• 25 اپریل, 2024

وقت کیا ہے؟

وقت کیا ہے؟
ہم آج تک وقت کی معین تعریف کیوں وضع نہیں کر سکے؟کیا وقت تیزی سے گزر رہا ہے؟

آخر ایسا کیوں ہے کہ جب بھی ہم گزرے ہوئے لمحات کو یاد کرتے ہیں تو ایک بات جو ہمیشہ ہمارے دماغ میں آتی ہے کہ وقت بہت تیزی سے گزر گیا ہے۔ وقت ہے کیا؟ یہ کہاں سے، کب اور کیسے شروع ہوا؟ اگر میں آپ سے کہوں وقت کی تعریف بیان کریں تو کیسے کریں گے؟ ایک گھڑی بنا کر جس کی سیکنڈ والی سوئیاں منٹ والی سوئیوں کو دھکیل کر گھنٹوں میں تبدیل کرتی ہوں؟ یا کیلنڈر پر ہر گزرے دن پر ایک دائرہ لگا کر؟اگر میں آپ سے کہوں کہ وقت کی یہ تعریف غلط ہے تو کیا کوئی اور طریق ہے جس سے آپ وقت کی معین تعریف بیان کر سکیں؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ وقت کی یہ تعریف نہیں ہے اور وقت ماپنے کےیہ تمام فزیکل پیمانے ہمارے ہی مقرر کردہ ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم وقت کی کوئی معین تعریف بیان نہیں کر سکتے۔ یہ دو جمع دو کی طرح کا کوئی ریاضی کا سوال نہیں جس کا جواب چار آئے۔ بقول ایرس ٹوٹل ’’وقت تمام تر معلوم اشیاء میں سے نامعلوم ترین چیز ہے‘‘۔ اور آج 2500 سال گزرنے اور تمام تر ٹیکنالوجی پر دسترست کے باجود ہم وقت کی کوئی معین تعریف وضع کر کے اس بات کو غلط ثابت نہیں کرسکے۔ البتہ سائنسی اعتبار سے وقت کی سادہ ترین تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ’’دو واقعات کے مابین گزرے ہوئے دورانیے کو وقت کہا جاتا ہے۔‘‘ اور وقت کے آغاز کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بگ بینگ کے ساتھ ہوا تھا اور بگ بینگ سے پہلے کیا تھا یہ ہم نہیں جانتے۔

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقت کو بیان کیسے کیا جا سکتاہے۔؟ کیا ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں وقت نام کی کوئی چیز اپنا وجود بھی رکھتی ہے۔؟ مثلاً میں 1990ء میں پیدا ہوا ہوں اور اس بات کو 31 سال کا وقت گزر چکا ہے۔ لیکن اگر میں کہوں کہ میں 90 بلین کلومیٹر ماضی میں پیدا ہوا تھا تو یہ ایک مضحکہ خیز بات معلوم ہوگی۔

