• 5 مئی, 2024

حجاب کے بارے میں ایک عدالتی فیصلے پر تبصرہ

اس وقت انسانیت بہت سے مسائل سے دوچار ہے لیکن دنیا میں کووڈ سے اموات کا بازار گرم ہو، یا مہنگائی سے دنیا بھر کے لوگوں کا جینا دوبھر ہو رہا ہو، یا روس اور یوکرین کی جنگ سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو، یا دنیا کے سر پر خوراک کی کمی کے بادل منڈلا رہے ہوں، دنیا بھر میں دانشوروں کا ایک طبقہ ہے جو اس فکر میں دبلا ہو رہا ہے کہ کسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی لگا دی جائے۔یہ طبقہ اس وہم میں مبتلا ہے کہ اگر کچھ خواتین نے حجاب پہن لیا تو انسانیت کا دم گھٹ جائے گا اور ان کی تہذیب کا ستیاناس ہوجائے گا۔ویسے تو یہ طبقہ شخصی آزادی کا سب سے بڑا علمبردار ہے لیکن جب یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا ایک خاتون اپنی مرضی سے حجاب لے سکتی ہے تو شخصی آزادی کو ایک طرف کر کے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔

حجاب پر پابندیوں کا سلسلہ

حجاب پر پابندی لگانے کے سلسلہ کا آغاز یورپ سے ہوا تھا۔ ستمبر 2003ء میں جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے ایک افغان خاتون استاد کا یہ حق تسلیم کیا کہ وہ اسکول میں حجاب لے سکتی ہےلیکن اس کے ساتھ اپنے فیصلہ میں یہ اظہار کیا کہ جرمنی کی مختلف ریاستیں اگر چاہیں تو اس بارے میں قوانین تبدیل کر سکتی ہیں۔اس کے بعد جرمنی کے بہت سے علاقوں میں اس بات پر پابندی لگائی گئی کہ ان کے علاقوں میں خواتین اساتذہ حجاب لے سکیں۔ فروری 2004ء میں فرانس کی نیشنل اسمبلی نے اس بات پر بحث کا آغاز کیا کہ اس بات پر پابندی لگائی جائے کہ اسکولوں میں مذہبی علامات مثال کے طور پر صلیب، یہودی احباب کی مخصوص ٹوپی اور حجاب لینے پر پابندی ہو۔ اور اپریل 2011ء میں فرانس میں پبلک میں نقاب لینے پر پابندی لگائی گئی۔ 2009ء میں کوسووو میں یونیورسٹیوں اور حکومتی عمارات میں حجاب لینے پر پابندی لگائی گئی۔ جولائی 2011ء میں بیلجیم میں نقاب لینے پر پابندی عائد کی گئی۔ 2012ء میں روس کے ایک علاقے Stavropol میں اسکولوں میں حجاب پر پابندی لگائی گئی اور اگلے سال روس کی سپریم کورٹ نے یہ پابندی برقرار رکھی۔ جولائی 2014ء میں یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت نے فرانس میں برقعہ پہننے پر پابندی برقرار رکھی۔ مئی 2015ء میں ہالینڈ کی کابینہ نے پبلک ٹرانسپورٹ میں اور بعض پبلک مقامات پر چہرہ کو ڈھانکنے والے حجاب پر پابندی لگائی لیکن راستوں کو اس پابندی سے مستثنی ٰ رکھا۔ 2016ء میں بلغاریہ کی پارلیمنٹ نے چہرا ڈھانپنے پر پابندی لگانے کا بل پاس کیا۔ جنوری 2017ء میں آسٹریا کے برسرِ اقتدار سیاسی اتحاد نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عدالتوں اور اسکولوں میں برقعہ اور نقاب لینے پر پابندی لگائی جائے۔ مارچ 2017ء میں یورپ کی عدالت انصاف نے یہ فیصلہ کیا کہ مختلف کمپنیاں اپنے ملازمین کے سر پر سکارف لینے پر پابندی لگا سکتی ہیں۔ مئی 2018ء میں ڈنمارک کی پارلیمنٹ میں نقاب اور برقعہ پر پابندی کے بل پر رائے شماری ہوئی۔ 2018ء میں ناروے کی پارلیمنٹ نے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں برقعہ پر پابندی کا بل منظور کیا۔2021ء میں سویٹزرلینڈ میں ایک ریفرنڈم میں برقعہ پر پابندی کو 51 فیصد ووٹوں سے منظور کیا گیا۔

