• 19 اپریل, 2024

اے چھاؤں چھاؤںشخص! تیری عمر ہو دراز


ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤںشخص! تیری عمر ہو دراز

مہمانان سے ملاقات

روایتی کاروائی کی تکمیل پر حضور انور نے دعا کروائی، روایتی جاپانی کھانا مہمانان کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ جونہی کھانے کی ابتدائی ڈشیں پیش کی گئیں تو منہ میں پانی بھر آیا۔ اس لیے مہمانان سے ملنے سے پہلے میں نے کچھ تازہ prawnsلیے جو بہت مزیدار تھے۔

اگلے نصف گھنٹہ میں مختلف مہمانوں سے ملاقات کرتا رہا اور جس طرح انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور یہ کہ حضور انور کے خطاب نے ان پر کیا اثر کیا ہے، بہت شاندار تھا۔

میں ایک دوست سے ملا جن کا نام Mr: Itesenتھا جو حضور انور کا خطاب سننے کے بعد بہت جذباتی ہو رہے تھے۔انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے تئیں کس قدر خوش قسمت اور سعادت مند خیال کر رہے ہیں کہ حضور انور نے انہیں جاپان تشریف لا کر شرف بخشا ہے اور ان کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروایا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ عام طور پر ہمیں مسلمانوں کو ملنے کا موقع نہیں ملتا لیکن آج ہم دنیا کے سب سے عظیم مسلمان سے ملے ہیں۔ ہم کس قدر خوش قسمت ہیں! خلیفہ کو دیکھوں تو مجھے سچائی، امانت داری اور حکمت نظر آتی ہے۔ آپ کی جاپان تشریف آوری کامقصد ہمیں امن کا پیغام دینا ہے اور اسلام کی سچائی کے بارے میں ہمیں بتانا ہے۔ ‘‘

میری ملاقات ایک جاپانی دوست جن کا نام Takeshikoko تھا سے ہوئی انہوں نے بتایا ’’ جاپانی لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ مسلمان برے لوگ ہیں لیکن میں اس بات کا گواہ ہوں کہ آپ کے خلیفہ مجسم امن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں 70سال قبل کی غلطیاں دوہرانی نہیں چاہئیں اور ایسے ظلم کو دوبارہ واقعہ ہونے سے روکنا چاہئے۔ ‘‘

ایک دوسرے مہمان Mr: Miura نے کہا کہ حضور انور نے جاپان کے لوگوں کو ایک خاص پیغام دیا ہے۔ انہوں نے کہا

’’خلیفہ صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ ایک دوسرے کو( لڑائی پر )ابھارا جائے بلکہ یہ یکجہتی کا وقت ہے اور یہ کہ ایک دوسرے سے محبت سے پیش آیا جائے۔‘‘

Asahi Shimbunاخبار کے ساتھ انٹرویو

الحمدللّٰہ Tokyo کا استقبالیہ اللہ کے خاص فضلوں کا متحمل ثابت ہواجس کے فورا ًبعد حضور انور کا انٹرویو Asahi Shimbunاخبار کے نمائندہ نے کیا، جو جاپان کے میڈیا میں معزز مقام رکھتا ہے اور اس کے قارئین کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچتی ہے۔

دوران انٹرویو حضور انور سے سوال ہوا کہ احمدیت دنیا کے کن حصوں میں پھیل چکی ہے جس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا :
’’جاپان میں ہماری جماعت چھوٹی ہے لیکن دنیا کے دوسرے حصوں میں ہماری تعداد کافی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر افریقہ میں کئی ملین احمدی ہیں۔ تاہم ہماری جماعت چھوٹی ہو یابڑی اہم بات یہ ہے کہ احمدیوں کو ہمیشہ بہت مخلص اور اسلامی تعلیمات پر سچے دل سے عمل پیرا ہونا چاہئے۔ ‘‘

جاپان کے لوگوں کے لئے حضور انور کے پیغام کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر حضور انور نے فرمایا:
’’ دنیا ایک اور جنگ عظیم کی طرف بڑھ رہی ہے اس لیے ایک ملک کی حیثیت سے جاپان کو دنیا میں امن کے قیام کی کوشش کرنی چاہئے اور جملہ تنازعات کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ‘‘

