جہاں دشمنانِ اسلام یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا ہے وہاں بعض مسلمانوں نے بھی اشد ترین مخالفین کے ہم نوا بن کر نظریہ اپنایا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اسلام محض اپنی صداقتوں کے زور سے داخل ہوا تھا۔ تلوار نے پہلے ہل چلایا اور بعد میں اسلام نے بیج بویا تب کہیں جا کر اسلام کی فصل تیار ہوئی ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اعتراض کرتے وقت یہ امر بھول جاتے ہیں کہ جب دس ہزار قدوسیوں کی چمکتی ہوئی تلواروں کے نیچے عرب کے سفاک سرداروں کے سر کانپ رہے تھے تو اس وقت تاریخ عالم نے ایک عجیب نظارہ دیکھا کہ آنحضرتؐ کی طرف سے قتل عام کے فرمان کی بجائے مکہ کی فضاؤں میں ’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘ کے شادمانے بجنے لگے۔ اس روز تپتی ریت پر بےکس غلاموں کو لٹانے والوں چلچلاتی دھوپ میں ناداروں کو گھسیٹنے والوں کو معصوم انسانوں پر پتھروں کی بارش برسانے والوں کواور معزز انسانوں کے سینے چیر کر ان کے دل اور جگر چبانے والوں کو الغرض ہر قاتل، ہر فسادی، ہر بد عہد اور لٹیرے کو معاف کر دیا۔
صرف اسی پر بس نہیں بلکہ ’’رحمة اللعالمین‘‘ نے ایک قدم اورآگے بڑھاتے ہوئے خدائے پاک سے وحی پا کر ہمیشہ ہمیش کے لیے اعلان عام کر دیا
لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ یہ اعلان کیوں نہ ہوتا میرے آقا ؐ جانتے تھے کہ کوئی تلوار، کوئی طاقت، کوئی جبر اور کوئی تشدد خواہ کتنا ہی ہیبت ناک کیوں نہ ہو دلوں کو تبدیل کرنے کی اتنی طاقت نہیں رکھتا جتنی ایک حقیر چیونٹی بلند و بالا پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ٹلانے کی رکھتی ہے۔
اسی طرح کیا یہ اعلان ’’فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ‘‘ اور یہ اعلان ’’لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ‘‘ اس امر کی بین دلیل نہیں کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا۔
حقیقت یہی ہے کہ مذاہب اخلاق سے دلوں کو فتح کیا کرتے ہیں نہ کہ تلوار کے زور سے۔ ۔ ۔ یہی وجہ تھی کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء نے اپنے اعمال اور اپنی زندگیوں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سچے مذہب کے نام لیوا مظلوم بن کر زندہ رہا کرتے ہیں ظالم بن کر نہیں۔ اسی وجہ سے میرے مظلوم آقا نے جس کی پرواز ’’سدرۃ المنتہیٰ ‘‘ تک تھی کسی مذہب کے نام پر جبر کی تعلیم نہیں دی۔ عفت کے نام پر عصمتوں کے لٹانے کا حکم نہیں دیا اور عبادت کی آڑ میں معبدوں کو مسمار کرنے پر انگیخت نہیں کیا۔ مگر یہ اسلام دشمن عناصر اور نام نہاد مولوی آپ ؐ کی قوت قدسیہ کا ہولناک نقشہ یوں کھنچتے ہیں کہ آپ کی مسلسل تیرہ سال کی دعوت اسلام تو دلوں کو فتح کرنے سے قاصر رہی مگر تلوار اور جبروت نے دلوں کو فتح کیا۔ وعظ و تلقین کے مؤثر سے مؤثر انداز تو صحرائی ہواؤں کی نذر ہوگئے لیکن نیزوں کی آنیوں نے دلوں کی گہرائیوں تک اسلام پہنچا دیا آپ کے مضبوط دلائل تو عقل انسانی میں جا گزیں نہ ہوسکے مگر گُرزوں کی مار کو توڑ کر ان کی عقلوں کو قائل کر گئی۔ ان کی قوت استدال کو متاثر نہ کر سکے مگر گھوڑوں کی ٹاپوں نے ان کو اسلام کی صداقتوں کے تمام راز سمجھا دئیے۔ فصاحت و بلاغت کام نہ آئی اور زور دار خطے بے کار رہے حتی ٰ کہ خدا کی طرف سے ظاہر ہونے والے محیر العقول معجزے تیرکی طرح خائب و خاسر رہے مگر داعی اسلام کی تلوار اسلام کی تلوار اپنی طرف قائل کرتی چلی گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
اے اسلام دشمن عناصر اور نام نہاد مولویو! تم نے مبلغ اعظم کی طرف ایک گولی پھینکی ہے اور وہ بھی کڑوی، ناپاک اور زہریلی گولی، تم یاد رکھو حضرت محمد ؐ کے پاس رحم و مروت کی تلوار تھی، دوستی اور درگزر کی تلوار تھی۔ جو مخالفین پر پورے طور پر کارگر ہوتی ہے اور ان کے قلب کو پاک و صاف مثل آئینہ بنا دیتی ہے اور اس کی کاٹ اس مادی تلوار سے بڑی زبردست اور تیز ہوتی ہے۔ اے مولوں میں تم سے پوچھتا ہوںکہ بتاؤ کہ وہ کون سی تلوار تھی جو حمزہ اور طلحہ کے دلوں کو ایمان بخش گئی۔ عبد الرحمن بن عوف، ابو عبیدہ بن عبد اللہ، عثان بن مظعون اور سعد بن ابی وقاص کے دل کس تلوار سے مصفیٰ کئے گئے تھے اس پر بس نہیں تمام مہاجرین و انصار کے دلوں کے زنگ کس طرح کھرچے گئے تھے، کیا اس میں تلوار کے زور کا شائبہ تھا یا مبلغ اعظم ؐ کے اخلاق کا اور خدا تعالیٰ کی پاک تعلیم کا۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام معترضین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اسلام ہر گز تلوار کے ساتھ نہیں پھیلا بلکہ پاک تعلیم کے ساتھ پھیلا ہے صرف تلوار اٹھانے والوں کو مزہ چکھایا تھا‘‘
