• 12 جولائی, 2025

رمضان المبارک اور نشانِ کسوف و خسوف

رمضان میں سورج و چاند گرہن کے حوالے سے قارئین کے لئے ایک خصوصی تحریر

آسماں میرے لئے تُو نے بنایا اک گواہ
چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار
اسمعوا صوت السماء جاء المسیح جاء المسیح
نیز بشنو از زمیں آمد امام کامگار
آسماں بارد نشاں الوقت می گوید زمیں
ایں دو شاہد ازپئے من نعرہ زن چوں بیقرار

(درثمین)

ماہ رمضان المبارک اپنے اندر برکات سمیٹے ہوتا ہے۔ عبادات، صدقات اور روحانی ترقی اپنےعروج پر ہوتی ہے۔ فرشتوں کا نزول اور اللہ کا بندوں کے قریب آنا اس مہینے کی خاصیت ہے۔ ایسا ہی ایک ماہِ رمضان ان ساری خوبیوں کے ساتھ اسلام کی زندگی کی گواہی کی نوید بھی سنا گیا اور تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کے لیے رقم کرگیا۔ 1894ء کے ماہِ رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگے اور قادیان میں موجود امام مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی۔

امام مہدی ؑ کی آمد کا انتظار امت مسلمہ میں بڑی بے چینی سے کیا جا رہا تھا۔ اس کے آنے کی پیش خبری اور آمد کے بعد اس کے پہچاننے کی نشانی خود آنحضرت ﷺ واضح فرما چکے تھے۔ گویا کہ مسلمانوں کے سوال ’’یا رسول اللہ! ہم آنے والے کو کیسے پہچانیں گے اس کا کیا نشان ہوگا ؟‘‘ کاجواب آپ ﷺ ہمیں پہلے ہی دے چکے ہیں۔ دارقطنی کی ایک حدیث ہے

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَصْطَخْرِىُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ نَوْفَلٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شَمِرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِىٍّ قَالَ إِنَّ لِمَهْدِيّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ تَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِى النِّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللّٰهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ

(سنن الدّار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلوۃ الخسوف والکسوف وھیئتُہا)

ترجمہ:ہمارے مہدی کے لیے دو نشان مقرر ہیں اور جب سے زمین و آسمان پیداہوئے ہیں یہ نشان کسی اور مامور کے لیے ظاہر نہیں ہوئے۔ وہ یہ ہیں کہ رمضان کے مہینے میں چاند (اپنے گرہن کی مقررہ راتوں میں سے) پہلی رات کو گہنایا جائے گا۔ اور سورج کو (اس کے گرہن کے مقررہ دنوں میں سے) درمیانے دن کو گرہن ہوگا۔ اور یہ ایسے نشان ہیں کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا یہ نشان کبھی کسی (مامور) کےلیے ظاہر نہیں ہوئے۔

اس حدیث میں چاند اور سورج گرہن کے رمضان المبارک میں اکٹھے ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ قرآنِ کریم میں سورۃ القیا مۃ میں بھی ان کے اکٹھے ہونے کا ذکرہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:

وَخَسَفَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۹﴾ وَجُمِعَ الشَّمۡسُ وَالۡقَمَرُ ﴿۱۰﴾

(القیامہ: 9-10)

کہ چاند کو گرہن لگےگااورسورج اور چاند کو جمع کردیا جائے گا۔

لاکھوں درود اس نبی پاک پر جس نے ہمارے لیے کیسی وضاحت کے ساتھ نشانیاں بیان فرما دیں۔ اگر ہم غور کریں تو چند الفاظ میں آپ نے ہمارے لیے کتنی نشانیاں بیان فرما دیں:

  • چاند اور سورج گرہن ایک ماہ میں ہوگا
  • وہ ماہ رمضان کا ہوگا
  • چاند گرہن پہلی رات اور سورج گرہن درمیانے دن میں
  • مدعی مہدویت موجود ہو گا
  • مدعی گرہن کو اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرے گا

