• 5 مئی, 2024

خلافت ثالثہ کی ایک عظیم تحریک جو بارگاہ الہی میں مقبول ہوگئی

خلافت ثالثہ کی ایک عظیم تحریک جو بارگاہ الہی میں مقبول ہوگئی
تحریک وقف عارضی – کم ازکم 15 دن خدا کی خاطر گزارنے کا نام
اصلاح نفس، خدمت قرآن، نمازوں اور دعاؤں کا نہایت عمدہ موقع
وقف زندگی کا بے مثال نظام

جماعت احمدیہ کی ایک امتیازی خصوصیت جو اس کو ہر دوسری جماعت سے جدا کرتی ہے وہ وقف زندگی کا نظام ہے۔ دنیا میں بے شمار ادارے اور تنظیمیں موجود ہیں اور اپنے اپنے مقاصد کے لئے بہت قربانیاں کرنے والے بھی ہیں مگر جس عظمت اور فدائیت کے ساتھ جماعت احمدیہ میں وقف زندگی کا نظام جاری ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ’’میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں … کہ اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ، ابدی زندگی کا طلبگار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ370)

اس ارشاد کے تابع جماعت میں وقف زندگی کا بے مثال نظام جاری ہوا۔ جو اپنے اندر کئی سطحیں اور جہات رکھتا ہے۔ وقف کی سب سے اعلیٰ قسم وہ ہے جس میں ایک احمدی اپنی ساری زندگی کلیةً امام وقت کے حضور پیش کرتا ہے۔ اس کی پہلی تحریک حضرت مسیح موعود نے 1907ء میں فرمائی جس پر ابتداء ً 13 خوش نصیبوں نے لبیک کہا اور ان کی اتباع میں سینکڑوں دیوانے آتے چلے گئے۔

واقفین زندگی کی خدمات

ان واقفین نے سلسلہ کے انتظامی امور کی باگ ڈور بھی سنبھالی اور نظام تبلیغ کے ذریعہ دنیا کے کونے کونے میں احمدیت کا پیغام پہنچانے میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ 1934ء میں تحریک جدید کے قیام کے ساتھ تبلیغ کا ایک مربوط نظام قائم ہوا اور ان سرفروشوں نے اعلائے کلمہ حق کے لئے خون بہائے، ماریں کھائیں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بیوی بچوں سے مدتوں جدا رہے۔ مگر اعلائے کلمہ حق کی خاطر وہ ہر مشکل کو جھیلتے رہے اور آج احمدیت جو 213ملکوں میں لہلہا رہی ہے اس میں ایک بڑا حصہ ان فاقہ مستوں اور عزم کے کوہساروں کا بھی ہے جنہوں نے زندگیاں اس کام میں گزاردیں۔

واقفین نو

اسی برگزیدہ گروہ کا ایک تازہ حصہ واقفین نو کا بھی ہے۔ جو 70ہزار سے زائد کی تعداد میں اچھلتے کودتے میدان وغا میں داخل ہونے کی تیاری کررہے ہیں۔ اس سکیم میں والدین بچے کی پیدائش سے پہلے بچے کو وقف کرتے ہیں اور بچہ شعور کی عمر کو پہنچ کر اس وقف کی تجدید کرتا ہے۔ یہ واقفین جامعہ احمدیہ میں اور زندگی کے مختلف میدانوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔

معلمین وقف جدید

اس ہر اول دستہ کی روحانی فتوحات کو دوام بخشنے اور نئے دلوں میں احمدیت کو پختہ کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود نے 1957ء میں وقف جدید کی بنیاد ڈالی اور بہت سے معلمین اس نظام کے تحت زندگی وقف کرکے قربانیوں مگر خاموشی کے ساتھ احمدیت کی جڑیں مضبوط کرتے چلے جارہے ہیں۔

نصرت جہاں سکیم

وقف کا ایک سلسلہ ڈاکٹرز اور ٹیچرز سے بھی تعلق رکھتا ہے جو مجلس نصرت جہاں کے تحت کچھ سال وقف کرکے افریقہ کے دور دراز اور مہذب دنیا سے کٹے ہوئے علاقوں میں خدمات بجالارہے ہیں۔

وقف بعد ریٹائرمنٹ۔وقف بعد ریٹائرمنٹ کی سکیم پر بھی بیسیوں لوگوں نے لبیک کہا اور کئی شعبوں میں بھاری ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔احمدی ڈاکٹر اور انجینئربھی اپنے اپنے شعبوں کے حوالہ سے بے پناہ خدمات بجا لا رہے ہیں

تحریک وقف عارضی کا اجرا٫

ان کے علاوہ بھی بے شمار سینے ایسے ہیں جن میں وقف کرنے کی لو تو جلتی رہتی ہے مگر مختلف مجبوریوں اور ذمہ داریوں کی بناء پر پوری زندگی یا لمبے عرصہ کے لئے وقف نہیں کرسکتے۔ ایسے دلوں کی تسکین کے لئے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے خداتعالیٰ کی رہنمائی سے وقف کا ایک اور دروازہ کھولا جو وقف عارضی کے نام سے موسوم ہے۔

وقف عارضی کا مقصد

18 مارچ 1966ء کو حضورؒ نے وقف عارضی کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ۔مرورزمانہ سے بہت سی جماعتوں میں سستی پیدا ہوچکی ہے اور جتنے مربیان اور معلمین ہمیں درکار ہیں اتنی تعداد میں میسر نہیں۔ اس لئے آپ نے جماعت کو تحریک کی کہ وہ سال میں 2 تا6 ہفتے جماعتی انتظام کے تحت وقف کریں۔ سفر اور طعام کا خرچ خود برداشت کریں اور یہ دن عبادت، دعاؤں، احباب جماعت کی تربیت اور خدمت دین میں گزاریں۔ حضور نے فرمایا:۔
’’میں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ دوست جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے سال میں دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ دین کی خدمت کے لئے وقف کریں اور انہیں جماعت کے مختلف کاموں کے لئے جس جس جگہ بھجوایا جائے وہاں وہ اپنے خرچ پر جائیں اور ان کے وقف شدہ عرصہ میں سے جس قدر عرصہ انہیں وہاں رکھا جائے اپنے خرچ پر رہیں اور جو کام ان کے سپرد کیا جائے انہیں بجالانے کی پوری کوشش کریں‘‘۔

(الفضل 23 مارچ 1966ء)

ہرطبقہ حصہ لے

حضورؒ نے جماعت کے تمام طبقات اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب کو اس میں شمولیت کی دعوت دی اور فرمایا کہ کم سے کم 15 دن خدا کی خاطر دنیاوی کاموں سے رخصت لیں یا چھٹی کا حق خدا کی خاطر استعمال کریں۔ آپ نے سالانہ 5 ہزار واقفین عارضی کی تحریک کی۔ آپ نے سکولوں، کالجوں کے اساتذہ، پروفیسرز، طالبعلموں، گورنمنٹ ملازمین اور وکلاء کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ کیا۔ نیز احمدی خواتین کو اپنے علاقوں میں وقف عارضی کرنے کی ہدایت کی نیز ان کو خاوندوں، والد یا بھائیوں کے ساتھ دوسری جگہ جانے کی اجازت عطا فرمائی اور بڑی تفصیل کے ساتھ واقفین عارضی کی ذمہ داریاں اور وقف عارضی کی برکات بیان فرمائیں۔