قریب سو سال قبل البرٹ آئن سٹائن نے ہمیں وقت کی ایک نئی تصویر سے روشناس کرایا تھا جس کے مطابق ہماری کائنات دراصل اسپیس ٹائم فیبرک یعنی زمان و مکان کا مجموعہ ہے۔ ہماری کائنات 4D ہے لیکن انسان بذات خود 3D مخلوق ہے اس لیے ہم وقت کو سمجھ نہیں سکتے کیونکہ وقت ہماری کائنات کی چوتھی ڈائمنشن ہے۔ یعنی ہم صرف تین اطراف میں حرکت کر سکتے ہیں یا دیکھ سکتے ہیں۔ آگے پیچھے پہلی ڈائمنشن دائیں بائیں دوسری ڈائمنشن، اوپر اور نیچے تیسری ڈائمنشن کہلاتی ہے۔ اور چونکہ انسانی وجود کا ڈیزائن ہی ایسے پروگرام کیا ہے کہ ہم وقت جو کہ چوتھی ڈائمنشن ہے اس میں حرکت نہیں کر سکتے۔ اور نا ہی ہم وقت کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ نہ اسے تیز کر سکتے ہیں، نہ آہستہ کر سکتے ہیں نہ وقت سے آگے نکل سکتے ہیں اور نا ہی وقت میں پیچھے جا سکتے ہیں۔ اسے ایک دلچسپ مثال سے یوں سمجھا جا سکتا ہے۔ میں سبزی لے کر تیسری منزل پر موجود اپنے گھر پہنچا تو دیکھا کہ سبزی کے ساتھ دھنیا لانابھول گیا ہوں۔ میں واپس گیا سبزی والے سے دھنیا لیا اور گھر واپس آگیا۔ ان اطراف میں حرکت کرنا میرے اختیار میں تھا جو میں نے کیا لیکن اس دوران جو وقت صرف ہوا وہ اسی تسلسل میں آگے بڑھتا گیا۔ آئن سٹائن کے مطابق وقت ایک تیر کی مانند ہے جو ایک سمت کی طرف جا رہا ہے جو اپنی سمت نہیں بدل سکتا اور ہمیشہ آگے کی طرف ہی جاتا ہے۔ لیکن وقت کا یہ شمار جسے ہم جانتے ہیں وہ اسپیس میں ایک بے معنی چیز ہے۔ یعنی اگر کسی دن آپ کی آنکھ کھلے اور آپ خود کو خلاء میں تیرتا ہوا دیکھیں اور ہر طرف اندھیرا ہوتو کیا آپ بتا سکیں گے کہ وقت کیا ہوا ہے اور آپ کس سمت میں تیر رہے ہیں۔؟ یقیناً آپ کوئی بھی سمت اور وقت بتانے سے قاصر ہوں گے۔ اسی طرح اگرسورج اچانک بجھ جائے دن اور رات میں فرق نا رہے تو وقت کا شمار رکھنا ایک بے ثمر مشقت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

حضرت انسان نے قریب 30000 سال قبل وقت کا حساب کتاب رکھنا تب شروع کیا جب اس نے دیکھا کہ سورج کے طلوع و غروب کا ایک معمول ہے، پرندے ہر سال مخصوص ایام میں انڈے دیتے ہیں اور ہجرت کرتے ہیں۔ جانور مخصوص ایام میں بچے دیتے ہیں۔ حمل کے بعد بچہ جننے تک ایک مخصوص دورانیہ ہوتا ہے۔ انسان حمل کے بعد معین دورانیہ کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ پھر بچہ پھر جوان پھر بوڑھا اور بالآخر خاتمہ، ان تمام عوامل کا ایک دورانیہ ہے۔ پودوں پر پھول کےلیے موسم مختص ہے۔ درخت ایک خاص وقت میں پتے گراتے ہیں۔ بارشوں کے مخصوص دورانیے سے دریاؤں کی روانی بھی منسوب ہے۔ چاند ستارے بھی ایک معین وقت میں طلوع و غروب ہوتے ہیں۔ ابتداء میں زمین میں لکڑی گاڑھ کر اس کے سائے سے وقت گزرنے کا شمار رکھا گیا۔ تب سے اس اب تک وقت ماپنے کے ذرائع میں جدت آتی رہی اور انسان اب ایسی ایٹامک کلاک بنا چکا ہے جن میں 100 ملین سال کے بعد ایک سیکنڈ سے کم فرق پڑتا ہے۔

ہم دوبارہ اپنے پہلے سوال کی جانب آتے ہیں اور جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ جیسے جیسے ہم بڑے ہو رہے ہیں ویسے ہی وقت بھی تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ کیا یہ محض تیزی سے گزرتی عمر کا سراب ہے؟ کیا اس امر کی کوئی سائنسی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے؟ نوجوانوں اور قدرے عمر رسیدہ لوگوں پر ایک تجربہ کیا گیا جس میں مختصر دورانیہ کے لیے وقت کا اندازہ لگانے کا کہا گیا۔ مثلاً انہیں کہا گیا کہ آپ دو منٹ کے لیے خاموش رہیں۔ گھڑی دیکھے بنا محض اندازہ کی بناء پر ہمیں بتائیں کہ دو منٹ ہو چکے ہیں۔ اس تجربہ میں نوجوانوں نے وقت گزرنے کے غلط اندازے لگائے اور دو منٹ سے پہلے ہی دومنٹ گزرنے کا عندیہ دیا۔ البتہ عمر رسیدہ افراد نے دو منٹ کا وقت گزرنے کا بہت اچھے سے انداہ لگایا۔

