• 3 مئی, 2024

’’اپنے جائزے لیں‘‘ (قسط 2)

’’اپنے جائزے لیں‘‘
ارشادات از خطبات مسرور جلد 3
قسط 2

نیکیوں کی تلقین کرنے والے کو
اپنے جائزےبھی لیتے رہنا چاہئے

ہر احمدی کو جو نیکیوں کی تلقین دوسروں کو کرتا ہے خود بھی ان نیکیوں پر عمل کرنا چاہئے۔ اور خاص طور پر جن کے سپرد جماعت کی طرف سے یہ کام ہوتا ہے ان کو تو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہئے اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، اس کا فضل مانگنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ اگر یہ انذار سن کر کسی کو یہ خیال آئے کہ پھر تو بہتر ہے کہ مَیں خاموش رہوں اور کبھی نیکیوں کی تعلیم نہ دوں اور نہ بری باتوں سے روکوں جب تک کہ مَیں خود اس قابل نہیں ہو جاتا۔ اگر یہ خیال آئے گا تو انسان اپنی اصلاح سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے یہ تعلیم دینا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ خداتعالیٰ کا حکم ہے۔ پس ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیکیوں کی تعلیم بھی دے اور ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کرتا رہے، اپنا جائزہ بھی لیتا رہے کہ میری اصلاح ہو رہی ہے کہ نہیں۔ یہ انتہائی ضروری امر ہے۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ284)

مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولو

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا آؤ میں تمہیں کچھ دیتا ہوں اور اسے دیتا کچھ نہیں تو یہ جھوٹ میں شمار ہو گا۔ یہ جھوٹ کی تعریف ہے۔ اب اگر ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے تو پتہ چلے گا کہ ہم روزانہ کتنی دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھوٹ بول جاتے ہیں۔مذاق مذاق میں ہم کتنی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جھوٹ ہوتی ہیں۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ289)

جائزے لیں کہ کیا ہم حضرت ابراہیمؑ کی برکات کا حصہ داربن رہے ہیں؟

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں شرک کے خلاف ایک عظیم جہاد کیا تھا اور مخالفین نے اس و جہ سے ان کو آگ میں بھی ڈالا تھا۔ لیکن خداتعالیٰ اپنے پیاروں کو اس طرح ضائع نہیں کرتا۔ چنانچہ وہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکی۔ ہمیں بھی اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ ایک طرف تو ہم اپنے آپ کو ابراہیمؑ کی برکات کا حصہ دار بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس زمانے کے ابراہیم کو مان کر ہر قسم کے شرک سے بے زاری کا اظہار کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ لیکن مثلاً نمازوں کے اوقات ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بُت اور خدا، نوکری کے، کاروبار کے، سستیوں کے ہم نے بنائے ہوئے ہیں ان کے پنجے سے نکلنا نہیں چاہتے۔ یا اس طرح نکلنے کی کوشش نہیں کرتے جس طرح کوشش کرنی چاہئے۔ صرف منہ سے یہ کہہ دینا کہ اے اللہ ہمیں مقام ابراہیم پرفائز کر دے، کوئی فائدہ نہیں دے گا جب تک کہ وہ محبت اپنے دل میں پیدا نہ کریں جو ابراہیم علیہ السلام کو اپنے خدا سے تھی۔ جب تک ہم اپنے آپ کو مکمل طور پر خداتعالیٰ کے احکامات کے سپرد نہ کر دیں۔ جب تک ہم اپنے تمام معاملات خدا پر نہ چھوڑ دیں اور عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹی اناؤں کو نہ چھوڑ دیں۔ جب تک ہم اپنے خاندانوں اور برادری کی بڑائی کے تکبر سے باہر نہ نکلیں۔ جب تک ہم اس چکر میں رہیں گے کہ میں سیّد ہوں یا مغل ہوں یا پٹھان ہوں یا جاٹ ہوں یا آرائیں ہوں،ان لفظوں سے جب تک باہر نہیں نکلیں گے جب تک ہم اپنے معیار اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق تقویٰ کو نہ بنا لیں کوئی فائدہ نہیں۔ تو جب ہم یہ ساری چیزیں کر لیں گے تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم مقام ابراہیم پر قدم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس مقام پر قدم رکھتے ہوئے اپنے تمام معاملات خداتعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں۔ تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم وفاداروں میں ہیں۔ اور اس زمانے کے ابراہیم سے جو عہد بیعت ہم نے باندھا ہے اس کو پورا کرنے والے ہیں۔ پس جب ہم یہ معیار حاصل کر لیں گے یا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تب ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیاروںمیں شامل سمجھے جائیں گے۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ348)

