• 7 مئی, 2024

تمام برکتیں خلافت کے دَم سے ہیں

خلافت الله تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے اور اپنے دامن میں ہزاربرکات لئے ہوئے ہے۔ برکت نعمت کی زیادتی اور کثرت کو کہتے ہیں۔خلافت کے ذریعہ مومنوں پر ہونے والے الہٰی افضال بکثرت ہوتے ہیں اس لئے انہیں برکات شمار کیا جا تا ہے۔ ایسی دس برکات کا ذکر کیا جا تا ہے۔

تمكنت دین

خلافت کی اس برکت کا قرآن کریم کی آیت ِاستخلاف میں ان الفاظ میں ذکر فرمایا گیا ہے۔

وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ

(نور:56)

ترجمہ: اور اُن کے لئے اُن کے دین کو جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ضرورتمکنت عطا کرے گا۔ دین کی تمکنت، اس کے قیام، پھیلاؤ، ترقی اور غلبہ پر محیط ہے۔

خلافت سے وابستہ ترقی

قانون طبعی کی روسے عمریں محدود ہیں اورنبی کی وفات کے وقت اس کا لگایا ہوا پودا ابھی ابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے اور اس کا نشوونما پانا اور ایک مضبوط درخت بنناخلفاء کے ذریعہ ہوتا ہے۔حضرت مسیح موعودؑ نے اس مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔

’’جس راستبازی کو وہ دُنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہیں کے ہاتھ سے کردیتا ہے لیکن پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں اُن کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20ص304)

نبیوں والی جماعتوں کی ترقی خلافت سے وابستہ ہوتی ہے۔ اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے فرمایا۔ “سوائے امام کے ترقی نہیں ہوسکتی ………

(خطبات نور،صفحہ نمبر622)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کاارشاد ہے۔
اسلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا جب تک خلافت نہ ہو ہمیشہ خلفاء کے ذریعہ اسلام نے ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی کے ذریعہ ترقی کرے گا۔

(درس القرآن ،صفحہ نمبر72 مطبوعہ 1921ء)

طاقتوں کا ارتکاز

حضرت مصلح موعودؓ کے ان الفاظ میں ایک اور وجہ یہ ہے کہ ’’خلفاء نبی کی قوتِ قدسیہ کو جو اُس کی جماعت میں ظاہر ہورہی ہوتی ہے ضائع ہونے سے بچا کر ایک خاص پروگرام کے ماتحت استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں جماعت کی طاقتیں پراگندہ نہیں ہوتیں اور تھوڑی سی طاقت سے بہت سےکام نکل آتے ہیں کیونکہ طاقت کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوتا۔ اگر خلافت نہ ہوتی تو بعض کاموں پر تو زیادہ طاقت خرچ ہو جاتی اور بعض کام توجہ کے بغیر رہ جاتے۔‘‘

(تفسیر کبیر ،جلد ششم ص 320)

مرکزیت

اس ترقی میں یہ بات بھی ممد ہے کہ خلیفہٴ وقت ایک مرکزی، بااختیار اور مطاع وجود ہوتا ہے جو ملک ملک پھیلی ہوئی جماعتوں کی ایک مرکزی پروگرام کے مطابق رہنمائی کرتا ہے جس سے تمام جماعت ایک ہی سمت میں رواں رہتی ہے۔حضرت مسیح موعودؑ کے بعد جب خلافت علیٰ منہاج النبوت کا دوباره قیام ہوا تو دُنیانےتمکنتِ دین کے نظارے دیکھے۔ خلافتِ اُولی میں واعظین کی تقرری اور ملک سے باہر انگلستان میں پہلےمشن کے قیام سے ترقی اور پھیلاؤ کے جس سفر کا آغاز ہوا وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتا گیا اور اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے ساتھ دین کو وہ حیرت انگیز تمکنت نصیب ہوئی جو اپنی مثال آپ ہے جس کے چند پہلو یہ ہیں۔

