اپنا غمخوار مجھ کو جان اے دوست
میرا کہنا کبھی تو مان اے دوست
درد دل سے کہوں گا جو میں کہوں
لغو اس کو کبھی نہ جان اے دوست
ورلی دنیا سے مت لگا تو دل
چند روزہ ہے یہ جہان اے دوست
رکھ تو یادِ خدا کہ پیری میں
تجھ کو رکھے گی یہ جوان اے دوست
گر خدا کی طرف جھکے گا تو
وہ بھی خود ہو گا مہربان اے دوست
اس سے نکلیں گے بے بہا موتی
ایسی اسلام کی ہے کان اے دوست
زہرِ قاتل ہے ایک بدظنی
ہو کبھی بھی نہ بدگمان اے دوست
گالیاں سن کے ایسا ہو خاموش
گویا منہ میں نہیں زبان اے دوست
دین سے تو ہوا ہے غافل کیوں
اس پہ لگتا نہیں لگان اے دوست
کر لے جو کچھ کہ ہو سکے تجھ سے
تیرے سر پہ ہے امتحان اے دوست
دین سے جو تجھے کرے غافل
کہنا اس کا کبھی نہ مان اے دوست
لوٹ لے دین کا خزانہ تو
کیونکہ غافل ہے سب جہان اے دوست
تجھ کو رکھنا ہے گر نشان اپنا
خود مٹا اپنا تو نشان اے دوست
غم اٹھانے پڑیں گے گر رہنا
چاہتا ہے تو شادمان اے دوست
اپنے دل میں جگہ خدا کو دے
تاکہ جنت میں ہو مکان اے دوست
چاہتا ہے اگر کہ شان بڑھے
چھوڑ دے اپنی آن بان اے دوست
کھانے پینے میں رہ نہ تو کہ نجات
تجھ کو دیں گے نہ قُوْت و نان اے دوست
تجھ پہ اللہ اپنا رحم کرے
اور ہو تجھ پہ مہربان اے دوست
دل میں کر گیا ہے گھر احمدؑ
کیا ہے سادہ تیرا بیان اے دوست
میں یہ کرتا دعا ہوں بالآخر
تیرا جنت میں ہو مکان اے دوست
(الحکم 7 مئی 1918ء)