بہت سے مسلمان ممالک میں بھی حجاب پر پابندیاں لگائی گئیں۔ 2010 میں شام میں یونیورسٹیوں کی طالبات پر چہرہ ڈھانپنے پر پابندی لگائی گئی۔2012ء میں ازبکستان میں حجاب کی فروخت پر پابندی لگائی گئی۔2016ء میں بوسنیا میں عدالتوں میں خواتین کے حجاب لینے پر پابندی لگائی گئی۔2017ء میں قزاقستان کے بعض علاقوں میں اسکول کی طالبات کے حجاب لینے پر پابندی لگائی گئی۔ 2018ء میں الجیریا میں ان خواتین کے برقعہ یا نقاب لینے پر پابندی لگائی گئی جو سرکاری ملازمتوں پر کام کر رہی ہیں۔ترکی میں بھی حجاب پر مختلف پابندیاں لگائی گئی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ان کو نرم کیا گیا ہے۔ اسی طرح1979ء کے بعد سے ایران میں خواتین کو حجاب پہنانے کے لئے قوانین موجود ہیں۔

کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی

یہ تفصیلات ظاہر کرتی ہیں کہ حجاب پر پابندیوں کا مسئلہ اب ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔حال ہی میں بھارت کی ریاست کرناٹک کے کچھ اسکولوں اور کالجوں میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی لگانے کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ تنازع ابھی تک جاری ہے اور یہ بحث بھارتی عدالتوں تک جا پہنچی ہے۔ یہ اختلاف اس وقت لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا جب ایک کالج میں چھ مسلمان طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس روم میں جانے سے روک دیا گیا۔اور کرناٹک کی حکومت نے اس اقدم کا اس بنا پر دفاع کیا کہ حکومت کو کلاس روم کے اندر پہنے جانے والے لباس کے متعلق قوانین بنانے کا اختیار ہے اور یہ قاعدہ بنایا گیا تھا کہ طلباء اور طالبات کلاسوں میں مذہبی علامات پہن کر نہیں آئیں گے۔اس کے بعد اس پابندی کے خلاف اور حق میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور دوسرے تعلیمی اداروں نے بھی کلاس روم میں حجاب پر پابندیاں لگانی شروع کرد یں۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ تنازع ہائی کورٹ میں گیا۔ اور ہائی کورٹ نے یہ عبوری حکم جاری کیا کہ حتمی فیصلہ تک تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔ لیکن ابھی کورٹ کا فیصلہ نہیں آیا تھا کہ اس بھارتی ریاست کی حکومت کی طرف سے یہ وضاحت جاری کر دی گئی کہ عدالت کے اس عبوری حکم کا اطلاق سکھ طلباء کی پگڑیوں پر نہیں ہو گا اور وہ بدستور کلاس روم میں اپنی پگڑیاں پہن کر جا سکتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ نظریہ قبول کیا جائے کہ چونکہ اسکولوں اور کالجوں میں طلباء اور طالبات کو مذہبی علامات پہن کر یا آویزاں کر کے کلاس روم میں جانے کی اجازت نہیں ہے اور حجاب بھی ایک مذہبی علامت ہے، اس لئے طالبات حجاب پہن کر تعلیمی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہو سکتیں تو پھر یہ سوال اٹھے گا کہ اس معیار کے مطابق تو سکھ احباب کے نزدیک ان کی پگڑی بھی ایک مذہبی علامت ہے۔ اگر حجاب پر پابندی لگائی جائے اور پگڑی کی اجازت دی جائے تو کیا یہ دہرا معیار نہیں؟ اس بارے میں پڑھنے والے خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ (اگرچہ ہم ہر قسم کی مذہبی پابندی کے خلاف ہیں اور نہ حجاب پر پابندی کو آزادی تصور کر سکتے ہیں اور نہ ہی سکھ احباب کی پگڑی پر پابندی کو)۔