جماعتی کارکن بھی اس تحریک میں شرکت کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اس بارہ میں الفضل میں یہ اعلان شائع ہوا۔ ’’معلوم ہوا ہے کہ کارکنان سلسلہ میں سے بعض کو یہ غلط فہمی لگی ہے کہ انہیں وقف عارضی میں شمولیت کی ضرورت نہیں۔ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس میں کوئی استثناء نہیں۔ جملہ کارکنوں کو اپنی رخصت لے کر وقف عارضی میں شامل ہونا چاہئے اور اس ثواب سے حصہ لینا چاہئے۔‘‘

(الفضل 5؍اپریل 1967ء)

احباب جماعت نے اس تحریک پر والہانہ لبیک کہا اور حضور کے 17 سالہ دور خلافت میں 1966ء تا 1982ء قریباً 40 ہزار افراد نے اس میں شرکت کی سعادت پائی اور دل ٹھنڈے کئے۔

تعلیم القرآن کا فروغ

اس تحریک کا مرکزی نکتہ قرآن کی تعلیم کو عام کرنا تھا۔ چنانچہ جگہ جگہ قرآن پڑھنے پڑھانے کی کلاسیں گویا فیکٹریوں میں تبدیل ہوگئیں اور مربیان اور معلمین کی تعداد میں کمی کی وجہ سے جو کام سست ہورہا تھا اس نے دوبارہ رفتار پکڑ لی۔ اسی مقصد کے لئے حضورؒ نے تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی ایک نظارت قائم فرمائی۔ جس کی رہنمائی میں واقفین عارضی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ اسی طرح حضورؒ نے مجلس موصیان کا بھی اس نظارت سے گہرا رابطہ قائم فرمایا۔

بشریٰ لکم

اللہ تعالیٰ نے حضور کو اس تحریک کی کامیابی اور اس کے ذریعہ قرآنی انوار کے پھیلنے کی بشارت بھی دی۔ حضور نے 5اگست 1966ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’ایک دن جب میری آنکھ کھلی تو میں بہت دعاؤں میں مصروف تھا۔ اس وقت عالم بیداری میں میں نے دیکھا کہ جس طرح بجلی چمکتی ہے اور زمین کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشن کردیتی ہے اسی طرح ایک نور ظاہر ہوا اور اس نے زمین کو ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک ڈھانپ لیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس نور کا ایک حصہ جیسے جمع ہورہا ہے۔ پھر اس نے الفاظ کا جامہ پہنا اور ایک پُرشوکت آواز فضا میں گونجی جو اس نور سے ہی بنی ہوئی تھی اور وہ یہ تھی۔ ’’بشریٰ لکم‘‘ یہ ایک بڑی بشارت تھی لیکن اس کا ظاہر کرنا ضروری نہ تھا۔ ہاں دل میں ایک خلش تھی اور خواہش تھی کہ جس نور کو میں نے زمین کو ڈھانپتے ہوئے دیکھا ہے۔ جس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک زمین کو منور کردیا ہے۔ اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مجھے سمجھائے۔ چنانچہ وہ ہمارا خدا جو بڑا ہی فضل کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اس نے خود اس کی تعبیر اس طرح سمجھائی کہ گزشتہ پیر کے دن میں ظہر کی نماز پڑھا رہا تھا اور تیسری رکعت کے قیام میں تھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے اور اس وقت مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ جو نور میں نے اس دن دیکھا تھا وہ قرآن کانور ہے جو تعلیم القرآن کی سکیم اور عارضی وقف کی سکیم کے ماتحت دنیا میں پھیلایا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مہم میں برکت ڈالے گا اور انوار قرآن اسی طرح زمین پر محیط ہوجائیں گے جس طرح اس نور کو میں نے زمین پر محیط ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

(خطبات ناصر جلد اول صفحہ344)

اس نور کا پُر تو واقفین عارضی پر بھی ہوا

ایک دوست نے اپنا عرصہ وقف عارضی پورا کرنے کے بعد اپنی مفصل رپورٹ میں سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی خدمت میں اپنی مندرجہ ذیل دو خوابیں بھی لکھیں۔ ان کے مطالعہ سے وقف عارضی کی نیک تحریک کے عظیم فوائد اور روحانی برکات پر روشنی پڑتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔

-1 میں نے خواب میں دیکھا کہ جب میں وقف سے واپس گیا ہوں تومیں نے اپنے کمرے میں بہت تیز روشنی جو بجلی کی تھی دیکھی اور پھر دیکھا کہ میرے کمرے میں بہت سامان پڑا ہے۔ حالانکہ وہ سامان میں رکھ کر نہیں آیا تھا۔ اسی طرح واپسی پر اللہ تعالیٰ نے مجھے نور دکھایا۔ نہ صرف نور دکھایا بلکہ بہت سامان بھی دیا اور یہ تمام نظارہ میں نے اپنے ایک دوست کو بھی دکھایا۔

-2 میں نے دیکھا کہ ربوہ میں ایک بہت بڑا اجتماع ہے۔ بہت سے احمدی دوست ربوہ میں اکٹھے ہورہے ہیں۔ میں بھی ربوہ گیا ہوں۔ اتنی دیر میں نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ معلوم ہوا کہ حضور انور نماز پڑھائیں گے۔ میں بھی مسجد میں گیا تو وہاں دیکھا کہ حضور انور وہاں جلوہ افروز ہیں اور آپ کا چہرہ بہت منور ہے۔ آپ ایک ایک احمدی کو بلاکر اسے بتاتے ہیں کہ یہ کام یوں کرو۔ ہاتھ یہاں رکھو۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ آپ ہر ایک کا سینہ چاک کرکے تمام گند باہر نکال کر پھینکتے جاتے ہیں۔ اس طرح ہر احمدی پاک اور طیب ہوتا جاتا ہے۔

(الفضل یکم ستمبر 1966ء)

وسعت پذیر تحریک

بیرونی ممالک کے احمدیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں وقف عارضی کریں۔ مگر بعد میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اس بابرکت تحریک کو دوسرے ممالک میں وسعت دیتے ہوئے فرمایا:۔ ’’جو پاکستان کے علاوہ ممالک ہیں انگلستان ہے یا جرمنی ہے یا ناروے ہے۔ اسی طرح افریقن ممالک ہیں ہندوستان میں آجکل خدا کے فضل سے کثرت سے تبلیغ ہورہی ہے اور جوق در جوق بعض جگہ لوگ اسلام میں داخل ہورہے ہیں ان سب جگہوں میں وقف عارضی کے نظام کو دوبارہ زندہ کرنا بے حد ضروری ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ 11مئی 1990ء) حضور نے سپین اور امریکہ میں وقف عارضی کی تحریک کی اور فرمایا کہ احباب اپنی چھٹیاں وہاں گزاریں اور احمدیت کا تعارف کرائیں۔

(الفضل سالانہ نمبر 1996ء صفحہ19)

سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسی تحریک کو دہراتے ہوئے فرمایا:۔
’’یورپ کے بہت سے احمدی سیر کرنے بھی سپین جاتے ہیں یا مختلف جگہوں پرجاتے ہیں۔ اگر ادھر ادھر جانے کی بجائے سپین کی طرف رخ کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ایک دفعہ تحریک فرمائی تھی کہ سپین میں وقف عارضی کے لئے جائیں۔ سیر بھی ہوجائے گی اور اللہ کا پیغام پہنچانے کا ثواب بھی مل جائے گا۔ تو اس طرف میں احمدیوں کو دوبارہ متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے ملکوں کے امراء کے ذریعے سے جو اس طرح وقف عارضی کرکے سپین جانا چاہتے ہوں، امراء کی وساطت سے وکالت تبشیر میں اپنے نام بھجوائیں۔‘‘

(الفضل 10مئی 2005ء)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ نے مجلس مشاورت پاکستان 2004ء کے موقع پر جماعت کو بڑے زور سے اس تحریک کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا ’’میری ممبران شوریٰ سے یہ درخواست ہے کہ یہ ارادہ کرکے جائیں کہ اس سال ہم نے ربوہ کے علاوہ باہر سے پانچ ہزار واقفین عارضی مہیا کرنے ہیں جو وفود کی شکل میں مختلف جماعتوں میں جائیں۔ ان شاء اللہ وفود کی اپنی تربیت بھی ہوگی اور جماعت کی تربیت میں بھی مدد ملے گی۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے آمین۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تقویٰ پر چلائے تقویٰ پر قائم رکھے اور ہمیشہ تقویٰ کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہدوں کو پورا کرنے کی توفیق دے۔‘‘ (الفضل 5؍اپریل 2004ء) حضور اقدس نے متعدد مرتبہ جماعت کے عہدیداروں کو توجہ دلائی کہ وہ وقف عارضی میں حصہ لے کر احباب جماعت کے لئے نمونہ قائم کریں۔

وقف عارضی کی برکات

جن لوگوں نے تحریک وقف عارضی میں حصہ لیا اللہ تعالیٰ نے ان پر انفرادی اور اجتماعی طور پر مختلف رنگوں میں بے پناہ فضل نازل فرمائے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ایک موقع پر ان افضال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:۔ ’’اس تحریک میں حصہ لینے والے ان پڑھ تھے یا کم پڑھے ہوئے تھے یا بڑے عالم تھے۔ چھوٹی عمر کے تھے یا بڑی عمر کے، اللہ تعالیٰ نے ان پر قطع نظر ان کی عمر، علم اور تجربہ کے (کہ اس لحاظ سے ان میں بڑا ہی تفاوت تھا) اپنے فضل کے نزول میں کوئی فرق نہیں کیا۔ اس عرصہ میں ان سب پر اللہ تعالیٰ کا ایک جیسا فضل ہوتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اور اس کے فضل سے 99 فیصدی واقفین عارضی نے بہت ہی اچھا کام کیا۔ ان میں سے ہر ایک کا دل اس احساس سے لبریز تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں اس پر اتنے فضل نازل کئے ہیں کہ وہ اس کا شکر ادا نہیں کرسکتا اور اس کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ خدا کرے اسے آئندہ بھی اس وقف عارضی کی تحریک میں حصہ لینے کی توفیق ملتی رہے اور بعض جماعتوں نے تو یہ محسوس کیا کہ گویا انہوں نے نئے سرے سے ایک احمدی کی زندگی اور اس کی برکات حاصل کی ہیں۔ ان کی غفلتیں ان سے دور ہوگئی ہیں اور ان میں ایک نئی روح پیدا ہوگی۔ ان میں سے بہتوں نے تہجد کی نماز پڑھنی شروع کردی اور جو بچے تھے انہوں نے اپنی عمر کے مطابق بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ قرآن کریم، نماز یا نماز کا ترجمہ اور دوسرے مسائل سیکھنے شروع کئے۔ غرض واقفین عارضی کے جانے کی وجہ سے ساری جماعت میں ایک نئی زندگی ایک نئی روح پیدا ہوگئی۔جیسا کہ میں نے بتایا ہے خود واقفین عارضی نے یہ محسوس کیا کہ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑے فضل نازل کئے، بڑی برکتیں نازل کیں۔ ان میں سے بعض اپنا عرصہ پورا کرنے کے بعد واپس آکر مجھے ملے تو ہر فقرہ کے بعد ان کی زبان سے یہ نکلتا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے بڑے نمونے دیکھے ہیں۔ ان کے منہ سے اور ان کی زبان سے خود بخود اس قسم کے فقرے نکل رہے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور برکت سے کیا ہے نہ کہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں۔‘‘ (خطبات ناصر جلد اول صفحہ402) وقف عارضی کرنے والوں کے تجربات اور واقعات کی روشنی میں چند برکات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

تعلق باللہ

انسان دنیا سے نسبتاً کٹ کر 15 دن اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لئے خدمت دین میں گزارتا ہے۔ اس کا یہ عرصہ بنیادی طور پر نمازوں اور دعاؤں میں گزرتا ہے۔ اس لئے بہت سے واقفین عارضی نے محسوس کیا کہ حالت قیام میں نمازوں میں جو سستی ہوتی تھی وہ ختم ہوگئی باجماعت نماز کے ساتھ تہجد کی عادت بھی پڑ گئی۔ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی نصرتوں اور فضلوں کے نظارے دیکھنے لگے۔

خدا نے سیراب کر دیا

وقف جدید کے ایک معلم بیان کرتے ہیں:۔ ’’ہمارے علاقہ کے ایک بزرگ کا واقعہ ہے جب وہ چھ ہفتے کے وقف عارضی پرجانے لگے تو گندم کی بوائی کا موسم تھا گندم کاشت کی تو اپنے کھیت میں کھڑے ہو کر کہا اب پانی اسے خدا دے گا۔ یہ علاقہ بارانی تھا بارش کے پانی سے ہی فصل نے تیار ہونا تھا۔ دوسرا یہ کہ بارانی علاقہ والی فصل میں اگر پانی کو روکا نہ جائے تو وہ اچھی طرح سیراب نہیں ہوتی۔ کیونکہ زمین ریتلی ہوتی ہے۔ آناً فاناً پانی خشک ہوجاتا ہے یا آگے نکل جاتا ہے۔ بیوی بچوں نے کہا آپ تو جارہے ہیں آپ نے گندم کاشت کی ہے علاقہ بارانی ہے اور اس کے پانی کو کون سنبھالے گا۔ کہنے لگے میرے خلیفہ کا حکم ہے میں نے جانا ضرور ہے۔ فصل میں نے کاشت کردی ہے اب خدا اس کو سیراب کرے گا۔ چنانچہ وہ بزرگ وقف عارضی پر چلے گئے۔ روایت کرنے والے بتاتے ہیں کہ جب بھی ان کی فصل کو پانی کی ضرورت پیش آئی تو ہم نے اس فصل پر بارش برستے دیکھی جب بزرگ اپنی وقف عارضی پوری کرکے واپس لوٹے۔ اپنی فصل کی طرف گئے تو تمام دوسرے لوگوں کی فصل سے ان کی فصل اوپر لہلہارہی تھی۔‘‘

(الفضل 13 مارچ 2006ء)

سکون قلب

ایک معلم بیان کرتے ہیں کہ خاکسار نے ایک دوست کو وقف عارضی کی طرف توجہ دلائی کہنے لگے شوق تو ہے لیکن دنیوی اور گھریلو کام بہت ہیں۔ توجہ دلائی کہ اگر آپ کچھ عرصہ کے لئے اپنے کام چھوڑ کر ایک دینی کام کے لئے چلے جائیں گے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے کرکے تو دیکھیں۔

