• 5 مئی, 2024

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 64)

حروف تخصیص

گزشتہ سبق میں ہم نے حروف تخصیص پر بات شروع کی تھی اس سبق میں ہم اس بحث کو مکمل کریں گے۔ حروف تخصیص یہ ہیں:ہی، تو، بھی، ہر۔آج جس حرف سے با ت شروع کی جائے گی وہ ہے:ہی یہ بعض اسما Nouns اور ضمائر جو کے ضمیر کی جمع ہے جس کو انگریزی میں Pronoun کہتے ہیں کے ساتھ مل کر مرکب الفاظ بناتا ہے۔ مرکب الفاظ کا مطلب ہے ایسے الفاظ جو ایک سے زائد الفاظ سے مل کر بنیں مگر ایک مخصوص معنی دیں۔

کب سے کبھی، جب سے جبھی، اب سے ابھی۔ اسی طرح تب سے تبھی، سب سے سبھی، کہاں سے کہیں، وہاں سے وہیں، یہاں سے یہیں، وہ سے وہی، یہ سے یہی، اُس سے اُسی، اِس سے اِ سی، تم سے تمھیں، ہم سے ہمیں، تجھ سے تجھی، مجھ سے مجھی، یوں سے یونہی وغیرہ۔

ان الفاظ کو جملوں میں استعمال کرکے ان کے فرق کو سمجھتے ہیں:
یہ وبا دنیا سے کب جائے گی۔ یہ وبا دنیا سے کبھی تو جائے گی۔ وہ جب آئے میرا پیغام اسے دینا۔ میں ان سے بات کر رہا تھا جبھی پولیس اندر آئی۔ جب سے بارش ہوئی تب سے راستہ بند ہے۔ کسی کا خوف تھا تبھی تم خاموش رہے۔ سب بچے پڑھ رہے ہیں سبھی بچوں کو اسکول کہاں میسر ہے۔ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ کہیں سے آواز آرہی ہے۔ یہ چیزوہاں رکھ دو۔ وہ گیند وہیں سے پھینک دو۔ یہاں سے ہجرت کرکے کہاں جاؤگے۔ یہیں پر اپنا مکان تعمیر کرلو۔ وہ لڑکا یاد ہے۔ وہی جس نے تمھاری مدد کی تھی۔ یہ ایک نئی دکان کھلی ہے۔ یہی سب سے اچھی بھی ہے۔

امید ہے ان مثالوں سے آپ کو ان مرکب الفاظ کے معنوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک لفظ بلکل اور ہی معنی دیتا ہے مگر جب حروف تخصیص یعنی Definite/indefinite articles کسی اسم، صفت وغیرہ کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو معنی بدل جاتے ہیں۔

اسمائے کیفیت

جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے یہ اسما یعنی Nouns ہیں۔ ہر زبان بنیادی طور پر اسما یعنی Nouns کا ہی مجموعہ ہوتی ہے۔ ان اسما کو کسی زبان میں ایک بنیادی اکائی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ انھیں اسما کو مختلف زمانوں اور حالات کے مطابق گرامر کے اصولوں کے ذریعے آپس میں بار بار جوڑا جاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اردو میں اسما ئے کیفیت بنانے کے کیا کیا طریقے ہیں۔

1۔ افعال یعنی Verb کا مادہ اس وقت بنتا ہے جب ایک مصدر یعنی infinitive کی علامت نا کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ اس مادے کو بطور اسمائے کیفیت کے استعمال کرتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں ہارنا ایک مصدر یعنی infinitive ہے اس کا نا ہٹانے سے باقی رہ جاتا ہے ہار جو کہ ایک اسم یعنی noun ہے جو ایک کیفیت کو بیان کررہا ہے۔ جیسے اسے ہار قبول نہیں۔ ہار جیت کی باتیں نہیں کرو۔ یہاں جیتنا سے بنا ہے جیت جو ایک اسم کیفیت ہے۔ مزید مثالیں:مار، پھیر، تاک جیسے اس کی تاک میں رہتا ہے، سیک جیسے یہاں آگ کا بہت سیک ہے، بول، لوٹ، روک ٹوک۔

2۔ بعض اوقات علامت مصدر نا ہٹا کر درمیانی حصہ کو الف، ی وغیرہ کا اضافہ کرکے لمبا کردیتے ہیں اس طرح وہ ایک اسم بن جاتا ہے جیسے اترنا ایک فعل ہے اب اس کا نا ہٹا دیں تو فعل کا مادہ بن جاتا ہے یعنی اتر اب اگر ت کے بعد الف کا اضافہ کردیں تو بن جائے گا اتار جیسے پانی کا اتار، قیمتوں کا اتار وغیرہ پس اتار ایک اسم کیفیت ہے۔ اسی طرح چلنا سے چل اور پھر چال، ٹلنا سے ٹل اور پھر ٹال جیسے اس نے مجھے ٹال دیا یعنی کوئی بہانہ کرکے کام میں یا التجا میں تاخیر ڈال دینا۔ ملنا سے مل اور پھر میل یعنی Company جیسے کہتے ہیں میل جول بڑھانا یعنی تعلقات بڑھانا یہی لفظ اگر م پر زبر سے پڑھا جائے تو اس کا مطلب ہے گندگی جیسے اس کے جسم پر بہت مَیل جمی ہے۔ اسی طرح اگر اسے جمیل یا ذلیل کی طرح پڑھیں جیسے مِیل تو اس کا معنی ہوگا فاصلہ ناپنے کی ایک اکائی جیسے ربوہ فیصل آباد سے کتنے میل Miles دور ہے۔ پس اس کے تین انداز اور معنی ہیں میل (male) بروزن تیل یعنی ملنا وغیرہ، میل (meel) بروزن جمیل یا کیل یعنی اکائی اور میل بروزن ذیل، لَیل، پھیل وغیرہ یعنی گندگی جو کسی چیز پر یا عضو بدن پر لمبا عرصہ صفائی نہ کرنے سے جم جاتی ہے جیسے گرد وغیرہ۔

