• 26 اپریل, 2024

حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیتِ دعا کے ایمان افروز واقعات

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بارہ میں بتایا گیا تھا کہ وہ ’’قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان‘‘ ہوں گے۔ چنانچہ آپؓ کے وجود میں یہ پیشگوئی اس طرح بھی پوری ہوئی کہ آپؓ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت کی بدولت اور اس کی قربت کے صدقے ایک انتہائی مستجاب الدعوات وجود تھے۔ ذیل میں حضورؓ کی معجزانہ قبولیت دعا کے چند واقعات بطور مشتے از خروارے پیش ہیں۔

دونوں آنکھیں درست ہوگئیں

مکرم فتح محمد صاحب حضرت اماں جانؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیںکہ 1917ء کا واقعہ ہے مجھے ککروں کی تکلیف تھی ۔ایک رات مجھے سخت تکلیف ہوئی اور میں ساری رات نہ سوسکا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓکوبلایا۔حضرت میر صاحب تشریف لائے او راپنے ہاتھوں سے دوائی لگاکر چلے گئے او رشدتِ بیماری کا مجھ سے یا میری بیوی سے ذکر نہ کیا۔ البتہ گھر جاکر حضرت امیر المومنین حضر ت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور حضر ت اماں جان ؓسے ذکر کیا کہ فتح محمد کی دائیں آنکھ توقریبًا ضائع ہوچکی ہے اور آنکھوں کی پتلی سے لے کر آنکھ کے آخر تک زخم ہے اور آنکھ کے اندر سفیدی نظر آتی ہے۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور حضر ت اماں جانؓ کے دلوں میں درد اور ترحُّم پیدا ہوا اور اسی وقت میرے لئے دعا کی اور رات حضرت امیرالمومنین ؓ نے رؤیامیں دیکھا کہ میں حضور کے سامنے بیٹھا ہوں اور میری دونوں آنکھیں صحیح سلامت ہیں۔ یہ رؤیاحضور نے صبح ہی حضرت اماں جان ؓکو سنایا تو حضرت اماں جانؓ اسی وقت خوش خوش ہشاش بشاش ہمارے گھر تشریف لائیں اور میرے گھر آکر مبارک باد دی کہ اللہ تعالیٰ جلد صحت دے گا اور حضرت میر صاحب کی رپورٹ اور حضرت امیر المومنینؓ کے رؤیا کا ذکر کیا اور فرمایا اب اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوگا اور صحت ہوجائے گی۔

بعدمیں حضرت میر صاحبؓ خود تشریف لائے اور آنکھ کا معائنہ کرنے کے بعد سخت حیرت ہوئی کہ ایک رات میں زخم کا 8/7حصہ مندمل ہوگیا ہے۔ اس کے بعد بیماری گھٹنی شروع ہوئی او ر میری دونوں آنکھیں درست ہوگئیں اور اللہ تعالیٰ نے ایک لمباعرصہ خدمتِ سلسلہ کا موقع دیا۔ باوجود ہندوستان کے بعض ایسے علاقوں میں کام کرنے کے جہاں لو اور دھوپ سے آنکھوں کے خراب ہونے کا خدشہ تھا میری آنکھیں بالکل ٹھیک ہو گئیں۔

(نصرت الحق صفحہ40)

ہم دعا کریں گے

مکرم میاں فضل الٰہی صاحب احمدی آف لالہ موسیٰ کی اہلیہ بعض نسوانی بیماریوں کی وجہ سے بیمارہوگئیں۔ ایام ماہواری کی بے قاعدگی، لیکوریا، قلتِ دم وغیرہ بیماریوں نے ان کو گھیر لیا۔مکرم فضل الٰہی صاحب اس کی تفصیل اس طرح بیان فرماتے ہیں: جب بیماریوں نے طول کھینچا تو میں نے بہت سے ماہر ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹروں سے ان کا علاج کروایا لیکن افاقہ نہ ہوا۔بعض لیڈی ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد بتایا کہ میری اہلیہ کے رحم میں نقص واقع ہوگیا ہے اور خدشہ ہے کہ آئندہ سلسلۂ تولید بند ہوجائے گا۔ میں نے اس فکر میں حضر ت سیدنا خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو دعا کے لئے متواتر خطوط لکھے۔ ان کے جواب میں حضرت مصلح موعود ؓنے ازراہ شفقت تحریر فرمایا کہ ان شاء اللہ ہم دعا کریں گے لیکن آپ بچہ دانی کی اصلاح کے لئے جوان بکری کی بچہ دانی کی یخنی صبح شام دودفعہ ہفتہ عشرہ تک اپنی بیوی کو استعمال کروائیں۔ چنانچہ میں نے حضور کی ہدایت کے مطابق استعمال کروائی۔ اس کے بعد جب لیڈی ڈاکٹر کومعائنہ کروایا گیا تو وہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بچہ دانی بالکل درست او رصحیح ہے اور اس میں کوئی نقص باقی نہیں رہا۔اور اس کے بعد میاں فضل الٰہی صاحب کی اہلیہ کے گھر کئی تندرست بچے تولد ہوئے۔ فالحمد للہ علی ذلک

(حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ115)