ایک دن خود ہی فارم اٹھالائے کہنے لگے میرا فارم پُر کردیں خاکسار نے دعاکرتے ہوئے فارم پرکردیا۔ ایڈیشنل نظارت اصلاح و ارشاد و تعلیم القرآن و وقف عارضی سے ان کو خط ملا۔ ہاتھ میں خط لئے خاکسار کے پاس آئے کہنے لگے معلم صاحب وقف عارضی کا وعدہ تو آپ نے مجھ سے کرالیا لیکن میں تو اتنا پڑھا لکھا نہیں۔ وقف عارضی پر جانے میں ابھی کچھ دن باقی تھے۔ خاکسار نے انہیں تیاری کرائی اور وہ خوشی کے ساتھ رخصت ہوئے۔ اپنا وقف شدہ عرصہ گزار کر واپس لوٹے۔ ایک دن ملاقات ہوئی کہنے لگے معلم صاحب میں تو بھولا ہوا تھا میں تو خیال کرتا تھا کہ مجھے ان دنوں سے کیا حاصل ہوگا۔ میں نے تو بہت کچھ پایا۔ مشکلات حل ہونے کے علاوہ مجھے زیادہ سکون قلب میسر ہوا ہے مجھے خوشی ہے کہ جب میں واپس لوٹ رہا تھا تو خدا سے میں نے دعا مانگی کہ اے اللہ میرے ان دنوں کو قبول فرماا ور ان ایام کی برکت سے مجھے تہجد کی بھی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ نے میری وہ دعا قبول کرلی اور دنیاوی لحاظ سے بھی مجھ پر بہت فضل فرمائے۔ آج بھی جب ملتے ہیں تو کہتے ہیں آپ نے مجھے بہت ہی اچھے رستہ پر لگادیا

(الفضل 13 مارچ 2006ء)

درد کافور ہوگئی

ایک واقف عارضی نے 1972ء میں سیرالیون میں وقف عارضی کی توفیق پائی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ وقف عارضی سے قبل میرے گھٹنوں میں شدید درد شروع ہوگیا تھا اور میں نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھتا تھا۔ سجدہ میں جانا پھر تشہد کے لئے بیٹھنا بہت مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ جب میرا وقف عارضی منظوری ہوا اور مجھے Leicester جانے کا ارشاد ہوگیا یکدم عجب طرح کی پریشانی اور سخت اضطراب سا محسوس ہونے لگا۔ خیال آیا کہ وقف عارضی پر جانا ہے وہاں احباب جماعت بہرحال یہ توقع رکھیں گے کہ مرکز کی طرف سے وقف عارضی پر آئے ہوئے نمازیں تو ضرور پڑھائیں گے۔ دل میں بہت گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دردمندانہ اور عاجزانہ دعا کی کہ خدایا اگر میں وقف پر جاکر دوستوں کو نماز بھی نہ پڑھا سکا تو یہ نہایت افسوسناک بات ہوگی۔ الٰہی مجھے صحت دے اور اس قابل کردے کہ میں وہاں احباب کو باقاعدہ نماز پڑھا سکوں۔ میرے بیٹے نفیس مجھے پریشان دیکھ کر کہنے لگے کہ مجبوری ہے، جاکے صدر صاحب سے کہہ دیں کہ جو بھی نماز پڑھاتے ہیں پڑھاتے رہیں مجھے تکلیف ہے۔ میں تو بیٹھ کے نماز پڑھوں گا باقی درس و تدریس اور تربیت کے کام سرانجام دیتا رہوں گا۔ مجھے تسلی نہ ہوئی اللہ تعالیٰ کے حضور یہی دعا کی کہ خدایا خارق عادت طور پر میری مدد فرما۔ مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور ہمت کرکے باوجود تکلیف کے گھر میں باقاعدہ امامت کروائی اور کھڑے ہو کر نماز پڑھائی میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ ان شاء اللہ Leicester جاکر جو بھی ہو نماز باقاعدہ کھڑا ہو کر پڑھاؤں گا۔ سو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وقف عارضی کی پہلی عظیم الشان برکت تو یہ حاصل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ مجیب الدعوات نے میری عاجزانہ دعا سنی اور مجھے ہمت دی کہ Leicester پہنچتے ہی میں نے باقاعدہ کھڑے ہو کر نماز پڑھانی شروع کردیی اور میں نے جو یہ سمجھ رکھا تھا کہ اب ساری زندگی کرسی پر بیٹھ کر ہی نمازوں کی ادائیگی ہوگی، وہ غلط تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ کرسی پر بیٹھے بغیر باقاعدہ نمازیں پڑھ اور پڑھا رہا ہوں۔

(الفضل 28اکتوبر 2005ء)

نئی روحانی زندگی

وقف عارضی کی سکیم قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا بہترین موقع ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:۔ ’’میں نے ایک بزرگ کو ایک ایسی جماعت میں بھیجا جو تعداد میں بہت بڑی ہے۔ انہوں نے وہاں جاکے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور دعائیں کرنے لگ گئے۔ انہوں نے جماعت کو قرآن کریم پڑھنے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے دیکھا کہ شروع میں جماعت پرکوئی اثر نہیں ہورہا۔ پہلے ہفتہ انہوں نے یہ رپورٹ بھیجی کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جماعت مرچکی ہے اور اس کے زندہ ہونے کی اب کوئی امید نہیں۔ دوسرے ہفتہ رپورٹ بھی اس قسم کی تھی۔ تیسرے ہفتہ کی رپورٹ میں انہوں نے لکھا کہ میں نے پہلے جو رپورٹیں بھجوائی ہیں وہ سب غلط تھیں جماعت مری نہیں بلکہ زندہ ہے لیکن خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہے۔ اگر اس کی تربیت کی جائے اور اسے جھنجھوڑا جائے تو اس کی زندگی کے آثار زیادہ نمایاں ہوجائیں گے۔ وہ زندگی جو جماعت ہائے احمدیہ نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اپنے رب سے حاصل کی ہے۔

(خطبات ناصر جلد اول صفحہ404)

ایک واقف عارضی نے اپنی رپورٹ میں لکھا۔ یہ تحریک بڑی بابرکت اور ایمان افروز اور اعلیٰ نتائج کی حامل ہے۔ اس تحریک سے جماعتوں کے اندر ایک نئی بیداری، روحانی تغیر اور بیداری کی روح پیدا ہوگئی ہے۔ یہ تحریک یقینا ایک روحانی انقلاب لائے گی۔ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقیات کا موجب ہوگی اور سرفروشان و مجاہدین کی جماعت پیدا کرے گی۔

(الفضل 10 مئی 1967ء)

خلوص کو خراج تحسین

واقفین عارضی جس محنت، خلوص اور سرفروشانہ جدوجہد سے قرآن کی تعلیم و تدریس میں مشغول رہتے ہیں وہ دیکھنے والوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ واقفین عارضی بستی طاہر خان میں پہنچے تو ان کی دیوانہ وار محنت کو دیکھ کر سیکرٹری مال نے لکھا:۔ ’’یہ بھی حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک معجزہ ہے کہ کتنی کتنی دور سے دوست اپنے کاروبار دنیوی چھوڑ کر دین کی خاطر اپنے خرچ پر شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں میں تعلیم قرآن دیتے پھرتے ہیں۔ ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین‘‘

