• 23 اپریل, 2024

اگر ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں کام شروع کر دے تو ایک واضح تبدیلی نظر آ سکتی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
عملی اصلاح کے لئے دوسری چیز جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے وہ علمی قوت ہے یا علم کا ہونا ہے۔ اس بارے میں پہلے ذکر ہو چکا ہے، دوبارہ بتا دوں کہ غلطی سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ کچھ گناہ بڑے ہوتے ہیں اور کچھ گناہ چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن گناہوں کو انسان چھوٹا سمجھ رہا ہوتا ہے وہ گناہ اُس کے دل و دماغ میں بیٹھ جاتا ہے۔ اگر زیادہ ہیں تو جو زیادہ گناہ ہیں وہ دل و دماغ میں بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ تو کوئی گناہ ہے ہی نہیں۔ چھوٹی سی بات ہے یا ایسا معمولی گناہ ہے جس کے بارے میں کوئی زیادہ بازپرس نہیں ہو گی۔ خود ہی انسان تصور پیدا کر لیتا ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17صفحہ453 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

ابھی گزشتہ خطبوں میں شاید دو ہفتے پہلے ہی مَیں نے توجہ دلائی تھی کہ اسائلم سیکرز جو ہیں، وہ بھی یہاں آ کر جب غلط بیانی کرتے ہیں اور اپنا کیس منظور کروانے کے لئے جھوٹ کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو حقیقت میں وہ اپنا کیس خراب کر رہے ہوتے ہیں اور نہ صرف اپنا کیس خراب کر رہے ہوتے ہیں بلکہ جماعت کی ساکھ پر بھی حرف آ رہا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے کسی نے بتایا کہ خطبہ کے بعد یہاں سے ایک اسائلم سیکر وکیل کے پاس گیا اور وکیل صاحب بھی احمدی ہیں۔ وہ بھی شاید خطبہ سن رہے تھے اور وکیل شاید کوئی جماعتی خدمت بھی کرتے ہیں۔ اُس وکیل نے اس اسائلم لینے والے کو کیس تیار کرتے ہوئے غلط بیانی سے بعض باتیں لکھ دیں کہ یہ غلط باتیں بیچ میں ڈالنی پڑیں گی۔ حالانکہ ان کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور مؤکل کو کہہ دیا کہ اس کے بغیر کیس بنتا ہی نہیں۔ پھر تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اس لئے ایسی غلط بیانی کرنا ضروری ہے۔ حالانکہ میں نے واضح طور پر بتایا تھا کہ کسی غلط بیانی اور جھوٹ سے کام نہیں لینا اور احمدیوں پر ظلموں کے واقعات تو ویسے ہی اتنے واضح اور صاف ہیں اور اب دنیا کو بھی پتا ہے کہ اس کے لئے کسی وکیل کی ہشیاری اور چالاکی اور جھوٹ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔

پس مربیان کو بھی اور عہدیداران کو بھی بار بار جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرنی ہو گی۔ بار بار یہ ذکر کرتے چلے جانا ہو گا کہ کوئی گناہ بھی بڑا اور چھوٹا نہیں ہے۔ گناہ گناہ ہے اور اس سے ہم نے بچنا ہے۔ ہر جھوٹ جھوٹ ہے اور اس جھوٹ کے شرک سے ہم نے بچنا ہے۔ اگر اپنا تعلق خدا تعالیٰ سے مضبوط ہے تو پھر فکر کی ضرورت نہیں۔ نشان ظاہر ہوں گے اور انسان پھر دیکھتا ہے۔ لیکن تلقین کرنے والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اُن کی اپنی حالت بھی ایسے معیار کی ہو جہاں وہ اپنی قوتِ ارادی کے اعلیٰ معیاروں کی تلاش میں ہوں اور عملی طور پر بھی اُن کے عمل اور علم میں مطابقت پائی جاتی ہو۔ اس زمرہ میں شمار نہ ہوں جو کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔ بہرحال جماعتوں کو بار بار درسوں وغیرہ میں ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے اور عملی حالت بہتر کرنے کے لئے علمی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔

پس اگر ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں کام شروع کر دے تو ایک واضح تبدیلی نظر آ سکتی ہے۔ اس زمانے میں جبکہ علم کے نام پر سکولوں میں مختلف برائیوں کو بھی بچوں کو بتایا جاتا ہے ہمارے نظام کو بہت بڑھ کر بچوں اور نوجوانوں کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ماں باپ کو اپنی حالتوں کی طرف نظر کرتے ہوئے اُس علم کے نقصانات سے اپنے آپ کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جو بچوں کو علم کی آگاہی کے نام پر بچپن میں سکول میں دیا جاتا ہے۔ ماں باپ کو بھی پتا ہونا چاہئے تا کہ اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے بچوں کو بھی بچائیں۔ یہاں بہت چھوٹی عمر میں بعض غیر ضروری باتیں بچوں کو سکھا دی جاتی ہیں اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اچھے برے کی تمیز ہو جائے۔ جبکہ حقیقت میں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی بلکہ بچوں کی اکثریت کے ذہن بچپن سے ہی غلط سوچ رکھنے والے بن جاتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے سامنے اُن کے ماں باپ کے نمونے یا اُس کے ماحول کے نمونے برائی والے زیادہ ہوتے ہیں، اچھائی والے کم ہوتے ہیں۔ پس مربیان، عہدیداران، ذیلی تنظیموں کے عہدیداران، والدین، ان سب کو مل کر مشترکہ کوشش کرنی پڑے گی کہ غلط علم کی جگہ صحیح علم سے آگاہی کا انتظام کریں۔ سکولوں کے طریق کو ہم روک نہیں سکتے۔ وہاں تو ہم کچھ دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ لیکن گندگی اور بے حیائی کا فرق بتا کر، بچوں کو اعتماد میں لے کر اپنے عملی نمونے دکھا کر ماحول کے اثر سے بچا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو احسن رنگ میں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 24؍جنوری 2014ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

برکینا فاسو کے شہداء کے نام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2023