ہم سب مولوی صاحب کی صحت کے لئے دعا کرتے ہیں

حضرت مولاناغلام سول صاحب راجیکی ؓ حیات قدسی میں رقم طراز ہیں 1943:ء کا واقعہ ہے کہ میں تپِ محرقہ میں سخت بیمار ہوگیا اور علاج کے باوجود بخار میں دن بدن زیادتی ہوتی گئی۔ ایک ماہ گزر نے کے باوجود میرابخار نہ اترا۔ بخار کے ساتھ ہی اسہال بھی شروع ہوگئے اور ضعف اور کمزوری کی وجہ سے میں اکثر بے ہوش رہتا۔ یہاں تک کہ ایک دن غلطی سے میری موت کی افواہ بھی شہر میں پھیل گئی۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے جب میری حالتِ نازک دیکھی توآپؓ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حضور ڈلہوزی پہنچے او ر اس حقیر خادم کے لئے درخواستِ دعا کی۔حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ہم سب مولوی صاحب کی صحت کے لئے دعائیں کررہے ہیں۔چنانچہ سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور آپ کے اہلِ بیت کی دردمندانہ دعائیں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کو کھینچنے کا باعث بنیں اور میں روبصحت ہونے لگا۔

(حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ27)

اور نزع کی سی کیفیت وارد ہوگئی

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کا ایک اور واقعہ تحریر فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے مجھ (حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی) پر بے حدونہایت احسان ہوئے۔ 3نومبر 1957ء کوبندش بَول سے بیمار ہوکر کوئی ایک ماہ سے اوپر شدید بیمار رہا۔ایک وقت مجھ پر ایسا آیاکہ میری آنکھیں پتھر اگئیںاور نزع کی کیفیت وارد ہوگئی۔ چھت کی ایک کڑی پر میری نظر تھی لیکن حرکت نہ کرسکتا تھا۔ میرے تمام بیٹے خدمت میں مصروف تھے۔حضرت مصلح موعودؓ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اور دوسرے بہت سارے بزرگ میرے حق میں دعائیں کرتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا منشاء تھاکہ لاہور لے جاکر میو ہسپتال میں علاج کرایا جائے۔ پسرم عزیز محمد احمد سلمہٗ نے عرض کیاکہ اڈہ بس تک لے جانے پر ہی اباجان کی وفات ہوجائے گی۔

ایک روز میاں غلام محمد صاحب اختر عیادت کے لئے آئے۔ میری حالت بہت نازک تھی۔ میں نے چشم پرآب ہوکر کہاکہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوں تومیری طرف سے بعد السلام علیکم عرض کریں کہ بادشاہوں کے ہاں شادی وغیرہ خوشی کی تقریبات پر قیدی رہاکئے جاتے ہیں۔ حضور کے خاندان میں بھی ایک ایسی تقریب ہے۔ میں مرض کا اسیر ہوں۔ دعا کر کے مجھے مرض سے آزاد کرائیں۔ اختر صاحب نے بعد میں بتایاکہ جب میں نے پیغام عرض کیا تو حضور کے چہرہ سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ حضور نے دعا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قبولِ دعا کایہ نشان دکھایا کہ ایک ماہ سے زائد عرصہ سے آلہ کے ساتھ پیشاب خارج کیا جاتا تھا اس واقعہ کے بعد مجھے خیال آیا کہ خود پیشاب کرکے دیکھوں۔ میری حیرت کی انتہانہ رہی جب کہ پیشاب خودہی خارج ہوگیا اور بعدازاں باقاعدہ آنے لگا۔ فالحمد للہ علی ذلک۔ میرے دل پر یہ غالب اثر ہے کہ یہ حضور کی قبولِ دعا کا نشان تھا جس میں دوسرے بزرگوں کی دعائیں بھی شامل تھیں۔

(اصحاب احمد جلد3 صفحہ142-141)

موت ٹلتی نہیں مگر دعا سے

حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی الٰہ دین صاحب آف سکندرآباد الحکم قادیان کی ایک اشاعت میں تحریر فرماتے ہیں:
1918ء میں مَیں نے اپنے لڑکے علی محمدصاحب اور سیٹھ الٰہ دین ابراہیم بھائی نے اپنے لڑکے فاضل بھائی کو تعلیم کے لئے قادیان روانہ کیا۔علی محمدنے 1920ء میں میٹرک پاس کرلیا۔ان کو لنڈن جانا تھا۔ دونوں لڑکے مکان واپس آنے کی تیاری کر رہے تھے کہ یکایک فاضل بھائی کو ٹائیفائیڈ (typhoid) بخار ہوگیا۔ نور ہسپتال کے معزز ڈاکٹر جناب حشمت اللہ خان صاحب ؓاور حضرت خلیفہ رشید الدین صاحبؓ نے جو کچھ ان سے ہوسکا کیا۔طبیعت درست بھی ہوگئی مگر بدپرہیزی کے بعد پھر ایسی بگڑی کہ زندگی کی کوئی امید نہ رہی۔ جب یہ خبر حضرت امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو پہنچی توحضور خود بورڈنگ تشریف لائے اور بہت دیر تک دعا فرمائی۔ اس کے بعد طبیعت معجزانہ طور پر سدھرنے لگی اور خداتعالیٰ کے فضل وکرم سے فاضل بھائی کو نئی زندگی حاصل ہوگئی۔ یقیناً حضرت رسول کریم ﷺ نے یہ جو فرمایا کہ موت نہیں ٹلتی مگر دعا سے۔ یہ حقیقت ہم نے صاف طور پر اپنی نظر سے دیکھی ۔(الحمدللہ)

(الحکم 26دسمبر1939ء صفحہ37)