210سے زائد ممالک میں جماعت کا باقاعدہ قیام، ایک ہزار سے زائد مبلغین ، سات سو سے زائد مشن ہاؤسز اور1ہزارسے زائد مساجد کا مصروف عمل ہونا ،70 سے زائد زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت اور 80کے قریب جماعتی اخبار و رسائل کا اجراء، عالمی بیعتوں کے ذریعہ کروڑہاافراد کی جماعت میں شمولیت، تبلیغ دین کے لئے مالی قربانیوں کا اربوں روپوں تک پہنچنا اور مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ MTA کے معجزہ کا ظاہر ہونا جواَب چوبیسں گھنٹے پورے گلوب پر مختلف زبانوں میں دین حق کا پیغام پہنچانے میں مصروف ہے۔

رُعب

اہل ایمان کو الله تعالیٰ دوسروں پر رُعب عطا فرماتا ہے۔ یہ رُعب جماعت کو بھی حاصل ہے اور کئی ملکوں میں اس کے اجتماعات میں وہاں کے اعلیٰ حُکام خوشی سے شرکت کرتے ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب ان ملکوں کے دَورہ پر جاتے ہیں تو اُنہیں شایان شان پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ دُنیا کےبڑے بڑے ایوانوں،US کانگریسں، برٹش پارلیمنٹ اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب اس رُعب کا ایک اور درخشاں رُخ ہیں۔

غرضیکہ جماعت ہر جہت میں برق رفتاری سے اپنے کامل غلبہ کی الٰہی تقدیر کی طرف گامزن ہے اور وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ دُنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 ص 27)

حالت خوف کا امن سے بدلا جانا

خلافت کی دوسری برکت آیت استخلاف میں ان الفاظ میں مذکور ہے۔

وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْناً ۔

(نور :56)

ترجمہ: اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔

الہٰی جماعتوں پر خوف کی حالت دُشمنوں کی کوششوں کے علاوہ نبی یا خلیفہ کی وفات پربھی آتی ہے۔ نبی کی وفات کے وقت جماعت اپنی ابتدائی کمزوری کی حالت میں ہوتی ہے اُس وقت دُشمن زور سے حملہ آور ہوتا ہے اور مومن جماعت کے مستقبل کے حوالے سے خوف کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ حضرت مسیح موعودؑنے اس کیفیت کو یوں بیان فرمایا ہے۔

نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پید اہوجا تا ہے اور دُشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّدمیں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمر یں ٹوٹ جاتی ہیں۔

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 ص 304)

بعد میں خلفاء کی وفات پر گو جماعت کی حالت پہلے سے بہتر ہو چکی ہوتی ہے تا ہم مفوضہ کام کا بڑا حصہ ابھی ناتمام ہوتا ہے اور قائد کی جدائی مومنین کو اسی طرح فکر مند کرتی ہے اور مستقبل کے اندیشے گھیر لیتے ہیں ۔ ان اندرونی خوفوں کے علاوہ دُشمن بار بار اور بعض دفعہ منافق بھی ایسے مواقع پیدا کرتے رہتے ہیں جو جماعت کے لئے خوف کا باعث ہوتے ہیں۔ الله تعالیٰ اس آیت میں خلافت کی یہ برکت بیان فرماتا ہے کہ ایسے سب خوف امن میں بدل جاتے ہیں۔

اسی بارے میں حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں۔
’’جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دُنیاپر ایک زلزلہ آجاتا ہے……مگر خدا تعالیٰ کسی خلیفہ کے ذر یعہ اُس کو مٹاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات، جلد پنجم ص 524)

حضرت مسیح موعودؑ کی وفات بھی ایک بڑاسانحہ تھا جس نے تمام افراد جماعت کو خوف میں مبتلا کر دیا۔ دوسری طرف مخالف بھی بڑھ چڑھ کر بدگوئیاں کرنے اور جماعت کے خاتمہ کے خواب دیکھنے لگے۔ یہ سب خوف خلافت کے قیام کے ساتھ امن میں بدل گئے ۔ یہ تجربہ ہر خلیفہ کی وفات اور نئے خلیفہ کے انتخاب پر دُہرایا گیا۔ افراد جماعت خلفاء سے جو گہری دلی محبت رکھتے ہیں اس کے نتیجہ میں اُن میں سے ہر ایک کی جدائی نے اُنہیں بے حال کیا اور ہر بار نئے انتخاب نے اُن کی داد رسی کی اور وہ اس کیفیت سے باہرنکل آئے۔