ہمارامسجدوں میں آنا دکھ اور تکلیف کے لئے نہ ہو

ہمارامسجدوں میں آنا ہمارے ماحول کے لئے خیرو برکات کا باعث ہو۔ نہ کہ دکھ اور تکلیف کا۔پس جب اس نیّت سے ہر کوئی کوشش کر رہا ہو گا تو یہ کوششیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک یقینا مقبول ہوں گی۔ اور جہاں یہ آپ لوگو ں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنائیں گی وہاں یہ ماحول میں محبتیں بھی بکھیر رہی ہوں گی۔ جماعت احمدیہ کی مساجد تو بہرحال بھلائی پھیلانے والی اورخیر پھیلانے والی ہیں۔ اس لئے ہر ایک کو یہاں آنا بھی اسی نیّت سے چاہئے۔ اگر کوئی فتنہ وفساد کی نیّت سے آئے گا تو اس کو کامیابی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ہر احمدی کو اس لحاظ سے بھی اپنے ماحول کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کبھی کوئی شر جماعت کے اندر یا مساجد میں کامیاب نہ ہو۔ ہر احمدی کو بھلائی اور خیر کی تعلیم کو ہی ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ یہی چیز ہے جس نے اسلام کی صحیح تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا کردار ادا کرنا ہے، بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھانا ہے۔ یہ تعلیم پھیلانے میں مساجد ایک بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ ہمیں اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا کہ ہماری مساجد امن کا نشان ہیں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے قریب لانے کی ضامن ہیں۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ350)

اپنے جائزے لیں کہ جھوٹی اَنا میں مبتلاء تو نہیں

بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو جھوٹی اَنا کے شیطانی چکر میں انسان کو پھنسا دیتی ہیں۔ اور بغیر دیکھے سوچے بدظنیوں پر بنیاد کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں اور سخت کلمات تک جا پہنچتی ہیں۔ ہر احمدی کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس نے زمانے کے امام کو مان کر جو عہد کیا ہے کہیں وہ ان باتوں کے کرنے سے یا صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے سے یا بدظنیوں کی و جہ سے یا دوسرے کو حقیر سمجھنے سے اور تکبر کی وجہ سے وہ اس عہد کو توڑنے والا تو نہیں بن رہا۔ پس جب آپ اس سوچ کے ساتھ اپنے جائزے لے رہے ہوں گے، ہر کوئی اپنا جائزہ لے رہا ہو گا تو جہاں آپ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندوں میں شمار ہو رہے ہوں گے وہاں محبتوں کی خوشبو بھی فضا میں بکھیر رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ایسے عملوں کی توفیق دے۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ352)

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی تعویذ کا کام دیگی

بعض لوگ آتے ہیں کہ ہمیں کوئی خاص دعا بتائیں یا کوئی وظیفہ بتائیں جس سے ہماری مشکلات دور ہو جائیں۔ یہ باتیں بعض احمدیوں میں صرف اس لئے رائج ہیں کہ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور پوری طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو تعلیم ہے اس کا علم نہ ہونے کی وجہ سے یا توجہ نہ دینے کی وجہ سے بعضوں میں فہم اور ادراک نہیں رہتایا بعض نئے احمدی ہوئے ہوتے ہیں ان میں بھی یہ باتیں ہوتی ہیں۔ اس معاشرے کے زیر اثر آ جاتے ہیں، ورنہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد صحیح طور پر اس تعلیم پر عمل کرنے والے بن جائیں تو یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی جو ادائیگی ہے وہی ان کے لئے تعویذ کا کام دے گی۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو بظاہر کہنے میں بہت چھوٹی ہے، جب حقوق اللہ ادا کرنے کی کوشش کریں اور باریکی میں جا کر حقوق العباد ادا کرنے کی کوشش کریں، اپنے نفس کا جائزہ لیتے رہیں تو تب پتہ لگے گا کہ یہ چھوٹی باتیں نہیں، بہت بڑی باتیں ہیں۔ عبادتوں کا حق ادا کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی نظر حاصل کرنے والے ہو جائیں گے۔ اور بندوں کے حق ادا کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے ہو جائیں گے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے تو پھر وہ کون سی چیز رہ جاتی ہے جس کا انہیں ورد کرنے کی ضرورت ہو۔ وہ کون سا تعویذ ہے پھر جس کی انہیں ضرورت ہو۔ پس اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھائیں اپنی عبادتوں کے معیار بڑھائیں۔ اور جب یہ حاصل کرلیں گے تو اللہ کے پیاروں میں شمار ہوں گے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں شمار ہوں گے تواس کے فضلوں سے حصہ پانے والے ہوں گے اور وہ اپنی قدرت کے نظارے دکھائے گا۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ364)

