• 19 مئی, 2024

شیطان ابتدا سے ہی یہ فیصلہ کر چکا تھا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
شیطان کیونکہ تکبر دکھانے کے بعد سے ابتدا سے ہی یہ فیصلہ کر چکا تھاکہ مَیں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگاؤں گا اور عبادالرحمٰن نہیں بننے دوں گا اور مختلف طریقوں سے اس طرح انسان کو اپنے جال میں پھنساؤں گاکہ اس سے نیکیاں سرزد اگر ہو بھی جائیں تو وہ اپنی طبیعت کے مطابق ان پر گھمنڈ کرنے لگے اور یہ نخوت اور یہ گھمنڈ اس کو یعنی انسان کو آہستہ آہستہ تکبر کی طرف لے جائے گا۔یہ تکبر آخر کاراس کو اس نیکی کے ثواب سے محروم کردے گا۔ تو کیونکہ شیطان نے پہلے دن سے ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ انسان کو راہ راست سے بھٹکائے گا اور اس نے خود بھی تکبر کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کا انکار کیا تھا اس لئے یہی وہ حربہ ہے جو شیطان مختلف حیلوں بہانوں سے انسا ن پر آزماتاہے اور سوائے عبادالرحمن کے کہ وہ عموماً اس ذریعہ سے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں ،عبادت گزار ہو تے ہیں، بچتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ عموماً تکبر کا ہی یہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ شیطان انسان کو اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہوجاتاہے۔ تو یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ کہ یہ ہم نے بیعت کرتے ہوئے یہ شرط تسلیم کرلی کہ تکبر نہیں کریں گے، نخوت نہیں کریں گے، بکلی چھوڑ دیں گے۔ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کی مختلف قسمیں ہیں، مختلف ذریعوں سے انسانی زندگی پر شیطان حملہ کرتا رہتا ہے۔ بہت خوف کامقام ہے۔ اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو اس سے بچا جاسکتاہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے بھی اس ساتویں شرط میں ایک راستہ رکھ دیا۔فرمایا کیونکہ تم تکبر کی عادت کو چھوڑوگ ے تو جو خلا پیدا ہوگا اس کو اگر عاجزی اور فروتنی سے پُرنہ کیا تو تکبر پھر حملہ کرے گا۔ اس لئے عاجزی کو اپناؤ کیونکہ یہی راہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آپ نے خود بھی اس عاجزی کو اس انتہا ء تک پہنچا دیا جس کی کوئی مثال نہیں تبھی تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہوکر آپ کو الہاماً فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں۔ تو ہمیں جو آپ کی بیعت کے دعویدار ہیں، آپ کو امام الزمان مانتے ہیں، کس حد تک اس خُلق کو اپنانا چاہئے۔ انسان کی تو اپنی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ تکبر دکھائے اور اکڑتا پھرے۔ یہ قرآن شریف کی آیت میں پڑھتاہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا۔ (بنی اسرائیل: 32)

اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ تُو یقینا ًزمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔

جیساکہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے انسان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ کس بات کی اکڑ فوں ہے۔بعض لوگ کنویں کے مینڈک ہوتے ہیں، اپنے دائرہ سے باہر نکلنا نہیں چاہتے۔ اور وہیں بیٹھے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بڑی چیز ہیں۔

(خطبہ جمعہ 29؍ اگست 2003ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

میں اپنے خلیفہ سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں (سید طالع احمد شہید)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 ستمبر 2021