جماعت کی تاریخ میں اندرونی طورپرانکارِخلافت اور منافقین کے فتنوں نے بھی کئی بارسراُٹھایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکے دَور میں خلافت یا انجمن کا سوال اُٹھایا گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ابتدائی دَور خلافت میں تو منکرین خلافت نے ایک علیحدہ گروہ بنا کر محاذ کھول دیا۔ پھر مصری ،مستری، وہاب ومنان مختلف ناموں تلے منافق جماعت کے اتّحاد کے دَرپے ہوئے لیکن خلیفہ راشد نے ان تمام شرارتوں کی پوری کامیابی سے سرکُوبی کی اور ہر ابتلاءسے جماعت کو نکال لائے۔

بیرونی طور پر بھی دُشمن بار بار حملہ آور ہوا۔ 1933ء ،1953ء، 1974ء اور 1984ء میں دُشمن نے حکومت کی طاقت کے ساتھ انتہائی خوفناک حملے کئے۔ یہ پوری جماعت پرمشکل وقت تھے اور بظاہراُن سے بچاؤ کی کوئی صورت نہ تھی لیکن خدا کی بات پوری ہوئی اور خلفائے راشدین نے اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے ساتھ جماعت کی بہترین رہنمائی فرمائی اور ہر بار خوف امن سے بدلتا رہا۔

تلاوت آیات اورنشان نمائی

قرآن کریم نے انبیاء کی بعثت کی ایک غرض مومنوں کے لئے تلاوت آیات یعنی نشان نمائی بتائی ہے۔ خلافت چونکہ نبوت کی ظلّ ہے اس لئے وہ بھی اس صفت سے متصف ہوتی ہے۔ پھر چونکہ خلفاء الله تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے وہ ان کی تائید ونصرت فرماتا ہے اور خلفاء ایک خاص تائید ِالٰہی کے مَورد اور اعجازی خدائی قدرت کا مظہر ہوجاتے ہیں ۔ یہی امرنشانات الٰہی کے ظہور کا باعث ہوتا ہے اور خلفاء کے ہاتھ پرایسے تابندہ اور درخشنده نشان ظاہر ہوتے ہیں جو بدیہی طور پر اپنے اندر معجزانہ شان رکھتے ہیں۔

ایک زندہ خدا کی ہرآن تجلی اپنے اندر یہ برکت بھی سموئے ہوئے ہوتی ہے کہ یہ نشان نمائی مومنوں کے ایمان میں درستگی، تقویت مضبوطی اور ترقی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس سے اُن کے اَزدیاد ایمان کا سامان ہوتا ہے اور روحانی میدان میں اُن کے قدم آگے بڑھتے ہیں۔ دوسری طرف یہ نشان دُشمنوں کے لئے رُعب کا باعث ہوتے ہیں اور اُن کے بہت سے بدارادوں میں رکاوٹ۔ جماعتی اور انفرادی زندگیوں میں مسلسل ظاہر ہونے والی اس برکت پر ہراحمدکی گواہ ہے۔

تعلیم شریعت

خلافت کی برکت سے اعلیٰ طور پر شریعت کی تعلیم ، تر ویج اور تنفیذ جاری رہتی ہے۔ نئے لوگ شامل ہوتے ہیں اور جماعت بڑھتی جاتی ہے۔ پُرانوں کو بھی یاددہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خلفاء ان سب ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر اپنے رُوح پرور خطبات، خطابات اورتحریرات کے ذریعہ مومنوں کی انفرادی زندگی اور جماعت کے اجتماعی ماحول میں نفاذ شریعت کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور بار بار جماعت کو ان اہم شرعی احکامات کی طرف متوجہ فرماتے ہیں جن پرعمل وقت کی ضرورت اور تقاضا ہوتا ہے۔قرآنی تعلیمات کی اشاعت کے لئے جماعت میں تعلیم القرآن کا اہتمام اور نئے مومنین کے لئے اُن کی زبان میں قرآن کریم کے تراجم کی فراہمی اسی عمل کا حصہ ہیں۔ غرضیکہ علم دین کی ترویج اوررُشد اور ہدایت کی تعلیم خلافت کی ایک اہم برکت ہے۔ حضرت مصلح موعودؓنے اس برکت کا یوں ذکر فرمایا ہے ۔ خلفاء دین کی تشریح اور وضاحت کرتے ہیں اور مغلق اُمورکو کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں۔

