• 18 مئی, 2024

سچے مسلمان جو ہیں، پکے مسلمان جو ہیں وہ کبھی ایسی حرکتیں نہیں کرتے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھران آیات میں جو اگلا حکم ہے اُس میں فرمایا کہ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُم خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ (بنی اسرائیل: 32) رزق کی تنگی کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ اس کے بھی کئی معنی ہیں۔ یہاں قرآنِ کریم کے احکام کی ایک اور خوبصورتی بھی واضح ہوتی ہے کہ پہلے اولاد کو کہا کہ تم نے والدین کی خدمت کرنی ہے، اُن سے احسان کا سلوک کرنا ہے، اُن کی کسی بات پر بھی اُف نہیں کرنا۔ انسان کو اعتراض تو اُسی صورت میں ہوتا ہے جب کوئی بات بری لگے۔ تو فرمایا کہ کوئی بات والدین کی بری بھی لگے تب بھی تم نے جواب نہیں دینا بلکہ اس کے مقابلے پر بھی تمہاری طرف سے رحم اور اطاعت کا اظہار ہونا چاہئے۔ اب والدین کو حکم ہے کہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرو۔ کوئی امر اس تربیت میں مانع نہ ہو۔ غربت بھی اس میں حائل نہ ہو۔ پس یہ والدین پر فرض کیا گیا ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا ایسا خیال رکھو کہ وہ روحانی اور خلاقی لحاظ سے مردہ نہ ہو جائیں۔ اُن کی صحت کی طرف توجہ نہ دے کر اُنہیں قتل نہ کرو۔ بعض ناجائز بچتیں کر کے اُن کی صحت بربادنہ کرو۔ پس ماں باپ کو جب ربوبیت کا مقام دیا گیا ہے تو بچوں کی ضروریات کا خیال رکھنا اُن پر فرض کیا گیا ہے۔ بچوں کو معاشرے کا بہترین حصہ بنانا ماں باپ پر فرض کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر یہ نہ کیا جائے تو یہ اولاد کے قتل کے مترادف ہے۔ کوئی عقل رکھنے والا انسان ظاہری طور پر تو اپنی اولاد کو قتل نہیں کرتا۔ سوائے چند سر پھروں کے یا وہ جو خدا تعالیٰ کو بھول گئے ہیں، جن کی صرف اپنی نفسانی خواہشات ہوتی ہیں، جن کی مثالیں یہاں ملتی رہتی ہیں، جن کا ذکر وقتاً فوقتاً اخبارات میں آتا رہتا ہے کہ اپنے دوست کے ساتھ مل کر اپنے بچوں کو قتل کر دیا یا پھر ایسے واقعات غریب ممالک میں بھی ہوتے ہیں کہ ماں یا باپ نے بعض حالات سے تنگ آ کر بچوں سمیت اپنے آپ کو جلا لیا تو وہ ایک انتہائی مایوسی کی کیفیت ہے اور جنونی حالت ہے لیکن عام طور پر اس طرح نہیں ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا اس آیت کے مختلف معنے ہیں، قتل کے مختلف معنے ہیں۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اپنی اولاد کی اگر صحیح تربیت نہیں کر رہے، اُن کی تعلیم پر توجہ نہیں ہے تویہ بھی اُن کا قتل کرنا ہے۔ بعض لوگ اپنے کاروبار کی مصروفیت کی وجہ سے اپنے بچوں پر توجہ نہیں دیتے، اُنہیں بھول جاتے ہیں جس کی وجہ سے بچے بگڑ رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ شکایات اب جماعت میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مائیں شکایت کرتی ہیں کہ باپ باہر رہنے کی وجہ سے، کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے، گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے بچوں پر توجہ نہیں دیتے اور بچے بگڑتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر جب بچے teenage میں آتے ہیں، جوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں تو اُنہیں باپ کی توجہ اور دوستی کی ضرورت ہے۔ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ اس طرف توجہ دلا چکا ہوں، ورنہ باہر کے ماحول میں وہ غلط قسم کی باتیں سیکھ کر آتے ہیں اور یہ بچوں کا اخلاقی قتل ہے۔ باپ بیشک سو تاویلیں پیش کرے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں بچوں کے لئے ہی کر رہے ہیں لیکن اُس کمائی کا کیا فائدہ، اُس دولت کا کیا فائدہ جو بچوں کی تربیت خراب کر رہی ہے۔ اور پھر اگر یہ دولت چھوڑ بھی جائیں تو پھر کیا پتہ یہ بچے اُسے سنبھال بھی سکیں گے یا نہیں۔ دولت بھی ختم ہو جائے گی اور بچے بھی۔ پھر اس کی ایک صورت یہ بھی ہے اور یہ مغربی ممالک میں بھی پھیل رہی ہے، ہماری جماعت میں بھی کہ مائیں بھی کاموں پر چلی جاتی ہیں یا گھروں پر پوری توجہ نہیں دیتیں۔ کسی نہ کسی بہانے سے ادھر اُدھر پھر رہی ہوتی ہیں۔ عموماً کام ہی ہو رہے ہوتے ہیں کہ نوکریاں کر رہی ہوتی ہیں۔ بچے سکولوں سے گھر آتے ہیں تو اُنہیں سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ماؤں کا بہانہ یہ ہوتا ہے کہ گھر کے اخراجات کے لئے کمائی کرتی ہیں لیکن بہت ساری تعداد میں ایسی بھی ہیں جو اپنے اخراجات کے لئے یہ کمائی کر رہی ہوتی ہیں۔ اور جب تھکی ہوئی کام سے آتی ہیں تو بچوں پر توجہ نہیں دیتیں۔ یوں بچے بعض دفعہ عدمِ توجہ کی وجہ سے، احساسِ کمتری کی وجہ سے ختم ہو رہے ہوتے ہیں۔ بیشک ایسی بیویاں اور مائیں بھی ہیں جن کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی ہیں جن کے خاوندنکمّے ہیں اور خاوندوں کے نکمّے پن کی وجہ سے مجبور ہوتی ہیں کہ کام کریں۔ پس ایسے خاوندوں کو اور ایسے باپوں کو بھی خوفِ خدا کرنا چاہئے کہ وہ اپنے نکمے پن کی وجہ سے اپنی اولاد کے قتل کا موجب نہ بنیں۔ پھر خاوند اگر اپنی بیویوں کا مناسب خیال نہیں رکھ رہے تو یہ بھی ایک قتل ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ایک بڑی اچھی مثال دی ہے۔ فرمایا کہ حمل کے دوران اگر عورت کی خوراک کا خیال نہیں رکھا جا رہا اور اولاد بھی کمزور ہو رہی ہے تو یہ بھی اولاد کا قتل ہے۔ پھر اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ غربت کے خوف سے فیملی پلاننگ کرنا، یا بچوں کی پیدائش کو روکنا۔ بچوں کی پیدائش کو صرف ماں کی صحت کی وجہ سے روکنا جائز ہے۔ یا بعض دفعہ ڈاکٹر بچے کی حالت کی وجہ سے یہ مشورہ دیتے ہیں اور مجبور کرتے ہیں اور بچہ ضائع کرنے کو کہتے ہیں کیونکہ ماں کی صحت داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اس لئے بچے کو ضائع کرانا اُس صورت میں جائز ہے لیکن غربت کی وجہ سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَاِیَّاکُمْ (بنی اسرائیل: 32) ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور اُن کو بھی۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْراً (بنی اسرائیل: 32) کہ یہ قتل بہت بڑا جرم ہے۔

