلافہ مترجم صفحہ75-76)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’سچ تو یہ ہے کہ (ابوبکر) صدیقؓ اور (عمر) فاروقؓ دونوں اکابر صحابہ میں سے تھے۔ ان دونوں نے ادائیگی حقوق میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ انہوں نے تقویٰ کو اپنی راہ اور عدل کو اپنا مقصود بنا لیا تھا۔ وہ حالات کا گہرا جائزہ لیتے اور اسرار کی کنہ تک پہنچ جاتے تھے۔ دنیا کی خواہشات کا حصول کبھی بھی ان کا مقصود نہ تھا۔ انہوں نے اپنے نفوس کو اللہ کی اطاعت میں لگائے رکھا۔ کثرتِ فیوض اور نبی الثقلینؐ کے دین کی تائید میں شیخین (یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) جیسا مَیں نے کسی کو نہ پایا۔ یہ دونوں ہی آفتابِ اُمَم و ملل (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اتباع میں ماہتاب سے بھی زیادہ سریع الحرکت تھے اور آپؐ کی محبت میں فنا تھے۔ انہوں نے حق کے حصول کی خاطر ہر تکلیف کو شیریں جانا اور اس نبی کی خاطر جس کا کوئی ثانی نہیں، ہر ذلت کو برضا و رغبت گوارا کیا۔ اور کافروں اور منکروں کے لشکروں اور قافلوں سے مٹھ بھیڑ کے وقت شیروں کی طرح سامنے آئے۔ یہاں تک کہ اسلام غالب آ گیا۔ اور دشمن کی جمعیتوں نے ہزیمت اٹھائی۔ شرک چھٹ گیا اور اس کا قلع قمع ہو گیا اور ملت و مذہب کا سورج جگمگ جگمگ کرنے لگا اور

مقبول دینی خدمات بجا لاتے ہوئے اور مسلمانوں کی گردنوں کو لطف و احسان سے زیرِ بار کرتے ہوئے ان دونوں کا انجام خیر المرسلین کی ہمسائیگی پر منتج ہوا۔‘‘

پھر آپؑ فرماتے ہیں:

’’…اللہ اکبر! ان دونوں (ابوبکرؓ و عمرؓ) کے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے۔ وہ دونوں ایسے (مبارک) مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰؑ اور عیسیٰؑ زندہ ہوتے تو بصد رشک وہاں دفن ہونے کی تمنا کرتے لیکن یہ مقام محض تمنا سے تو حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ صرف خواہش سے عطا کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو بارگاہِ ربّ العزت کی طرف سے ایک ازلی رحمت ہے۔‘‘

(سر الخلافہ مترجم صفحہ77-78، روحانی خزائن جلد8 صفحہ345-346)

ان شاء اللہ کچھ حصہ، حوالے اَور ہیں۔ ان شاء اللّٰہ آئندہ پیش ہوں گے۔

(الفضل انٹرنیشنل 23؍دسمبر 2022ء صفحہ5 تا 10)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍دسمبر 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 دسمبر 2022