• 20 اپریل, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ مختلف ممالک و شہور (قسط 6)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
دربارہ مختلف ممالک و شہور
قسط6

ارشادات برائے ہوشىار پور اور جالندھر

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
مىں نے سنا ہے کہ جب اول ہى اول انگر ىز آئے تو ہوشىار پور مىں کسى مؤذن نے او نچى اذان کہى؛چونکہ ابھى ابتداتھى اور ہندوؤں اور سکھوں کا خىال تھا کہ ىہ بھى اونچى اذان کہنے پر روکىں گے۔ ىا ان کى طرح اگر گائے کو کسى سے زخم لگ جاوے، تو اس کا ہاتھ کا ٹىں گے۔ اس اونچى اذان کہنے والے مؤذن کو پکڑ لىا۔ اىک بڑا ہجوم ہو گىا اور ڈپٹى کمشنر کے سامنے وہ لاىا گىا۔ بڑے بڑے رئىس مہاجن جمع ہوئے اور کہا حضور! ہمارے آٹے بھرشٹ ہو گئے۔ ہمارے برتن ناپاک ہو گئے۔ جب ىہ باتىں اس انگرىز کو سنائى گئىں تو اسے بڑا تعجب ہوا کہ کىا بانگ مىں اىسى خاصىت ہے کہ کھانے کى چىز ىں ناپاک ہو جاتى ہىں۔ اس نے سر رشتہ دار سے کہا کہ جب تک تجربہ نہ کر لىا جاوے اس مقدمہ کو نہ کر نا چا ہىے؛ چنانچہ اس نے مؤذن کو حکم دىا کہ تو پھرا سى طرح بانگ دے وہ ڈرا کہ شاىد دوسرا جرم نہ ہو، مگر جب اس کو تسلى دى گئى اس نے اسى قدر زور سے بانگ دى۔ صاحب بہادر نے کہا کہ ہم کو تو اس سے کوئى ضرر نہىں پہنچا۔ سر رشتہ دار سے پوچھا کہ تم کو کوئى ضرر پہنچا۔ اس نے بھى کہا کہ حقىقت مىں کوئى ضرر نہىں۔ آخر اس کو چھوڑ دىا گىا اور کہا گىا۔ جاؤ جس طرح چاہو با نگ دو۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ! ىہ کس قدر آزادى ہے اور کس قدر اللہ تعالىٰ کا احسان ہے! پھر اىسے احسان پر اور اىسے انعام صرىح پر بھى اگر کوئى دل گورنمنٹ انگرىزى کا احسان محسوس نہىں کرتا۔ وہ دل بڑا کافر نعمت اور نمک حرام اور سىنہ سے چىر کر نکال ڈالنے کے لائق ہے۔

(ملفوظات جلداول صفحہ432 جدىد اىڈىشن)

 حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
بات ىہ ہے کہ نىک بختى اور تقوىٰ کى طرف توجہ کرنى چاہىے اور سعادت کى راہىں اختىار کرنى چاہئىں۔ تب ہى کچھ ہوتا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا ىُغَىِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰى ىُغَىِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ (الرعد: 12) خدا تعالىٰ کسى قوم کى حالت نہىں بدلتا جب تک کہ خود قوم اپنى حالت کو تبدىل نہ کرے۔ خواہ نخواہ کے ظن کرنے اور بات کو انتہا تک پہنچانا بالکل بے ہودہ بات ہے۔ ضرورى بات ىہ ہے کہ لوگ خدا تعالىٰ کى طرف رجوع کرىں۔ نماز پڑھىں، زکوٰة دىں، اتلافِ حقوق اور بدکارىوں سے باز آئىں۔ ىہ بات خوب طور پر ثابت ہے کہ بعض اوقات جب اىک بدى کرتا ہے تو وہ سارے شہر اور گھر کى ہلاکت کا موجب ہو جاتى ہے۔ پس بد ىاں چھوڑ دىں کہ وہ ہلاکت کا موجب ہىں۔ جالندھر اور ہوشىار پور کے 80گاؤں مبتلا ہىں۔ پھر کىوں غفلت کى جاوے۔ اور گورنمنٹ پر جاہلانہ طور پر بدگمانى نہ کرو۔

