• 24 اپریل, 2024

گالی مت دو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں:
’’…… حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی فرمایا کہ گالی مت دو خواہ دوسرا شخص گالی دیتا ہو۔اور یہی گُر ہے جس سے مومن کی زبان ہمیشہ صاف رہتی ہے۔ ایک مومن کو تو ہمیشہ پاک زبان کا استعمال کرنا چاہئے۔ گالی کی تو اس سے توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔ اپنے آپ کو کسی کی گالی سن کر پھر اس سے روکنا نہ صرف زبان کو پاک رکھتا ہے بلکہ ذہن کو بھی بہت سے غلط کاموں کے کرنے سے بچاتا ہے۔ گالی سن کر انسان کا فطری ردّعمل یہی ہوتا ہے کہ انسان غصے میں آجاتا ہے اور اس کے ردّعمل کے طور پر بھی جس کو گالی دی جاتی ہے یا بُرا بھلا کہا جاتا ہے، وہ بھی اسی طرح الفاظ دوسرے پر الٹاتا ہے۔ پس جب یہ ارادہ ہو کہ انہی الفاظ میں جواب نہیں دینا جو غلط الفاظ دوسرے نے استعمال کئے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع فرمایا ہے، تو یہ بہت بڑی نیکی ہے اور یہ نیکی ایک بہت بڑے مجاہدے سے حاصل ہوگی۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ اور یہ مجاہدہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک خداتعالیٰ پر کامل ایمان نہ ہو اور ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب نہ ہو اور پھر یہی چیز ہے جس سے صبر کے معیار بڑھیں گے۔ ایک مومن کو تو یہ ضمانت میسر ہے کہ اگر کسی کی غلط زبان پر یا غلط بات پر یا غلط حملوں پر تم صبر کرتے ہو تو فرشتے جواب دیتے ہیں۔جب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ڈھال بھی بنا دیا ہے اور ہماری طرف سے جواب دینے کے لئے بھی مقرر کردیا ہے تو پھر اس سے بہتر اور کیا سودا ہوگا۔ پھر اس سے بڑھ کر صبر کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں خوشخبری دی ہے کہ وَبَشِّرِالصَّابِرِین یہ نوید اللہ تعالیٰ ہمیں سناتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ ان مومنوں کے ربّ کی طرف سے جو صبر کرتے ہیں ان پر اس صبر کی وجہ سے برکتیں اور رحمتیں نازل ہوں گی۔ اور الٹا کر جواب نہ دینا صرف ایک مومن نہ صرف اس سے اپنے دل و دماغ کو غلاظت سے بچاتا ہے بلکہ فرشتوں کی دعاؤں سے بھی حصہ لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں بھی حاصل کرتا ہے اور پھر معاشرے میں امن قائم کرنے والا بھی بنتا ہے، مزید جھگڑوں اور فسادوں سے معاشرے کو محفوظ رکھتا ہے۔ گالی کا جواب گالی سے دینے سے بعض دفعہ دوسرا فریق مزید طیش میں آجاتا ہے۔ اس کے حمایتی جمع ہو جاتے ہیں، دوسرے فریق کے حمایتی جمع ہو جاتے ہیں، اس گالی پر بعض دفعہ ایسی خطرناک لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ قتل تک ہو جاتے ہیں۔ پس جب مومن کا مطلب ہی امن سے رہنے والا اور امن پھیلانے والا ہے تو اس سے ایسے امن کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی جس کے نتائج فتنہ و فساد پر منتج ہوں۔ پس اگر ان بھیانک نتائج سے بچنا ہے تو پھر اس کا علاج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ گالی کا جواب گالی سے نہ دو، غریب اور حلیم اور نیک نیت ہو جاؤ۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت سے اور یہ سب کچھ عاجزی اور عقل سے چلتے ہوئے برداشت کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے حقیقی مومن کہلاؤ گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 10 اگست 2007ء)

(الفضل انٹرنیشنل 31/اگست تا06/ستمبر2007ء)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 26 جولائی 2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 27 جولائی 2020ء