3۔ اس طرح فعل کے مادے کے آخر میں الف کے بڑھانے سے بھی بعض اسم بنتے ہیں۔ جیسے جھگڑنا سے مادہ ہے جھگڑ اور اسم ہے جھگڑا اسی طرح پھیرنا سے مادہ پھیر اور اسم پھیرا یہاں پھیر اور پھیرا دونوں ہی اردو میں بطور اسم کے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے یہ سب قسمت کا پھیر ہے یعنی چکر، چال یا طریق۔ اسی طرح یہ تمھارا لاہور کا دوسرا پھیرا ہے۔ یعنی دورہ، سیر، سفر و غیرہ۔ مزدوری میں بھی یہ لفظ کثرت سے استعمال ہوتا ہے جیسے وہ گلیوں میں پھیرا لگا کر سبزی بیچتا ہے۔ پھیرا سے پھیری بھی استعمال ہوتا ہے جیسے اس پھیری والے کو بلاؤ۔ یہ باب اگلے سبق میں بھی جاری رہے گا۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اور اخلاقی حالتوں کے دوسرے سرچشمہ کا نام قرآن شریف میں نفس لوامہ ہے جیسا کہ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ (القیامہ: 3)۔ یعنی میں اس نفس کی قسم کھاتا ہوں جو بدی کے کام اور ہر ایک بے اعتدالی پر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے۔ یہ نفس لوامہ انسانی حالتوں کا دوسرا سرچشمہ ہے۔ جس سے اخلاقی حالتیں پیدا ہوتی ہیں اور اس مرتبہ پر انسان دوسرے حیوانات کی مشابہت سے نجات پاتا ہے اور اس جگہ نفس لوامہ کی قسم کھانا اس کو عزت دینے کے لئے ہے گویا وہ نفس امارہ سے نفس لوامہ بن کر بوجہ اس ترقی کے جناب الٰہی میں عزت پانے کے لائق ہوگیا اور اس کا نام لوامہ اس لئے رکھا کہ وہ انسان کو بدی پر ملامت کرتا ہے اور اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ انسان اپنے طبعی لوازم میں شتر بے مہار کی طرح چلے اور چارپایوں کی زندگی بسر کرے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ اس سے اچھی حالتیں اور اچھے اخلاق صادر ہوں اور انسانی زندگی کے تمام لوازم میں کوئی بے اعتدالی ظہور میں نہ آوے اور طبعی جذبات اور طبعی خواہشیں عقل کے مشورہ سے ظہور پذیر ہوں۔ پس چونکہ وہ بری حرکت پر ملامت کرتا ہے اس لئے اس کا نام لوامہ ہے یعنی بہت ملامت کرنے والا۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ317-318)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

بے اعتدالی: توازن سے ہٹی ہوئی حالت Imbalanced

اپنے تئیں: اپنے آپ کو، خود کو۔

حیوانات: حیوان کی جمع یعنی جانور۔

مشابہت سے نجات: یعنی ایسی حالت سے نکل جانا جو کسی دوسری چیز سے ملتی جلتی ہو یا ہوبہو اس جیسی ہو۔

بوجہ: یعنی اس وجہ سے۔

جناب الہیٰ: اللہ تعالیٰ کے حضور۔

لائق: To qualify

طبعی لوازم: فطرت انسانی کے تقاضے۔

شتر بے مہار: ایک محاورہ ہے اس کے معنی ہیں بلا روک ٹوک ایک کام کرنا، بے قابو ہوکر زندگی گزارنا۔ شتر کا معنی ہے اونٹ اور بے مہا ر یعنی جس کو قابو نہ کیا گیا ہو، سدھایا نہ گیا ہو اور وہ بے قابو ہو کر جدھر چاہے جائے۔

صادر ہونا: ظاہر ہونا، واقع ہونا۔ To execute to do

لوازم: ضروری چیزیں، ضروری مال و اسباب، ضروری سامان،وہ امور جو ضروری ہوں، ضروری نتائج۔جیسے کھانا پینا، نکاح کرنا وغیرہ زندگی کے لوازم ہیں۔

ظہور: ظاہر ہونا، نمایاں ہونا۔

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 7)