• 29 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت میں صحابہ ؓ کی بعض روایات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
مَیں نے کچھ عرصہ سے وقتاً فوقتاً صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روایات کا بیان شروع کیا ہوا ہے۔ پہلے تو مجموعی روایات شروع میں لی تھیں۔ پھر خیال آیا کہ مختلف عناوین کے تحت بیان کروں۔ سو یہ سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے بلکہ سال سے زیادہ عرصہ سے چل رہا ہے۔ آج بھی مَیں اس کے تحت صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ روایات جو ان کی اپنی رؤیا و کشوف کے بارے میں ہیں، وہ بیان کروں گا۔ جو اصل میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ہیں۔ یا ایمان اور یقین میں بڑھانے کے لئے ہیں اور بیان کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہمارے اندر بھی وہ ایمان اور یقین پیدا ہو، وہ تعلق باللہ پیدا ہو اور ہم لوگ بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسے سچے تعلق کو قائم کرنے والے بن جائیں جس کو پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں تشریف لائے تھے۔ کیونکہ مختلف رنگ میں یہ روایات بیان ہو رہی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ مختلف جگہوں میں بیان ہوئی ہیں اس لئے عموماً میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ دوبارہ بیان نہ ہوں، چیک تو کروایا جاتا ہے لیکن بہر حال بعض ہو سکتا ہے دوبارہ بھی آجائیں۔ پہلی روایت حضرت سردار کرم داد خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جنہوں نے 1902ء میں بیعت کی تھی اور اُسی سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت بھی کی۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بیعت کرنے سے پہلے خواب میں دیکھا۔ وہ اس طرح کہ ایک سڑک ہے جس پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مل کر ٹہلتے آ رہے ہیں۔ بندہ سامنے سے آ رہا ہے۔ (یعنی یہ کہتے ہیں مَیں اُن کے سامنے سے آ رہا ہوں ) حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مخاطب کر کے انگلی کا اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے، یہ خدا کی طرف سے ہے۔ یہ تین دفعہ حضور نے فرمایا۔ کہتے ہیں جب مَیں نے 1902ء میں بمقام قادیان دارالامان جبکہ چھوٹی مسجد ہوا کرتی تھی(مسجد مبارک جبکہ چھوٹی مسجد تھی) بیعت کی تو اسی حلیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پایا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد5 صفحہ1 روایت حضرت سردار کرم داد خان صاحبؓ)

پھر حضرت کریم الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں جنہوں نے 1896ء میں بیعت کی اور اُسی سال ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت بھی نصیب ہوئی۔ کہتے ہیں کہ 1896ء کے تقریباً نصف حصہ میں بذریعہ خواب بندہ کو (یعنی کہ ان کو اُس سال کے مئی جون کے قریب) خواب میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت جبکہ حضور اونٹنی پر سوار تھے، ہوئی۔ (خواب میں دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اونٹنی پر سوار تشریف لا رہے ہیں) کہتے ہیں پھر بندہ کو حضور کی زیارت بصورت اکیلے ہونے کے جبکہ ایک ایسے کھیت میں سے گزر رہے تھے جو کہ تازہ تازہ جوتا گیا تھا اور جس میں مٹی کے ابھی بڑے بڑے ڈھیلے تھے اور حضور اس میں سے میری طرف کو آ رہے تھے، ہوئی۔ (یعنی یہ بھی خواب بیان کر رہے ہیں) اور حضور نے بڑے تپاک اور محبت سے بندہ سے مصافحہ کیا اور بندہ اس حالت میں بہت خوش ہوا۔ خواب ہی میں اس سے پہلے ایک نقشبند پیر سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور اس پیر نے میرے ہاتھ کو پرے ہٹا کر کہا کہ چل بے دین۔ (حالانکہ سلام کرنے کا اسلام کا حکم ہے۔ بہر حال اس نے بے دین کہہ کر سلام نہیں کیا۔) کہتے ہیں اس کے بعد حضور سے ملاقات ہوئی اور حضور بڑے تپاک سے ملے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد5 صفحہ38 روایت حضرت کریم الدین صاحبؓ)