اب کوئی علاج نہیں سوائے دعا کے

حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی الٰہ دین صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ:
میری تیسری لڑکی عزیزہ ہاجرہ بیگم کے پیٹ میں یکایک در د ہوگیا ہم نے اپنے قریب رہنے والے سرکاری خطاب یافتہ ڈاکٹر کوجو آنریری مجسٹریٹ بھی ہیں بلوایا۔ انہوں نے دیکھ کر کہاکہ لڑکی کے پیٹ میں پیپ ہوگیا ہے فورًا آپریشن کرکے نکال دینا چاہئے ورنہ جان کا خطرہ ہے۔ دسمبر کا مہینہ تھا مجھے قادیان جلسہ سالانہ پر دوایک روزمیں جانا تھا اور یہاں یہ حالت ہوگئی۔ پھر ہم نے یہاں کے ہاسپٹل کے بڑے یورپین ڈاکٹر کو بلوایا اس نے خوب معائنہ کیااور کہا کہ نہ پیپ ہے اور نہ آپریشن کی ضرورت۔ ہم سب یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور خداتعالیٰ کا شکر اداکیامگر وہ ڈاکٹر اپنی رائے پر ہی اڑارہاکہ پیپ یقیناہے فورًا آپریشن کی ضرورت ہے اس کے بغیر اگر یہ لڑکی بچ جائے تو میں اپنی ڈاکٹری چھوڑدوں گا۔ مگر ہم نے اس کی کوئی پروا نَہ کی۔ میں دوسرے دن قادیان روانہ ہوگیا۔ وہاں سے واپس آنے تک لڑکی اچھی رہی۔ مگر اس کے بعد یکایک لڑکی کی ناف میں سوراخ ہوگیا او را س قدر پیپ نکلا جس کی کوئی حد نہیں۔ ہم نے پھر اسی ڈاکٹر کو بلوایا جس نے کہا تھاکہ پیپ ہے۔ اب ہم آپریشن کے لئے بھی رضامند ہوگئے مگر ڈاکٹر نے کہا کہ لڑکی کی حالت نازک ہوگئی ہے اب آپریشن کا وقت نہیں رہا۔ اب یہ کیس hopeless ہوگیا ہے۔ ہم نے دیکھا اب کوئی علاج نہیں سوائے دعا کے۔ میں نے فورًا ایک تار حضرت امیر المومنین کی خدمت میں اور دوسر االفضل کو روانہ کیا اور پھر ایک بارحضور کی دعا کا معجزہ دیکھا کہ بغیر کسی ڈاکٹری علاج کے لڑکی صرف ایک معمولی سی دوائی سے صحت پاگئی۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ

(الحکم 28دسمبر1939ء صفحہ37)

ڈاکٹروں کی حیرانگی کی کوئی حد ہی نہ رہی

الحکم کی ایک اشاعت میں ایک واقعہ اس طرح درج ہے:دسمبر 1937ء میں حضرت خلیفہ نورالدین صاحب ؓکو پھر کاربنکل کا حملہ ہوگیا اور قابل ڈاکٹروں برکت رام ایم ۔ بی (لنڈن) اور بلونت سنگھ صاحب آر۔سی ۔ایس۔ای کے زیرِ علاج تھے۔ دونوں نے مرض کی رفتار کودیکھ کر آپریشن کا متفقہ مشورہ دیااو رکہاکہ اب سوائے آپریشن کے لئے تیار نہ تھے آخر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی خدمت میں بیماری کی اطلاع بذریعہ تاردی گئی اور دعا کی درخواست کی گئی حضور ؓنے ارشاد فرمایاکہ آپریشن نہ کرائیں او ر زخم کو گلیسرین وغیرہ نئے طریقِ علاج سے صاف کیا جاتارہا۔ جس سے خلیفہ صاحب بکلی صحت یاب ہوگئے اور دونوں ڈاکٹروں کی حیرانگی کی کوئی حد نہ رہی۔یہ محض حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعا کا اثر تھا۔

(الحکم 7تا14نومبر 1939ء صفحہ7)

اچھا دعا کروں گا

مکرم سید اعجاز احمد شاہ صاحب انسپکٹر بیت المال تحریر فرماتے ہیں:
1951ء کاواقعہ ہے کہ میں ربوہ میں تھا۔مجھے برادرم سید سجاد احمد صاحب کی طرف سے جڑانوالہ سے تارملا کہ والد صاحب کی حالت نازک ہے جلد پہنچو۔ نماز مغرب کے قریب مجھے تار ملا۔مغرب کی نماز میں نے حضور خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی اقتدامیں گھبراہٹ کے عالم میں اداکی۔جب حضور نماز پڑھاکر واپس جانے لگے تومیں نے عرض کیا۔ جڑانوالہ سے چھوٹے بھائی کا تار ملاہے اباجی کی حالت نازک ہے۔ کل صبح جاؤں گا۔حضور نے فرمایااچھا دعا کروں گا۔حضور پرنور کے ان چارلفظوں میں وہ سکینت تھی کہ بیان سے باہر ہے۔اگلی صبح کو جڑانوالہ پہنچا۔ والد صاحب محترم چارپائی پر حسبِ معمول پان چبارہے تھے۔ بھائی سے شکوہ کیاکہ تم نے خواہ مخواہ تار دے کر پریشان کیا تو اس نے کہا کہ کل مغرب کے بعد سے اباجی کی حالت معجزانہ طور پر اچھی ہونی شروع ہوئی اور خطرے سے باہر ہوئی ورنہ مغرب سے پہلے سب علاج بیکار ہو کر حالت خطرے والی اور ازحد تشویشناک تھی۔

(روزنامہ الفضل17اپریل1966ء)