 اگر تمہارا ہمساىہ بد گمانى کرتا ہوتو اسے سمجھا دو۔ کہاں تک انسان غفلت کرے گا۔ اس دن سے ڈرنا چا ہىے جب اىک دفعہ ہى و با آپڑے اور تباہ کر ڈالے۔ حدىث مىں آىا ہے کہ قبل از وقت دعا قبول ہوتى ہے۔ خوف و خطر مىں جب انسان مبتلا ہوتا ہے تو اىسے وقت مىں تو ہر شخص دعا اور رجوع کر سکتا ہے۔ سعادت مند وہى ہے جو امن کے وقت دعا کرے۔ انسان ان لوگوں کى حالت کو معائنہ کرے جو اس خطرہ مىں مبتلا ہىں۔ ىہاں سے تو بہت قرىب ہے۔ آدمى وہاں کے حالات درىافت کرے۔ ابھى تک جالندھر کے ضلع مىں ترقى پر ہے۔ گو ہوشىار پور کے ضلع مىں کمى پر ہے۔

(ملفوظات جلداول صفحہ239-240 جدىد اىڈىشن)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
طاعون کا قاعدہ ہے کہ وہ سخت پرواز کر کے پرندے کى طرح دوسرے مقام مىں پہنچتى ہے۔ اس کى رفتار مىں اىسا نظام نہىں ہے کہ منزل بہ منزل جاوےبلکہ دو چارسوکوسں کا فاصلہ طے کر کے ىکلخت جاپہنچتى ہے۔

اب بمبئى اور جالندھر کى ہى بابت خىال کرو کہ ان مىں کس قدر فاصلہ ہے۔ اب بتلاؤ کہ انسان اس کے جالندھر مىں پہنچنے کى بابت کىا نظام رفتار کا قائم کر سکتا ہے۔ الغرض اس کى رفتار کى نسبت کوئى کچھ نہىں کہہ سکتا۔ آج عافىت سے گزرتى ہے کل کىا ہو۔ ىہ خطرناک بات ہے۔ اس کے دورے بڑے لمبے ہوتے ہىں۔ بعض اوقات ساٹھ ساٹھ سال تک اس کا دورہ ہوتا ہے اور ىہ اىک مسلم اور مقبول بات ہے۔ ہىضہ کى طرح نہىں کہ ساون بھادوں کے مہىنے مىں آ گىا اور بىس پچىس دن رہ کر رخصت ہوا۔ طاعون کوحکىموں نے نىزے سے مارنے والى لکھا ہے۔ طاعون مبالغہ کا صىغہ ہے جس کا نشانہ خطا نہىں جاتا۔ اور بکثرت اموات ہوتى ہىں۔ تورات مىں بھى اس کا ذکر ہے۔ موسىٰ علىہ السلام کے وقت مىں ىہودىوں پر پڑى تھى۔ تورات مىں خدا نے جہاں پھوڑوں کى مار سے ڈراىا ہے اس سے طاعون ہى مراد ہے۔ قرآن کرىم مىں بھى ىہودىوں کو نافرمانى پر طاعون سے ہلاک کرنے کا ذکر ہے۔

(ملفوظات جلداول صفحہ228 جدىد اىڈىشن)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
’’ابتلا کے وقت ہمىں اندىشہ اپنى جماعت کے بعض ضعىف دلوں کا ہوتا ہے۔ مىرا تو ىہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آوے کہ تو مخذول ہے اور تىرى کوئى مراد ہم پورى نہ کرىں گے تو قسم ہے مجھے اس کى ذات کى اس عشق و محبت الٰہى اور خدمت دىن مىں کوئى کمى واقع نہ ہوگى۔ اس لئے کہ مىں تو اسے دىکھ چکا ہوں۔‘‘ پھر ىہ پڑھا: ہَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِىًّا۔ (مرىم: 66)