(الفضل 4ستمبر 1937ء ۔بحوالہ خطبات محمودجلد 18صفحہ 367)

درسِ حکمت

احکامات کی حکمت کا درس عمل کو آسان اور شریعت کے نفاذ کوسہل کرتا ہے۔ خلافت کا زمانہ چونکہ نبی کے زمانہ کے بعد ہوتا ہے۔ اس بُعد کے سبب بہت سے نئے سوال اُٹھتے ہیں۔ نئے آنے والے بھی تعلیم اور احکامات کی باریکیاں جاننا چاہتے ہیں ۔ پھر حالات زمانہ میں تبدیلی کے باعث بہت سی ایسی باتیں ظہور میں آتی ہیں جو شرعی احکامات پرعمل درآمد کو بظاہرمشکل بناتی ہیں ۔خلفاء اپنے خداداد علم و عرفان اور الله تعالیٰ سے رہنمائی کے ساتھ ان مسائل کوحل کرتے ہیں اور ان سب سوالات کے شافی جواب دیتے ہیں۔ خلفاء کے ذریعہ درس قرآن محفل عرفان سوال و جواب کی مجلسیں، روح پرور خطبات، اہم مواقع پر خطابات اور تحریرات سب اسی درسِ حکمت کے ذرائع ہیں پھر جماعت میں اُن ذرائع کا پھیلایا جانا اور ہرسطح پر عالمی مجالس کا انعقادبھی اس پیغام کو عام کرنے کا ذریعہ ہیں۔ غرضیکہ درسِ حکمت کے ان سب امکانات تک رسائی خلافت کی ایک بڑی برکت ہے۔

تزکیہ کا سامان

نبی افراد کو پاک کرنے اور ان کو جلا بخشنے اور بندوں کو خدا سے قریب کرنے کے لئے آتے ہیں ۔ ان کی غرض عام لوگوں کو اچھا انسان اور اچھے انسانوں کو خدا شناس، خداترس اور بالآخرخدانما وجود بنانا ہوتا ہے ۔ خلافت بھی اسی غرض سے ہے۔ مومنوں کی تربیت، تزکیہ اور خدا سے اُن کے تعلق کو مضبوط کر نا خلفاء کا مقصود رہتا ہے اور وہ جماعت کی روحانی ترقی اور تربیت کے سب ظاہری سامان کر تے ہیں اور ساتھ ساتھ سوز وگداز میں ڈوبی ہوئی اپنی شبانہ دُعاؤں سے مدد بھی بہم پہنچاتےہیں۔خلفاءضرورت کے مطابق مطلوب اعمالِ صالحہ کی طرف جماعت کی رہنمائی کرتے ہیں اور تربیت و اصلاح کے لئے نظام جماعت کو بھی متحرک کرتے ہیں۔ جواس امر کی نگرانی کرتا ہے کہ افرادان ارشادات کے مطابق اعمالِ صالحہ کو بجالائیں اور جن باتوں سے روکا گیا ہے اُن سے مجتنب رہیں۔ حصولِ تزکیہ کے لئے خلفاء کی رہنمائی اور نیکیوں کی تحریک اور بدی سے روکنے کا متحرک نظام جماعت خلافت کی برکات میں سے ایک ہے۔ حضرت مصلح موعودؓنے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔

انبیاء اورخلفاءالله تعالیٰ کے قرب کے حصول میں لوگوں کےممد ہوتے ہیں ۔ جیسے کمزور آدی پہاڑ کی چڑھائی ……… سہارا لے کر چڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح انبیاء اور خلفا ءلوگوں کے لئے ……… وہ سونٹے اور سہارے ہیں جن کی مدد سے کمزور آدمی بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے۔