نہ ہی وہاں گلٹی تھی نہ ہی دردتھا

مکرم محمد عمر بشیر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
1945ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کراچی تشریف فرما تھے۔ ان دنوں میرے والدین بھی ڈھاکہ سے کراچی آئے ہوئے تھے۔حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔میرے والدصاحب کوگلے میں کئی دنوں سے سخت تکلیف تھی وہاں کے احمدی او رغیر احمدی معروف ڈاکٹروں کو دکھایا۔ ہر ایک نے اس تکلیف پر تشویش کا اظہار کیا اور کہاکہ آپریشن کے بغیر کوئی علاج نہیں ہے او رآپریشن بھی کم کامیاب ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں سخت فکر لاحق ہوئی ۔ہم حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے او ردعا کی درخواست کی۔ حضور نے فرمایا اچھا میں دعا کروں گا۔ والدہ صاحبہ نے اسی وقت حضور سے کہاکہ حضور ان کو یہاں تکلیف ہے۔ حضور نے جب نظر اٹھائی اور گلے کو دیکھا تو والدہ صاحبہ کہنے لگیں حضور ابھی دعا کریں۔ حضور مسکرا دیے اور دعا کی۔ خدا شاہد ہے کہ اسی وقت حضورؓ نے توجہ فرمائی اور ابھی والدہ صاحبہ اور والد صاحب حضور کی کوٹھی سے باہر گئے ہی تھے کہ والد صاحب کہنے لگے کہ مجھے آرام محسوس ہوتاہے اور جب گلے پر ہاتھ رکھ کر دیکھا تو نہ وہاں گلٹی تھی اور نہ ہی درد تھا۔

(روزنامہ الفضل مورخہ 19اپریل 1966ء)

اللہ تعالیٰ آپ کی اہلیہ کو مکمل صحت دے گا

مکرم شیخ فضلِ حق صاحب واہ کینٹ سے تحریر فرماتے ہیں:
1948ء میں میری اہلیہ بہت ہی بیمار ہوگئی۔ بیماری طوالت پکڑنے لگی۔سول ہسپتال راولپنڈی میں ڈاکٹر ملک عبدالحق صاحب کو دکھایا انہوں نے ٹیکے تجویز کئے۔ ان دنوں انجیکشن بہت ہی مہنگے آتے تھے۔ 50؍ روپے کا ایک ڈبہ تھاجس میں 5 ٹیکے ہوتے اور صبح شام لگتے تھے۔تانگے کاکرایہ الگ۔ اس طرح پر چار پانچ سو روپے خرچ ہوگئے۔ مالی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو خط لکھاکہ صحت ومشکلات کے لئے دعا کریں۔ میرے پاس صرف30؍ روپے رہ گئے تھے اور ٹیکہ کاڈبہ50؍ روپے کا آتاتھا۔ مہمان بھی آئے ہوئے تھے۔ میں بڑا پریشان تھاکہ ایک دم لیڈی ڈاکٹر نے کہاکہ ایکسرے کرالیں پھر مزید علاج کے لئے بتایاجائے گا۔ دوسرے دن میں اہلیہ کو لے کر ہسپتال گیا تاکہ ایکسرے کا نتیجہ دیکھا جاسکے اور اسی دن حضو ر کا لفافہ ایک بجے کی ڈاک میں ملاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی اہلیہ کومکمل صحت دے گا اور دیگر مشکلات بھی حل کرے گا۔ کوئی فکر نہ کریں۔ دل کو بڑی تسلی ہوئی۔ ایکسرے دیکھ کر لیڈی ڈاکٹر صاحبہ نے کہاکہ آپ کی اہلیہ بالکل ٹھیک ہیں آپ کو مبارک ہو۔یہ سن کرمیری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یہ سب کچھ حضو رکی دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے۔

(روزنامہ الفضل 28اپریل1966ء)

ایک ٹکڑابادل کا نمودار ہوگیا

حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے متعلق ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں:
سرینگر کشمیر اور اسلام آباد کے درمیان بذریعہ کشتی سفر ہو رہا تھا۔ ایک مقام پر پہنچنے پر معلوم ہواکہ دریاسے آدھ ایک میل کے فاصلے پر پورانے کھنڈرات نکالے جارہے ہیں۔ جن سے بہت سی عجیب معلومات حاصل ہورہی ہیں۔ حضور بھی دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے ۔جاتے ہوئے توکچھ زیادہ معلوم نہ ہوا۔ واپسی پردھوپ کی سخت شدت محسوس ہوئی اور سفر نسبتًا لمبا بھی ہوگیاتھا کیونکہ کشتی چلتی ہوئی اوپر نکل گئی تھی۔ میرے دل میں فکر پیداہوئی کہ مباداشدت دھوپ کی وجہ سے حضو رکو سر درد وغیرہ کے عوارض نہ لگ جائیں۔ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ایک ٹکڑا بادل کا سورج کی ٹکیاکے سامنے نمودار ہوگیا۔ جس کی وجہ سے خداکے فضل سے تیز دھوپ بند ہوگئی۔ یہ خدائی چھتری تائید الٰہی سے تھی۔

(الحکم 14دسمبر 1939ء صفحہ4،5)

اللہ تعالیٰ نے میری ہر دعا کو قبول فرمایا ہے

حضرت ابوالمبارک محمد عبداللہؓ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی دعا کے نتیجے میں غیرمعمولی نصرت الٰہی کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’سال1925ء میں ایک دفعہ دومہینوں کی اکٹھی تنخواہ ملی جو میں نے قادیان آکر اپنے والدین کوپیش کر دی۔ اس دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بعد نماز عصر بیت الاقصیٰ میں تقریرتھی میں بھی گیا۔