کرناٹک ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ

بہر حال 15 مارچ 2022ء کو کرناٹک ہائی کورٹ نے اس مقدمہ کا فیصلہ سنایا۔ اور ان تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی برقرار رکھی۔ جب 129 صفحات کا تفصیلی فیصلہ جاری ہوا تو اس کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس فیصلہ نے سوالات کا جواب دینے اور تنازع کو حل کرنے کی بجائے بہت سے نئے سوالات اور تنازعات کو جنم دیا ہے۔

سب سے پہلے یہ بات قابل توجہ ہے کہ کسی طالبہ کا حجاب لینا کوئی ایسا فعل نہیں ہے جس سے کسی اور شہری کے حقوق متاثر ہو رہے ہوں یا ریاست کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہو رہا ہو۔ یہ ان کا ذاتی فعل ہے اور انہیں اس سے روکنا ان کی شخصی آزادی میں غیر ضروری دخل اندازی ہے۔ ریاست کے تمام ستونوں کا کام بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے نہ کہ ان میں دخل اندازی کرکے شہریوں کی شخصی آزادی کو تلف کرنا۔

پردہ کے اسلامی حکم کی کیا حدود اور کیا حکمتیں ہیں؟ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اس بارے میں جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں ایک قیمتی ذخیرہ موجود ہے۔ اس مضمون میں اس بحث کا اعادہ نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح پردہ پر مخالفین کی طرف سے بہت سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ اس مضمون میں ان سب اعتراضات پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔

اس مضمون میں صرف یہ جائزہ لیا جائے گا کہ کرناٹک کی ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلہ میں حجاب پر پابندی کا کیا جواز پیش کیا گیا ہے۔ اور ان نکات کے ممکنہ مضمرات پر مختصر تبصرہ کیا جائے گا۔ جیسا کہ اس عدالتی فیصلہ کے شروع میں بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے بھارت کے آئین میں اپنے مذہب کا اظہار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ یہ آزادی آئین کی شق 25 میں ان الفاظ میں دی گئی ہے۔

25. (1) Subject to public order, morality and health and to the other provisions of this Part, all persons are equally entitled to freedom of conscience and the right freely to profess, practise and propagate religion.

ترجمہ: امن عامہ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیعات کے تابع تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق ہے۔

مکمل مذہبی آزادی کی نفی

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھارت کے آئین میں اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرنے کا حق حاصل ہے تو پھر مسلمان طالبات کو اپنی مرضی سے آزادی سے حجاب لینے کا حق کیوں حاصل نہیں ہے؟ اس کے جواب میں صوبہ کی حکومت اور تعلیمی اداروں نے یہ موقف پیش کیا کہ حجاب لینا اسلام کی کوئی essential religious practice (ضروری مذہبی حکم) نہیں ہے اور قرآن مجید میں اس کا کوئی حکم نہیں پایا جاتا (سورۃ نور کی آیت 32 اس دعوے کی نفی کرتی ہے)۔ اور بہت سی عدالتوں کے فیصلوں میں یہ طے ہو چکا ہے کہ حجاب کا لینا زیادہ سے زیادہ ثقافت کا حصہ ہے اور اسے مذہبی حکم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے بر عکس جن مسلمان طالبات کی طرف سے یہ مقدمہ دائر کیا گیا تھا ان کا یہ موقف تھا کہ حجاب لینا ان کے مذہبی احکامات میں سے ہے۔اور آئین انہیں اپنے مذہبی احکامات پر عمل پیرا ہونے کی آزادی دیتا ہے۔

کرناٹک کی عدالت نے مدعا علیہ کے اسی موقف کو اپنے فیصلہ کی بنیاد بنایا۔اور اس کے لئے عدالت کو یہ اظہار کرنا پڑا کہ بھارت کے آئین میں مکمل مذہبی آزادی نہیں دی گئی بلکہ آئین کی مذکورہ شق میں صرف essential religious practices (یعنی ضروری مذہبی احکامات یا اعمال) پر عمل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔اس پر لازمی طور پر یہ سوال اٹھنا تھا کہ ایک مذہب کے کن احکامات کو ضروری قرار دیا جائے گا اور کن احکامات کا شمار غیر ضروری احکامات میں کیا جائے گا۔اس عدالت نے ’’ضروری مذہبی احکامات‘‘ کی تعریف ان الفاظ میں پیش کی۔

To be an essential religious practice that merits protection under Article 25, it has to be shown to be essential to the religion concerned, in the sense that if the practice is renounced, the religion in question ceases to be the religion.