(الفضل11ستمبر1937ء ۔ بحوالہ خطبات محمودجلد18صفحہ403)

تزکیہ کے ایک مفہوم میں دُنیوی ترقی بھی شامل ہے ۔ خلافت کی برکت سے جماعت کی اپنی دُنیوی ترقی کے لئے بھی رہنمائی میسر رہتی ہے اور اس راہ میں مشکلات کے حل بھی دستیاب رہتے ہیں ۔ اب جماعت خلیفہ وقت کی رہنمائی میں اس امر کے لئے کوشاں ہے کہ کوئی انٹر سے پہلےتعلیم نہ چھوڑے۔ اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے والوں کو خلیفہ وقت انعام سے سرفراز فرماتے ہیں اور یوں اُن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور مزید آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ہدایت کہ کوئی بیکارنہ ر ہے اور ملازمتوں کے بجائے کاروبار کی طرف توجہ کی جائے اسی سمت میں ہے۔ تزکیۂ نفس تک رسائی کرانا خلافت کی ایک بڑی برکت ہے۔

قربانیوں کی راہ

انسانی زندگی کا مقصد روحانیت میں ترقی اور خدا کا قرب حاصل کرنا ہے۔ روحانی زندگی میں یہ جلا قربانیوں سے پیدا ہوتی ہے۔ پھر دین کو اپنی زندگیوں میں جاری و ساری کرنے اور اُسے تمام دُنیا میں پھیلانے کا بڑا کام بڑی قربانیاں چاہتا ہے۔ جان کی یکدم قربانی بھی اور سختیاں برداشت کر کے اس کی مسلسل قربانی بھی، اوقات کی قربانی بھی اور بعض معاشروں میں تیسرےدرجے کا شہری ہوکر عزتوں کی قربانی بھی ۔ غرض ہرقسم کی قربانی مطلوب ہے اور وہ بھی نسل درنسل۔

افراد کا قربانیوں کے لئے تیار ہونا اور پھر قربانیاں کرتے چلے جانا خلافت کے دم سے ہے۔ خلیفہ وقت حالات کے مطابق جماعت کے سامنے جان و مال اور وقت کی قربانیوں کی نئی نئی اسکیمیں رکھتے ہیں اور تمام افراد کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق ان میں حصہ لیں اور اپنے وقت اور مال اور جان اللہ کی راہ میں قربان کر یں۔ مسلسل قربانیوں کا یہ سلسلہ جہاں مجموعی طور پر جماعت کی ترقی میں ممد و معاون ہے وہیں افراد کی زندگیوں میں بھی مثبت تبدیلی پیدا کرتا ہے اور اُنہیں خدا کا کامل عبد بننے میں مدد دیتا ہے۔ قربانیوں کے ان مواقع کا ملتے چلے جانا خلافت کی ایک بڑی برکت ہے۔

اتّحاد و اتفاق

خلافت کے ذریعہ تمام افراد ایک وجود کے گرد جمع رہتے ہیں اور تمام ہدایات اور رہنمائی اُس سے پاتے ہیں ۔ خلیفہ کی بات کے مقابلہ میں کوئی دوسری بات اور خلیفہ کے وجود کے سامنے کوئی دوسرا وجود اُن کے لئے بےحقیقت ہوتا ہے۔ سارا نظام خلیفہ وقت کے اشارے پر متحرک رہتا ہے اور اُن اہداف کے لئے کام کرتا ہے جوخاندان کے لئے مقررکرتا ہے۔ یہ مرکزیت پوری جماعت کو ایک محور کے گرد رکھ کر اُسے متحد اور یکجان رکھتی ہے۔ خلیفہ وقت اُنہیں ایک لڑی میں پروئے رکھتا ہے اور اُن کا نگران ہوتا ہے۔ یہ وحدت قومی خلافت کے ذریعہ ہی پیدا ہوسکتی ہے اور اس کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ یہ حبل اللہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کا اس بارے میں ارشاد ہے۔

تم اس حبل الله کومضبوط پکڑلویہ بھی خداہی کی رسّی ہے جس نے تمہارے متفرق اجزا کو اکٹھا کر دیا ہے پس اسے مضبوط پکڑے رہو۔