حضورؓ نے فرمایا کہ جماعت پر خاصہ قرض ہوگیا ہے اور ملازموں کی دو دو، تین تین ماہ کی تنخواہ رکی ہوئی ہے۔ حضو رنے اس ضمن میں خاص چندہ کی تحریک فرمائی ۔ میں مخمصے میں پڑگیا۔ دونوں ماہ کی تنخواہ تو والدین کو دے چکا اور مانگنے میں شرم محسوس کرتا تھا۔ شام کو آیا تو میرے (سوتیلے) والد صاحب نے پوچھا کہ حضور نے اپنی تقریر میں کیا فرمایا ہے؟ میرے بتانے پر انہوں نے فورًا ایک ماہ کی تنخواہ (52روپے سے زائد تھی) حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے واپس کر دی۔ میں نے اگلے دن وہ رقم حضو ر کو ایک رقعہ کے ساتھ بھجوادی جس میں بعض امور کے متعلق دعا کے واسطے درخوا ست کی ہوئی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد حضو رنے فرمایا کہ اس موقع پر جس جس آدمی نے چندہ دیا ہے اور دعا کے لئے لکھا ہے۔ میں نے ایسے ہر آدمی کے لئے دعا کی ہے او رمیں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری ہردعا کو قبول فرمایا ہے۔ میں نے جن امور کے لئے حضور کو دعا کی درخواست کی تھی ان میں ایک میڈیکل سرٹیفکیٹ کاحصول تھاجو سِول سرجن گورداسپور سے حاصل کرنا تھا۔ کیونکہ میری تنخواہ پچیس روپے سے زیادہ تھی اس وجہ سے محکمہ نے میرا اسسٹنٹ سرجن کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ نا منظور کر دیا تھا۔ اس ضمن میں مَیں نے اپنے استاد مکرم بابو محمد طفیل صاحب سے گزارش کی کہ وہ کسی سفارش کا بند و بست کردیں۔ انہوں نے معلوم کیا کہ سول سرجن سفارش سے چڑجاتا ہے۔

میں نے اﷲ توکل ہیڈماسٹر سے سول سرجن کے نام برائے حصول میڈیکل سرٹیفیکیٹ ایک خط حاصل کیا اور بعد دوپہر گورداسپور پہنچا۔ وہاں میری کوئی واقفیت نہ تھی۔ اللہ کے فضل سے ایک رئیس نے میری مہمان نوازی کی۔ اس رات خواب میں مجھے حضرت مولوی سیدمحمد سرور شاہ صاحبؓ ملے۔ میں سمجھ گیاکہ میڈیکل سرٹیفیکیٹ والا کام ہوجائے گا۔صبح سول سرجن کے دفتر گیا ۔ وہاں سکھ چپڑاسی نے بیٹھنے کے لئے کرسی لادی۔ سول سرجن نوبجے آیا۔ میراتیسرا نمبر تھا۔ سول سرجن نے مجھے انگریزی میں پوچھاکہ تم کہاں سے آئےہو؟ جب میں نے کہاکہ قادیان سے۔ وہ مجھ سے علمی باتیں کرنے لگ پڑا اور بڑاخوش ہواکہ اہلِ قادیان بڑا علمی شغف رکھتے ہیں۔ اس طرح آدھ گھنٹہ بیت گیا۔ آخر میں مجھ سے کہنے لگاکہ تم کیا چاہتے ہو؟ تو میں نے کہاکہ میڈیکل سرٹیفیکیٹ دے دیں۔ میں نے اس سکھ چپڑاسی کو 2، 4روپے بطور نذرانہ دینے چاہے لیکن اس نے صاف انکار کردیا۔ اس طرح یہ کام بغیر رشوت اور سفارش کے ہوگیا اور حضور خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا یہ فرمان کہ خاص چندہ دہندگان کے متعلق میری تمام دعائیں اللہ تعالیٰ نے قبول کرلی ہیں، پورا ہو گیا ۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک

(حیات ابوالمبارک صفحہ54تا58)

دعا کرنے پر وہ روپیہ آیا تھا

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ کو حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمایا:
مکرمی! السلام علیکم۔آپ کی طرف سے 100روپیہ پہنچ گیا تھا۔ جزاکم اللہ احسن الجزا۔ آپ کی اہلیہ کی طرف سے بھی دس روپے پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ چونکہ اس وقت روپے کی خاص ضرورت تھی اور خدا تعالیٰ سے دعا کرنے پر وہ روپیہ آیا تھا اس لئے خاص طور پر دعا کی گئی۔

(اصحاب احمد جلد3 صفحہ126)

اللہ تعالیٰ نے سب ظلمتیں دور فرمادیں

حضرت ابوالمبارک محمد عبداللہ صاحبؓ حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیتِ دعا کا ایک واقعہ کچھ اس طرح تحریر فرماتے ہیں:
پسرور میں پہلے چھ مہینے سخت پریشانی میں گزرے۔ گھر آرام وسکون کی جگہ ہوتاہے لیکن وہاں بھی بیوی کی بیماری زیادہ پریشان کردیتی جو ڈیرہ بابانانک میں ہی دوسال سے بیمار تھی۔ بچوں کو وقت پر روٹی نہ ملتی تھی۔ ڈیرہ بابا نانک سے پسرور آنے سے پہلے میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کی درخواست کی تھی او رانہوں نے تسلی دی تھی کہ میں دعا کروں گا۔ میں پسرور آکر بھی اس ’’درد منداں دے دردیا‘‘ کو لکھتارہا اور ان کی طرف سے جواب بھی آتا رہا۔ ایک دن خواب میں دیکھا کہ اخبار الفضل آیاہے اور اس میں لکھا ہے: فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سب ظلمتیں دور فرما دیں۔ ان دنوں حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ گجرانوالہ میں بطور سول سرجن تعینات تھے۔ ان سے حضرت اماں جانؓ کے گھر رہنے کی وجہ سے بچپن سے ہی شناسائی تھی۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بعض طبی ٹیسٹ کرنے کے بعد بتایا کہ میری بیوی کے گردے میں پتھری ہے۔ بعد میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور ان کے طبی مشورے میری بیوی کے علاج میں بہت ممد ثابت ہوئے۔