(الفضل 23 ستمبر 1966ء)

ایک واقف عارضی نے لکھا:۔ ’’وقف عارضی پر آنے سے پہلے دعوت الی اللہ اور تربیتی نقطہ نظر سے کچھ کتب کے مطالعہ کا موقع ملا۔ ضرورت کے مطابق کتب ساتھ بھی رکھیں اور خدا کے حضور عاجزانہ دعائیں کرتے ہوئے کام شروع کیا۔ خود اپنے نفس کا محاسبہ کرنے اور اپنی اصلاح کا خوب خوب موقع ملا۔ بفضلہ تعالیٰ وقف عارضی کے دوران تہجد میں مزید باقاعدگی اور سلسلہ کی کتب کے مطالعہ میں انہماک میسر آیا۔ اس کے ساتھ وقف عارضی کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قرآن پاک کا پہلا پارہ اور بعض دوسرے حصے حفظ کرلئے اور یہ حفظ کا سلسلہ جاری ہے۔ وقف عارضی کی برکت سے مطالعہ کا غیر معمولی شوق پیدا ہوا۔ (الفضل 28اکتوبر 2005ء) ایک صاحب نے اپنا عرصہ وقف گزارنے کے بعد حضور کی خدمت میں لکھا:۔ ’’سیدی! عاجز کی شادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور تاریخ بارات کے روز جو خوشی ہوئی تھی وہ وقف عارضی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی قلبی بشاشت کے مقابلہ میں حقیر ترین ہوگئی۔ الحمدللہ زبان پر یہ شعر آرہا تھا

اس جہاں کو چھوڑنا ہے تیرے دیوانوں کا کام
نقد پالیتے ہیں وہ اور دوسرے امیدوار

خیال آتا تھا کہ وہ مبارک لوگ کس قدر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد ہیں جنہوں نے ساری زندگی دین کے لئے قربان کی ہوئی ہے۔

(الفضل 31 مارچ 1967ء)

ذاتی تجربہ

ایک وفد نے اپنی رپورٹ میں لکھا:۔ ’’حضور کی اس وقف عارضی کی تحریک سے اصلی فائدہ تو وہ لوگ محسوس کرسکتے ہیں جو واقعہ میں اس میں شامل ہوکر اپنے گھروں اور عزیزوں سے عارضی طور پر جدا ہوتے ہیں اورکچھ کام اور دعائیں کرنی شروع کرتے ہیں۔ ہم نے تو ان دنوں میں وہ کچھ محسوس کیا ہے جو گھر بیٹھے شاید سال بھر میں بھی ہم نہ پاتے۔‘‘

(الفضل یکم اپریل 1967ء)

ایک وفد نے حضور کی خدمت میں لکھا:۔وقف عارضی کے دو ہفتوں کے دوران ہم نے اپنے دل میں ایک عجیب روحانی کیفیت محسوس کی، ہماری روحیں ہردم آستانۂ الوہیت پر سجدہ ریز رہیں۔ ہم نے قبولیت دعا کے نظارے دیکھے۔ احمدیت کی تائید میں متعدد خدائی نشانوں کا ظہور ملاحظہ کیا اور برکات خلافت کے عجیب رنگ کے کرشمے دیکھے۔ یہ محض فضل الٰہی تھا وگرنہ ہم عاجز اپس وقف عارضی کے ایام میں محاسبہ نفس کا موقع ملتا ہے۔ وسعت مطالعہ اور غوروفکر کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ خود اعتمادی نشوونما پاتی ہے۔ تقریر اور خطاب کرنے کی مشق ہوتی ہے۔ نئی نئی جگہوں پر جانے سے سیر و تفریح اور نئے نئے علاقے دیکھنے کا وقت میسر آتا ہے۔ وقف عارضی کے نتیجہ میں باہمی اخوت، مودت کے جذبات کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ رشتہ ناطہ کے معاملات میں بھی فائدہ ہوتا ہے۔

خود کھانے کی تیاری۔اکثر لوگ خود کھانا تیار کرتے ہیں اور زندگی کے اس مزہ سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ایک واقف عارضی لکھتے ہیں:۔
’’کھانا خود اپنے ہاتھوں سے تیارکرنے میں جو لطف و سرور حاصل ہوتا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ آج جب دوپہر کے وقت میں نے روٹیاں پکائیں تو بظاہر کچی معلوم ہورہی تھیں لیکن جب انہیں کھایا تو بڑا ہی لطف آیا۔ یہ حضور انور کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ ہم کو مجاہدانہ زندگی گزارنے کا موقعہ عطا فرمایا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حضور کی یہ تحریک جو وقف عارضی کے نام سے موسوم ہے خالص الٰہی تحریک ہے۔ ہم جس دن سے یہاں آئے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کو برستا ہوا دیکھ رہے ہیں۔‘‘

(الفضل 2 دسمبر 1966ء)

ایک اور واقف عارضی سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی خدمت میں اپنی رپورٹ میں تحریر کرتے ہیں: خاکسار حضور کے حکم کے مطابق کھانا خود تیار کرتا ہے اور جماعت پر کسی قسم کے بارکا موجب نہیں۔ اس عمل کی برکات کا مشاہدہ اور اثر خاکسار نے جو محسوس کیا ہے اس کے بیان کے لئے بیان نہیں پاتا ہوں گویا حضور نے ہم جیسے کچوں اور کمزوروں کو پرانے صوفیاء کے نقش قدم پر چلادیا اور یقینا ہم ان برکتوں کو اپنے نفس میں محسوس کررہے ہیں جو ان بزرگوں نے حاصل کیں۔

(الفضل 3 جنوری 1967ء)

ابدی تحریک

یہ بھی مدنظر رہے کہ گو وقف عارضی کے عنوان سے باقاعدہ تحریک 1966ء میں شروع ہوئی۔ لیکن یہ تحریک اپنی روح کے ساتھ مذہبی جماعتوں میں ہمیشہ سے قائم ہے۔ آنحضرتﷺ کے صحابہ میں سے کوئی بھی تنخواہ دار نہیں تھا۔ ہر وقت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے اور اطاعت کے لئے مستعد ہوتے تھے۔

صحابہ رسولؐ کے نمونے

غزوات کا موقع ہو، کوئی تبلیغی مہم روانہ کرنی ہو، کوئی اور وفد بھیجنا ہو، دعوت اسلام کا خط لے جانا ہو، تربیتی پروگرام بنانا ہو، کسی علاقے کی حفاظت مطلوب ہوتی ہو، دشمن کی خبریں حاصل کرنا ہو۔ ہر معاملے میں جان، مال، وقت اور عزت کی قربانی کے لئے صحابہ ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ جنگ احزاب میں ایک ماہ تک پیٹ پر پتھر باندھ کر سخت سردی میں خندق کھودی گئی۔ واقعہ رجیع اور رعل وذکوان میں تبلیغی مہم میں 80 حفاظ شہید ہوئے۔ قرآن جاننے والے صحابہ نئے آنے والوں کو تعلیم دینے کے لئے کلاسیں منعقد کرتے۔ بعض صحابہ خدمت رسول میں حاضری کے لئے باری باری وقت مقرر کرلیتے۔یہ سب خدا کی نظر میں واقفین زندگی تھے جو دنیا بھی کماتے تھے۔ پاکیزہ کمائی خدا کی راہ میں خرچ کرتے اور دین کی خدمت کے لئے رسول اللہ کے درپر دھونی رما کر بیٹھے رہتے یا حکم پاکر چل پڑتے اور کام کرکے واپس آتے۔ انہی کی قربانیوں کے طفیل آسمان کے خدا نے انہیں روحانی آسمان کے ستارے قرار دیا۔ انہی کی محنت سے دین کی تعلیمات ہم تک پہنچیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر بے شمار برکتیں نازل کرے۔