(بدر قادیان، یکم فروری 1912ء)

خلافت کے ذریعہ باہم اتّحاد و اتفاق اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ تمام افراد جماعت خلیفہ وقت سے محبت کے تار میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور خلیفہ وقت پوری جماعت کا محبوب ہوتا ہے اور محبت کا یہ رشتہ پوری جماعت کو متحد اور یکجان رکھتا ہے۔جب تک اس میں اتحاد نہ ہو تو کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ اس اتّحاد واتفاق کی جان خلافت ہے۔ خلافت راشدہ دَور اول میں جب خلافت کی برکت سے وحدت پیدا ہوئی تو مسلمانوں نے تیزی سے ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ چار دانگ عالم میں پھیل گئے۔ لیکن جب خلافت نہ رہی تو اتفاق بھی جاتا رہااور ایسا انتشار پیدا ہوا کہ دوبارہ ایک ہاتھ پر جمع نہ ہو سکے۔ اس عدم اتفاق نے آج دُنیائے اسلام کی جو عبرت ناک حالت کی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ پس اتحاد واتفاق خلافت کی ایک بہت عظیم برکت ہے۔

سایۂ محبت

اللہ کے نبی مومنوں پر شفقت کا بازو پھیلائے رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں نرم دل بناتا ہے اور اعلیٰ اخلاق سے آراستہ کرتا ہے۔ اُن کے بعد خلفاء بھی اسی راہ پر ہوتے ہیں ۔ وہ نرمی سے متّصف کئے جاتے ہیں ۔ اُن کی مخلوق سے محبت، خوش دلی ، سادگی، عاجزی اور ہمدردی افراد جماعت کو ان کا گرویدہ بنائے رکھتی ہے ۔ ہرفرد خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق کے لئے کوشاں رہتا ہے ۔خطوط کا تبادلہ ہوتا ہے سب ہر معاملہ میں رہنمائی کے لئے اور ضرورت پر دُعا کے لئے درخواست گزار ہوتے ہیں ۔ اُن کے دل خلیفہ راشد کی محبت سے دھڑکتے ہیں اُن کی نگاہیں خلیفہ وقت کے چہرے کو دیکھتے سیر نہیں ہوتیں۔ اُن کے کان خلیفہ وقت کی آواز پر لگے رہتے ہیں۔

دوسری طرف خلیفہ وقت بھی افراد جماعت سے محبت کرتے ہیں اور یوں تعلق رکھتے ہیں جیسے ایک باپ کا اپنے بچوں کے ساتھ۔اس محبت کا بڑا ہی خوبصورت اظہار حضرت مصلح موعود ؓنے یوں فرمایا ہے تمہارے لئے ایک شخص تمہارا دَرد رکھنے والا تمہاری محبت رکھنے والا تمہارے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھنے والا تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا تمہارے لئے خدا کے حضور دُعائیں کرنے والا ہے۔ تمہارا اُسے فکر ہے، دَرد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتاہے۔

(برکات خلافت، انوار العلوم جلد2ص 56)

غرضیکہ خلیفہ کا وجود جماعت کے سر پر ایک گھنے ، ٹھنڈے اور آرام دہ سایہ کی طرح ہوتا ہے جس کےتلے تمام افراد سُکھ، چین اور سکون سے زندگی گزارتے ہیں یہ سایہ ٔ محبت خلافت کی ایک بڑی برکت ہے۔

قبولیتِ دُعا

خلفاء الله تعالیٰ کے چنیدہ افراد ہوتے ہیں جب وہ گریہ و زاری کے ساتھ شبانہ روز دُعائیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن دُعاؤں کو شرف قبولیت بخشتا ہے اور فرشتے اس سلسلہ اسباب کی فراہمی کے لئے مستعد ہو جاتے ہیں جواُن نتائج کے لئے مطلوب ہوتے ہیں جوخلیفہ وقت کی دُعاؤں میں چاہے جاتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا ارشاد ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ جس کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اُس کی دُعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اُس کی دُعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اُس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے۔‘‘

(منصب خلافت، انوار العلوم جلد 2ص 47)