(عدالتی فیصلہ صفحہ36)

ترجمہ: ایسا ضروری مذہبی حکم جسے آرٹیکل 25 کے تحت تحفظ حاصل ہو وہی ہو سکتا ہے کہ اگر اس پر عمل ترک کیا جائےتو وہ مذہب ایک مذہب کے طور پر قائم نہ رہ سکے۔

اور اس عدالتی فیصلہ میں اس تعریف کے حق میں دلیل کے طور پر بعض عدالتوں کے سابقہ فیصلے پیش کئے گئے ہیں۔ پڑھنے والے خود جائزہ لے سکتے ہیں کہ یہ تعریف بنیادی طور پر مبہم اور ناقص ہے کیونکہ فرض کریں کہ اگر زید یا بکر مسلمان ہے اور اسے نماز پڑھنے سے روک دیا جاتا ہے تو اس سے مذہب ’’اسلام‘‘ بحیثیث مذہب تو ختم نہیں ہو جائے گا مگر زید اور بکر کی مذہبی آزادی بری طرح ختم ہو جائے گی۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس استدلال کا یہ مطلب ہو گا کہ اس ملک میں شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔ انہیں صرف نہایت ضروری مذہبی احکامات پر عمل کرنے کی اجازت ہے لیکن انہیں اس بات کا تحفظ حاصل نہیں کہ وہ آزادی سے اپنے تمام مذہبی احکامات پر عمل کر سکیں۔ لیکن یہاں ایک سوال اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ بھارت کے آئین میں بلکہ دنیا بھر کے اکثر دستوروں میں جہاں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے وہاں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ یہ آزادی صرف نہایت ضروری امور کے بارے میں ہو گی اور باقی احکامات پر عمل کرنے کی آزادی نہیں ہو گی۔ بلکہ بھا رت کے آئین کی شق پانچ میں جہاں اپنے مذہب کا اظہار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا ذکر ہے اس سے قبل Freely کے الفاظ ہیں جو اس بات کو واضح کر دیتے ہیں کہ یہ آزادی مکمل ہو گی۔

کیا سکھ احباب کی کرپان ضروری مذہبی حکم ہے

بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 میں موجود ایک وضاحت ہی اس نظریہ کو رد کر دیتی ہے کہ اس آرٹیکل میں صرف اہم ترین مذہبی احکامات پر عمل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔۔کیونکہ اس آرٹیکل میں وضاحت نمبر 1 یہ ہے کہ اپنے ساتھ کرپان کو لے کر چلنا اور اسے لگانا سکھ مذہب کا اظہار سمجھا جائے گا، جس کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔ اس وضاحت کے الفاظ یہ ہیں:

The wearing and carrying of kirpans shall be deemed to be included in the profession of the Sikh religion.

