• 28 اپریل, 2024

اگر ساری جماعت یونس کی قوم کی طرح آہ و زاری کرنے لگ جائے…

اگر ساری جماعت یونس کی قوم کی طرح آہ و زاری کرنے لگ جائے…
تو تین دن میں مسئلہ حل ہو سکتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نے مؤرخہ 17؍ فروری 2023ء کو فن لینڈ کے خدام و اطفال سے ورچوئل ملاقات میں ایک خادم نے یہ سوال کیا۔

سوال: آج کل جماعت کے اوپر ‎ظلم و ستم بہت بڑھ گئے ہیں آخر کب تک جماعت کو ان مظالم سے چھٹکارا مل سکے گا؟

حضور نے فرمایا: کب ملے گا جب آپ اپنی دعاؤں کو انتہا تک پہنچا دیں گے۔پہلے اپنا جائزہ لیں۔کس حد تک آپ نے اللہ سے تعلق پیدا کر لیا! ہم موسیٰ کی طرح یہ نہیں کریں گے، نظمیں تو گا دیتے ہو، ترانے پڑھ دیتے ہو۔کیا اللہ تعالیٰ کے حق ادا کر رہے ہیں ہم؟اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ہم ادا کر رہے ہیں؟اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں قرآن کریم میں تعلیم دی ہے اخلاق اور کردار کے بہتر کرنے کی اس پر ہم عمل کر رہے ہیں سو فیصد؟ کیا ہم رو رو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے ہیں جماعت کی ترقی کے لئے اور ظلموں سےچھٹکارے کے لئے ؟یہ تو ہمارے پہ بھی depend کرتا ہے۔باقی یہ وقت لیتا ہے بعض دفعہ trialلمبے ہو جاتے ہیں۔میں نے بتایا تھا ایک دفعہ میں نے دعا کی کب چھٹکارا ملے گا؟تو مجھے تو یہی بتایا اللہ میاں نے کہ اگر ساری جماعت تین دن یونس کی قوم کی طرح آہ و زاری کرنے لگ جائے، ہر ایک بچہ، بڑا، بوڑھا، جوان اللہ تعالیٰ کے آگے چلائے گا تو تین دن میں مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔اس کا مطلب ہے ہمارا قصور ہے۔ایک دو کی دعاؤں سے کام نہیں ہوناہاں آہستہ آہستہ دعاؤں سے ہو گا مسائل حل ہوتے ہیں۔آنحضورؐ کی دعائیں تھیں نا اس کے باوجود مکہ میں تیرہ سال سختیاں برداشت کرنی پڑیں،مدینے میں بھی فتنے اٹھتے رہےاس کے بعد بھی فتنے اٹھتے رہےاور آخر مسلمانوں کے ایمان اور دعاؤں کی وجہ سے پھر آہستہ آہستہ حالات ٹھیک ہو گئےتو یہ تو ہم پہ بھی depend کرتا ہے کہ ہم کس حد تک اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہیں، کس حد تک دعائیں کرنے والے ہیں۔باقی ان شاء اللہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ ایک وقت معین ہے کہ اُس وقت تک ہونا ہےتو اُس وقت تک ہو گا اوریہ ان شاء اللہ ہو گا تو late تو ہو سکتا ہے موسیٰ کی قوم نے بھی انکار کر دیا تھا تو چالیس سال تک اللہ تعالیٰ نے ان کو دھکے کھلائے نا پھر ہم نے انکار تو نہیں کیا ہم میں تو بہت نیک لوگ ہیں بہت دعائیں کرنے والے ہیں بہت بزرگ قسم کے لوگ ہیں،ہر جماعت میں ہیں ہر طرح کی قربانیاں کرنے والے ہیں اب پچھلے دنوں میں دیکھو! افریقہ میں لوگوں نےایک مثال قائم کر دی قربانی کی وہ قربانی ایسی جو حقیقت میں صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی قربانی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہےکہ سامنے دیکھتے ہوئے انکار کیا جھوٹ کا اور حق پر قائم رہے اور اپنی جان دے دی۔ اسی طرح 74میں گوجرانولہ میں بھی بعض واقعات ایسے ہوئے تھے جہاں لوگوں نے اس طرح قربانی دی تھی اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ترقی دی۔ پھر جب بھی ہمارے خلاف سختیاں ہوئی ہیں جماعت اگر ایک جگہ سے دبائی جاتی ہے تو دوسری جگہ ترقیات مل رہی ہوتی ہیں، یا تو کہو نا کہ جماعت پھیل نہیں رہی۔ آپ لوگ یہاں آگئے،یہاں پاکستان سے بہتر حالت میں ہیں نا یہاں اگر آپ لوگ دین کے اوپر قائم رہیں اور آپ کی نسلیں دین پر قائم رہیں تو مزید پھلیں، پھولیں، بڑھیں گے اور ایک وقت آئے گا جب آپ پاکستان میں بھی آزادی سے جا سکیں گےاور وہاں یہ جو نام نہاد ملا اور اسلام کے علمبردار نام کے وہ آپ لوگوں کے سامنے سرنگوں ہوں گے ان شاء اللہ۔ وہ وقت بھی آئے گا تو یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کتنا عرصہ لینا ہے لیکن ہمیں فرض ادا کرنا چاہئے جو ہمارا فرض بنتا ہے باقی اللہ تعالیٰ، ان شاء اللہ تعالیٰ حالات بدلے گا۔

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍ فروری 2023ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2023