(حیات ابوالمبارک صفحہ72)

باعزت بری کردیا

مکرم بابو اللہ بخش صاحب ریلوے گارڈ بیان کرتے ہیں کہ حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ نور پور روڈ سٹیشن (ضلع کانگڑہ) پر متعین تھے۔ سب ڈویژنل آفیسر کے عہدہ پر متعین ایک شخص وہاں سے تین چار سٹیشن تک روزانہ بلا ٹکٹ سفر کرتا تھا۔ آپ نے اس سے کرایہ چارج کر لیا اور آئندہ اسے اس طرح سفر کرنے سے سختی سے منع کیا۔ اس نے مشتعل ہوکر پہلے آپ کے گھر چوری کروادی پھر ایک تانگہ والے سے تحصیلدار کی عدالت میں آپ کے خلاف استغاثہ دائر کرادیا کہ فلاں روز سیر کے دوران حضرت بابوصاحبؓ نے مجھے بلاوجہ گالیاں دیں اور مجھ سے مار پیٹ کی۔ تحصیلدار بھی حضرت با بو صاحبؓ کامخالف تھا۔ آپؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے دعا کی نیز مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ گورداسپور (سرگودھا)کو اپنا وکیل مقرر کرنے کا مشورہ دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ تحصیلدار کے تبادلہ کے احکام صادر ہوگئے اور ا س نے یہ سوچ کر کہ مقدمہ تو جھوٹا ہی ہے ۔نیا تحصیلدار اسے ضرور خارج کردے گا، کیوں نہ میں ہی اسے خار ج کر دوں اور اس طرح اس نےآپ کو باعزت بری کردیا۔

(اصحاب احمد جلد3 صفحہ56تا57)

مخالفیں کے منہ بند ہوجائیں

مکرم فتح محمد صاحب تحریر فرماتے ہیں:
1921ء میں جب میں خداتعالیٰ کے فضل و کرم سے احمدیت کی نعمت سے مشرف ہوا اور میرے ساتھ ہی ہمارے گاؤں مٹھیانہ ہوشیار پور کے چار اَور افراد بھی احمدیت کے حلقہ بگوش ہوگئے توگاؤں بلکہ علاقہ بھر میں ہماری مخالفت شروع ہوگئی۔ جگہ جگہ ہمارے خلاف چرچا ہونے لگا۔ بحث مباحثہ ہوتا رہتا تھا اور اختلافی مسائل پر گفتگو ہوا کرتی تھی۔ جب دشمن ہمارے اعتراضات کے جواب دینے سے عاجز آگئے اوراپنے عقائد کی کمزوری ان کونظر آنے لگی تو گاؤں کے بوڑھوں نے یوں کہنا شروع کر دیا کہ ’’کیا ہواکہ یہ لوگ مرزائی ہوگئے ہیں، ان کو ملتی تولڑکیاں ہی ہیں۔‘‘ اتفاق سے ہم پانچوں کے ہاں جواس وقت تک احمدی ہوئے تھے، لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں۔ نرینہ اولاد کسی ایک کے پاس بھی نہ تھی ۔ اس بات کا میرے دل پربڑا صدمہ ہوا اور میں نے اسی صدمہ کے زیر اثر اپنے پیارے امام حضرت مصلح موعودؓ کے حضور نہایت عاجزی سے دعا کی درخواست کی کہ حضور!ہم سب کے ہاں نرینہ اولاد ہونے کی دعا کریں تا اس بارہ میں بھی مخالفین کے منہ بند ہو جاویں۔ حضورؓ نے جواب دیا کہ خداوند تعالیٰ آپ سب کو نرینہ اولاد دے گا ۔ چنانچہ حضور پرنور ؓکی دعاسے خداوند تعالیٰ نے ہم سب کو نرینہ اولاد سے نوازا۔

(روزنامہ الفضل 28؍اپریل 1966ء)