(ملفوظات جلداول صفحہ411 جدىد اىڈىشن)

حضرت مولوى عبد الکرىم صاحبؓ فرماتے ہىں:
مجھے خوب ىاد ہے اور مىں نے اپنى نوٹ بک مىں اس کو لکھ رکھا ہے کہ جالندھر کے مقام پر اىک شخص نے حضرت اقدس امام صادق حضرت مىرزا صاحبؑ کى خدمت مىں سوال کىا کہ آپ کى غرض دنىا مىں آنے سے کىا ہے؟

آپ نے فرماىا کہ ’’مىں اس لئے آىا ہوں تالوگ قوت ىقىن مىں ترقى کرىں۔‘‘

اىک اور بات بھى ہے جو مىرى نوٹ بک مىں درج ہے اور وہ واقعہ بھى اسى جالندھر کا ہے۔ ہمارى جماعت کے اىک آدمى ہمارے بھائى منشى محمد اروڑا صاحب نے سوال کىا کہ حضرت اىمان کتنى طرح کا ہوتا ہے؟ آپ نے جو جواب اس کا فرماىا، بہت ہى لطىف اور سلىس ہے۔

فرماىا: ’’اىمان دو قسم کا ہوتا ہے۔ موٹا اور بار ىک۔ موٹا اىمان تو ىہى ہے کہ دىن العجا ئز پرعمل کرے اور بار ىک اىمان ىہ ہے کہ مىرے پىچھے ہو لے۔‘‘

(ملفوظات جلداول صفحہ1-2 جدىد اىڈىشن)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
وجودى مذہب والوں نے کىا بناىا۔ انہوں نے کىا معلوم کىا جو ہم کو معلوم نہ تھا؟ بنى نوع کو انہوں نے کىا فائدہ پہنچاىا؟ ان سارى باتوں کا جواب نفى مىں دىنا پڑے گا۔ اگر کوئى ضد اور ہٹ سے کام نہ لے تو ذرا بتائے تو سہى کہ خدا تو محبت اور اطاعت کى راہ بتاتا ہے؟ چنانچہ خودقر آن شرىف مىں اس نے فرماىا ہے:

وَ الَّذِىۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرة: 166) اور فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ (البقرة: 201) پھر کىا دنىا مىں کبھى ىہ بھى ہوا ہے کہ بىٹا باپ کى محبت مىں فنا ہو کر خود باپ بن جائے۔ باپ کى محبت مىں فنا تو ہوسکتا ہے، مگر ىہ نہىں ہوسکتا کہ باپ ہى ہو جاوے۔ ىہ ىاد رکھنے کے قابل بات ہے کہ فناء نظرى اىک اىسى شے ہے جو محبت سے ضرور پىدا ہوتى ہے، لىکن اىسى فنا جو درحقىقت بہانہ فنا کا ہو اور اىک جدىد وجود کے پىدا کرنے کا باعث بنے کہ مىں ہى ہوں، ىہ ٹھىک نہىں ہے۔