پس سچے مسلمان جو ہیں، پکے مسلمان جو ہیں وہ کبھی ایسی حرکتیں نہیں کرتے۔ کبیرہ گناہ کی بات نہیں بلکہ وہ چھوٹے گناہوں سے بھی بچتے ہیں۔ پس ہمیں اس طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دیں۔ اُن کو وقت دیں۔ اُن کی پڑھائی کی طرف توجہ دیں۔ اُن کو جماعت کے ساتھ جوڑنے کی طرف توجہ دیں۔ اپنے گھروں میں ایسے ماحول پیدا کریں کہ بچوں کی نیک تربیت ہو رہی ہو۔ بچے معاشرے کا ایک اچھا حصہ بن کر ملک و قوم کی ترقی میں حصہ لینے والے بن سکیں۔ اُن کی بہترین پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری بہر حال والدین پر ہے۔ پس والدین کو اپنی ترجیحات کے بجائے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ باپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچوں کی تربیت کا کام صرف عورتوں کا ہے اور نہ مائیں صرف باپوں پر یہ ذمہ داری ڈال سکتی ہیں۔ یہ دونوں کا کام ہے اور بچے اُن لوگوں کے ہی صحیح پرورش پاتے ہیں جن کی پرورش میں ماں اور باپ دونوں کا حصہ ہو، دونوں اہم کردار ادا کر رہے ہوں۔ یہاں ان ملکوں میں دیکھ لیں، طلاقوں کی وجہ سے سنگل پیرنٹس (Single Parents) بچے کافی تعداد میں ہوتے ہیں اور وہ برباد ہو رہے ہوتے ہیں۔ جن سکولوں میں یہ پڑھ رہے ہوتے ہیں اُن سکولوں کی انتظامیہ بھی تنگ آئی ہوتی ہے۔ اُن سکولوں کے ارد گرد کے ماحول میں پولیس بھی تنگ آئی ہوتی ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں میں اس قسم کے بچے ہی شامل ہوتے ہیں جو شروع سے ہی خراب ہو رہے ہوتے ہیں، جن کو ماں باپ کی صحیح توجہ نہیں مل رہی ہوتی۔ یہاں مَیں یہ قابلِ فکر بات بھی اس ضمن میں کہنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں بھی طلاقوں کا رجحان بہت زیادہ بڑھ رہا ہے۔ اس لئے بچے بھی برباد ہو رہے ہیں۔ بعض دفعہ شروع میں طلاقیں ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ بچوں کی پیدائش کے کئی سال بعد، تو ماں اور باپ دونوں کو اپنی اَناؤں اور ترجیحات کے بجائے بچوں کی خاطر قربانی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآنی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ تین (احکامات) بیان ہوئے ہیں، باقی ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بیان کروں گا۔

(خطبہ جمعہ 26؍جولائی 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍جون 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جون 2022