آسودگیاں برائیوں کی طرف نہ لے جانے والی ہوں

اللہ تعالیٰ نے جو یہ آپ پر فضل فرمائے ہیں ان کا اظہار نیک اعمال کی صورت میں کریں۔ بعض دفعہ آسودگیاں برائیوں کی طرف لے جاتی ہیں۔ ان سے بچیں اور تقویٰ پر قائم ہوں۔ ان کے اظہار اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی صورت میں کریں۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی صورت میں کریں۔ اپنی گزشتہ حالت پر بھی نظر رکھیں اور اپنے موجودہ حالات کو بھی دیکھیں۔ بہت سے ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ان ملکوںمیں بلا کر مالی لحاظ سے پہلی حالت سے سینکڑوں گنا بڑھا دیا ہے، بہتر حالت میں کر دیا ہے۔ یہ اپنے جائزے آپ کواللہ تعالیٰ کے قریب کرنے اور اس کا شکر ادا کرنے والے بنائیں گے۔ جب آپ اپنا اس نظر سے جائزہ لے رہے ہوں گے اور جب آپ شکر کریں گے، تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق اپنے فضلوں کی بارش کو مزید بڑھاتا چلا جائے گا

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ366)

جائزے لیں کہ کیا ہم محبت اور
بھائی چارے کے معیار قائم کر رہے ہیں

ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا یہ نمونے ہم اپنے اندر قائم کر رہے ہیں یا قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے آپس میں محبت اور بھائی چارے کے وہ معیار قائم کر لئے ہیں جن کی توقع ہم سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ ولسلام نے کی ہے؟ کیا ہم نے اپنے اندر عاجزی کے اعلیٰ معیار قائم کر لئے ہیں؟ کیا ہمارے اندر وہ روح پیدا ہو چکی ہے جب ہم کہہ سکیں کہ ہم اپنی ضرورتوں کو اپنے بھائی کی ضرورتوں پر قربان کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارے اندر اتنی عاجزی اور انکساری پیدا ہو گئی ہے کہ ہم اپنے آپ کو سب سے کم تر سمجھیں اور جہاں خدمت کا موقع ملے اس سے کبھی گریز نہ کریں؟ کیا ہم نے سچائی کے وہ معیار حاصل کر لئے ہیں جب ہم کہہ سکیں کہ اگر ہمیں اپنے عزیزوں کے خلاف یا اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑی تو دیں گے اور سچ کے قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں گے؟ کیا ہم دینی ضروریات کے لئے ہر وقت تیار ہیں؟ یا صرف دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا نعرہ ہی ہے جو ہم لگا رہے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا کہیں یہ تو نہیں کہ دعویٰ تو ہم یہ کر رہے ہوںکہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا مَیں کسی کو دوست بناؤں اور چھوٹے چھوٹے بت مَیں نے اپنے دل میں بسائے ہوں، پانچ وقت نمازوں میں سستی دکھائی جا رہی ہو۔ اور یہ سستی اکثرمَیں نے دیکھا ہے، دکھائی جاتی ہے۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ372)