گویا اس آرٹیکل میں سکھ احباب کو اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ ان کا یہ حق محفوظ ہے کہ وہ کرپان لے کر آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔لیکن اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اوروہ یہ کہ کیا کرپان سکھ مذہب کے ایسے ضروری احکامات میں سے کہ جس کے بغیر سکھ مذہب بحیثیث مذہب قائم نہیں رہ سکتا۔تاریخی طور پر کرپان کا رواج سکھ مذہب کے آخری گرو گرو گوبند سنگھ صاحب کے زمانے میں شروع ہوا۔ اس سے قبل سکھ مذہب کے مردوں کے لئے کرپان لے کر چلنا ضروری نہیں تھا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ سکھ مذہب کے مقدس بانی حضرت باوا نانک اور آپ کے پیروکار سب سے بڑھ کر خالص طور پر سکھ مذہب کے پیروکار تھے۔ وہ اپنے پاس کرپان نہیں رکھتے تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے پاس کرپان لے کر چلنا سکھ مذہب کا ایسا حکم نہیں ہے جس کے بغیر یہ مذہب قائم نہ رہ سکتا ہو۔لیکن اس کے با وجود بھارت کے آئین کے آرٹیکل 25 میں سکھ احباب کے اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ کرپان لے کر چل سکتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آرٹیکل کا یہ مقصد ہر گز نہیں تھا کہ صرف اتنی مذہبی آزادی ہو کہ ایسے ضروری احکامات پر عمل کرنے کی اجازت ہو جن کے بغیر مذہب قائم نہ رہ سکتا ہو۔اگر سکھ احباب کو کرپان کی آزادی ہے تو مسلمان خواتین کو حجاب لینے کی آزادی کیوں نہیں دی جا سکتی؟ (یہاں یہ امر واضح رہے کہ ہم کسی بھی طور سکھوں کے کرپان لے کر چلنے پر پابندی کے حق میں ہر گز نہیں ہیں)۔

ضروری مذہبی حکم کا فیصلہ کون کرے گا؟

اگر ہم ایک لمحہ کے لئے حجاب پر اٹھنے والی بحث کو بھول جائیں تو بھی سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی عدالت یا کسی اور ریاستی ادارےکو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کسی مذہب کا کون سا حکم اس مذہب کے مطابق ضروری حکم ہے اور کون سا حکم ایسا ہے جسے غیر ضروری قرار دیا جا سکتا ہے۔ ذرا تصور فرمائیں کہ ایک عدالت میں ہندو جج صاحبان بیٹھ کر یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ اسلامی احکامات میں سے کون سے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے اور کون سے احکامات پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ یا کسی اسلامی ملک کی عدالت کے مسلمان جج صاحبان یہ فیصلہ کرنے لگ جائیں کہ ہندو احباب کے لئے کون سے مذہبی احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے اور کون سے احکامات پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ عقل اس طریق کو قبول نہیں کر سکتی۔

ہر مذہب میں بہت سے مختلف فرقے موجود ہیں اور وہ ان معاملات میں ایک دوسرے سےبالکل مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ اور ہر فرقہ میں مختلف افراد ایسے معاملات میں ایک دوسرے سے مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ ہندو دھرم کی مثال لے لیں۔ سناتن دھرم سے وابستہ احباب مختلف دیوتائوں اور دیویوں کی پرستش کو سب سے ضروری مذہبی فرض قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف آریہ سماج سے وابستہ احباب توحید کے قائل ہیں اور وہ اس پرستش کو ہندو مذہب کی بنیاد کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ اور دونوں ہندو مت سے وابستہ ہیں۔

اس لیے ایسے امور پر ہر فرد کو خود فیصلہ کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ اور کسی ادارے کو اس میں دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ شہریوں کو یہ ہدایت دے کہ اس مذہبی حکم پر عمل کرو اور اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔اس کا فیصلہ ہر فرد خود کرے گا۔اگر یہ دروازہ کھول دیا جائے تو اس سوچ کی آڑ میں ضمیر کی اور مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی ختم ہو جائے گی۔

مذہبی آزادی پر مزید حدود و قیود

یہ مفروضہ قائم کرنے کے بعد کہ آئین میں مذہبی آزادی صرف نہایت ضروری مذہبی احکامات اور فرائض تک محدود ہے، اس فیصلہ میں یہ بحث اٹھائی گئی ہےکہ کہ حجاب لینا اسلام میں کوئی ضروری مذہبی حکم ہے کہ نہیں ہے؟ اور اس بحث میں مذہبی آزادی کو ایک اور شرط کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ کیا جس حکم یا مذہبی عمل کی بات کی جا رہی ہے وہ بھارتی پس منظر میں ضروری مذہبی حکم قرار دیا جا سکتا ہے کہ نہیں۔جیسا کہ اس فیصلہ کے صفحہ 53 پر لکھا ہے

Since the question of hijab being a part of essential religious practice is the bone of contention, it becomes necessary to briefly state as to what is an essential religious practice in Indian context and how it is to be ascertained.