جن لوگوں مىں تقوىٰ اور ادب ہے اور جنہوں نے لَا تَقۡفُ مَا لَىۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ (بنى اسراءىل: 37) پر قدم مارا ہے وہ سمجھ سکتے ہىں کہ وجودى نے جو قدم مارا ہے وہ حد ادب سے بڑھ کر ہے۔ بىسىوں کتا بىں ان لوگوں نے لکھى ہىں، مگر ہم پوچھتے ہىں کہ کىا کوئى وجودى اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ واقعى و جودى مىں خدا ہے؟ ىا تصور ہے؟ اگر خدا ہى ہے۔ تو کىا ىہ ضعف اور ىہ کمزور ىاں جو آئے دن عاىد حال رہتى ہىں۔ ىہ خدا تعالىٰ کى صفات ہىں؟ ذرا بچہ ىا بىوى بىمار ہو جاوے تو کچھ نہىں بنتا اور سمجھ مىں نہىں آتا کہ کىا کىا جاوے مگر خدا تعالىٰ چاہے تو شفا دے سکتا ہے؛ حالانکہ وجودى کے اختىار مىں ىہ امر نہىں ہے۔ بعض وقت مالى ضعف اور افلاس ستاتا ہے؛ بعض وقت گناه اورفسق وفجور بے ذوقى اور بے شوقى کا موجب ہو جاتا ہے تو کىا خدا تعالىٰ کے شامل حال بھى ىہ امور ہوتے ہىں؟ اگر خدا ہے تو پھر اس کے سارے کام کُنْ فَىَکُوْنُ سے ہونے چاہئىں؛ حالانکہ ىہ قدم قدم پر عاجز اور محتاج ٹھوکرىں کھاتا ہے افسوس وجودى کى حالت پر کہ خدا بھى بنا پھر اس سے کچھ نہ ہوا۔ پھر عجب تر ىہ ہے کہ ىہ خدائى اس کو دوزخ سے نہىں بچا سکتى۔ کىونکہ خدا تعالىٰ فرماتا ہے وَ مَنۡ ىَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا ىَّرَہٗ (الزلزال: 9) پس جب کوئى گناہ کىا تو اس کا خمىازہ بھگتنے کے لئے جہنم مىں جانا پڑا اور سارى خدائى باطل ہوگئى۔ وجودى بھى اس بات کے قائل ہىں کہ فَرِىۡقٌ فِى الۡجَنَّۃِ وَ فَرِىۡقٌ فِى السَّعِىۡرِ (الشورى: 8) جب کہ وہاں بھى انسانىت کے تجسم بنے رہے، تو پھر اىسى فضول بات کى حاجت ہى کىا ہے جس کا کوئى نتىجہ اور اثر ظاہر نہ ہوا۔ غرض ىہ لوگ بڑے بىباک اور دلىر ہوتے ہىں اور چونکہ اس فرقہ کا نتىجہ اباحت اور بے قىدى ہے اس لئے فرقہ بڑھتا جاتا ہے۔ لاہور، جالندھر اور ہوشىار پور اضلاع مىں اس فرقہ نے اپنا زہر بہت پھىلاىا ہے۔ غور کر کے اس کے نتائج پر نظر کرو۔ بجز اباحت کے اور کچھ معلوم نہىں دىتا۔ ىہ لوگ صوم وصلوٰة کے پابند نہىں اور ہوبھى نہىں سکتے۔ کىونکہ خدا سے ڈرنا جس پر نجات کا مدار اور اعمال کا انحصار ہے وہ ان مىں نہىں ہے۔ بعض بالکل دہرىوں کے رنگ مىں ہىں۔

(ملفوظات جلددوم صفحہ285-287 جدىد اىڈىشن)

دوسرا سوال ىہ تھا کہ معجزہ کى قسم کے بعض امور اور لوگ بھى دکھاتے ہىں۔ فرماىا کہ مىں قصوں کو نہىں سنتا ىہ جو فرانس ىا کسى اور جگہ کے قصے سنائے جاتے ہىں ىہ کافى نہىں۔ سب سے پہلامعجزہ تو ىہ ہے کہ انسان پاک دل ہو بھلا پلىد دل کىا معجزہ دکھا سکتا ہے جب تک خدا سے ڈرنے والا دل نہ ہو تو کىا ہے؟ ضرورى ہے کہ متقى ہو اور اس مىں دىانت ہو اگر ىہ نہىں تو پھر کىا ہے؟ تماشے دکھانے والے کىا کچھ نہىں کرتے جالندھر مىں اىک شخص نےبعضے شعبدے دکھائے اور اس نے کہا کہ مىں مولوىوں سے ان کى بابت کرامت کا فتوىٰ لے سکتا ہوں مگر وہ جا نتا تھا کہ ان کى اصلىت کىا ہے وہ اس سلسلہ مىں داخل ہو گىا اور اس نے توبہ کى۔