دوسروں کے حقوق اداکرنے کا جائزہ لیں

یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا ہو، نمازوں کی ادائیگی کرنے والا ہو اور پھر یہ بھی ہو ساتھ کہ بندوں کے حقوق مارنے والا بھی ہو۔ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہ بات تو اللہ تعالیٰ کے اس دعویٰ کے خلاف ہے۔ اگر بظاہر بعض نمازی ایسے نظر آتے ہیں جو نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں لیکن لوگوں کے حقوق بھی غصب کرنے والے ہوتے ہیں، حقوق مارنے والے ہوتے ہیں تو وہ ان نمازیوں میں شامل نہیں ہیں جو خالص ہو کر اللہ کو پکارتے ہیں۔ بلکہ وہ تو اس زمرے میں شامل ہو جائیں گے جن کے بارے میں فرمایا کہ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ (الماعون: 5) ہلاکت ہے ایسے نمازیوں کے لئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تو نمازیوں کو جو نما ز کا حق ادا کرنے والے ہیں، نیکیوں پر چلاتا ہوں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اس فکر کے ساتھ اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور ہمیشہ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دیتے رہنا چاہئے۔ اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ آپس میں محبت اور اخوت کی فضا پیدا ہو، بھائی چارے کی فضا پیدا ہو۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ377)

احمدی کی دنیاداری بھی دین کی خاطر ہونی چاہئے

ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور یہ ماحول تو یہاں میسر آ گیا ہے کہ ان تین دنوں میں دنیاداری سے ہٹ کر خالص اللہ کے ہوتے ہوئے اس کے حضور جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے، اس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی محبت، سب محبتوں پر غالب آ جائے۔ اور یہ محبت اس وقت تک غالب نہیں ہو سکتی جب تک دنیا کی محبت ٹھنڈی نہ ہو جائے۔ اگر نمازیں پڑھ رہے ہیں اور اس طرح جلدی جلدی پڑھ رہے ہیں کہ دنیا کے کام کا حرج نہ ہو جائے تو یہ تو انقطاع نہیں ہے۔ یہ تو دنیا سے تعلق توڑنے والی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیاوی کاموں کو جائز قرار دیتا ہے بلکہ یہ بھی ناشکری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کام کے جو موقعے دئیے ہیں ان سے پورا فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ لیکن اگر یہ کام، یہ کاروبار، یہ جائیدادیں خداتعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں تو پھر ایسے کام بھی، ایسی ملازمتیں بھی، ایسے کاروبار بھی ایسی جائیدادیں بھی پھینک دینے کے لائق ہیں۔ اگر ملازمتوں میں، کاروباروںمیں خداتعالیٰ کو بھلا کر دھوکے اور فراڈ کئے جا رہے ہیں تو ایسے کاروبار اور ایسی ملازمتوں پر لعنت ہے۔ لیکن اگر یہی کام، یہی کاروبار، یہی جائیدادیں اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کا باعث بن رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کا باعث بن رہی ہیں تو یہی چیزیں ہیں جو بندے کو خداتعالیٰ کے سایہ رحمت میں رکھ رہی ہیں اور سایہ رحمت میں رکھنے کے قابل بنا رہی ہیں۔ پس احمدی کی دنیاداری بھی دین کی خاطر ہونی چاہئے۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ384)

خلافت سے مضبوط تعلق نماز میں باقاعدگی اختیار کرنے والوں کاہے

اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے فیض پانے والے ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو نیک اعمال بھی بجا لانے والے ہوں۔ پس خلافت سے تعلق مشروط ہے نیک اعمال کے ساتھ۔ خلافت احمدیہ نے تو ان شاء اللہ تعالیٰ قائم رہنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ لیکن نظام خلافت سے تعلق انہیں لوگوں کا ہو گا جو تقویٰ پر چلنے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے ہوں گے۔ اگر جائزہ لیں تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ جن گھروں میں نمازوں میں بے قاعدگی نہیں ہے، ان کا نظام سے تعلق بھی زیادہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکموںپر عمل کرنے والے ہیں ان کا خلافت اور نظام سے تعلق بھی زیادہ ہے۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ394)