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ہمارے دماغ میں موجود نیوران کے فائر کرنے کا دورانیہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہو جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا دماغ پیش آنے والے تمام افعال و واقعات کو اپنی یاداشت میں محفوظ کر رہا ہوتا ہے۔ چناچہ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے ہیں ہمارے دماغ کے نیورو کنیکشن کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جیسے ایک درخت پر وقت کے ساتھ شاخیں پھیلتی جاتی ہیں۔ یہ نظام ہمارے دماغ میں Internal clock کی طرح کام کرتا ہے۔ یہ اندرونی گھڑی کبھی کبھاراتنے عمدہ طریقے سے کام کرتی ہے کہ آپ الارم بجنے سے چند سیکنڈ قبل خود ہی اٹھ جاتے ہیں۔ یعنی عمر گزرنے کے ساتھ ہمارا دماغ وقت کی پیمائش جوانی کی نسبت زیادہ عمدگی سے کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ وقت بہت تیزی سے گزر گیا ہے۔

ہمارا وقت کو محسوس کرنا یعنی Chronoception ہماری حسیات میں سے باقاعدہ کوئی حس نہیں ہے اور نہ ہمارے اندر اسے محسوس کرنے والے کوئی رسیپٹر سیل موجود ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے اندر وقت کا احساس بہت بنیادی طور سے پایا جاتا ہے اور یہ دماغ کے بنیادی افعال میں سے ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارا دماغ وقت کو بالکل ایک تناسب میں محسوس کرتا ہو۔ مثلاً ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھتے ہوئے ہمیں لگتا ہے کہ وقت بہت تیزی سے گزر گیا۔ یا دفتر جاتے ہوئے ہم سوچتے ہیں کہ ہماری چھٹیاں بہت جلدی گزر گئی ہیں۔ لیکن ایک گھنٹہ ایک گھنٹہ ہی ہوتا ہے اور سات دن کی چھٹیاں سات دنوں کی طرح ہی گزرتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ٹی وی شو دیکھتے اور چھٹیاں گزارتےہمارا دماغ بہت فوکس تھا جس وجہ سے وہ دورانیہ ہمیں عام دنوں کی نسبت جلدی سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ نیز عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ شعور کی منازل تیزی سے طے کرتا ہے۔ ہم دنیا کو ہر روز نئے انداز سے دیکھتے ہیں۔ تیزی سے ہوتی مادی ترقی کو محسوس کرتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں مستقبل کی تیاری کرتے ہیں اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ لاشعوری طور پر روز مرہ امور میں ارد گرد نظر آنے والے چیزوں سے صرف نظر کرنا شروع کر دیتا ہے اور نئی چیزوں پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں لگتا ہے وقت تیزی سے گزر گیا ہے۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہےکہ ایک انسان اپنی جوانی کے حصہ میں دماغ کا زیادہ استعمال کرتا ہے بہ نسبت بچپن اور بڑھاپے کے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیشہ ہم وقت کو سرعت کے ساتھ ہی گزرتا ہوا محسوس کرتے ہوں۔ ہمارے دماغ کی کارستانی ہے کہ وہ کرب کے لمحات کو ہمارے لیے طویل کر دیتا ہے۔ آئن سٹائن نے کہا تھاکہ ’’اپنا ہاتھ جلتے ہوئے شعلے پر ایک منٹ کے لیے رکھیں آپ کویہ ایک منٹ ایک گھنٹہ کی طرح معلوم ہوگا۔ پھر ایک منٹ کے لیے اپنی پیاری بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھیں یہ ایک منٹ آپ کو ایک منٹ کی طرح ہی محسوس ہوگا‘‘ اسی طرح بوریت کے لمحات میں بھی دماغ وقت کو محسوس کرنے میں بہت سست روی دکھاتا ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ وقت تھم ہی گیا ہے۔ ہم بوریت بھی اسی لیے محسوس کرتے ہیں کہ حال میں گزر رہا وقت ماضی کی نسبت گزرے ہوئے وقت کی نسبت مختلف ہوتا ہے۔ ہمارا دماغ ماضی کے افعال کو دیکھتے ہوئے حال میں گزر رہے وقت کے ساتھ موازنہ کرکے ہمارے لیے بوریت کے احساس کو بڑھا دیتا ہے۔ دماغ چھٹیوں میں گزرے موج مستی کے لمحات کو ہی یاد رکھتا ہےاور وہ مختصر ہوتے ہیں اور جب وہ ہمیں دفتر میں بیٹھے ہوئے کام کو وقت کے اندر مکمل کرنے کے دباؤ کے دوران یاد آتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ چھٹیاں بہت ہی تیزی سے گزر گئی ہیں۔