ترجمہ: چونکہ اصل متنازع مسئلہ یہ ہے کہ کیا حجاب لینا کیا کوئی ضروری مذہبی حکم ہے کہ نہیں، اس لئے یہ ضروری ہے کہ یہ تعین کیا جائے کہ بھارت کے ماحول میں کون سا مذہبی حکم ضروری ہے اور اس کا تعین کیسے کیا جائے گا؟

جیسے جیسے ہم اس عدالتی فیصلہ کا مطالعہ کرتے جاتے ہیں، ہمیں مذہبی آزادی کا دائرہ تنگ اور مزید تنگ ہوتا محسوس ہوتا ہے۔اگر کسی مذہب کی تعلیمات میں کوئی مذہبی حکم پایا جاتا ہے اور کوئی شہری اس پر اپنی مرضی سے عمل کرنا چاہتا ہے اور اس حکم کی نوعیت ایسی ہر گز نہیں ہے کہ اس سے کسی شخص کے حقوق متاثر ہوتے ہوں تو پھر آئین کی رو سے اس پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ لیکن اس پر پہلے یہ شرط لگائی گئی کہ جس حکم پر عمل کرنے کی آزادی کی ضمانت ہے اس سے مراد صرف نہایت ضروری مذہبی تعلیمات اور احکامات ہیں۔ اس کے بعد عدالت نے خود ہی اس بات کا اختیار سنبھال لیا کہ یہ فیصلہ بھی ریاستی ادارہ کرے گا کہ کون سا مذہبی حکم ضروری ہے کہ کون سا مذہبی حکم غیر ضروری ہے۔اور اس کے بعد ایک اور شرط لگا دی کہ یہ جائزہ بھی لیا جائے گا کہ ہمارے ملک کے ماحول میں کون سا مذہبی حکم ضروری ہے اور کون سا حکم غیر ضروری ہے۔ یہ واضح ہے کہ اگر یہ معیار تسلیم کیا جائے تواس سے شہریوں کی آزادی بری طرح متاثر ہو گی اور ریاستی اداروں کے ہاتھ میں مذہبی آزادی میں دخل اندازی کا دروازہ مزید کھل جائے گا۔ہر ملک کے ریاستی ادارے یہ عذر سامنے رکھ کر من مانی شروع کر دیں گے کہ ہمارے ملک کے ماحول میں یہ مناسب ہے اور یہ غیر مناسب۔

قابل اعتبار تفسیر کا فیصلہ کون کرے گا؟

جب کسی ملک کے ریاستی ادارے مذہبی آزادی یا شخصی آزادی میں مداخلت شروع کر دیں تو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہوتی ہے جو ڈھلوان پر پھسل رہا ہو۔ یہ عمل کسی مقام پر رکتا نہیں بلکہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جب کرناٹک کی عدالت نے مذہبی معاملات میں مداخلت کا کام شروع کیا تو یہ عدالت ایک کے بعد دوسرا قدم اٹھاتی گئی۔اسی تفصیلی عدالتی فیصلہ میں عدالت نے اس موضوع پر بحث چھیڑ دی کہ فرض احکامات کون سے ہیں اور مسنون احکامات کون سے ہیں؟ اور اجماع کیا ہے؟ اور اس کے بعد یہ کہ ان میں سے کون سے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے اور کن پر عمل کرنا کم ضروری ہے؟ مباح کیا ہے؟ مستحب کسے کہتے ہیں؟ پھر یہ بحث کی کہ قرآن مجید کی تفسیر کس طرح ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ یہ فیصلہ تحریر کرنے والے معزز جج صاحبان مسلمان نہیں تھے اور یہ ہندو جج صاحبان ایک ایسے ملک کی عدالت کے جج ہیں جو آئینی طور ایک سیکولر ملک ہے۔

اس کے بعد یہ بحث بھی چھیڑ دی گئی کہ مسلمانوں میں تو قرآن مجید کی بہت سی تفاسیر مروج ہیں۔ ان سب تفاسیر میں سے کون سی تفسیر کو قابل اعتبار قرار دیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے بہت سی تفاسیر کے نام درج کرنے کے بعد یہ اظہار کیا