جن ملکوں کے قصے بىان کئے جاتے ہىں وہاں اگر معجزات دکھانے والے ہوتے تو ىہ فسق و فجور کے در ىا وہاں نہ ہوتے۔ خدا تعالىٰ کے نشانات دل پر اىک پاک اثر ڈالتے ہىں اور اس کى ہستى کاىقىن دلا تے ہىں مگر ىہ شعبد ے انسان کو گمراہ کرتے ہىں ان کا خدا شناسى اور معرفت سے کوئى تعلق نہىں ہے اور نہ ىہ کوئى پاک تبدىلى پىدا کر سکتے ہىں اس لئے کہ وہ خدا کى طرف سے نہىں ہوتے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ381-382 جدىد اىڈىشن)

جالندھر سے اىک صاحب تشرىف لائے ہوئے تھے انہوں نے عرض کى کہ وہاں وجودىوں کا بہت زور ہے۔

 حضرت اقدس نے فرماىا کہ: اصل مىں ان لوگوں کا اباحتى رنگ ہے۔ دہرىوں مىں اور ان مىں بہت کم فرق ہے ان کى زندگى بے قىدى کى زندگى ہوتى ہے۔ خدا کے حدود اور فرائض کا بالکل فرق نہىں کرتے۔ نشہ وغىرہ پىتے ہىں، ناچ رنگ دىکھتے ہىں۔ زنا کو اصول سمجھتے ہىں۔

اىک دفعہ اىک وجودى مىرے پاس آىا اور کہا کہ مىں خدا ہوں۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھاىا ہوا تھا مىں نے اس کے ہاتھ پر زور سے چٹکى کاٹى حتى کہ اس کى چىخ نکل گئى تو مىں نے کہا کہ خدا کو دردبھى ہوا کرتا ہے؟ اور چىخ بھى نکلا کرتى ہے؟

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ173 جدىد اىڈىشن)

حضرت اقدس امام صادق علىہ الصلوٰۃ والسلام بوقت ظہر حسب معمول اندر سے مسجد مبارک مىں تشرىف لائے اور مسند کو زىب نشست بخش کر مولوى برہان الدىن صاحب جہلمى سے مخاطب ہو کر درىافت فرماىا کہ:

آپ کے چہر ہ پر آثار پژمردگى وپر پشانى وحىرانى کىسے نظر آرہے ہىں؟

عرض کى کہ حضور وجہ تو صرف ىہى ہے کہ اب دوسرا کنارہ ىعنى جہان ثانى نظر آ رہا ہے کىونکہ بوجہ پىرانہ سالى کے اب عالم آخرت کا بھى خىال رہتا ہے۔ گنتى ہى کے دن اب باقى سمجھنے چاہئے مزىد برآں عارضہ ضعف اور بھى اس کے سرىع الوقوع ہونے پر شاہد ہے اور ضعف کا ىہ باعث ہے کہ ابتدا مىں کچھ مراقبہ ونفى و اثبات کا کسى قدر شغل رکھا ہے جس سے ىہ عارضہ ضعف لاحق حال ہو گىا ہے۔

ىہ سن کر حضرت اقدس نے اىک معنىٰ خىز اور پر معارف لب ولہجہ کے ساتھ فرماىا کہ:
جب ىہ حالت ہے تب تو ضرور ہى ان تمام عارضى تحىرات کو ىکسورکھ کر صرف اىک ہى آستانہ بارگا ہ اىزدى پر نظر رکھنى چاہىے کىونکہ ہر اىک سعادت کىش و متلاشى حق روح کا ىہى مامن اور ىہى ملجا و ماوىٰ ہے اور چونکہ ىہ مسلمہ امر ہے کہ الله تعالىٰ کے پىارے مقرب کے پاس رہنا گوىا اىک طرح سے خود خدا تعالىٰ کے پاس رہنا ہوتا ہے اس و اسطےاب آپ کو باقى اىام زندگى اس جگہ قادىان مىں گذارنے چاہئىں اور ىہاں آ کر ڈىر الگادىنا چاہىے اور اس شعر پر کار بند ہونا چاہىے۔