آئن سٹائن نے تھیوری آف ریلٹوٹی پیش کی تھی جس نے وقت کے بارے میں دنیا کی سوچ کا رخ یکسر بدل دیا تھا۔ اس تھیوری کی کئی جہات ہیں۔ تھیوری کا پہلا حصہ کلاسک ریلٹوٹی کہلاتا ہے۔ اس کے مطابق پوری کائنات میں کوئی بھی چیز مکمل طور پر ساکن یا حرکت میں نہیں ہے۔ ہر چیز براہ ر است یا بلا وسطہ کسی نہ کسی چیز سے منسلک ہے اور حرکت کر رہی ہے۔ مثلاً ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ایک ٹرک جو 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے جس میں دو بھائی بلال اور علی ایک دوسرے کی طرف گیند اچھال کر پکڑ رہے ہیں۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ وہ بال کو جب پھینکتے ہیں تو بال کی رفتار 10 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور ان دونوں کو بھی گیند کی رفتار 10 کلومیٹر فی گھنٹہ ہی معلوم ہوگی۔ لیکن ان کا تیسرا بھائی باسط جو باہر سڑک پر کھڑا انہیں دیکھ رہا ہے اسے اس گیند کی رفتار 60 کلومیٹر فی گھنٹہ معلوم ہوگی۔ اس نے ٹرک اور گیندکی رفتار کو ایک ساتھ جمع کیا ہے کیونکہ وہ ایک جگہ پر کھڑا تھا۔ لیکن باسط خود بھی حرکت میں کیونکہ وہ جس زمین پر کھڑا ہے وہ زمین اپنے محور اور مدار میں گردش کر رہی ہے۔ اسی طرح سورج، چاند، ستارے اور یہ پوری کائنات بھی مسلسل حرکت میں ہے۔ اس طرح ہم جانتے ہیں کہ کوئی جسم بھی absolute rest یا absolute motion میں نہیں ہوتا۔ ہر چیز کسی نا کسی چیز کے واسطہ سے حرکت میں ہے۔ یہ کلاسیکل ریلٹوٹی کہلاتی ہے۔ دوسرے نمبر پر اسپیشل تھیوری آف ریلٹوٹی ہے جو کہ ٹائم ڈائلیشن ہے۔ اس کے مطابق روشنی کی رفتار تمام بصارت رکھنے والے جسموں کے لیے ایک ہی ہوتی ہے۔ لیکن روشنی کی رفتار تیزی سے حرکت کرتے کسی جسم میں ساکن کے مقابلہ میں زیادہ وقت لیتی ہے۔ تجربات سے اس چیز کو ثابت کیا جا چکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں جتنا کوئی جسم تیزی سے حرکت کرےگا اس کے لیے وقت اتنا ہی آہستہ گزرے گا۔ چنانچہ وقت کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے روشنی کی رفتار سے سفر کرنا پڑے لیکن ہم جانتے ہیں کہ کوئی جسم ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر نہیں کر سکتا۔ کسی جسم کو روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے لیے لا محدود توانائی کی ضرورت ہوگی۔ لا محدود توانائی کے لیے لا محدود جسم کی ضرورت ہوگی۔ یعنی کل ملا کر بات یہ کہ نا ممکن امر ہے۔ ناسا کا بنایا ہوا پارکر سولر پروب انسانی ہاتھوں سے بنائی گی ایک ایسا خلائی جہاز ہے جسے تیز ترین سفر کرنے والے آبجیکٹ کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ پروب 2018ء میں سورج کے مدار میں پہنچ کر سورج پر تحقیق کرنے کے لیے روانہ کیا گیا تھا۔ اس پروب نے 330000 میل فی گھنٹہ کی تزترین رفتار حاصل کی جو حضرت انسان کی بنائی گئی اب تک کی سب سے تیز رفتار شئے ہے۔ اتنی رفتار کے باوجود اسے سورج کے مدار میں پہنچنے کے لیے تین سال لگے۔