صحابہ مسیح موعودؑ کی فدائیت

حضرت مسیح موعودکے رفقاء نے اس زمانہ میں یہی نمونے زندہ کئے۔ جماعت کاکوئی تنخواہ دار کارکن نہیں تھا۔ حضرت خلیفة المسیح الاول، حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور ان کی اتباع میں بیسیوں رفقاء اپنے کام کاج، گھربار، کاروبار، ملازمتیں چھوڑ کر قادیان آبسے اور خدمت کے مواقع تلاش کرتے تھے اور مالی قربانی کے علاوہ وقت کی قربانی کے جہاد میں اعلیٰ نمونے پیش کرتے تھے۔

• حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ نے قرآن کریم کے درس فتاویٰ اور جسمانی شفا کا سلسلہ جاری کیا۔
• حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی کے سپرد نمازوں کی امامت، خطبات دینے اور حضور کے لیکچر پڑھنے کی ذمہ داری کی گئی۔ ساتھ ساتھ حضور کی سیرت اور ڈائری لکھنے کا کام بھی سرانجام دیتے رہے۔
• حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے لنگرخانہ اور عمارات کی تعمیر کی نگرانی سنبھالی۔
• حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی نے اخبار الحکم نکال کر حضرت مسیح موعود کی تازہ وحی اور ارشادات سے لوگوں کو مطلع کرنا شروع کیا۔
• حضرت پیر منظور محمد صاحب نے بچوں کو قرآن سکھانے کے لئے قاعدہ یسرناالقرآن ایجاد کیا۔
• حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓنے حضور کی ڈاک کا انتظام سنبھال لیا۔
• کئی خوش نصیبوں نے حضور کی کتب کی کتابت، پروف ریڈنگ اور اشاعت میں خدمات سرانجام دیں۔ حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی قادیان آکر بیٹھ گئے۔ لمبا عرصہ حضور کی ڈاک کا اہتمام کرتے رہے اور کتب کے پروف دیکھتے رہے۔
• حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحبؓ اور حضرت منشی ظفراحمد صاحب دو دن کے لئے قادیان آئے مگر حضور کے ارشاد پر 6,6 ماہ ٹھہرے اور خدمات بجالاتے رہے۔ اس عرصہ میں ان کو ملازمت سے معطلی کے پیغام بھی آئے مگر واپسی پر اللہ تعالیٰ نے ان کی بحالی کے سامان بھی کئے اور اس عرصہ میں ان کی ملازمت کی تنخواہیں بھی ادا کی گئیں۔
• کسی نے حضور کی ذاتی خدمات اور گھریلو کام کاج کا ذمہ لے لیا۔
• کسی نے مختلف قسم کی علمی تحقیقات میں مدد دینی شروع کردی۔
• کسی نے گھوڑا پال لیا کہ حضور کا کوئی کام قادیان سے باہر ہو تو فوری طور پر پیش ہوجاؤں۔
• بعض احباب نے قانونی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
• بعض احباب رسائل کی ادارت کے ذریعہ پیغام حق پہنچانے لگے۔
• حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحبؓ نے اردو میں، حضرت مولوی عبیداللہ صاحبؓ  بسمل نے فارسی میں، حضرت مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹیؓ اور حضرت بابا ہدایت اللہ صاحب ؓنے پنجابی شاعری کے ذریعہ حضرت مسیح موعودؑ کے پیغام کو عام کرنا شروع کیا۔
• کئی احباب نے مدرسہ تعلیم الاسلام میں بچوں کو تعلیم دینی شروع کردی۔

الہامی بشارت

یہی وہ پاک روحیں تھیں جنہوں نے احمدیت کے ابتدائی خدوخال سنوارے ہیں۔ ان کو اور ان کی اولادوں کو خدا نے نہایت عمدہ پھل لگائے اور ہر قسم کی برکات سے متمتع کیا۔ آج بھی بے شمار احمدی اپنی اپنی جگہ پر خدمات کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ مگر ان کا ایک دائرہ وقف عارضی سے تعلق رکھتا ہے جس کی طرف خدا کا خلیفہ ہمیں بلا رہا ہے اور بشارتیں بھی دے رہاہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ جماعت کو عموماً اور اہل ربوہ کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ کرتے اور الہامی بشارت دیتے ہوئے 23 ستمبر 1966ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:۔
’’کل رات میں سوچ رہا تھا کہ مجھے جتنے واقفین چاہئیں۔ اس تعداد میں واقفین مجھے نہیں ملے۔ مثلاً ربوہ کی ہی جماعت ہے۔ آج جو دوست میرے سامنے بیٹھے ہیں ان میں کثرت ربوہ والوں کی ہے لیکن ان میں سے بہت کم ہیں جنہوں نے وقف عارضی میں حصہ لیا اور یہ بات قابل فکر ہے کہ کیوں آپ کی توجہ ان فضلوں کے جذب کرنے کی طرف نہیں ہے جو اس وقت اللہ تعالیٰ واقفین عارضی پر کر رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں رات سوچ رہا تھا کہ مجھے جتنے واقفین عارضی چاہئیں اتنے نہیں ملے حالانکہ اس کی بہت ضرورت ہے۔ تو جب میں سویا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک کاغذ آیا ہے اور اس کاغذ پر دو فقرے خاص طور پر ایسے تھے کہ خواب میں میری توجہ ان کی طرف مبذول ہوئی۔‘‘ پھر حضور نے ان فقرات کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’اس کے ایک معنی رفعت اور علو حاصل کرنے والے کے ہیں اور ان معنوں کے لحاظ سے اس میں یہ بشارت ہے کہ جماعت میں سے جو لوگ قرآنی علوم سیکھنے کے لحاظ سے ضعیف کہلانے والے ہیں اب اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایسے سامان پیدا کردے گا کہ وہ بھی علو مرتبت اور قرآن کریم کی ان رفعتوں تک پہنچنے والے ہوں گے۔ جن رفعتوں تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل کیا ہے۔ سو الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ بشارت دے رہا ہے لیکن ہر وہ بشارت جو آسمان سے نازل ہوتی ہے زمین والوں پر ایک ذمہ داری عائد کرتی ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنا ان کا فرض ہوتا ہے۔‘‘

(خطبات ناصر جلد اول صفحہ403)

مختلف شعبوں کے حوالہ سے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے چند ارشادات درج ذیل ہیں۔

