• 16 اپریل, 2024

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 3)

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام
نصرت بالرعب
قسط3

حضرت اقدس مسىح موعود علىہ السلام فرماتے ہىں:
’’ہم جب انصاف کى نظر سے دىکھتے ہىں تو تمام سلسلہ نبوت مىں سے اعلى درجہ کا جواں مرد نبى اور زندہ نبى اور خدا کا اعلى درجہ کا پىارا نبى صرف اىک مرد کو جانتے ہىں۔ ىعنى وہى نبىوں کا سردار۔ رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفىٰ و احمد مجتبىٰ ﷺ ہے۔ جس کے زىرِ ساىہ دس دن چلنے سے وہ روشنى ملتى ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہىں مل سکتى تھى‘‘

(سراج منىر،روحانى خزائن جلد12 صفحہ82)

حضرت محمد مصطفىٰ ﷺ کے زىر ساىہ دس دن چلنے والے کو ملنے والى روشنى کا اندازہ ممکن نہىں اور جس کى زندگى کى ہرحرکت و سکون اىک اىک لمحہ سب اللہ تبارک تعالىٰ اور اس کے محبوب کے عشق مىں گزرے اس کا وجود کس قدر نورانى ہوگا۔ حضرت اقدس مسىح موعود علىہ السلام نے اتباع کا حق ادا کىا اور اپنے قلبَ صافى کو قلبِ محمد ﷺ کا آئىنہ بنا لىا۔ اصل اور عکس ہم رنگ ہوگئے۔

؎برتر گمان و وہم سے احمدؐ کى شان ہے
جس کا غلام دىکھو مسىح الزمانؑ ہے

حضرت صاحبزادہ مرزا بشىر احمدؓ تحرىر فرماتے ہىں:
حضرت ابو ہرىرہ ؓ سے رواىت ہے کہ اىک موقع پر آنحضرت ﷺ نے دوسرے انبىا ء پر اپنى چھ فضىلتىں بىان فرمائىں جن مىں سے اىک ’نُصْرِتُ بِالرَّعْبِ‘ تھى (صحىح مسلم۔ کتاب المساجد) ہمىں آپؐ کى حىات ِمبارکہ مىں اىسے کئى مواقع ملتے ہىں جہاں غىر معمولى حالات مىں اللہ تعالىٰ نے معجزانہ طور پر دوسروں کے دلوں پر آپؐ کا رعب بٹھاىا۔

’آنحضرت ﷺ کے سامنے ابو جہل کے مرعوب ہونے کے متعلق اىک اور رواىت بھى آتى ہے جس سے پتا لگتا ہے کہ خدائى سنت اسى طرح پر ہے کہ جو لوگ خدا کے مرسلىن کے سامنے زىادہ بىباک ہوتے ہىں عموماََ انہىں پر خدا تعالىٰ اپنے رسولوں کا رعب زىادہ مسلط کرتا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ اىک دفعہ اراشہ نامى شخص مکہ مىں کچھ اونٹ بىچنے آىا اور ابو جہل نے اس سے ىہ اونٹ خرىد لئے مگر اونٹوں پر قبضہ کرلىنے کے بعد قىمت ادا کرنے مىں حىل و حجت کرنے لگا۔ اس پر اراشہ جو مکہ مىں اىک اجنبى اور بے ىارومددگار تھا بہت پرىشان ہوا اور چند دن تک ابو جہل کى منت سماجت کرنے کے بعد وہ آخر اىک دن جبکہ بعض رؤسا قرىش کعبۃ اللہ کے پاس مجلس جمائے بىٹھے تھے، ان لوگوں کے پاس گىا اور کہنے لگا کہ اے معززىن قرىش آپ مىں سے اىک شخص ابوالحکم نے مىرے اونٹوں کى قىمت دبا رکھى ہے آپ مہربانى کرکے مجھے ىہ قىمت دلوادىں۔قرىش کو شرارت جو سوجھى تو کہنے لگے اىک شخص ىہاں محمد ؐ بن عبد اللہ نامى رہتا ہے تم اس کے پاس جاؤ۔ وہ تمہىں قىمت دلا دے گا اور اس سے غرض ان کى ىہ تھى کہ آنحضرت ﷺ تو بہرحال انکار ہى کرىں گے اور اس طرح باہر کے لوگوں مىں آپؐ کى سبکى اور ہنسى ہوگى۔ جب اراشہ وہاں سے لَوٹا تو قرىش نے اس کے پىچھے پىچھے اىک آدمى کردىا کہ دىکھو کىا تماشا بنتا ہے، چنانچہ اراشہ اپنى سادگى مىں آنحضرت ﷺ کے پاس آىا اور کہنے لگا کہ
’’مىں اىک مسافر آدمى ہوں اور آپ کے شہر کے اىک رئىس ابوالحکم نے مىرى رقم دبا رکھى ہےاور مجھے بتاىا گىا ہے کہ آپ مجھے ىہ رقم دلواسکتے ہىں۔پس آپ مہربانى کرکے مجھے مىرى رقم دلوادىں‘‘