خلافت اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے
سب سے بڑا فضل ہے

دنیا کی خاطر جو ایک دوسرے پر ظلم ہو رہے ہیں ان سے بچیں۔ راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا ذریعہ ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے فضل سمیٹنے والے ہوں گے تو اس کے فضلوں میں سے ایک بہت بڑا فضل اور انعام جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر خلافت کی صورت میں جاری فرمایا ہے اس سے بھی حصہ پانے والے ہوں گے۔ اور اگر دعوے تو خلافت احمدیہ کو قائم رکھنے کے لئے ہر قربانی کے ہوں اور عمل یہ کہ کسی طرح خلیفہ وقت کو باتوں ہی باتوں میں دھوکا دیا جائے۔ تو پھراللہ تعالیٰ بھی اپنا قانون استعمال کرتا ہے۔ اور ظالم اپنے ظلموں کی وجہ سے دنیا داروں سے تو بچ سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی مخلوق جس کا علم محدود ہے اس سے تو بچ سکتا ہے، لیکن خداتعالیٰ سے نہیں۔ پس ہر ایک کو اپنا اس لحاظ سے بھی جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ397)

امانت نام ہے تمام طاقتوں کا برمحل استعمال

امانت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تمام طاقتوں کا اس کے موقع پر اور صحیح محل پر استعمال ہو اور اظہار ہو۔ اور اس کی سب سے اعلیٰ صورت یہ ہے کہ یہ تمام طاقتیں اور صلاحیتیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق خرچ کیا جائے۔ جس میں خداتعالیٰ کے حقوق بھی ادا ہوتے ہوں اور خداتعالیٰ کی مخلوق کے حقوق بھی ادا ہوتے ہوں۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ زندگی کا ہر لمحہ اسی سوچ اور فکر میں گزرے کہ یہ حقوق ادا کرنے ہیں اور اپنی تمام طاقتیں اور صلاحیتیں اس کی تعلیم کے مطابق خرچ کرنی ہیں۔ تبھی کہا جا سکتا ہے کہ اُس نے اپنی امانتوں کو اور عہدوں کو صحیح طور پر نبھایا اور ان کا حق ادا کیا۔ تو آپؑ نےفرمایا کہ جب ہم آنحضرت ﷺ کی زندگی کا جائزہ لیں تو ان تمام اخلاق کا اعلیٰ ترین معیار ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ اور یہی اسوۂ حسنہ ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ اس کی پیروی سے ہمیں بھی خداتعالیٰ کا قرب مل سکتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ427)

عرش سے ہمارا تعلق ہو

اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان توقعات پر پورا اترنے والے ہوں۔ اَبْنَاءُ السَّمَاء بننے والے ہوں نہ کہ اَبْنَاءُ الْاَرض۔ عرش سے ہمارا تعلق ہو۔ عرش سے تعلق جوڑنے والے ہوں نہ کہ دنیا داری میں پڑ کر جھوٹی اناؤں کی نظر ہو کر دنیا کے بندے بن جائیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا، ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ کس حد تک ہم ان پر برائیوں سے بچنے والے ہیں یا بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل مانگتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو زمانے کے امام کی جماعت سے چمٹائے رکھیں کہ اِس میں ہی ہماری بقا ہے۔ اِس میں ہی ہماری بھلائی ہے۔ اِسی سے ہمیں دنیا و آخرت کے فائدے حاصل ہونے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ545)

جائزے لیں کہ گزشتہ رمضان میں
جو منزلیں حاصل ہوئی تھیں وہ قائم ہیں؟

اس رمضان میں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ گزشتہ رمضان میں جو منزلیں حاصل ہوئی تھیں کیاان پر ہم قائم ہیں۔ کہیں اس سے بھٹک تو نہیں گئے۔ اگر بھٹک گئے تو رمضان نے ہمیں کیا فائدہ دیا۔ اور یہ رمضان بھی اور آئندہ آنے والے رمضان بھی ہمیں کیا فائدہ دے سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ اگر یہ فرض روزے رکھو گے تو تقویٰ پر چلنے والے ہو گے، نیکیاں اختیار کرنے والے ہو گے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہو گے۔ لیکن یہ کیا ہے کہ ہمارے اندر تو ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی جس سے ہم کہہ سکیں کہ ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہو گیا ہے۔یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ خداتعالیٰ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ بندہ جھوٹا ہو سکتا ہے اور ہے۔ پس یہ بات یقینی ہے کہ ہمارے اندر ہی کمزوریاں اور کمیا ں ہیں یا تو پہلے رمضان جتنے بھی گزرے ان سے ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا، یا وقتی فائدہ اٹھایا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔ حالانکہ چاہئے تو یہ تھاکہ تقویٰ کا جو معیار گزشتہ رمضان میں حاصل کیا تھا، یہ رمضان جو اَب آیا ہے، یہ ہمیں نیکیوں میں بڑھنے اور تقویٰ حاصل کرنے کے اگلے درجے دکھاتا۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ594)