ایک غیر مسلم پروفیسر رام دیواس اس امر کے بارہ میں اپنی تحقیق یوں پیش کرتے ہیں ’’مدینہ میں بیٹھے ہوئے محمد صاحب نے ان کے اندر جادو کی بجلی بھر دی وہ بجلی جو انسانوں کو دیوتا بنا دیتی ہے اور یہ غلط ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے اور یہ امر واقع ہے کہ اشاعت اسلام کے لیے کبھی تلوار نہیں اٹھائی گئی۔ اگر مذہب تلوار سے پھیل سکتا ہے تو آج کوئی پھیلا کر دکھائے‘‘
(برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول صفحہ24)
پس تاریخ عالم اور تاریخ اسلام کا ایک ایک ورق اور ایک ایک لفظ اس نظریہ کو گھٹا رہا ہے کہ اشاعت اسلام میں تلوار کا کوئی ذرہ بھربھی دخل ہے بلکہ یہ کہہ رہی ہے اسلام تلوار کے زور کا مقابلہ کرتا ہوا پھیلا ہے۔ کفار کی ہر تلوار مسلمانوں کو نیست و نا بود کرنے کے لئے اٹھائی گئی۔ مگر وہی تلوار مسلمانوں کی تعداد میں روز افزوں ترقی کا باعث بنی اور ہم تاریخ کے اس فیصلہ پر مصر ہیں اور ببانگ دہل مصر ہیں کہ محمد ؐ کا دین اپنی اشاعت کے لئے کسی دوسرے کے سہارے کا محتاج نہیں۔
اسلامی جنگیں اور تبلیغ
آنحضرت ؐ کے اعلان ’’اَلْاٰنَ نَغْزُوْھُمْ وَلَا یَغْزُُوْنَا‘‘ کے بعد آپ ؐ کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے اور اس نئے دور کی تکمیل اس وقت صلح حدیبیہ سے ہوئی جب کہ انیس سال کی طویل کشمکش کے بعد جوشروع میں جابرانہ تشدد اور تعدیب کا رنگ رکھتی تھی اور آخر میں باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کر گئی ایک نسبتی اور عارضی امن کا ماحول پیدا ہوگیا۔ سواس انیس سالہ خون آلود زندگی اور اس نسبتی امن کے دور کا موازنہ کیا جاتا ہے کہ اسلام نے انیس سال خون آلودگی میں کس قدر ترقی کی اور نسبتی دور میں کس قدر ۔ ۔ ۔ سیر الصحابہ کی کتب میں مکی زندگی میں آپ ؐ کے عشاق کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہوتی سو اس کا کچھ اندازہ جنگی مہمات میں شامل ہونے والے مسلمانوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ اسلام کی سب سے پہلی لڑائی غزوہ بدر میں مسلمان مجاہدین کی تعداد با اختلاف روایات 310 سے 319 بتائی جاتی ہے۔ احد کے غزوہ میں مسلمانوں کی تعداد 700 تھی۔ غزوہ خندق میں جو 5 ہجری میں ہوا میں عملاً لڑائی میں حصہ لینے والوں کی تعداد 1000 تھی۔ اس کے بعد 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے غزوہ میں 1400 مسلمان شریک ہوئے۔
گویا موٹے اندازے کے مطابق ان انیس سال میں اسلام چودہ سو مسلمان جوان پیدا کر سکا۔ اس صلح کے ساتھ ہی امن کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے اور اس امن کا زمانہ شروع ہونے کے ساتھ ہی وہ بھاری بند جو اسلام کے دریا کے بہاؤ کو روکے ہوئے تھا۔ یکلخت ٹوٹ گیا اور اسلام کے حیات افزاء پانیوں کو کھلا رستہ ملنے سے اسلام نے جو حیرت انگیز ترقی کی۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو سال کے قلیل عرصہ کے بعد 8 ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد دس ہزارتھی گویا اس سال کی پر امن تبلیغ نے آٹھ ہزار چھ صد جوان کا اضافہ کیا۔ اس حیرت انگیز فرق کی ایک بنیادی وجہ آپس میں میل ملاپ کا بڑھنا تھا۔ صحابہ نے جنگی مہمات کی طرف سے توجہ ہٹا کر تبلیغ کی طرف کی اور اس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا۔ اور اسلام دنیا بھر میں پھیلا۔
پس آج بھی ہم سب کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر صحابہ کی تقلید میں دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کرتے چلے جانا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی احسن رنگ میں ادائیگی کی توفیق دیتا چلا جائے۔ آمین
(ابو سعید)