؎چو کار عمر نا پىدا است بارے اىن اولىٰ
کہ روز واقعہ پىش نگارخود باشىد

 ىہاں تو مقولہ ’’ىک درگىر ومحکم گىر‘‘ پر عمل کرنا ضرورى و لازمى ہے ہر اىک کے لىے مناسب و واجب ہے کہ حسب استطاعت اپنے نفس کے ساتھ جہاد کر کے پورى سعى کرے تا کہ ٹھىک وقت پر سفر منزل محبوب حقىقى کے لىے تىارى کر سکے بغىر جوش محبت کے اس راہ پر قدم ما رنا بڑا مشکل ہے اور ساتھ ہى اس پر استقلال و استقامت ضرورى ہے جب ىہ امر حاصل ہو جاوے تو پھر الله تعالىٰ کے فضل و کرم سے جذب القلوب کاعمل بتدرىج خودبخود شروع ہو جاوے گا جس سے صادقىن کى محبت کى توفىق ملے گى اور اس صىقل تعشق الہٰى سے زنگا رآئىنہ دل محو ہو کر تزکىہ نفس وتطہىر قلب نصىب ہوگا۔ مگر تلاش حق کا بىج بونا مقدم ہے جس سے صدق و صفا کا پر ثمرنخل پىدا ہوتا ہے اور محبت ذات ربانى کى آب پاشى سے نشوونما پاتا ہے۔

؎بمنزل جانان رسدہمان مردے
کہ ہمہ دم در تلاش او دوان باشد

 آپ اپنى پہلى حالت کو ىاد کرىں جبکہ آغاز سال 1886ء مىں صرف حِسْبَۃًلِّلّٰہِ کا جوش آپ کو کشاں کشاں ىہاں لا ىا تھا اور آپ پا پىادہ افتاں و خىزاں اس قدر دور فاصلہ سے پہلے قادىان پہنچےتھے اور جب کہ ہم کو اس جگہ نہ پاىا تو اسى بىتابى و بىقرارى کے جوش مىں تگاپوکر کے پىدل ہى ہمارے پاس ہوشىار پور جا پہنچے تھے اور جب وہاں سے واپس ہونے لگے تو اس وقت ہم سے جدا ہونا آپ کو بڑاشاق گذرتا تھا اب تو اىسا وقت آ گىا ہے کہ آپ کو آگے ہى قدم مارنا چاہىے نہ ىہ کہ الٹا تساہل و تکاہل مىں پڑىں۔ اب تو زمانہ بزبان حال کہہ رہا ہے اور نشانات و علامات سماوى بآواز د ہل پىکار رہے ہىں کہ

چنىں زمانہ چنىں دور اىں چنىں برکات
تو بے نصىب روى وه چہ اىن شقا باشد
فلک قرىب زمىں شد ز بارش برکات
کجاست طالب حق تاىقىن فزا باشد
بجز اسىرى عشق رخش رہائى نىست
بدرد او ہمہ امراض را دوا باشد