کالج کے پروفیسر، سکول کے اساتذہ
اور وقف عارضی

’’کالجوں کے پروفیسر اور لیکچرار، سکولوں کے اساتذہ، کالجوں کے سمجھدار طلباء بھی اپنی رخصتوں کے ایام اس منصوبہ کے ماتحت کام کرنے کے لئے پیش کریں۔ سکولوں کے بعض طلباء بھی اس قسم کے بعض کام کر سکتے ہیں۔ کیونکہ سکولوں کے بعض طلباء ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی صحت اور عمر کے لحاظ سے اس قابل ہوتے ہیں کہ اس قسم کی ذمہ داریاں ادا کر سکیں۔ ان کو بھی اپنے نام اس تحریک کے سلسلہ میں پیش کر دینے چاہئیں۔ بشرطیکہ وہ اپنا خرچ برداشت کر سکتے ہوں۔‘‘

(الفضل 23مارچ 1966ء)

وقف عارضی کا مقصد

’’وقف عارضی کی جو تحریک ہے اس کا بڑا مقصد بھی یہ تھا اور ہے کہ دوست رضاکارانہ طور پر اپنے خرچ پر مختلف جماعتوں میں جائیں اور وہاں قرآن مجید سیکھنے سکھانے کی کلاسز کو منظم کریں اور منظم طریق پروہاں کی جماعت کی اس رنگ میں تربیت ہو جائے کہ وہ قرآن کریم کا جؤا بشاشت سے اپنی گردن پر رکھیں اور دنیا کے لئے نمونہ بن جائیں۔‘‘

(الفضل 14مئی 1969ء)

وقف عارضی، نظام وصیت

’’عارضی وقف کی تحریک جو قرآن کریم سیکھنے سکھانے کے متعلق جاری کی گئی ہے اس کا تعلق نظام وصیت کے ساتھ بڑا گہرا ہے۔‘‘

(الفضل 10اگست 1966ء)

وقف عارضی اصلاح نفس کا ذریعہ ہے

’’تحریک وقف عارضی کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ وقف عارضی پرجاتے ہیں ان کو اپنے نفس کا بعض پہلوئوں سے محاسبہ کرنا پڑتا ہے۔ جانے سے قبل انہیں اپنی بعض کمزوریوں کی طرف توجہ ہو جاتی ہے اور دعائوں کی طرف ان کی توجہ مائل ہو جاتی ہے۔ یعنی وقف عارضی پر جانے کی جو تیاری ہے اس کا بڑا حصہ یہ ہے کہ وہ دعائوں کی طرف متوجہ ہو تے اور اپنی دینی معلومات میں اضافہ کرتے یا انہیں تازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ کتب اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں اور اپنی عقلوں اور کمزوریوں پر نگاہ رکھتے ہیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ دوسری جگہ جائیں تو لوگوں کے لئے نیک نمونہ بنیں، ان کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں۔ چنانچہ وقف عارضی کے وفود نے دعائوں کی برکات سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔‘‘

(الفضل 12 فروری 1977ء)

امراء اضلاع اور وقف عارضی

’’امراء اضلاع کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہئے۔… امراء اضلاع جماعت کے مستعد اور مخلص احباب کو اپنی ذمہ داری کی طرف متوجہ کریں تا زیادہ سے زیادہ احمدی اس مقصد (وقف عارضی) کے پیش نظر اور خدمت …کے لئے اپنے وقت کا ایک تھوڑا اور حقیر سا حصہ پیش کریں۔‘‘

(الفضل 13 اپریل 1966ء)

حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان ؓ
کی مثالی کارکردگی

جن احباب نے وقف عارضی میں حصہ لیا ان میں حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب بھی شامل تھے۔ آپ نے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی خدمت میں 1968ء میں جب وقف عارضی کی درخواست پیش کی تو حضور نے فرمایا کہ آپ اس سال کا عرصہ وقف کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں گزاریں اور آئندہ سال آئرلینڈ میں۔ حضور انور کے اس حکم کی تعمیل میں حضرت چوہدری صاحب 16 سے 27 جولائی 1968ء تک کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں قیام فرما رہے اور مراجعت پر مرکز میں حسب ذیل مفصل رپورٹ ارسال فرمائی جو مثالی بھی ہے اور متعدد ایمان افروز امور پر مشتمل اور یورپین ممالک کے واقفین کے لئے مشعل راہ ہے۔ چنانچہ حضرت چوہدری صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
’’خاکسار جماعت ہائے برطانیہ کے پانچویں سالانہ جلسے منعقدہ 13، 14 جولائی 1968ء میں شرکت کے لئے 13 جولائی کی صبح کو لندن پہنچا۔ 16 کی شام کو لندن سے روانہ ہوکر 17 کی شام کو کوپن ہیگن پہنچا۔ سٹیشن پر جناب سید کمال یوسف صاحب امام اور چند دیگر احباب سے ملاقات ہوئی۔ خاکسار کے قیام کا انتظام مسجد میں تھا۔ کھانے وغیرہ کے اخراجات خاکسار کے ذمہ تھے۔ 18 کی سہ پہر 2 بجے خاکسار کی تقریر ایلسی نور (Elsinor) کے بین الاقوامی کالج میں اسلام اور حقوق انسانی کے موضوع پر ہوئی۔ یہ مقام کوپن ہیگن سے قریب چالیس میل شمال کی جانب ہے۔ تقریر کے بعد سوال جواب ہوئے اور بعد میں بھی یہ سلسلہ پرنسپل صاحب کے مکان پر جاری رہا۔ قریب پونے چھ بجے کوپن ہیگن واپسی ہوئی۔

19جولائی قبل دوپہر مشنری سوسائٹی کے سات افراد (پانچ مرد اور دو خواتین) ملاقات کے لئے آئے۔ سلسلہ کے متعلق سوال جواب ہوتے رہے۔ جناب امام صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں جمعہ کی نماز کا خطبہ خاکسار نے دیا۔ مشنری سوسائٹی کے وفد کی دونوں خواتین بھی مسجد میں موجود تھیں۔ 19 سے شروع کر کے 24 تک اور پھر 26 کو ہر شام سات بجے سے پونے نو بجے تک سوال و جواب کی مجلس قائم ہوتی رہی جس میں شمولیت عام تھی۔ 19 کی صبح کو جناب نور احمد بولستاد صاحب ناروے سے تشریف لائے اور 22 کی سہ پہر کو واپس تشریف لے گئے۔ 20 کی دوپہر کو جناب محمود ایرکسن صاحب سٹاک ہالم (سویڈن) سے تشریف لائے اور چند گھنٹے قیام کیا۔ 21 کو ایک خصوصی اجلاس جماعت کے احباب کا ہوا جس میں خاکسار نے عبادات کی کماحقہ ادائیگی کی طرف توجہ دلائی۔