آنحضرت ﷺ فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے کہ چلو مىں تمہارے ساتھ چلتا ہوں چنانچہ آپؐ اسے لے کر ابو جہل کے مکان پر آئے اور دروازے پر دستک دى۔ ابو جہل باہر آىا تو آپؐ کو دىکھ کر ہکا بکا رہ گىا اور خاموشى کے ساتھ آپؐ کا منہ دىکھنے لگا آپؐ نے فرماىا :
’’ىہ شخص کہتا ہے کہ اس کے پىسے آپ کى طرف نکلتے ہىں۔ ىہ اىک مسافر ہے آپ اس کا حق کىوں نہىں دىتے؟‘‘

اس وقت ابو جہل کا رنگ فق ہورہا تھا۔ کہنے لگا
محمد ٹھہرو۔ مىں ابھى اس کى رقم لاتا ہوں

چنانچہ وہ اندرگىا اور اراشہ کى رقم لا کر اسى وقت اس کے حوالے کردى۔ اراشہ نے آنحضرت ﷺ کا بہت شکرىہ ادا کىا۔ اور واپس آکر قرىش کى اسى مجلس مىں پھر گىا۔ اور وہاں جاکر ان کا بھى شکرىہ ادا کىا کہ آپ لوگوں نے مجھے اىک بہت ہى اچھے آدمى کا پتہ بتاىا۔ خدا اسے جزائے خىر دے اس نے اسى وقت مىرى رقم دلا دى۔ رؤساء قرىش کے منہ مىں زبان بند تھى اور وہ اىک دوسرے کى طرف حىران ہوکر دىکھ رہے تھے۔ جب اراشہ چلا گىا تو انھوں نے اس آدمى سے درىافت کىا جو اراشہ کے پىچھے پىچھے ابو جہل کے مکان تک گىا کہ کىا قصہ ہوا ہے۔ اس نے کہا۔
’’وَاللّٰہِ۔ مىں نے تو اىک عجىب نظارہ دىکھا ہے اور وہ ىہ کہ جب محمدؐ نے جاکر ابوالحکم کے دروازہ پر دستک دى اور ابوالحکم نے باہر آکر محمد کو دىکھا تو اس وقت اس کى حالت اىسى تھى کہ گوىا اىک قالب بے روح ہے اور جوں ہى کہ اسے محمدؐ نے کہا کہ اس کى رقم ادا کردو، اسى وقت اس نے اندر سے پائى پائى لا کر سامنے رکھ دى۔‘‘

تھوڑى دىر کے بعد ابو جہل بھى اس مجلس مىں آپہنچا۔ اسے دىکھتے ہى سب لوگ اس کے پىچھے ہولىے کہ اے ابوالحکم تمہىں کىا ہوگىا تھاکہ محمدؐ سے اس قدر ڈر گئے۔ اس نے کہا۔

خدا کى قسم! جب مىں نے محمدؐ کو اپنے دروازے پر دىکھا، تو مجھے ىوں نظر آىا کہ اس کے ساتھ لگا ہوا اىک مست اور غضبناک اونٹ کھڑا ہے اور مىں سمجھتا تھا کہ اگر ذرا بھى چون و چرا کروں گاتو وہ مجھے چبا جائے گا

(سىرت ابنِ ہشام۔ سىرت خاتم النبىىن از حضرت صاحبزادہ مرزا بشىر احمد ؓ صفحہ162-163)

آپ ؐ کے غلام صادق سے بھى اللہ تبارک تعالىٰ نے معجزانہ طرىق پر لوگوں کے دلوں پر رعب قائم کرنے کا وعدہ فرماىا تھا 1883ء مىں الہام ہوا:

نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ وَ اُحْىِىْتَ بِالصِّدْقِ اَىُّھَا الصِّدِّىْقُ۔ نُصِرْتَ وَقَالُوْا لَاتَ حِىْنَ مَنَاصٍ۔

