• 3 مئی, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ اور تبلیغ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت امام دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مولوی فتح دین صاحب نے ہمارے نام ایک خط لکھا کہ دھرم کوٹ میں (دھرم کوٹ ایک جگہ کا نام ہے) مولوی عبدالسبحان مانیا والا مباحثے کے لئے آیا ہوا ہے۔ قادیان سے کوئی مولوی لے کر بہت جلد پہنچیں۔ ہم مولوی عبداللہ صاحب کشمیری کو ہمراہ لے کر دھرم کوٹ پہنچ گئے۔ وہاں بہت دوست جمع ہوگئے۔ مولوی صاحب بہت جماعت دیکھ کر بھاگو والے میں سردار بشن سنگھ کے پاس چلے گئے۔ ہماری تمام جماعت بھاگو والہ میں چلی گئی۔ (تبلیغ کا ایک شوق تھا وہاں پہنچ گئے۔) آخر مباحثہ زیرِ صدارت سردار بشن سنگھ کے قرار پایا اور وفات و حیاتِ مسیح پر گفتگو ہوئی مگر فریقِ مخالف اس بات پر بیٹھ گیا (یعنی کہ اس بات پر اَڑ گیا اور اسی پر ضد کرنی شروع کر دی۔) کہنے لگا کہ مَیں تب مباحثہ کروں گا جب تک یہ اقرار نہ کر لیں کہ مرزا صاحب کا نام قرآنِ شریف میں دکھاویں گے۔ (اور پھر شرط یہ لگائی کہ اس طرح نام دکھائیں کہ) ’’مرزا غلام احمد ولد مرزا غلام مرتضیٰ‘‘ (قرآنِ کریم میں لکھا ہو، تب مَیں مانوں گا۔ نہیں تو مَیں بحث نہیں کروں گا۔) مولوی عبداللہ صاحب نے کہا کہ قرآنِ شریف سے دکھا دوں گا۔ تب سلسلہ گفتگو شروع ہو گیا۔ جب اُس (مولوی) نے مطالبہ کیا تو مولوی صاحب نے کہا (کہ) اگر انبیاء سابقین کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں، پہلے آپ دکھا دیں کہ اُن کے نام مع ولدیت لکھے ہیں تو ہم بھی اسی طریق پر دکھا دیں گے۔ اگر پہلوں میں یہ طریق ثابت نہیں تو ہم پر یہ سوال کیوں کیا جاتا ہے؟ فریقِ مخالف نے اس کا معقول جواب نہ دیا۔ آخر شرمندہ ہوکر بیٹھ گیا۔ سردار بشن سنگھ نے کہا، (جن کی زیرِ صدارت یہ سب مباحثہ ہوا تھا۔) یہ مولوی (تو) کچھ نہیں جانتا (اور پھر اُس کو پنجابی میں کچھ گالیاں والیاں بھی دیں۔) آخر (کہتے ہیں کہ) خدا نے فتح دی۔ اس مباحثے کا ذکر ہم نے حضرت صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے پاس کیا تو آپ نے فرمایا مولوی صاحب نے یہ کیوں نہ کہا کہ میرا نام خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اِسْمُہٗٓ اَحْمَدُ فرمایا ہے۔

(ماخوذ ازجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد5صفحہ 57روایت حضرت امام دین صاحبؓ)

حضرت پیر افتخار احمد صاحب اپنے والد ماجد پیر احمد جان صاحب کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ’’میرے والد صاحب نے حضرت صاحب کے اس دعویٰ کو قبول کر کے (یہ بیعت سے پہلے آپ کا قصہ ہے۔ اُس وقت اس بات کو قبول کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی اس زمانے کے مجدد ہیں۔) اپنے دوستوں اور واقف اور ناواقفوں میں بڑی سرگرمی کے ساتھ اشاعت شروع کی اور ایک طویل اشتہار بھی چھاپا جس کی نقل زمانہ حال میں (جب وہ لکھ رہے ہیں کہتے ہیں) الفضل میں شائع ہو چکی ہے۔ (لکھتے ہیں کہ) میرے والد صاحب نے علاوہ تبلیغی اشاعت کے خود اور اپنے مریدوں سے مالی خدمت میں بھی حصہ لیا۔ ان کی زندگی کا آخری زمانہ اسی خدمت میں گزرا کہ جس قدر ہو سکے چندہ دیں اور اشاعت کریں۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ1 روایت حضرت پیر محمد افتخار احمد صاحبؓ)

اور یہی اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج علاوہ کتابوں کے، دوسرے لٹریچر کے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ مختلف زبانوں میں دین کی اشاعت کروا رہا ہے۔ ابتدا میں جب کبھی ایم ٹی اے کا سیٹلائٹ شروع ہوا تو ایک سیٹلائٹ تھا اور وہ چند گھنٹوں کے لئے تھا۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دس سیٹلائٹس پر ایم ٹی اے کے پروگرام دنیا میں ہر جگہ نشر ہو رہے ہیں۔ بلکہ انڈیا میں جہاں بڑے ڈشوں کی ضرورت پڑتی تھی، اب وہاں بھی کوشش ہو رہی ہے اور ایک ایسا سیٹلائٹ لے رہے ہیں کہ جہاں ان شاء اللہ تعالیٰ جلد ہی چھوٹے ڈش سے، ڈیڑھ دو فٹ کے ڈش سے ان شاء اللہ تعالیٰ ایم ٹی اے سنا جایا کرے گا۔

(خطبہ جمعہ 9؍ مارچ 2012ءبحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

عجب اپنا جلوہ دکھائے خلافت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اگست 2021