ایک جذباتی منظر
اور حضور انور کی شہداء کے لیے محبت

شاپنگ سنٹر پر Coffee کے لیے رکنے پر ڈاکٹر تنویر صاحب نے مجھے اپنے والد صاحب کے بارے میں بتایا جن کا نام سید لئیق احمد شہید تھا اور وہ 28؍ مئی2010ء کے لاہور مساجد کے حملے میں شہید ہوئے تھے۔ ڈاکٹر تنویر صاحب نے مجھے بتایا کہ ربوہ میں تدفین کے وقت جماعت کے بزرگوں نے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد خاندان نے انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا پیش کیا اور اس کو اپنے لیے باعث فخر خدمت سمجھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سخت شرمندہ ہو رہے تھےتاہم ہر احمدی کی محبت اور جذبات ان کے لیے حیران کن تھے۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ جس دوران ان کے والد صاحب کی تدفین ہو رہی تھی کئی دیگر احمدی شہداء کی بھی تدفین جاری تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران انہوں نے دیکھا کہ ایک معمر احمدی خاتون تیزی سے قبروں میں آگے پیچھے چل رہی ہیں۔ انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی قریبی گاؤں کی خاتون تھیں اور پاکستان کے دیہاتی لوگوں کی طرح وہ کم خواندہ اور سادہ لگ رہی تھیں۔ چند منٹوں کے بعد ڈاکٹر صاحب اس خاتون کے پاس پہنچے اس خیال سے کہ شاید وہ کسی معین قبر کی تلاش میں ہیں جس پر وہ دعا کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے اس خاتون سے پوچھا کہ کیا وہ کسی معین شہید کی قبر ڈھونڈ کر وہاں دعا کرنا چاہتی ہیں۔ جس پر انہوں نے اوپر دیکھا اور کہا’’ یہ سب میرے ہیں۔ یہ سب میرے ہیں۔ ہر احمدی شہید میرا (عزیز) ہے۔‘‘

اس پر انہیں احساس ہوا کہ ان کی اس قدر بے چینی اور قبروں میں آگے پیچھے ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہر شہید کو اپنا عزیز اور فیملی ممبر خیال کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر تنویر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ اس شدید صدمے کی حالت میں حضور انور نے ذاتی طور پر ان کے افراد خانہ سے فون پر گفتگو فرمائی اور ہر فردِ واحد سے گفتگو فرمائی۔

مجھے اپنا وقت یاد آگیا کہ ان دنوں شہداء کے رشتہ داروں کی ایک لمبی فہرست تھی جو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے دفتر میں تھی۔ ہر روز حضور انور وقت نکال کر(شہید کے) ہر فرد خاندان سے فون پر گفتگو فرماتے۔ آپ ان سے لمبی گفتگو فرماتے اور انہیں حوصلہ دیتے اور ان کی زندگیوں کے بارے میں استفسار فرماتے۔ یقیناً حضور انور کی ہر احمدی سے محبت اور ان کا خیال رکھنا (غیر معمولی طور پر)حیران کن ہے۔

احمدیوں سے ملاقات

سوموار کا دن جاپان میں ہمارا (دورہ کا)آخری دن تھا۔ تاہم یہ خیال کہ حضور انور اگلے دن صبح 13 گھنٹے کی فلائٹ پر سفر کرنے والے ہیں اس لیے آپ کا شیڈول شاید اس شام کچھ ہلکا پھلکا ہو گا، ہر گز درست نہیں ہے۔

بلکہ حضور انور نے ایک بھرپور فیملی ملاقاتوں کے S Session کا انعقاد فرمایا جس میں لوکل جماعت کے افراد سے ملاقات فرمائی اور چند بیرون ملک سے آنے والے احمدیوں سے بھی ملاقات فرمائی۔