اس پیشگوئی کی عظمت اور انفرادیت کو سمجھناضروری ہے۔ اگر کوئ ہم سے کہے کہ کل کا موسم بتا دیں تو ہم کئی طریقوں سے اگلے کئی روز کا موسم بتا سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئ ہم سے ایک سو سال بعد کا موسم پوچھے تو بتانا مشکل ہوگا۔ کجا کہ ہزار سال بعد کی باتیں۔ آنحضرت ؐنے ایسی نشانیاں بتائیں جو ارض و سماوات سے تعلق رکھتی تھیں اور انسان کے بس میں نہیں۔ اسی طرح انہوں نے تیرہ سو سال کے بعد کے حالات بتا دئیے۔ گویا کہ ہم سن 3333ء کا موسم بتا دیں۔ہمارےآقا رسول خدا ؐ نے 1311ء سال کے بعد کی باتیں بتائیں۔ 2022ء میں 1311ء سال جمع کریں توسن3333ء بن جاتا ہے۔ سن ء1894 کا ماہ ِ رمضان ہجری سال کےمطابق 1311ء بنتا ہے۔

آئیے اب سورج اور چاند سے بھی کچھ باتیں معلوم کرتے ہیں۔ گرہن اس وقت لگتا ہے جب ایک سیارہ دوسرے کے سائے میں آ جاتا ہے اور پورے طور پر نظر نہیں آتا۔ ہمیں معلوم ہے کہ چاند زمین کے گرد گھومتا ہے اور دونوں سورج کے گرد طواف کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زمین سورج اور چاند کے بیچ میں آ جاتی ہے اور سورج کی روشنی چاند تک نہیں پہنچ پاتی۔ اس کو چاند گرہن کہتے ہیں۔ اسی طرح کبھی چاند زمین اور سورج کے درمیان آجاتا ہے جس سے سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ پاتی۔ نتیجاً سورج گرہن ہوتا ہے۔ ہر سال قریباً ایک سے تین چاند اور دو سے پانچ سورج گرہن ہوتے ہیں۔ چاند گرہن زمین پر زیادہ جگہ پر نظر آتا ہے جب کہ سورج گرہن نسبتاً بہت کم علاقہ سے نظر آتا ہے۔ گرہن کئی قسموں کے ہوتے ہیں۔زمین کے حصہ میں مکمل سورج گرہن تین سے چار سو سال میں ایک دفعہ نظر آتا ہے۔ مکمل چاند گرہن ڈیڑھ گھنٹے تک اورمکمل سورج گرہن ساڑھے سات منٹ تک دیکھا جا سکتا ہے۔ چاند گرہن چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخوں میں ممکن ہوتاہے جبکہ سورج گرہن ستائسویں، اٹھائیسویں اور انتیسویں تاریخوں میں ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے ماموریت کا دعویٰ 1882ء میں کیا تھا اور مسیح موعود ہونے کا 1890ء میں بہت سے لوگوں نے سورج اور چاند گرہن کے نشان کے بارے میں استفسار کرنا شروع کر دیا کہ یہ واضح نشانی پوری نہیں ہوئی۔ اب بندے کا تو اس میں کوئی دخل نہیں کہ سیاروں کی حرکات کو قابو میں لا سکے اور گرہن لگوا سکے۔اس لئے حضرت مسیح موعودؑ صرف اپنے رب کے حضور دعاگو رہے۔

خدا قادر و توانا ہے اور اس کی تقدیر حرکت میں آ چکی تھی۔ چنانچہ 13 رمضان المبارک بمطابق21 مارچ 1894ء کو چاند کو گرہن لگا اور 28رمضان االمبارک بمطابق 6 اپریل 1894ء کو سورج کو گرہن لگا۔ یہ دونوں گرہن قادیان سے دیکھے جاسکتے تھے۔

اگلے سال 1895ء میں 11 اور 26 مارچ کو مغربی کرہ ارض میں بالترتیب چاند اور سورج کو گرہن لگا۔ اللہ کی شان کے قادیان میں یہ 13 اور 28 رمضان المبارک بنتی ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب نورالحق میں کسوف و خسوف پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے:
’’پس تاویل صحیح اور معنی حق صریح یہ ہیں کہ یہ فقرہ کہ خسوف اول رات رمضان میں ہوگا اس کے معنے یہ ہیں کہ ان تین راتوں میں سے جو چاندنی راتیں کہلاتی ہیں پہلی رات میں گرہن ہوگا اور ایام بیض کو تو جانتا ہے حاجت بیان نہیں اور ساتھ اس کے بات کی طرف بھی اشارت ہے کہ جب چاند گرہن پہلی چاندنی رات میں ہوگا تو رات کے شروع ہوتے ہی ہو جائے گا نہ یہ کہ کچھ وقت گزر کر ہو‘‘