However, this Court prefers to bank upon the ‘The Holy Quran: Text, Translation and Commentary’ by Abdullah Yusuf Ali,

ترجمہ: تاہم عدالت ہذا عبد اللہ یوسف علی کے ترجمہ اور تفسیر پر انحصار کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔

مسلمانوں کے بیسیوں مسالک ہیں۔ اور ہر مسلک مختلف تفسیر کو ترجیح دیتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایک ہی مسلک سے وابستہ احباب مختلف تفاسیر کو دوسری تفاسیر سے زیادہ قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ اور مختلف زاویوں سے مختلف تفاسیر کی اہمیت پرکھی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر تفسیر ابن کثیر اور تفسیر در منثور میں احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں مختلف آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ لیکن اگر کوئی جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر رکھ کر تفسیر پڑھنا چاہے گا تو عصر حاضر میں لکھی جانے والی کسی تفسیر کی طرف رجوع کرے گا۔لیکن عدالت عالیہ نے اس تفسیر کے حق میں یہ دلیل پیش کی کہ کم و بیش اکثر وکلاء اس تفسیر کے قابل اعتبار ہونے کے قائل ہیں۔ اس لیے زیر بحث معاملہ میں عدالت اس تفسیر کے حوالوں پر انحصار کرے گی۔خلاصہ کلام یہ کہ یہ فیصلہ کرنا کسی عدالت کا کام نہیں ہے کہ کون سی تفسیر کی پیروی کرنی چاہیے۔ ہر شخص اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ خود کرے۔

حجاب کا مقصد خواتین کو مقید کرنا نہیں ہے

اس بحث سے قطع نظر کہ عبد اللہ یوسف علی صاحب کی تفسیر کس پائے کی تفسیر ہے؟ اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 69 اور 70 پر اس تفسیر کے جو حوالے درج کئے گئے ہیں وہ اس نظریہ کی تائید نہیں کرتے کہ حجاب کا حکم کوئی غیر ضروری حکم ہے۔ ان حوالوں میں زیادہ سے زیادہ یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ حجاب کے حکم کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عورتوں کو گھروں میں مقید رکھا جائے۔ اس کا مقصد ان کا تحفظ کرنا تھا اور اس وقت مدینہ میں خطرناک حالات موجود تھے۔ اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ بہت سی مشرقی تہذیبوں میں یہ روایت موجود تھی۔ جو خواتین حجاب لیتی ہیں ان کا یہ کبھی بھی موقف نہیں رہا کہ کہ حجاب ان کی آزادی پر کوئی قدغن لگاتا ہے۔ اس دور میں بھی ایک خاتون نے حجاب لیتے ہوئے نوبل انعام بھی حاصل کیا ہے۔ یمن کی نوبل انعام جیتنے والی خاتون توکل کرمان صاحبہ سے جب سوال کیا گیا کہ ان کا حجاب لینا ان کی ذہانت کی سطح سے کس طرح میل کھاتا ہے۔ اس پر انہوں نے جواب دیا

Man in The early times was almost naked, and as his intellect evolved he started wearing clothes. What I am today and what I’m wearing represents the highest level of thought and civilization that man has achieved, and is not regressive. It’s The removal of clothes again that is regressive back to ancient.

ترجمہ: قدیم زمانے میں انسان تقریباَ برہنہ رہتا تھا۔ جب اس کی ذہانت نے ترقی کرنی شروع کی تو اس نے کپڑے پہننے شروع کئے۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں اور جوکچھ بھی پہنتی ہوں، وہ انسانی سوچ اور تہذیب کی اعلیٰ ترین سطح کی نمائندگی کرتی ہے اور رجعت پسندی نہیں ہے۔ قدیم زمانے کے لوگوں کی طرح اپنے کپڑے اتار دینا اپنے آپ کو قدیم زمانہ کی پسماندگی کی طرف لوٹا دینا ہے۔

