• 19 مئی, 2024

بظاہر چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی بچنا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر عملی حالتوں کی تبدیلی میں ہر برائی جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے اُس کو چھوڑنا اور ہر نیکی جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے اس کا اختیار کرنا شامل ہے۔ پس ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہر وقت سامنے رکھنا ہو گا کہ قرآنِ کریم کے سات سو حکموں میں سے ایک حکم کی بھی نافرمانی نہ کرو۔

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ26)

پس ہمیشہ ہمیں اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ بظاہر چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی بچنا ہے۔ شروع میں جو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس پڑھا ہے، اُس میں آپ نے یہی توجہ دلائی ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں میں مبتلا ہو کر یہ نہ سمجھو کہ یہ گناہ نہیں ہے۔ جو بظاہر کسی کو نظر نہیں آ رہے، اُن گناہوں کو اپنی عارفانہ خوردبین استعمال کر کے دیکھو، خود تلاش کرو، اپنے جائزے لو۔ پھر پتہ لگے گا کہ یہ حقیقت میں گناہ ہے۔ ریا کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دی ہے۔ اب یہ اکثر کسی کو بھی نظر نہیں آئے گی۔ خود انسان کو اگر وہ حقیقت پسند بن کے اپنا جائزہ لے تو پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کام جو وہ کر رہا ہے یہ دنیا دکھاوے کے لئے ہے یا خدا تعالیٰ کی خاطر؟ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ میرا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے اور ہو گا تو تبھی مجھے ثواب بھی ملے گا تو تبھی وہ نیک اعمال کی طرف کوشش کرتا ہے۔ تبھی وہ اس جستجو میں رہے گا کہ میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کی تلاش کروں اور اُن پر عمل کروں۔ اور جب یہ ہو گا تو پھر نہ ریا پیدا ہو گی نہ دوسری برائیاں پیدا ہوں گی۔

اسی طرح قرآنِ کریم میں رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کا حکم ہے۔ اس میں سب سے پہلے تو اپنے ماں باپ اور بیوی بچے ہیں۔ اسی طرح پھر آگے تعلق کے لحاظ سے۔ اس تعلق میں ایک بات کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ آجکل برداشت کی کمی مردوں اور عورتوں، دونوں میں بہت زیادہ ہے۔ حالانکہ برداشت اور صبر کی بھی خدا تعالیٰ نے بہت تلقین فرمائی ہے۔ اور اس کمی کی وجہ سے رشتے ٹوٹنے کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اور کسی کو یہ خیال نہیں رہتا کہ جن کے بچے ہیں، اس کے نتیجے میں بچوں پر کیا اثر ہو گا۔ پس دونوں طرف سے تقویٰ میں کمی ہے اور عملی حالتوں کی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔

پھر ہر احمدی کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ہماری سچائی دوسروں پر تب ظاہر ہوگی جب ہر معاملے میں ہمارے سے سچائی کا اظہار ہوگا۔ اگر ہمارے ذاتی معاملات میں اپنے مفادات میں ہمارے رویّے خودغرضانہ ہوجائیں تو بیعت میں آنے کے بعد جو عملی اصلاح کا عہد ہے، اُس کو ہم پورا کرنے والے نہیں ہو سکتے۔ قرآنِ کریم تو کہتا ہے کہ اگر تمہیں سچائی اور انصاف کے لئے اپنے خلاف یا اپنے والدین کے خلاف یا اپنے قریبیوں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو۔ لیکن عملاً ہمارے طریق اور عمل اس سے مختلف ہوں تو ہم کیا انقلاب لائیں گے۔ میں اکثر انصاف کے قیام کے لئے غیروں کو قرآنِ کریم کے اس حکم کا بھی حوالہ دیتا ہوں اور دعویٰ کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ہی صحیح اسلامی تعلیم پر چلنے والی ہے۔ لیکن اگر کسی غیر کے تجربے میں احمدی کے عمل اس سے مختلف ہیں تو اس پر اس بات کا کیا اثر ہو گا؟ ایسے احمدی احمدیت کی تبلیغ کے راستے میں روک ہیں۔ پس اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اپنے محاسبے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح قرآنِ کریم کے بے شمار حکم ہیں۔ پس ہماری عملی اصلاح تب مکمل ہو گی جب ہم ہر لحاظ سے، ہر پہلو سے اپنے جائزے لیں، اپنی برائیوں کو دیکھیں۔ جب ہماری عملی اصلاح ہو گئی تب ہم سمجھ سکیں گے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ صرف ماننے سے، آپ کے تمام دعاوی پر یقین کرنے سے ایک حصے کو تو ہم ماننے والے ہو گئے لیکن ایک حصہ چھوڑ دیا جو نہایت اہم ہے۔

(خطبہ جمعہ 30؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

میں اپنے خلیفہ سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں (سید طالع احمد شہید)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 ستمبر 2021