(نورالحق حصہ دوم، روحانی خزائن جلد8 صفحہ201)

بلکہ اس کا یہ قول کہ سورج گرہن اس کے نصف میں ہوگا اس سے یہ مراد ہے کہ سورج گرہن ایسے طور سے ظاہر ہوگا کہ ایام کسوف کو نصفا نصف کودے گا اور کسوف کے دنوں میں سے دوسرے دن کے نصف سے تجاوز نہیں کرے گا کیونکہ وہی نصف کی حد ہے پس جیسا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقدر کیا کہ گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات میں چاند گرہن ہو ایسا ہی یہ بھی مقدر کیا کہ سورج گرہن کے دنوں میں سےجو وقت نصف میں واقع ہے اس میں گرہن ہو۔ سو مطابق خبر واقع ہؤا اور خدا تعالیٰ بجز ایسے پسندیدہ لوگوں کے جن کو وہ اصلاح خلق کے لئے بھیجتا ہے کسی کو اپنے غیب پر اطلاع نہیں دیتا۔ پس شک نہیں کہ یہ حدیث پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔جو خیر المرسلین ہے‘‘

(نورالحق حصہ دوم، روحانی خزائن جلد8 صفحہ204)

رمضان کے مبارک مہینے میں 1895ء میں دوسری بار گرہن لگنا بھی حدیث مبارکہ کے مطابق ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:
’’اب تمام انگریزی اور اُردو اخبار اور جملہ ماہرین ہئیت اِس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانے میں ہی جس کو عرصہ قریباً بارہ (12) سال کا گزر چکا ہے۔ اِسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے اور جیسا کہ ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ گرہن دو مرتبہ رمضان میں واقع ہو چکا ہے۔ اوّل اِس ملک میں دوسرے امریکہ میں اور دونوں مرتبہ انہیں تاریخوں میں ہوا ہے جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہےاور چونکہ اس گرہن کے وقت میں مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اورنہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویت کا نشان قرار دیکر صدہا اشتہار اور رسالے اُردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئےاِس لئے یہ نشانِ آسمانی میرے لئے متعین ہوا۔ دوسری اس پر دلیل یہ ہے کہ بارہ (12) برس پہلے اِس نشان کے ظہور سےخداتعالیٰ نے اِس نشان کے بارے میں مجھے خبر دی تھی کہ ایسا نشان ظہور میں آئے گا۔ اور وہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہو کر قبل اس کے جو یہ نشان ظاہر ہو لاکھوں آدمیوں میں مشتہر ہو چکی تھی۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ202)