غرض کہ پورى مستعدى و ہمت سے استقلال دکھلا وىں۔ ىہ آثار پژمردگى مىں برمحل معلوم نہىں ہوتے۔ ىہاں کار ہنا تو اىک قسم کا آستانہ اىزدى پر رہنا ہے۔ اس حوض کوثر سے وہ آب حىات ملتا ہے کہ جس کے پىنے سے حىات جاودانى نصىب ہوتى ہے جس پر ابدالآباد تک موت ہرگز نہىں آ سکتى۔ اچھى طرح کمر بستہ ہو کر پورے استقلال سے اس صراط مستقىم کے راہ رو بنىں اور ہر قسم کى دنىوى روکاوٹوں اور نفسانى خواہشات کى ذرہ پروانہ کر کے اللہ تعالىٰ کے صادق مامور کى پورى معىت کرىں تا کہ حکم کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِىْنَ (التوبہ: 119) کى فرمانبردارى کا سنہرى تمغہ آپ کو حاصل ہو۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ316-318 جدىد اىڈىشن)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
طاعون کو دىکھا ہے کہ پہلے ہنود مىں آتى ہے۔ بمبئى، سىالکوٹ، جالندھر وغىرہ مىں، پہلے ہنود سے شروع ہوئى اور جب مسلمانوں مىں گئى تو بھى ہنود کو شامل کرلىا۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ224 جدىد اىڈىشن)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
مىرى جماعت مىں بھى اىک شخص مولوى احمد جان صاحب وجودى تھے۔ کبھى انہوں نے مجھ سے اس مسئلہ پرگفتگو نہىں کى۔ اب تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہىں۔ اور سارى عمر اسى مىں گذار دى۔

ہم کسى کے زرخرىد نہىں۔ ہم تو اسلم اور روشن تر راہ اختىار کرتے ہىں۔ وجودىوں کے کوئى دشمن نہىں۔ ہم تو ان کو قا بل رحم سمجھتے ہىں۔

اس پر نو وارد صاحب نے آىت ھُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ (الحديد: 4) وحدت وجود کے ثبوت مىں پىش کى۔

فرماىا: -اللہ تعالىٰ کا کلام اىسا ہے کہ اس کى تفصىل بعض آىت کى بعض آىت سے ہوتى ہے۔ اول کى تفسىر ىہ ہے کہ کَانَ اللّٰہُ وَلَمْ ىَکُنْ مَّعَہٗ شَىْءٌ۔ آخر کے معنے کىے کُلُّ مَنْ عَلَىْھَا فَانٍ (الرحمٰن: 25) ہم تو انہىں معنوں کو پسند کرىں گے جو خدا نے بتلائے ہىں۔

افسوس ہے کہ اس زمانہ کے ىہودى صوم و صلوٰۃ کے تو پابند ہى نہىں اور قرآن کو بھى کھول کر دىکھا ہى نہىں۔ ہاں مىں اپنے اس ملک کى بات کرتا ہوں۔ جس مىں جالندھر، بٹالہ، ہوشىار پور، سىالکوٹ وغىرہ شامل ہىں۔ ان لوگوں کو مىں نے شراب خوروں، بھنگىوں اور دہرىوں کى مجلس مىں اکثر دىکھا ہے۔ اکثر کہتے ہىں کہ وجودى وہ ہے جو خدا کا نام بھى نہ لے بلکہ جو کچھ ہے مخلوق ہے۔ پس ىہ لوگ کہتے ہىں کہ اعلىٰ و جودى وہ ہے کہ جس کولوگ دہر ىہ کہتے ہىں۔ پس ہر شخص اپنے قول وفعل کا خود مہ دار ہے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ226 جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے ڈلہ

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
موضع ڈلہ مىں گلاب شاہ اور مہتاب شاہ دو بھائى تھے۔ وہ گرنتھ ہى پڑھا کرتے تھے اور ىہ معمولى بات ہے کہ ملوک کے خىالات کا مذہب، طرز لباس وغىرہ ہر قسم کے امور کا اخلاقى ہوں ىا مذہبى بہت بڑا اثر رعاىا پر پڑتا ہے۔ جىسے ذکور کا اثر اناث پر پڑ تا ہے۔ اس لىے فرماىا گىا ہے کہ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (النساء: 35) اسى طرح پر رعىاىا پر ملوک کا اثر ضرورى ہے۔ سکھوں کى عملدارى مىں وہ پگڑىاں باندھا کرتے تھے اور اب تک بھى رىاستوں مىں اس کا بقىہ چلا جاتا ہے۔ جب اىک دوسرے سے ملا کرتے تھے، تو سب اىک ہى لفظ بولا کرتے تھے۔ ’’سکھ ہے‘‘