دوسرے کی آنکھ کے تنکے تلاش نہ کرو

میں حیران ہوتا ہوں بعض دفعہ یہ سن کر، بعض لوگ بتاتے بھی ہیں اور لکھ کر بھی بھیجتے ہیں کہ آپ کے فلاں خطبے پر مجھ سے فلاں شخص نے کہا یہ تمہارے بارے میں خطبہ آیا ہے اس لئے اپنی اصلاح کر لو۔ حالانکہ چاہئے تو یہ کہ ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے اور دوسرے کی آنکھ کے تنکے تلاش نہ کرے۔ تو جب روزوں میں اس طرح اپنے جائزے لے رہے ہوں گے، کان، آنکھ، زبان، ہاتھ سے دوسرے کو نہ صرف محفوظ رکھ رہے ہوں گے بلکہ اس کی مدد کر رہے ہوں گے تو پھر روزے تقوٰی میں بڑھانے والے ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بے انتہا اجر پانے والے ہوں گے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ601)

اپنی صبحوں اورشاموں سے گواہی لو

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے: ’’ہمیں اس طرح جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری صُبحیں اور ہماری راتیں ہماری نیکیوں کی گواہ ہونی چاہئیں‘‘۔ آپؑ فرماتےہیں کہ: ’’چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا‘‘۔

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ12)

پس جب ہم اس طرح اپنی صبحوں اور شاموں سے گواہی مانگ رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر رہے ہوں گے۔ ہمارے گزشتہ گناہ بھی معاف ہو رہے ہوں گے۔ اور آئندہ تقویٰ پر قائم رہنے اورمزید نیکیاں کرنے کی توفیق بھی مل رہی ہو گی۔ ورنہ ہمارے روزے بھوک اور پیاس برداشت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ602)

دعاؤں کی قبولیت کے لئے
قرآن کریم کا پڑھنا ضروری ہے

دعاؤں کی قبولیت کے لئے بھی قرآن کریم کا سیکھنا، پڑھنا، یاد کرنا ضروری ہے۔اللہ کرے کہ ہم نے رمضان کے گزشتہ دنوں میں، آج 17روز ے گزر گئے ہیں، قرآن کریم کے پڑھنے سے جو فیض پایا ہے اس سے بڑھ کر رمضان کے جو بقیہ دن تھوڑے سے رہ گئے ہیں ان دنوں میں یہ فیض حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کو پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم روزانہ اپنا جائزہ لیں اور لیتے رہیں کہ ہر روز ہم نے اس سلسلے میں کیاترقی کی ہے۔ اور پھر یہ بھی ارادہ کریں کہ رمضان کے آخری دنوںتک جو ہم نے قرآن کریم سے حاصل کیا ہے اس کو اب باقاعدہ اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ یہ تلاوت کی عادت جو ہمیں رمضان میں پڑ گئی ہے اس کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھنا ہے۔ اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش ہم نے رمضان کے بعد عام دنوں میں بھی کرنی ہے۔ اپنے گھروں کی بھی نگرانی کرنی ہے کہ ہمارے بیوی بچے بھی اس طرح عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔ وہ بھی تلاوت کر رہے ہیں یا نہیں جس طرح آج کل ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے کہ ہم قرآن کریم کی برکات سے فیض پانے والے ہوں اور ہمیشہ فیض پاتے چلے جائیں۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ637)

