حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس خلافتِ احمدیہ بھی اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں خلافتِ راشدہ کا تسلسل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دور کی خلافت کی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر ایک مدت گزرنے کے بعد ختم ہونے کی اطلاع فرمائی تھی۔ اور دوسرے دَور کی خلافت کی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر ہمیشہ جاری رہنے کی خوشخبری عطا فرمائی۔ لیکن کن لوگوں کو؟ یقینا اُن لوگوں کو جو خلافت کے ساتھ جڑے رہنے کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ عملِ صالح کرنے والے ہیں۔ عبادتوں میں بڑھنے والے ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو جماعت احمدیہ میں شامل ہوتے ہیں لیکن چونکہ خلافتِ احمدیہ سے جڑے رہنے کا حق ادا کرنے والے نہیں ہوتے، اس لئے اللہ تعالیٰ کی تقدیر اُن کو جماعت سے باہر کروا دیتی ہے۔ دنیا داری کی خاطر وہ جماعت احمدیہ سے یا تو ویسے علیحدہ کر دئیے جاتے ہیں یا خود ہی علیحدگی کا اعلان کر دیتے ہیں۔ لیکن کیا کبھی ایسے لوگوں کے چلے جانے سے جماعت احمدیہ کی ترقی میں فرق پڑا؟ کبھی روک پڑی؟ ایک کے جانے سے اللہ تعالیٰ ایک جماعت مہیا فرما دیتاہے۔ خشک ٹہنیاں کاٹی جاتی ہیں تو ہری اور سرسبز ٹہنیاں پہلے سے زیادہ پھوٹتی ہیں۔ پس چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خلافت کے نظام کو اب جاری رکھنا ہے، اس لئے اُس کی تراش خراش اور نگہداشت کا کام بھی خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے سب سے پیارے انسان اور نبی کی پیشگوئی کا پاس نہ کرے۔ یقینا یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہوتی چلی جائے گی۔ گو بعض حالات ایسے آتے ہیں کہ مخالفین اور کمزور ایمان والے سمجھتے ہیں کہ اب ختم ہوئے کہ اب ختم ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ کے تائیدی نشان اُس دَور سے جماعت کو نکال کر لے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا دل ہلا دینے والا دَور تو جماعت پر اُس وقت آیا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہوا، جیسا کہ مَیں نے کہا۔ دشمن خوش تھے اور احمدی پریشان۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرما کر جماعت کو اس کے لئے پہلے سے تیار کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ میرا وقت قریب ہے، لیکن اس بات سے مایوس ہونے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے رسالہ الوصیت میں تحریر فرمایا اور یہی کہ پریشان نہ ہوں۔ اس میں جہاں اپنے اس دنیا سے رخصت ہونے کی خبر دی، وہاں جماعت کے روحانی، مالی اور انتظامی طریقے کار کو بھی واضح فرما دیا اور اُس کے قائم ہونے اور ہمیشہ رہنے کی خبر بھی دی۔ فرمایا کہ فکر نہ کرو۔ میرے سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ جماعت کو ترقی دے گا کیونکہ یہی وہ جماعت ہے جس کے ترقی کرنے اور جس میں خلافت قائم ہونے کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔
آپ علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اُتریں گی۔ کچھ تو ان میں سے میری زندگی میں ظہور میں آجائیں گی اور کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی اور وہ اِس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا۔ کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ303-304)
فرمایا کہ:
’’غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے‘‘ اللہ تعالیٰ ’’(1) اوّل خودنبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔ (2) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا۔ اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں، تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے…۔‘‘ فرمایا ’’تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ304-305)
آپ فرماتے ہیں: ’’مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔ اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ305-306)
(خطبہ جمعہ 24؍مئی 2013ء)