(ملفوظات جلداول صفحہ403 جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے بىروت

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
عىسائى چونکہ لعنت کے مفہوم اور منشاء سے ناواقف تھے، اس لىے مسىح کو ملعون قرار دىتے وقت انہوں نے کچھ نہىں سوچا کہ اس کا انجام آخر کىا ہو گا؟ علاوه بر ىں چونکہ عربى سے انہىں بغض تھا، اس لىے عبرانى مىں بھى پورى مہارت حاصل نہ کر سکے۔ ىہ دونوں زبانىں اىک ہى درخت کى شاخىں ہىں اور عربى جانے والے کے لىے عبرانى کا پڑھنا سہل تر ہے مگر عىسائى بوجہ بغض عبرانى لغت سے بھى فائدہ نہ اٹھا سکے۔

لعنت کا مفہوم ىہ ہے کہ کوئى خدا تعالىٰ سے سخت بىزار ہو جاوے اور خدا تعالىٰ اس سے بىزار ہو جاوے۔ عىسائىوں کے اپنے مطبع کى چھپى ہوئى لغت کى کتا بىں جو بىروت سے آئى ہىں۔ ان مىں بھى لعنت کے ىہى معنے لکھے ہوئے ہىں۔ اور لعىن شىطان کو کہتے ہىں۔ مجھے ان لوگوں کى سمجھ پر سخت افسوس آتا ہے کہ انہوں نے اپنے مطلب کى خاطر اىک عظىم الشان نبى کى سخت بے حرمتى کى ہے اور اس کو لعىن ٹھہراىا ہے اور انہوں نے اس پر کچھ بھى توجہ نہىں کى کہ لعنت کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ جب تک دل خدا سے برگشتہ نہ ہو لے ملعون نہىں ہوسکتا۔ اب کسى عىسائى سے پوچھو کہ کىا عربى اور عبرانى لغت مىں لعنت کے ىہ معنى متفق علىہ ہىں ىا نہىں؟ پھر اگر دل مىں شرارت اور ہٹ دھرمى نہىں ہے اور محض خدا تعالىٰ کى رضا کے لىے اىک مذہب کو اختىار کىا جا تا ہے تو کىا اىک لعنت ہى کا مضمون عىسائى مذہب کے استىصال کے لىے کافى نہىں ہے؟ اول غور کرے کہ جب ىہ بات مسلم تھى اور پہلے تورىت مىں کہا گىا تھا کہ وہ جو کاٹھ پر لٹکاىا گىا وہ لعنتى ہے اور وہ کاذب ہے تو بتاؤ جو خود ملعون اور کاذب ٹھہر گىا وہ دوسروں کى شفاعت کىا کرے گا؟

او خوشتن گم است کرار ہبرى کُند

 مىں سچ کہتا ہوں کہ جب سے ان عىسائىوں نے خدا کو چھوڑ کر الوہىّت کا تاج اىک عاجز انسان کے سر پر رکھ دىا ہے اندھے ہو گئے ہىں ان کو کچھ دکھائى نہىں دىتا۔ اىک طرف اسے خدا بناتے ہىں۔ دوسرى طرف صلىب پر چڑھا کرلعنتى ٹھہراتے ہىں اور پھر تىن دن کے لىے ہاوىہ مىں بھى بھىجتے ہىں۔ کىا وہ دوزخ مىں دوزخىوں کو نصىحت کرنے گئے تھے ىا ان کے لىے وہاں جا کر کفارہ ہونا تھا؟

(ملفوظات جلددوم صفحہ497-498 جدىد اىڈىشن)

(جارى ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اکتوبر 2021