• 19 مئی, 2024

بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری نیکیوں کے معیار اُس سطح تک بلند ہوں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ بعض نصائح جو بیعت کرنے والوں کو آپ علیہ السلام نے مختلف اوقات میں فرمائیں، اُن کا مَیں اس خطبہ میں ذکر کروں گا۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی۔ ایسی بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے‘‘۔ یعنی اگر صرف رسمی بیعت ہے تو انسان اس بیعت سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ دار نہیں بن سکتا، نہ انعامات کا وارث بنتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیعت کرنے والے کے حق میں مقرر فرمائے ہیں۔ فرمایا کہ ’’اسی وقت حصہ دار ہو گا جب اپنے وجود کو ترک کرکے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہو جاوے‘‘۔ یعنی جس کی بیعت کی ہے اُس کے ساتھ ہو جائے، خدا تعالیٰ کے ساتھ پختہ تعلق پیدا کر لے۔ پھر فرمایا: ’’تعلقات کو بڑھانا بڑا ضروری امر ہے۔ اگر ان تعلقات کو وہ (طالب) نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا‘‘ یعنی جس نے بیعت کی ہے اگر وہ یہ تعلقات نہیں بڑھاتا اور اس کے لئے کوشش نہیں کرتا، اللہ سے بھی تعلق اور جس کی بیعت کی ہے اُس سے بھی تعلق ’’تو اس کا شکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے‘‘۔ پھر یہ شکوہ نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے اُن انعامات سے نہیں نواز رہا جن کا وعدہ ہے۔ فرمایا کہ ’’محبت و اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہئے۔ جہاں تک ممکن ہو اُس انسان (مُرشد) کے ہمرنگ ہو۔ طریقوں میں اور اعتقاد میں‘‘۔ یعنی جس کی بیعت کی ہے اُس کے طریق پر چلو اور اعتقادی لحاظ سے بھی اُس معیار کو حاصل کرو۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہیے۔ اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہئے‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ3-4 ایڈیشن 2003ء)

سچائی اور عبادت کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرو اور صبح سے شام تک اپنے جائزے لو کہ کیا تم نے حاصل کیا ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے۔ یہ تو صرف پوست ہے۔ مغز تو اس کے اندر ہے۔ اکثر قانون قدرت یہی ہے کہ ایک چِھلکا ہوتا ہے اور مغز اس کے اندر ہوتا ہے۔ چھلکا کوئی کام کی چیز نہیں ہے۔ مغز ہی لیا جاتا ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مغز رہتا ہی نہیں اور مرغی کے ہوائی انڈوں کی طرح جن میں نہ زردی ہوتی ہے نہ سفیدی، جو کسی کام نہیں آسکتے اور ردّی کی طرح پھینک دئیے جاتے ہیں …۔ اسی طرح پر وہ انسان جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اگر ان دونوں باتوں کا مغز اپنے اندر نہیں رکھتا‘‘ یعنی بیعت اور ایمان کی حقیقت نہیں پتہ اور عمل اس کے مطابق نہیں ’’تو اُسے ڈرنا چاہئے کہ ایک وقت آتا ہے کہ اُس ہوائی انڈے کی طرح ذرا سی چوٹ سے چکنا چور ہو کر پھینک دیا جائے گا۔ اسی طرح جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اُس کو ٹٹولنا چاہئے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی اور اسلام کا مدعی سچامدعی نہیں‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ416 ایڈیشن 2003ء)

پھر یہ سب باتیں غلط ہیں کہ میں ایمان لایا، میری محبت ہے، میں کامل اطاعت کرنے والا ہوں، میں نے بیعت کی ہوئی ہے، مَیں اعتقادی طور پر یقین رکھتا ہوں، میں سچا مسلمان ہوں۔ فرمایا یہ سب دعوے ہیں۔ پس بیعت کے بعد ایمان میں بھی ترقی ہونی چاہئے، محبت میں بھی ترقی ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ سے محبت سب محبتوں سے زیادہ ہو، یہی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے محبت کی وجہ سے اُس کے سب سے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو، مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت ہو، خلافت سے محبت ہو اور آپس میں ایک دوسرے سے محبت ہو۔

پھر فرمایا کہ اطاعت کے معیار حاصل کرو۔ اطاعت یہ نہیں کہ خلیفۂ وقت کے یا نظامِ جماعت کے فیصلے جو اپنی مرضی کے ہوئے دلی خوشی سے قبول کر لئے اور جو اپنی مرضی کے نہ ہوئے اُس میں کئی قسم کی تاویلیں پیش کرنی شروع کر دیں، اُس میں اعتراض کرنے شروع کر دئیے۔ فرمایا کہ یہ بیعت کا دعویٰ اگر ہے تو پھر اطاعت بھی کامل ہونی چاہئے۔ پس یہ بیعت کا دعویٰ، اعتقاد کا دعویٰ، مریدی کا دعویٰ اور اس حقیقی اسلام پر عمل کرنے کا دعویٰ یا مسلمان ہونے کا دعویٰ تبھی حقیقی دعویٰ ہے جب یہ اعلان ہو کہ آج بیعت کرنے کے بعد میرا کچھ نہیں رہا بلکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہے اور اُس کے دین کے لئے ہے۔ اور یہی بیعت کا مقصد ہے کہ اپنے آپ کو بیچ دینا۔

(خطبہ جمعہ 11؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

19 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ تھائی لینڈ.

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اگست 2022