بندے کے ساتھ خداتعالیٰ کا معاملہ دوستانہ ہوتاہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بندے کا خداتعالیٰ کے ساتھ دوست کا معاملہ ہے۔ پس اصل اورپائیدار اور ہمیشہ رہنے والی دوستی کے لئے دوست کی باتیں بھی ماننی پڑتی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری بات پر لبیک کہو۔ جو میں کہتا ہوں اسے مانو تو پھر یہ ہماری دوستی پکی ہو گی۔ اس لئے پہلا حکم جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیاہے یہی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرو۔ صرف رمضان کے تیس دن عبادتوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ فرمایا کہ میرا حکم یہ ہے کہ مستقل عبادت کرو۔ روزانہ کی پانچ نمازیں باجماعت ادا کرو جو فرض کی گئی ہیں۔ مردوں کے لئے یہی حکم ہے کہ مسجد میں جا کے اداکریں یا جہاں بھی سنٹر ہے وہاں جا کے ادا کریں، عورتوں کے لئے حکم ہے گھروں میں پانچ نمازیں پڑھیں، وقت پر نمازیں ادا کریں۔ اپنی نمازوں کی خاطر دوسری مصروفیات کو کم کریں۔ جس طرح آج کل رمضان میں ہر ایک کوشش کرکے نمازوں کی طرف توجہ دے رہا ہوتا ہے، قرآن پڑھنے کی طرف توجہ دے رہا ہوتا ہے۔ تو اس طرح رمضان کے بعد بھی وقت پر پانچوں نمازیں ادا کرو۔ کوئی دوستی اللہ تعالیٰ کی دوستی سے بڑھ کر نہ ہو۔ اس ذات پر ایسا ایمان ہو جو کسی اور پر نہ ہو اور ہمیشہ اسی کو مدد کے لئے پکارو۔ یہ نہ ہو کہ بعض دفعہ بعض معاملات میں مدد کے لئے تم غیراللہ کی طرف جھک جاؤ، ان سے مددمانگنے لگو۔ اگر یہ صورت ہو گی تو یہ کمزور ایمانی حالت ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی ایمانی حالت کو بڑھاؤ۔ میرے پر پختہ اور کامل یقین رکھو۔ ہم کہہ تو دیتے ہیں کہ ہمیں خدا پر بڑا پکّا ایمان ہے لیکن بعض دفعہ ایسے عمل سرزد ہو جاتے ہیں جو ہمارے دعوے کی نفی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایمان کی تعریف یہ ہے کہ حق کی یا سچائی کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہو جائے۔ اب ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد، یہ تصدیق کرنے کے بعد کہ آپؑ خداکےمسیح ہیں اور حق پر ہیں اس حد تک ہم نے آپؑ کی باتوں کی فرمانبرداری کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے آپؑ نےجن شرائط پرہم سےبیعت لی ہے اس تعلیم پر کس حد تک ہم عمل کر رہے ہیں۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ642)

جائزے لیں کہ کیا ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھ رہے ہیں

ہم اپنے اس عہد پر قائم رہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور دعا کے ساتھ ساتھ جب ہم اپنا جائزہ لیں گے کہ کیا ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھ رہے ہیں تو پھر ہمیں مزید اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہو گی، مزید توبہ کرنے کی توفیق ملے گی۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق ملے گی۔ نیک اعمال بجا لانے کی توفیق ملے گی۔ اور جب اس طرح ہو رہا ہو گا تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ہماری توبہ قبول کرتے ہوئے ہماری طرف متوجہ ہو گا، مزید نیکیوں کے دروازے کھلتے چلے جائیںگے۔ پس یہ برکت اسی وقت پڑے گی جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے سب کام ہو رہے ہوں گے۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ645)

غلطیوں کو نہ دہراؤ

ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم برائیاں کرنے کے بعد، کسی غلطی کے سرزد ہونے کے بعد اس درد کے ساتھ توبہ و استغفار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں؟ استغفار کے ساتھ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کے مضمون کو بھی سامنے رکھتے ہیں؟ کمزوری سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس سوچ کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے گناہوں اور غلطیوں کی معافی مانگ رہے ہیں؟ اور پھر اس کے ساتھ اس عہد پر قائم ہونے کی کوشش کرتے ہیںکہ جیسے بھی حالات ہو جائیں یہ غلطیاں نہیں دوہرائیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی نہیں کرے گا۔ لیکن آگ میں ڈالنا تو علیحدہ بات ہے۔ معمولی سا دنیاوی لالچ یا ذاتی مفاد بھی بعض لوگوں کو وہی غلطیاں کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد3 صفحہ726)

(باقی آئندہ ہفتہ ان شاءاللہ)

(نیاز احمد نائک۔ استاد جامعہ احمدیہ قادیان)

پچھلا پڑھیں

19 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ تھائی لینڈ.

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اگست 2022