23 کو بعد دوپہر ایک عیسائی مشنری جریدے کے نمائندے نے جو ہندوستان میں بھی رہ چکے ہیں خاکسار سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ان کی رپورٹ ان کے جریدے میں شائع ہوچکی ہے۔ 25 کی دوپہر کو ڈاکٹر لننگ (Dr. Lanning) نے خاکسار کی کھانے کی دعوت کی۔ یہ معروف ڈینش سیاستدان ہیں اور ہر سال اقوام متحدہ کی اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں ڈینش وفد کے رکن کے طور پر شمولیت کرتے رہے ہیں۔ خاکسار کے ساتھ عرصے سے ان کے دوستانہ تعلقات ہیں۔ اسی شام مسٹر سوین ہینسن (Sven Hansson) نے جناب امام صاحب کی اور خاکسار کی کھانے کی دعوت کی۔ یہ ڈینش قوم کے ماہر کیمیائی انجینئر ہیں۔ 39 سال عمر ہے بارہ سال سے مسلمان ہیں۔ ان کی بیوی ملایا (Malaya) کی مسلمان ہیں اور غالباً وہی ان کے اسلام قبول کرنے کا باعث ہوئیں۔ میاں بیوی محض رسمی مسلمان نہیں مخلص اور پابند صوم و صلوٰة ہیں۔ خاکسار نے کم کسی مغربی مسلمان کو اسلام کی اقدار میں اس قدر رچا ہوا دیکھا ہے جیسے مسٹر ہینسن رچے ہوئے ہیں۔ ہماری شام کی مجلس میں شامل ہوتے۔ قرآن کریم کا ڈینش ترجمہ ساتھ لاتے اور جہاں کسی آیت کا ذکر آتا ترجمہ نوٹ کرتے۔ مجلس کے بعد نماز مغرب میں شامل ہوتے اور ایسے انکسار اور اخلاص سے نماز پوری کرتے اور ایسے اطمینان اور وقار سے اور اس قدر سنوار کر پڑھتے کہ رشک ہوتا۔ان کے چار بچے (تین فرزند اور ایک بیٹی) ہیں۔ گھر کا ماحول اسلامی ہے۔ بیوی بالکل سادہ طبیعت کی ہے اور خواتین کے ساتھ نماز میں شامل ہوتیں۔ کھانے کے بعد مسٹر ہینسن نے سلسلے کے متعلق گفتگو شروع کی۔ حضرت مسیح موعود کے دعویٰ اور صداقت اور مرتبے کے قائل اور مؤید ہیں۔ بیعت میں ابھی تأمل ہے۔ آخر میں فرمایا میری بیوی اگر مجھے بیعت کے لئے کہے تو میں کل صبح ہی بیعت کرلوں۔ خاکسار نے کہا آپ کی بیوی کے آپ پر بہت احسانات ہیں۔ ان کا بہترین بدلہ یہ ہے کہ آپ خود بھی بیعت کریں اور انہیں بھی بیعت کی تحریک کریں۔

26 جولائی کو بھی جناب امام صاحب کی ہدایت کے مطابق خطبہ جمعہ خاکسار نے دیا۔ شام کی مجلس میں خاصی حاضری تھی۔ تین چار عرب احباب بھی موجود تھے۔ مسٹر ہینسن بھی آئے تھے۔ مغرب کی نماز کے بعد مسٹر ہینسن سے رخصت ہونے پر انہوں نے فرمایا میں کل صبح فجر کی نماز میں بھی شامل ہوں گا چنانچہ وقت سے پہلے ہی کوئی سوا تین بجے سائیکل پر 9-8 میل کا فاصلہ طے کر کے پہنچ گئے۔ موٹریں تو ان کے پاس ایک چھوڑ دو ہیں لیکن امام صاحب سے کہا یہ وقت ایسا سہانا ہے کہ میں نے لطف اندوز ہونے کے لئے سائیکل سے آنا جانا پسند کیا۔ اب کی بار خاکسار سے رخصت ہوکر گئے لیکن 9 بجے پھر ہمارے رخصت ہونے کے وقت الوداع کہنے کے لئے تشریف لے آئے۔ خاکسار نے تحریک کی کہ سردیوں کے موسم میں ربوہ بھی جائیں۔ کہنے لگے ضرور کوشش کروں گا۔

27 کی صبح کو خاکسار کو ایک مقام ہسلیو (Haslev) پر ایک عیسائی مذہبی کانفرنس میں مغرب میں اخلاقی اقدار کے انحطاط، اس کے بواعث اور اس کے علاج پر تقریر کے لئے حاضر ہونا تھا۔ اس کانفرنس میں پانچ صد نمائندگان شامل تھے۔ یہ مقام کوپن ہیگن سے 40 میل جانب جنوب واقع ہے۔ آٹھ دیگر احباب ڈینش اور پاکستانی بشمول جنان عبدالسلام میڈسن صاحب کے دو کاروں میں ہمارے ہمراہ گئے۔ گھنٹہ بھر کانفرنس کے صدر، نائب صدر اور سیکرٹری کے ساتھ گفتگو رہی۔ سوا گیارہ بجے کانفرنس کا اجلاس شروع ہوا۔ خاکسار نے حسب توفیق مجوزہ موضوع پر گزارش کی۔ خاکسار کی تقریر قریب ایک گھنٹہ جاری رہی اور بحمدللہ توجہ سے سنی گئی۔دوپہر کا کھانا ہم سب نے وہیں کھایا۔ کھانے کے بعد ظہر اور عصر جمع کیں۔ جناب امام صاحب اور خاکسار تو وہیں سے جنوبی جانب ہمبرگ کے سفر کے لئے روانہ ہوئے اور ہمارے احباب کوپن ہیگن کو واپس ہوئے۔ امام صاحب اور خاکسار 8 بجے شام ہمبرگ پہنچے۔ جناب چوہدری عبداللطیف صاحب اور احباب سے سٹیشن پر ملاقات ہوئی۔ ان کے ہمراہ بیت حاضر ہوئے اور یہیں قیام ہوا۔ آج سہ پہر استقبالیہ دعوت ہے۔ کل صبح ان شاء اللہ خاکسار یہاں سے 8 بجے ریل پر روانہ ہوکر ڈیڑھ بجے بعد دوپہر ہیگ پہنچ جائے گا۔

کوپن ہیگن کا قیام خاکسار کے لئے بفضل اللہ بہت سبق آموز رہا۔ مسجد اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوب آباد ہے۔ پانچوں وقت نماز باجماعت کا التزام ہے اگرچہ ان ایام میں فجر کی نماز کے ابتداء کا وقت سوا تین بجے سے لے کر آہستہ آہستہ ساڑھے تین بجے تک رہا لیکن نماز بہت باقاعدگی کے ساتھ باجماعت ادا ہوتی رہی اور یہی معمول تمام وقت جاری ہے۔مسجد میں دو چار مہمان ہر وقت ٹھہرے ہوتے ہیں۔ جناب امام صاحب اپنے مقررہ کمرے میں کم ہی سو سکتے ہیں۔ جس کمرے میں جگہ مل گئی رات بسر کرلیتے ہیں۔ ان کی آخری پناہ گاہ دفتر کا کمرہ ہوتی ہے۔ وہیں لکڑی کے فرش پر بستر بچھ جاتا ہے۔ کھانے میں سب سے آخر میں شامل ہوتے ہیں اور سب سے اول فارغ ہوجاتے ہیں۔ نہایت معمور الاوقات ہیں لیکن چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ اور بشاشت رہتی ہے۔ یہ احباب کی تواضع بلکہ ناز برداری سے نہیں تھکتے اور احباب کے دلوں میں ان کی گہری محبت اور مخلصانہ عظمت رچی ہوئی ہے۔

(الفضل 10؍اگست 1968ء صفحہ3-4)

الغرض یہ ایک عظیم الشان تحریک ہے جو اپنے اثرات سے پہچانی جا سکتی ہے۔ اس کی ضرورت بھی ہے اور خدا کے خلیفہ کی ہدایت بھی ہے اس لئے حتی الامکان اس میں حصہ لے کر برکتیں حاصل کرنی چاہئیں۔

(مولانا عبدالسمیع خان۔استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

احمدی طالبہ کا اعزاز

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2022