تھوڑے دنوں بعد دریانے پلٹا کھایا

خداتعالیٰ کے پیاروں کی دعاؤں سے کس طرح دریا بھی اپنے رخ پھیر لیا کرتے ہیں، اس ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ کی دعا اور اس کی قبولیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت چوہدری غلام محمد صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں:
میں تحصیل نکودر میں موضع برہمیان ارائیں قوم کے گاؤں میں ایک لمبے عرصہ تک رہا۔ وہاں ایک مسجد تھی۔ عام طورپر لوگ نماز پڑھتے تھے۔ رات کے کسی حصہ میں جب بھی میں مسجد گیا تو میں نے کسی نہ کسی کو نماز پڑھتے یاوضو کرتے ہی پایا۔ مسجد کبھی خالی نہ ہوتی تھی۔ میں اکثرنماز کے لئے وہاں جاتا اور لوگوں کو اپنے مطلب کی باتیں سناتا۔ مولوی لوگ بھی اکثر وہاں پندونصیحت کے لئے آتے اور لوگوں کو وعظ سناتے۔ میر امکان بھی مسجد کے نزدیک تھا۔ میں بھی اکثر ان کاوعظ سننے کے لئے مسجد میں چلاجاتا۔ میں مولوی صاحبان سے تبادلۂ خیالات کے لئے لوگوں کو بلاتا مگر کوئی ادھر توجہ نہ کرتا۔ تاہم میں تبلیغ ضرور کرتا۔ آخر خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو آن پکڑا۔ ہوایوں کہ دریا نے ان کو گھیرنا شروع کردیا اور گاؤں کی زمین کو گرانے لگا۔ زمین بہت زرخیز تھی۔ زمینداروں کے نقصانات کو دیکھ کر لوگ تڑپ رہے تھے۔ گلیاں اورمکانات لکڑیوں سے اٹے پڑے تھے کیونکہ جہاں دریا ڈھا لگاتا، لوگ درخت کاٹ کاٹ کر لے آتے۔ مَیں اکثر نمازوں کے لئے مسجد جاتا تو لوگوں کو قادیان جاکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے دعا کرانے کے لئے کہتا۔ لوگ کہتےکہ اگر ہم قادیان گئے تو دوسرے لوگ ہمیں کافر کہنے لگیں گے۔ میں کہتا کہ تم اپنی مرضی دیکھو۔ آخر دو آدمی میرے پاس آئے کہ ہمیں دعا کے لئے خط لکھ دو۔ وہ خط لے کر چلے گئے۔ جالندھر شہر میں ان کی رشتہ داری تھی۔ وہ پہلے دن رات جالندھر میں رہے۔ دوسرے دن نمازِ ظہر سے پہلے قادیان پہنچ گئے اور حضرت صاحبؓ کو میرا عریضہ دے دیا اور خود زبانی بھی عرض کیاکہ حضور! ہمارے لئے دعا کریں۔ حضور پُرنورؓ نے فرمایا کہ جب میں نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں آیا کروں اس وقت اونچی آواز سے ضرور یاد کرا دیا کرنا۔ ظہر، عصر،مغرب اور عشاء کی نمازوں میں ان کے لئے دعا ہوئی۔ وہ رات کو سوگئے۔ ان کو دریا کے نقصان سے بچاؤ کی اطلاع خواب کے ذریعے مل گئی۔ صبح کی نماز کے لئے جب وہ مسجد میں آئے تو حضرت اقدسؓ کو اپنا خواب سنایا کہ ہمارا تو یقین ہوگیا ہے کہ حضور پُرنور کی دعا منظور ہوگئی ہے۔ ہمیں جانے کی اجازت دے دیں، ہمیں بڑی فکر ہے۔ اجازت لے کر وہ گھر واپس لوٹے تو راستے میں جو کوئی ان سے ملتا، ان کو الٹی خبر سناتا مگر ان کا یقین کم نہ ہوا۔ سیدھے مسجد میں پہنچے اور قسم کھا کر سارا حال سنایا۔ حضرت اقدسؓ سے دعا کرانے اور اپنے خواب اور یقین کا حال سنایا۔ لوگوں نے راستہ میں بھی اور گاؤں کے نزدیک بھی ہمارے خواب کے برخلاف بہت کچھ کہہ ڈالا۔ اس پر ہم مسجد میں کھڑے ہوئے اور قبلہ رخ ہوکر قسم کھائی کہ ہمارا خواب جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ اب تم لوگ بتاؤ کہ ہمار ا خواب جھوٹا ہے یا سچا ہے؟ تو لوگوں نے برملا کہا کہ جس وقت کی تم بات کرتے ہو، اس لمحے سے دریا نے ایک تولہ بھر مٹی بھی نہیں گرائی۔ پھر کیا تھا، سارا گاؤں کا گاؤں بن بلائے میرے مکان پر آگیا۔ اور کہنے لگے کہ تم حضور پُرنورؓ کو عرض کرو کہ ان کی دعا کے طفیل دریا نے اب ایک تولہ بھی زمین نہیں گرائی۔ ہم عاجزوں کے لئے دعاکریں کہ دریا ہم سے دور چلا جائے اور ہماری جو زمین گرائی ہے اس سے بہتر زمین اپنے پیچھے چھوڑ جائے۔ میں نے سب گاؤں کے انگوٹھے لگوا کر حضورپرنور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں سب حال عرض کر کے دعا کے لئے درخواست ارسال کردی۔ حضورؓ نے ازراہِ غرباء پروری جلد ہی جواب سے مشرف فرمایا جس کی اطلاع لوگوں کو کرادی گئی۔تھوڑے دنوں بعد دریا نے پلٹا کھایا اور ان کی زمینیں چھوڑ کر تین میل پیچھے ہٹ گیا۔ اس کی اطلاع بھی حضور پُرنورؓ کی خدمت میں ارسال کردی گئی۔

(حضرت چوہدری غلام محمد خان گرد اور قانونگو صفحہ31تا32)