الغرض قادر خدا نے اپنی قدرت کا عظیم الشان نمونہ پیش کیا اور اپنے رسول ﷺ اور اس کے عاشق صادق کی صداقت بھرپور طور پر آسمان سے پیش کردی اور پیشگوئی اپنی تمام شرائط کے ساتھ پوری ہوئی۔ رمضان کا مہینہ چاند کو پہلی رات کو اور سورج کو دوسرے دن میں۔ اسی طرح چاند کو شروع رات میں اور سورج کو نصف دن میں گرہن لگا۔ مدعی مہدویت موجود اور بڑے زور و شور سے اس نشان کو اپنی صداقت کے ثبوت کے لئے پیش کیا۔ جیسا کہ آپ بڑی شان سے فرماتے ہیں:
’’اِن تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ مگر کسی کے لئے یہ آسمانی نشانی ظاہرنہ ہوا۔ بادشاہوں کا بھی جن کو مہدی بننے کا شوق تھا یہ طاقت نہ ہوئی کہ کسی حیلہ سے اپنے لئے رمضان کے مہینہ میں خسوف وکسوف کرالیتے۔ بیشک وہ لوگ کروڑہا روپیہ دینے کو تیار تھے۔ اگر کسی کی طاقت میں بجزخدا تعالیٰ کے ہوتا کہ اُن کے دعوے کے ایّام میں رمضان میں خسوف کسوف کر دیتا۔مجھے اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کے لئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا ہے اور اس وقت ظاہر کیا ہے جبکہ مولویوں نے میرا نام دجال اور کذاب اور کافر بلکہ اکفر رکھا تھا۔ یہ وہی نشان ہے جس کی نسبت آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں بطور پیشگوئی وعدہ دیا گیا تھا اور وہ یہ ہے۔ قل عندی شھادہ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔ قل عندی شھادہ من اللّٰہ فھل انتم مسلمون۔ یعنی ان کو کہہ دے کے میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اس کو مانو گے یا نہیں۔ پھر ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اس کو قبول کرو گے یا نہیں۔ یاد رہے کہ اگرچہ میری تصدیق کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت گواہیاں ہیں اور ایک سو سے زیادہ وہ پیشگوئی ہے جو پوری ہو چکی جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں۔ مگر اس الہام میں اس پیشگوئی کا ذکر محض تخصیص کے لئے ہے یعنی مجھے ایسا نشان دیا گیا ہے جو آدم سے لے کر اس وقت تک کسی کو نہیں دیا گیا۔ غرض میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ نشان میری تصدیق کے لئے ہے۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ142-143)

بہت سی پاک روحوں نے نشان آسمانی کو دیکھ کر حق کو شناخت کر لیا مگر افسوس بہت سے بدقسمت ایسے بھی تھی اور اب بھی ہیں جو عقل کے اندھے ہیں اور گمراہی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

اس روشن نشان کے باوجود بعض لوگوں نے کچھ اعتراضات بھی کئے۔ مثلاً یہ کہ ایک ماہ میں گرہن تو پہلے بھی کئی دفعہ لگ چکا ہے۔ یہ کونسی نئی بات ہے۔ اسی طرح یہ کہ گرہن ملک شام یا ملک عرب میں کیوں نہیں لگا۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:
’’اے بندگان خدا فکر کرو اور سوچو کیا تمہارے نزدیک جائز ہے کہ مہدی تو بلادعرب اور شام میں پیدا ہو اور اس کا نشان ہمارے ملک میں ظاہر ہو اور تم جانتے ہو کہ حکمت الہٰیہ نشان کو اس کے اہل سے جدا نہیں کرتی پس کیونکر ممکن ہے کہ مہدی تو مغرب میں ہو اور اس کا نشان مشرق میں ظاہر ہو اور تمہارے لئے اس قدر کافی ہے اگر تم طالب حق ہو۔‘‘

(نورالحق حصہ دوم، روحانی خزائن جلد8 صفحہ216)

بعض نے یہ جرأت بھی کی کہ اس حدیث کے راوی امام باقر مستند نہیں۔ اس واسطے یہ حدیث مشکوک ہے۔ اس الزام کی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تردید کی اور وضاحت فرمائی:
’’ماسوا اس کے جبکہ مضمون اس حدیث کا جو غیب کی خبر پر مشتمل ہے پورا ہو گیا تو بموجب آیت کریمہ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ قطعی اور یقینی طور پر ماننا پڑا کہ یہ حدیث رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اس کا راوی بھی عظیم الشان آئمہ میں سے ہے یعنی امام باقر رضی اللہ عنہ۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ134)

اپنی تصنیف نورالحق حصہ دوم کےآخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’اے لوگو تم قبول کرو یا نہ کرو بے شک نشان ظاہر ہوگیا اور حجت پوری ہو گئی اور تمہیں طاقت نہیں کہ اس کسوف خسوف کی کوئی اور نظیر پیش کر سکو پس خداتعالیٰ کے نشانوں سے روگردانی مت کرو اور یہ ہمارا اس باب میں آخری کام ہے اور ہم اس کتاب کی تالیف پر خداتعالیٰ کا شکر کرتے ہیں اور ہم خداتعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اور آخری دعا یہ ہے کہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔‘‘

(نورالحق حصہ دوم، روحانی خزائن جلد8 صفحہ255)

وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

(ڈاکٹر منصور احمد قریشی – امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

آج کی دعا