میری ملاقات ایک انڈونیشین خاتون سے ہوئی جن کا نام Triagustianiصاحبہ تھا جو جاپان سے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ تشریف لائی تھیں۔ ان کی خوشی دیدنی تھی کیونکہ وہ حضور انور سے پہلی بار ملاقات کر رہی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ’ ’ہم ہزاروں میل کا سفر کر کے بچوں کے ساتھ حضور انور کو ملنے کے لیے آئے ہیں اور مالی لحاظ سے بھی یہ آسان نہیں ہے۔ لیکن اپنے خلیفہ کو ملنے سے جو خوشی مجھے حاصل ہوئی ہے اس کے مقابل پر یہ روکیں کچھ بھی نہیں ہیں۔ میں کس قدر خوش قسمت ہوں! ہم دعا کر رہے ہیں کہ حضور انور انڈونیشیا تشریف لائیں یقیناًایسے بابرکت دورے سے ہمارا ملک یکسر بدل جائے گا۔ اپنی گفتگو کے دوران وہ رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ انہیں ان کے بچوں اور شوہر کو حضور انور سے ملنے کی جو سعادت نصیب ہوئی ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔

میری ملاقات فرحان ملک صاحب (بعمر چونتیس سال ) سےبھی ہوئی جن کی فیملی جاپان شفٹ ہوئی تھی جب وہ ایک بچے تھے۔ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ تھے جن کا نام Yuka Jasminتھا جو ایک جاپانی خاتون تھیں اور 2009ء میں احمدیت قبول کی تھی۔Yuka صاحبہ انگریزی نہیں بول نہیں سکتی تھیں اس لیے ان کے شوہر ترجمہ کر رہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ’’ جب سے میں احمدی مسلمان ہوئی ہوں میرے جملہ مسائل اور پریشانیوں کا جیسے رستہ نکل آیا ہو اور یہ راستہ دعا کا ہے۔ میرے ساتھ پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا لیکن اب مجھے جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں اور اس سے مدد مانگتی ہوں اور اللہ ہمیشہ میری مشکلات کو دور کر دیتا ہے۔‘‘

ائرپورٹ پر حضور انور کا الوداع

حضور انور کی لندن واپسی کے لیے فلائٹ اگلے روز صبح 11 بجے Naritaانٹرنیشنل ائرپورٹ سے تھی جو ہوٹل سے ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ا س لیے7:55منٹ پر حضور انور اور قافلہ کے دیگر ممبران ہوٹل سے روانہ ہوئے جس سے قبل حضور انور نے دعا کروائی۔

ایئرپورٹ پر پہنچنے کے بعد جماعت احمدیہ جاپان کے لوکل ممبران نےہاتھ ہلا کر حضور انور کو الوداع کہا۔ یہ تو خوب عیاں تھا کہ وہ اپنے خلیفہ سے دوری کی وجہ سے غمگین ہو رہے تھےجبکہ وہ یہ بھی نہ جانتے تھے کہ دوبارہ یہ قربت کا موقع انہیں کب نصیب ہوگا۔ نہایت محبت سے حضور انور نے لوکل جماعت کے ممبران سے security area (جہاں صرف مسافر ہی داخل ہو سکتے ہیں) میں داخل ہونے سے قبل ملاقات فرمائی۔

ایک ہنگامہ خیز فلائٹ

سیکیورٹی کلیئرنگ کے بعد حضور انور اور خالہ سبوحی ائرپورٹ لاؤنج میں انتظار گاہ میں تشریف لے گئے جبکہ ہم( جملہ ممبران قافلہ) ڈیوٹی فری ایریا میں چلے گئے، تاکہ گھر کے لیے کچھ تحائف خرید سکیں۔ جب ہم برٹش ایئر ویز کے جہاز میں گیارہ بجے پہنچے تو میں غمگین تھاکہ ہمارا سفر ختم ہونے جا رہا ہے۔ مجھے جاپان بہت یاد آئے گا۔

ہماری جاپان کےلئے پرواز بہت آرام دہ تھی لیکن واپسی کی پرواز اس سے بہت مختلف تھی۔ پرواز کے پہلے گھنٹے میں بہت شور شرابہ تھا یہاں تک کہ جہاز میں صرف شور ہی نہیں تھا بلکہ بری طرح سے shake کر رہا تھا۔ جہاز کےکپتان کی طرف سے جہاز کے عملے کو ہدایت جاری ہوئی کہ وہ بھی سیٹوں پر بیٹھ جائیں کیونکہ ہم تیز ہواؤں سے گزر رہے تھے۔