ان شاء اللہ اس کے ہاں اولاد ہوگی

حضرت ڈاکٹر محمدصادق صاحب تحریرفرماتے ہیں:
خلافت ثانیہ کا ابتدائی زمانہ تھا۔ میرے والد مرحوم جناب منشی امام الدین صاحبؓ ان دنوں موضع لوہ چپ میں جوقادیان سے چار میل کے فاصلہ پرجانب غرب واقعہ ہے، ملازم تھے۔ پاس ایک گاؤں بھاگی ننگل ہے۔ وہاں ایک شخص لچھمن سنگھ رہتا تھا جو ابھی تک زندہ ہے۔ اس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن اس نے کہاکہ میرے لئے اپنے حضرت صاحب سے دعا کروائیں کہ خدا مجھے لڑکا عطا فرمائے۔ اگر مرزا صاحب سچے ہوں گے تومیرے ہاں اولاد ہوجائے گی۔ والدصاحب مرحوم ومغفور قادیان آئے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے حضور سارا واقعہ عرض کر دیا۔حضورؓ نے فرمایا کہ میں دعا کروں گا اور ان شاء اللہ اس کے ہاں اولاد ہوگی۔ والدصاحب نے اسے یہ خوشخبری سنادی۔ کچھ عرصہ کے بعد اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام اور دھم سنگھ ہے۔ یہ لڑکا میٹرک پاس کر چکاہے اور اپنے گاؤں میں پہلا نوجوان ہے جس نے اتنی تعلیم حاصل کی ہے۔

(الحکم جوبلی نمبر20 دسمبر 1939ء جلد نمبر42)

لکھ دو میں نے دعا کر دی

حضرت قدرت اللہ سنوری صاحب ؓحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی قبولیت دعا کا نشان تحریر فرماتے ہیں:
ریاست پٹیالہ تحصیل سرہند میں ایک سکھ ذیلدار میرا سخت مخالف تھا۔ پہلے وہاں تحصیلدار اورافسر مال دونوں مسلمان تھے۔ افسرمال تبدیل ہوگیا اور ایک سکھ بطور افسر مال آ گیا۔ ذیلدار نے اس کو بہت بھڑکایا جس پر اس افسر مال نے نمبردار کے ذریعہ مجھے پیغام بھجوایا کہ اس کو کہہ دوکہ ملازمت ترک کرکے چلا جاوے ورنہ اس کو سخت سزادی جائے گی۔ میں نے نمبردار سے پوچھا کہ اس نے کیا الفاظ کہے تھے؟ اس نے بتانے سے انکار کیا کہ اسی سے پوچھو، مجھے بیہودہ باتیں کرنے سے شرم آتی ہے۔ میں نے اصرار کیا کہ آپ مجھے وہ الفاظ بتائیں۔ اس نے کہاکہ وہ یوں کہتا تھا کہ اس سؤر مسلے کو کہہ دوکہ چلا جاوے۔ میں نے اس نمبردار کو کہا کہ آپ یہ یاد کرکے جاویں اور افسر مال صاحب سے کہہ دیں کہ قدرت اللہ نے عرض کیاہے فَكِيْدُوْنِيْ فَلَا تُنْظِرُوْنِ جس قدر داؤ کرنے ہیں، کرلو۔ میں ملازمت ازخود ترک نہیں کروں گا او ریہ جو آپ نے ’’سؤر مسلا‘‘ فرمایا ہے، میں اس کا کوئی جواب نہیں دیتا کیونکہ آپ میرے آفیسر ہیں۔ ہاں! اگر میرا خدا چاہے تووہ خود جواب دے سکتاہے۔ ظہر کا وقت تھا، میں نے نماز ادا کی اور اس میں دعا کی۔

دعا کرنے کے بعد میں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام ایک خط لکھا اور یہ سارا واقعہ تحریر کیا اوریہ خط ایک زمیندار کے ہاتھ میں دے کر اس کو اپنے گھوڑے پر سوار کر کے تقریباً پندرہ میل کے فاصلہ پر اپنے خسر مکرم چوہدری کریم بخش صاحب کے پا س بھجوایا اور ان کو خط لکھ دیاکہ آپ آج ہی رات ریل گاڑی پرسوار ہوکر میراخط لے کر بٹالہ جائیں اور بٹالہ سے قادیان پہنچ کر میرا خط حضور ؓکی خدمت میں پیش کردیں اور اس خط میں مَیں نے یہ سارا واقعہ حضورؓ کی خدمت میں لکھ دیا تھاکہ مجھے اس نے ایسا کہاہے ۔وہ خط مکرم چوہدری صاحب کے پاس پہنچا تو وہ اسی رات ریل پر قادیان پہنچ گئے۔جب وہ مسجد مبارک میں داخل ہوئے تو اس وقت تکبیر ہو رہی تھی۔ مکرم چوہدری صاحب نے نہایت سرعت کے ساتھ بڑھ کرنماز شروع ہونے سے پہلے میراخط حضورؓ کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضورؓ نے نیت باندھنے سے پہلے ہی وہ خط پڑھ لیا اور پچھلی طرف مڑکر مکرم چوہدری صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا: ان کو لکھ دوکہ میں نے دعا کر دی ہے۔ چنانچہ اس خط کا جواب مجھے اس وجہ سے دیر سے ملاکہ میری رہائش دیہات میں تھی اور وہاں ہفتہ وار ڈاک جاتی تھی۔ مگر دعا والے دن کی شام کو ہی افسر مال صاحب دورے پر چلے گئے اور وہاں جاتے ہی رات کو انہیں ہیضہ ہوگیا۔ قے اور دستوں میں بھرے ہوئے تحصیل میں لائے گئے۔ وہاں سے رتھ میں پٹیالہ کو روانہ ہوئے۔ جب میرے حلقہ کی حد میں آئے تو فوت ہوگئے۔

(تجلی ٔقدرت صفحہ44تا45)

(بشکریہ الفضل انٹرنیشنل 22؍ فروری 2019ء)

٭…٭…٭

(مرسلہ: عطاء الوحید باجوہ۔ مربی سلسلہ)

پچھلا پڑھیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر سیالکوٹ کے دوران پُر معارف و پُر تاثیر ’’لیکچر سیالکوٹ‘‘

اگلا پڑھیں

آج کی دعا