اپنی دلیل کا رد خود کر دیا

ان سب دلائل کے بعد اس تفصیلی فیصلہ میں حجاب کے خلاف ایک ایسی دلیل بیان کی گئی کہ اس دلیل نے خود سب سے پہلے دی گئی دلیل کی تردید کر دی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ کرناٹک میں مختلف تعلیمی اداروں میں حجاب لینے پر پابندی لگائی تھی اور اس کا جواز یہ پیش کیا تھا کہ ہم نے ان تعلیمی اداروں میں دوسری مذہبی علامات مثال کے طور پر مذہبی علامات والی چادروں اور سکارف لینے پر بھی پابندی لگائی ہے، اور اسی معیار پر حجاب پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اور اسی عدالت نے اپنے پہلے عبوری حکم میں یہی لکھا تھا ہم فی الحال کلاسوں میں مذہبی علامات پہننے پر پابندی برقرار رکھتے ہیں۔ لیکن اس تفصیلی فیصلہ میں عدالت نے یہ دلیل پیش کی کہ حجاب اسلام کا مذہبی حکم نہیں ہے بلکہ ایک کلچرل رواج ہے جو کہ اسلام سے قبل بھی بہت سی تہذیبوں میں بھی عام تھا اور اس سلسلہ میں میسوپوٹیمیا، آشوری اور بازنطانی تہذیبوں کا حوالہ بھی دیا۔ اگر یہ اسلام کا مذہبی حکم نہیں تھا تو جن اداروں نے اس پر پابندی لگائی انہیں دوسری مذہبی علامات کے ساتھ اس پر پابندی لگانی ہی نہیں چاہیے تھی کیونکہ انہوں نے صرف مذہبی علامات پر پابندی لگائی تھی۔ اور دوسرے یہ پہلو قابل غور ہے کہ اگر پہلی تہذیبوں میں بھی اس کا رواج پایا جاتا تھا تو اس سے یہ مطلب اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامی تعلیمات میں اس کا حکم نہیں دیا گیا۔

رائے کی بنیاد علم ہونا چاہیے

اور اس فیصلہ کے آخر میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ ہمارے آئین کو مرتب کرنے والے ڈاکٹر امبیدکار صاحب نے تو اسی وقت یہ بھانپ لیا تھا کہ اسلام میں خواتین پر بہت سی ناجائز پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ اور انہوں نے یہ لکھا تھا کہ اسلام میں تو عورتوں کو مساجد میں جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔یہ حصہ پڑھ کر تو پڑھنے والا حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کیونکہ ہر شخص کو رائے قائم کرنے کی آزادی ہےلیکن یہ رائے لا علمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر قائم ہونی چاہیے۔ اس سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر امبیدکار صاحب سے لے کر آج کے جج صاحبان بھی صرف لا علمی کی بنیاد پر آراء قائم کرتے ر ہے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک دور میں بھی اس بات پر کوئی پابندی نہیں تھی کہ خواتین مساجد میں جا کر نماز ادا کریں بلکہ رمضان میں خواتین اعتکاف میں بھی بیٹھتی تھیں۔ اور بہت سی احادیث سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے۔

خلاصہ کلام

یہ کہ حکومتوں اور عدالتوں کو مذہبی معاملات میں مداخلت سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ مذہبی معاملات میں ہر فرد آزاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرے۔ ورنہ کچھ ایسی ہی کیفیت ہو گی جیسے ایک بیل چینی کے برتنوں کی دوکان میں گھس کر ہر طرف تباہ کاری پھیلا رہا ہو۔ اور یہ سلسلہ پھیلتا جاتا ہے۔ اور اگر یہ سوچ بڑھتی گئی تو صرف مذہبی آزادی ہی نہیں بلکہ دوسرے بنیادی انسانی حقوق بھی اس عمل کی زد میں آ جائیں گے۔ چند روز قبل جنوبی بھارت میں منگالارو یونیورسٹی کے کئی ہندو طلباء نے اس بات پر روٹھ کر کلاسوں کا بائیکاٹ کر دیا اور باہر بیٹھ گئے کہ مسلمان طالبات نے حجاب کیوں پہنا ہوا ہے۔ اگر ان طالبات کے متعلق کوئی کارروائی کرنی بھی تھی تو یونیورسٹی کی انتظامیہ کو کرنی تھی۔ ان لڑکوں کا یہ بائیکاٹ نا قابل فہم ہے۔

(ابونائل)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍جون 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جون 2022