یہ شور شرابہ اس قدر زیادہ تھا کہ بہت سے لوگ بہت زیادہ فکر مند ہو رہے تھے۔ ندیم امینی صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک جاپانی خاتون جو ان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھیں ایسا لگتا تھا کہ وہ بے ہوش ہو جائیں گی۔

عام حالات میں شاید میں بھی پریشان ہو جاتا اور بہت زیادہ خوفزدہ ہو جاتا کیونکہ میں دنیا کا سب سے اچھا جہاز میں سفر کرنے والا نہیں ہوں تاہم جتنا بھی شور شرابہ ہوا مجھے کوئی پریشانی یا فکر نہ ہوئی اور یہی بات باقی جملہ قافلہ ممبران کے لئے بھی درست ہوگی۔ اس کی سادہ وجہ یہ تھی کہ ہم سب جانتے تھے کہ حضور انور اس جہاز میں موجود ہیں، ان شاءاللّٰہ، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے گا۔ اس لیے بجائے جہاز کے گرنے سے بچنے کی دعائیں کرنے کے میں اللہ تعالی کے شکرانے کے لیے دل سے اٹھنے والی دعاؤں میں مصروف رہا کہ میں اس جہاز میں سفر کر رہا ہوں جس میں حضرت خلیفۃ المسیح سفر فرما رہے ہیں۔ ایک گھنٹے کے بعد یہ شور شرابہ ختم ہوگیا جس کے بعد باقی فلائٹ نہایت اطمینان سے گزری۔

لندن میں ورود مسعود

فلائٹ لندنHeathrow ایئرپورٹ پر لوکل وقت کے مطابق 2:45 منٹ پر اتری جہاں حضور انور کا مکرم امیر صاحب یوکے نے استقبال کیا، ٹھیک ایک ہفتے کے بعد جہاں انہوں نے حضور انور کو الوداع کہا تھا۔چند منٹوں کے انتظار کے بعد جس دوران ہمارے پاسپورٹس پر مہریں لگیں قافلہ مسجد فضل لندن پہنچا جہاں سینکڑوں احمدیوں نے اپنے پیارے آقا کا استقبال کیا۔

اختتامیہ

جب ہم گھر پہنچے تو میرے ذہن میں اس دورے کے بے شمار فضلوں کے خیالات آنے لگے جن کا میں خود گواہ تھا۔ ایسے وقت میں جب دنیا تیزی سے لڑائی اور فساد کی طرف بڑھ رہی ہے اور ایسے وقت میں جب اسلام کو مستقل طور پر بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،ہمارے خلیفہ نے نہایت شاندار طریق پر جاپانی لوگوں کو قرآنی تعلیمات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود سے روشناس کروایا ہے۔

Nagoya اور Tokyo میں منعقد ہونے والے استقبالیہ میں اور میڈیا انٹرویوز میں حضور انور کا عالمی امن کا پیغام براہ راست جاپانی لوگوں تک پہنچا۔Meiji Shrine میں حضور انور نے خدائے واحد و یگانہ کا پرچار فرمایا اور کئی میٹنگز میں حضور انور نے لوکل احباب کےسوالات کے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جوابات عطا فرمائے۔

ذاتی حیثیت میں یہ ایک نہایت خاص اور خدا تعالیٰ کے بیش بہا افضال کا متحمل دورہ تھا۔ جس کے لیے میں اللہ تعالی کا کما حقہ شکر ادا نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے حضور کو صحت و سلامتی والی دراز اور فعال عمر سے نوازےجو خوشی سے بھری ہوئی ہو اور جملہ احمدی احباب آپ کی توقعات پر پورا اترنے والے ہوں۔ آمین

(حضور انور کا دورہ جاپان نومبر 2015ء از ڈائری عابد خان)
(بتعاون مظفرہ ثروت۔جرمنی )

(مترجم : ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍ فروری 2023ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2023