مندرجہ بالا تمام حقائق کو سامنے رکھیں تو ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کسی انسان کا بغیر کسی قسم کی توانائی کے ذریعے کو بروئے کار لاتے ہوئے مادی جسم کے ساتھ خلاء کا سفر ناممکنات میں سے ہے۔ اس اصول کے تحت ہم حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع اور آپ ﷺ کے معراج کے جسمانی ہونے کی نفی کرتے ہیں چنانچہ رفع و معراج کو روحانی ماننے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں۔ اور جیسا کہ بیان ہو چکا ہے انسان تھری ڈی مخلوق ہے جس کے لیے اپنی چوتھی ڈائمنشن یعنی وقت میں سفر کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ چناچہ مادی جسم کے ساتھ رفع و معراج کو تسلیم کرنا فزکس کے قوانین کے بخیے ادھیڑنے جیسا ہے۔ فزکس کے یہ قوانین ہیں جنہیں حضرت انسان نے خدادا ذہانت سے دریافت کیا ہے اور جانا ہے کہ ہم ان کی بدولت زمان و مکان میں قید جس سے مادی جسم کے ساتھ فرار نہ صرف نا ممکن ہے بلکہ خدا کے مقررہ کردہ ان قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ خدا تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے کہ وہ اپنے دستور کے خلاف نہیں کرتا۔ زمان و مکان کی اس قید سے فرار اسی صورت ممکن ہے جب انسان کا 3D اسٹیٹس تبدیل ہو اور مرنے کے بعد وہ کسی اور ڈائمنشن میں داخل ہو جائے۔

قرآن کریم میں 500 سے زائد آیات ایسی ہیں جن میں ایسے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے جن کا ترجمہ وقت یا عرصہ کیا جا سکتا ہے۔ وقت کو ہم سائنسی اصطلاحات اور پیمانوں کی مدد سے سمجھ سکیں یا نا لیکن خالق کائنات کے وقت کی قسم کھانے سے ہمیں اس بات کا ادراک ضرور ہوتا ہے کہ وقت نہ صرف اپنا وجود رکھتا ہے بلکہ یہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل بھی ہے۔ آج ہم اس بات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ کائنات میں وقت کی پیمائش مختلف ہوتی ہے۔ اس بات کی توثیق قرآن کریم سورۃ حج میں یوں کرتا ہے کہ خدا کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ اسی طرح سورۃ سجدہ میں بھی ایک دن ایک ہزار سال کے برابر قرار دیا ہے جبکہ سورۃ معارج میں ایک دن کی مقدار 50 ہزار سال کے برابر بیان ہوئی ہے۔ مختلف ڈائمنشن میں وقت کی مقدار مختلف ہو سکتی ہے۔ نیز محرک اجسام پر وقت کی رفتار مختلف ہوتی ہے جسے ٹرک میں گیند کے ساتھ کھیل رہے بچوں کی مثال سے بیان کیا گیا۔ چنانچہ قرآن کریم میں بیان کی گئی وقت کی مقدار میں فرق پر تضاد بیانی کا اعتراض بھی رد ہو جاتا ہے۔ انسان مرنے کے بعد ہی اگلی ڈائمنشن میں داخل ہو سکتا ہے اس کا ثبوت قرآن و حدیث سے ہمیں ملتا ہے۔

وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِیۡنَ

(آل عمران: 134)

اور اپنے ربّ کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف دوڑو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین پر محیط ہے۔ وہ متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

ترجمتہ القرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع میں اس آیت کی ذیل میں درج ہے۔ ’’اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ جنت کہیں آسمان کے اوپر کوئی الگ مقام نہیں ہے کیونکہ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ زمین و آسمان کا جتنا بھی عرض ہے جنت کا بھی ویسا ہی ہے۔ جب یہ آیت آنحضرت ﷺ نے صحابہ کے سامنے پڑھ کر سنائی تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر زمین و آسمان پر جنت ہی حاوی ہے پھر جہنم کہاں ہے؟ تو آپ نے فرمایا سُبْحَانَ اللّٰهِ فَأَيْنَ اللَّيْلِ إِذَا جَاءَ اَلنَّهَارِ

(مسند احمد بن حمبل، مسند المکیین، حدیث نمبر 15100، نیز تفسیر الرازی زیر آیت ھذاہ)

کہ سبحان اللہ! جب دن آتا ہے تو رات کہاں ہوتی ہے۔ یعنی جہنم بھی وہیں ہوتی ہے مگر تمھیں اس کا شعور نہیں۔ پس یہ تصور باطل ہے کہ جنت اور جہنم کے لیے الگ الگ عرض ہیں۔ ایک ہی کائنات میں جنتی بھی بس رہے ہیں اور جہنمی بھی۔

ابتداء میں مختصراً بیان کیا گیا تھا کہ ہماری کائنات 3D ہے اور وقت چونکہ ہماری چوتھی ڈائمنشن ہے اس لیے ہم اسے نہ تو سمجھ سکتے ہیں نہ ہی اسے بیان کر سکتے ہیں۔ اس توجیہ کو مدنظر رکھ کر جنت و دوزخ کے بارے میں قرآن و احادیث کے ریفرنس سے دیکھیں تو یہ بات سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ کوئی جہان ہماری نظروں سے اوجھل ہونے کے باوجود ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہوئے بھی وسعت میں زمین و آسمان سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ یقیناً جنت اور دوزخ ہماری کائنات میں ہی ایسی ڈائمنشن میں اپنا وجود رکھتی ہیں جسے عام انسانی آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا۔ چنانچہ مندرجہ بالا آیت کے نتیجے میں جب سوال ہوا کہ جنت زمین و آسمان پر محیط ہے تو دوزخ کہاں تو آپ نے دن اور رات کی سادہ مگر بہترین مثال تو دی ہی ساتھ یہ بھی فرمایا کہ تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔ آپ ﷺ کے مخاطب سوال کرنے والے لوگ تھے اور وہ زمانہ ایسا تھا کہ انسانی شعور نے وہ منازل طے نہیں کیں تھیں جن پر آج پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ اس لیے اس گتھی کو سلجھانا اس دور کی نسبت آج بہت آسان ہے۔ آج ہم اس بات کا شعور رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ایسا بالکل ممکن ہے کہ کسی اور ڈائمنشن میں موجود ایسا جہاں آباد ہو جس کی وسعت ہماری زمین و آسمان پر محیط ہو سکتی ہے۔ وقت کا موجود ہونا اس کی ایک بہترین مثال ہے۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2022