قبولیتِ دُعا کی نعمت مزید برکات کا باعث بنتی ہے۔ جماعتی ترقی کی تمام تحریکیں بڑھ چڑھ کر کامیاب ہوتی ہیں اور جماعت کا قدم ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہتا ہے۔ مخالفین کی فتنہ انگیزیاں ناکام ونامراد رہتی ہیں اور جماعت مجموعی طور پر محفوظ و مامون رہتی ہے۔ افراد جماعت جب اپنی ذاتی ضرورتوں اور مسائل کے حل کے لئے خلیفہ وقت سے درخواست گزار ہوتے ہیں اور خلفاء اُن کے حق میں دُعا کرتے ہیں تو یہ ساری ضرورتیں پوری ہوتی جاتی ہیں اور سب مسئلے حل ہوجاتے ہیں اور سب افراد شادکام رہتے ہیں۔خلافت کی عظیم برکت ہراحمدی کی زندگی میں بار بار ہونے والا تجر بہ ہے اور سب اس پر گواہ ہیں۔

تمام برکتیں خلافت سے ہیں

خلافت نبوّت کا تتمّہ ہے اور وہ تمام برکات جونبوت سے خاص ہیں خلافت کے دَور میں بھی جاری رہتی ہیں۔ سب خلفاء کی روحانی نہریں اسی چشمہٴ صافی سے زندگی لیتی ہیں جو برکات کا اصل سَوتا ہے یعنی حضرت مصطفی ﷺ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اس حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے۔

گوجسدِعنصری کے ساتھ آپ دُنیا میں موجودنہیں تھے مگر ابوبکر رضی الله عنہ کے دل میں محمدرسول اللہﷺ زنده موجود تھے۔عمررضی اللہ عنہ کے دل میں محمد رسول ﷺ موجود تھے۔ عثمان رضی الله عنہ کے دل میں محمد رسول الله ﷺ زنده موجود تھے۔ علی رضی الله عنہ کے دل میں محمد رسول اللہ ﷺ زندہ موجود تھے۔

(تفسیر کبیر،جلدنہم ص 88)

اسی لئے خلافت نورِنبوت کو پھیلانے کا ذر یعہ ہے۔ حضرت مصلح موعودؓنے اس کی وضاحت میں فرمایا۔ “الله تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مگر اس نور کومکمل کرنے کا ذریعہ نبوت ہے اور اس کے بعد اس دُنیا میں پھیلانے اور اُسے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ خلافت ہے گویا نبوت ایک پانی ہے جو اُس کو آندھیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور خلافت ایک ریفلیکٹر ہے جو اُس کے نورکو دُور تک پھیلاتا ہے۔”

(تفسیر کبیر ،جلدششم ص 338)

یوں یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ تمام برکتیں ہی خلافت کے دَم سے ہیں۔ ایسی چند برکات کا اُوپر ذکر ہوا لیکن یہ ایک سیلِ رواں ہے۔حضرت مصلح موعودؓ کا یہ فرمان اس بات کو خوب سمیٹتا ہے۔

’’اے دوستو ! میری آخری نصیحت یہ ہے کہ سب برکتیں خلافت میں ہیں۔ نبوت بیج ہوتی ہے جس کے بعد خلافت اُس کی تاثیرکو دُنیا میں پھیلا دیتی ہے۔ تم خلافت ِحقّہ کو مضبوطی سے پکڑو اور اس کی برکات سے دُنیاکو متمتع کرو تا خداتعالیٰ تم پررحم کرے اور تم کو اِس دُنیا میں اُونچا کرے اور اُس جہاں میں بھی اُونچا کرے۔‘‘

(الفضل30مئی 1959ء)

اللہ کرے کہ ہم سب اور ہمارے اہل خانہ خلیفہ وقت سے مضبوط ذاتی تعلق رکھنے والے ہوں تا خلافت کی ان سب برکات سے پورا فائدہ اُٹھا کر دین و دُنیا کی فلاح پائیں ۔ آمین

(جمیل احمد بٹ)

پچھلا پڑھیں

قدرت ثانیہ

اگلا پڑھیں

سَر رکھ دو خلافت کی چوکھٹ پہ