حضرت کریم الدین صاحبؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک خواب میں مَیں نے دیکھا کہ چوہدری نبی بخش صاحب حوالدار پولیس کو جو کہ حضور سے شرفِ بیعت حاصل کر چکے تھے، الہام ہوتا ہے۔ (خواب میں ان کو بتایا گیا، یہ پولیس کے حوالدار جو ہیں، ان کو الہام ہوتا ہے۔ یہ آجکل کی پولیس نہیں ہے پاکستان کی یا ہندوستان کی جن کو سوائے رشوت کے اور بے ایمانی کے اور کچھ نہیں آتا۔ یہ اُس زمانے کے لوگ تھے جن کا اللہ تعالیٰ سے تعلق تھا۔ تو کہتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ ان کو الہام ہوتا ہے۔) کہتے ہیں یہ خواب مَیں نے اپنے ایک دوست سید محمد علی شاہ صاحب کو سنائی۔ اور انہوں نے کہا یونہی سر نہ کھاؤ۔ لیکن جب میں صبح کی نماز پڑھ کر مسجد سے واپس آیا اور سورج نکل رہا تھا تو سید مولوی محمد علی شاہ صاحب مرحوم اور چوہدری نبی بخش صاحب کچھ الفاظ جو چوہدری صاحب نے کاغذ پر رات کو لکھے ہوئے تھے اور ادھر اُدھر اوپر نیچے تھے اور بے ترتیب تھے، ان کو ترتیب دے رہے تھے۔ (سید محمد علی شاہ صاحب نے ان سے تو یہی کہا کہ یونہی میرا دماغ نہ کھاؤ۔ کوئی الہام شلہام نہیں ہوتا چوہدری صاحب کو۔ لیکن کہتے ہیں نماز سے مَیں واپس آ رہا تھاتو چوہدری نبی بخش صاحب بھی اور محمد علی شاہ صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپس میں ان کا تعلق تھا اور کچھ کاغذوں کو ترتیب دے رہے تھے۔ تو کہتے ہیں مجھے شک پڑا کہ یہ رات کے کوئی الہامات ہیں یا ویسے الہامات ہیں جن کو ترتیب دے رہے ہیں)۔ تو مَیں نے اُن سے کہا کہ تم تو کہتے تھے کہ سر نہ کھاؤ (پہلے جب مَیں نے اس طرح بات کی تھی۔) اب بتاؤ یہ کیا بات ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ چونکہ لوگ مذاق کرتے ہیں، مخول کرتے ہیں، اس واسطے اظہار نہیں کرتے۔ کہتے ہیں اُسی وقت سے مجھے خیال آیا جبکہ حضور کے مریدین کو الہام ہوتے ہیں تو ضرور حضرت مسیح موعود سچے ہیں۔ اُس وقت میری عمر سولہ سترہ برس کی ہو گی۔ مَیں نے حضور کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی اور نہ ہی مجھے اس وقت تحقیق کا مادہ تھا کیونکہ میں بچہ ہی تھا اور دینی تعلیم بھی میری کوئی نہیں تھی۔ صرف قرآنِ کریم ناظرہ بے ترجمہ پڑھا تھا اور اُس وقت میری دنیاوی تعلیم صرف نارمل پاس تھی۔ (میرا خیال ہے آٹھویں پاس کہنا چاہتے ہیں) اور مَیں قلعہ صوبہ سنگھ میں نائب مدرس تھا۔ پھر ایک خواب میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں ماہ تک(میرا خیال ہے ستمبر اکتوبر کا مہینہ ہے)مَیں فوت ہو جاؤں گا۔ مَیں انتظار کرتا رہا۔ اب میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے اور میں ضرور کاتک میں (پنجابی مہینہ ہے) فوت ہو جاؤں گا۔ کیونکہ اس سے پہلے جو خوابیں مجھے آئیں وہ پوری ہو گئی تھیں، اس لئے مجھے یقین تھا کہ پہلی خوابیں پوری ہوتی رہی ہیں تو یہ بھی پوری ہو گی اور زیادہ سے زیادہ ستمبر اکتوبر تک میری زندگی ہے۔ لیکن کہتے ہیں کاتک گزر گیا اور میں نے محمد علی شاہ صاحب مرحوم سے عرض کیا کہ آپ تو کتابیں ہی پڑھتے رہیں گے اور آپ کی تسلی ہو گی۔ (محمد علی شاہ صاحب کا چوہدری نبی بخش صاحب کے ساتھ تعلق تھا، اُن کے الہامات کا بھی پتہ تھاکہ ہوتے ہیں، لیکن انہوں نے شاید اُس وقت تک بیعت نہیں کی تھی۔ لیکن بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے متأثر تھے اور آپ کی کتب پڑھا کرتے تھے۔ تو کہتے ہیں مَیں نے اُن کو کہا آپ تو کتابیں پڑھتے رہیں گے اور پتہ نہیں آپ کی تسلی کب ہونی ہے لیکن مَیں تو آپ سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر آؤں گا)۔ چنانچہ کہتے ہیں مَیں وہاں سے پیدل ہی چل پڑا اور قادیان پہنچا۔ جب مَیں یہاں آیا تو مَیں کئی دن ادھر اُدھر پھرتا رہا۔ ایک دن مَیں نے حکیم فضل دین صاحب بھیروی سے ذکر کیا کہ مَیں نے حضور کی بیعت کرنی ہے۔ تو حکیم صاحب نے فرمایا کہ مَیں نے سمجھا کہ یونہی لڑکا اِدھر اُدھر پھر رہا ہے۔ حکیم صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں میری بیعت کی خواہش کا ذکر کیا تو حضرت اقدس نے منظور فرمایا اور اپنے ہاتھ میں میرا ہاتھ لے کر صرف مجھ اکیلے ہی کو شرفِ بیعت عطا فرمایا۔ میں نے حضرت مسیح موعودؑ کو جیسا کہ خوابوں میں دیکھا تھا، آ کر بعینہٖ ویسا ہی پایا۔ یہ خداوند تعالیٰ کی خاص موہبت عظمیٰ ہے جو کہ مجھ پر ہوئی ورنہ معلوم نہیں میری کیا حالت ہوتی اور میرا نام اصحابِ بدر میں نمبر اڑسٹھ یا انہتّر پر جو کہ ضمیمہ انجامِ آتھم میں فہرست دی گئی ہے، لکھا ہے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد 5صفحہ 38تا40 روایت حضرت کریم الدین صاحبؓ)

یہ انہتر نمبر(69) پر ان کا نام وہاں، ضمیمہ انجامِ آتھم میں لکھا گیا ہے۔

(خطبہ جمعہ 7؍دسمبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2022