(تذکرہ اردو اىڈىشن چہارم 2002ء صفحہ53)

(ترجمہ) ’تو رعب کے ساتھ مدد کىا گىا اور صدق کے ساتھ زندہ کىا گىا اے صدىق۔ تو مدد کىا گىا اور مخالفوں نے کہا کہ اب گرىز کى جگہ نہىں‘

آپ ؑ کى زندگى کا اىک اىک لمحہ اللہ تبارک تعالىٰ کے عناىت کردہ رعب کى مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ ىہاں پر اىک واقعہ درج ہے جو آنحضور ﷺ کے ابو جہل کے واقعہ سے بہت ملتا ہے۔

’اىک دفعہ اىک ہندو جو گجرات کا رہنے والا تھا۔قادىان کسى بارات کے ساتھ آىا۔ ىہ شخص علم توجہ کا ماہر تھا چنانچہ اس نے اپنے ساتھىوں سے کہا کہ ہم لوگ قادىان آئے ہوئے ہىں چلو مرزا صاحب سے ملنے چلىں اور اس کا منشاء ىہ تھا کہ لوگوں کے سامنے حضرت صاحب پر اپنى توجہ کا اثر ڈال کر آپ سے بھرى مجلس مىں کوئى بىہودہ حرکات کرائے۔ جب وہ مسجد مىں حضور سے ملا تو اس نے اپنے علم سے آپ پر اپنا اثر ڈالنا شروع کىا مگر تھوڑى دىر کے بعد وہ ىکلخت کانپ اُٹھا مگر سنبھل کر بىٹھ گىا اور اپنا کام پھر شروع کر دىا اور حضرت صاحب اپنى گفتگو مىں لگے رہے مگر پھر اس کے بدن پر اىک سخت لرزہ آىا اور اس کى زبان سے بھى کچھ خوف کى آواز نکلى مگر وہ پھر سنبھل گىا۔ مگر تھوڑى دىر کے بعد اس نے اىک چىخ مارى اور بے تحاشا مسجد سے بھاگ نکلا اور بغىر جوتا پہنے نىچے بھاگتا ہوا اتر گىا۔ اس کے ساتھى اور دوسرے لوگ اس کے پىچھے بھاگے اور اس کو پکڑ کر سنبھالا۔ جب اس کے ہوش ٹھکانے ہوئے تو اس نے بىان کىا کہ مىں علمِ توجہ کا بڑا ماہر ہوں مىں نے ىہ ارادہ کىا تھا کہ مرزا صاحب پر اپنى توجہ ڈالوں اور مجلس مىں ان سے کوئى لغو حرکات کرادوں لىکن جب مىں نے توجہ ڈالى تو مىں نے دىکھا کہ مىرے سامنے مگر اىک فاصلہ پر اىک شىر بىٹھا ہے مىں اسے دىکھ کر کانپ گىا لىکن مىں نے جى مىں اپنے آپ کو ملامت کى کہ ىہ مىرا وہم ہے۔ چنانچہ مىں نے پھر مرزا صاحب پر توجہ ڈالنى شروع کى تو مىں نے دىکھا کہ پھر وہى شىر مىرے سامنے ہے اور مىرے قرىب آگىا ہے اس پر پھر مىرے بدن پر سخت لرزہ آىا مگر مىں پھر سنبھل گىا اور مىں نے جى مىں اپنے آپ کو بہت ملامت کى کہ ىوں ہى مىرے دل مىں وہم سے خوف پىدا ہوگىا چنانچہ مىں نے اپنا دل مضبوط کرکے اور اپنى طاقت کو جمع کرکے پھر مرزا صاحب پر اپنى توجہ کا اثر ڈالا اور پورا زور لگاىا۔ اس پر ناگہاں مىں نے دىکھا کہ وہى شىر مىرے اوپر کود کر حملہ آور ہوا ہے اس وقت مىں نے بے خود ہو کر چىخ مارى اور وہاں سے بھاگ اُٹھا۔ حضرت خلىفہ ثانى ؓ بىان فرماتے تھے کہ وہ شخص پھر حضرت صاحب کا معتقد ہوگىا تھا اور ہمىشہ جب تک زندہ رہا آپ سے خط وکتابت رکھتا تھا۔

(سىرۃ المہدى صفحہ61۔ 62)

(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 نومبر 2021