• 8 مئی, 2024

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک مؤرخہ 26؍نومبر 2021ء

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک 

امیر المؤمنین  سیدنا حضرت  خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 26؍نومبر 2021ء بمقام بیت المبارک، اسلام آباد ؍ٹلفورڈ یوکے

حضرت عمرؓ کے دربار میں علم رکھنے والے خاص طور پر قرآنِ کریم کا علم رکھنے والوں کا بڑا مقام تھا، چاہے وہ چھوٹی عمر کے نوجوان ہیں یا بچے ہیں یا بڑے ہیں۔۔۔حضرت عمرؓ کو جب کوئی معاملہ درپیش آتا تو آپؓ بچوں کو بُلاتے اور اُن سے بھی مشورہ لیتے، اِس غرض سے کہ آپؓ اُن کی عقلوں کو تیز کرنا چاہتے تھے۔

اَے نبی! ہمیشہ عفو اختیار کر اور معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر ۔۔۔ حُرّنے اُن کے سامنے یہ آیت پڑھی تو حضرت عمرؓ وہیں رُک گئےاور کچھ نہیں کہا! آپؓ کتاب الله کو سُن کر رُک جاتے تھے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا! اَے لوگو!تم میں کوئی بھی شخص مجھ میں ٹیڑھا پن دیکھے تو اُسے سیدھا کر دے۔۔۔مجھے بھلائی کا حکم دے کر ، بُرائی سے روک کر اور مجھے نصیحت کر کے میری مدد کرو ۔۔۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ وہ شخص ہے جو میرے عیوب سے مجھے آگاہ کرے ۔۔۔ مجھے خوف ہے کہ مَیں غلطی کروں اور میرے ڈر سے کوئی  مجھے سیدھا راستہ نہ دِکھائے۔

مَیں نے آپؓ سے زیادہ کتاب الله کو پڑھنے والا ، الله کے دین کو سمجھنے والا اور آپؓ سے اچھا اِس کو درس و تدریس کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔۔۔جب تم اپنی مجلس خوشبودار بنانا چاہو تو حضرت عمرؓ کا بہت ذکر  کرو۔

اگر آپؓ کا بھائی میرے بھائی کی طرح مارا جاتا یعنی شہادت کی موت مرتا تو مَیں ہرگز اِس کا ماتم نہ کرتا!حضرت عمرؓ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے ساتھ متمم جیسی تعزیّت کسی نے نہیں کی۔

الله اکبر! اِن دونوں  یعنی ابوبکرؓ و عمر ؓکے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے، وہ دونوں ایسے مبارک مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰؑ اور عیسیٰؑ زندہ ہوتے  بصَد رشک وہاں دفن ہونے کی تمنّا کرتے ۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا!حضرت عمرؓ کے دربار میں علم رکھنے والے خاص طور پر قرآنِ کریم کا علم رکھنے والوں کا بڑا مقام تھا، چاہے وہ چھوٹی عمر کے نوجوان ہیں یا بچے ہیں یا بڑے ہیں۔

حضرت عمرؓ کتاب الله کو سُن کر رُک جاتے تھے

بخاری میں ایک روایت ہے ،حضرت ابن عبّاسؓ نے کہا! عُیینہ بن حصن بن حُذیفہ مدینہ آئےاور اپنے بھتیجے حُر ّبن قیس ؓ کے پاس اُترے اور حُرّ بن قیس ؓ اُن لوگوں میں سے تھے جن کو حضرت عمر ؓ اپنے قریب بٹھایا کرتے تھے اور قاری ہی حضرت عمرؓ کے مجلس میں قریب بیٹھنے والے تھے اُن کو مشورہ دینے والے ہوتے تھےیعنی قرآن کے عالم! بڑی عمر کے ہوں یا جوان۔ عُیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا،اے بھتیجے! اِس امیر کے پاس تمہاری وجاہت ہے اِس لیئے میرے لیئے اُن کے پاس آنے کی اجازت مانگو! حُرّ بن قیس ؓ نے کہا! مَیں تمہارے لیئے اِن کے پاس آنے کی اجازت لے لوں گا۔۔۔چنانچہ حُرّ نے عُیینہ کے لیئے اجازت مانگی اور حضرت عمرؓ نے اُن کو اجازت دی۔ جب عُیینہ اُن کے پاس آیاتو اُس نے کہا!خطاب کے بیٹے! یہ کیا بات ہے، الله کی قسم! نہ تو آپؓ ہم کو بہت مال دیتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان اور ہمارے مال کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرتے ہیں یہ سُن کر حضرت عمرؓ ناراض ہو گئے ، یہاں تک کہ اُس کو کچھ کہنے کو ہی تھے کہ حُرّ نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا،امیر المؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے۔

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ

 (الاعراف: 200)

یعنی اَے نبی! ہمیشہ عفو اختیار کر اور معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر ۔ اور یہ عُیینہ جاہلوں ہی میں سے ہے۔۔۔الله کی قسم! جب حُرّ نے اُن کے سامنے یہ آیت پڑھی تو حضرت عمرؓ وہیں رُک گئےاور کچھ نہیں کہااور حضرت عمرؓ کتاب الله کو سُن کر رُک جاتے تھے،حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس واقعہ کو حضرت خلیفتہ المسیحِ الاوّل کے الفاظ میں بھی بیان فرمایا۔

حضرت عمرؓ بچوں کی تربیّت کس طرح کیا کرتے تھے

یوسف بن یعقوب نے کہا! ابنِ شہاب نے مجھے اور میرے بھائی کو اور میرے چچا کے بیٹے کو جبکہ ہم کم سِن بچے تھے کہا! تم اپنے آپ کو بچہ ہونے کی وجہ سے حقیر نہ سمجھنا کیونکہ حضرت عمرؓ کو جب کوئی معاملہ درپیش آتا تو آپؓ بچوں کو بُلاتے اور اُن سے بھی مشورہ لیتے، اِس غرض سے کہ آپؓ اُن کی عقلوں کو تیز کرنا چاہتے تھے۔

حضرت عمرؓ کی غیرت کا یہاں سوال ہے

جنگِ اُحد میں جب جنگ کا پانسا پلٹا اور مسلمانوں کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑا تو اُس وقت ابو سفیان نے تین بار پُکار کر کہاکہ کیا اُن لوگوں میں محمدﷺہے؟ نبیؐ نے صحابہؓ کو اُسے جواب دینے سے روک دیا، پھر اُس نے تین بار پُکار کر پوچھا! کیا لوگوں میں ابو قحافہ کا بیٹا ہے؟ پھر تین بار پوچھا! کیا اِن لوگوں میں ابنِ خطاب ہے؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لَوٹ گیا اور کہنے لگا! یہ جو تھے وہ تو مارے گئے، یہ سُن کر حضرت عمرؓ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بولے، اَے الله کے دشمن! بخدا تم نے جھوٹ کہا ہے ، جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں اور جو بات ناگوار ہے اِس میں سے ابھی تیرے لیئے بہت کچھ باقی ہے۔ابو سفیان بولا! یہ معرکہ بدر کے معرکہ کا بدلہ ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہے کبھی اِس کی فتح اورکبھی اُس کی۔

بیت المال کے اموال کی حفاظت و نگرانی میں کس حد تک محتاط تھے

زید بن اسلم کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے دودھ پیا، آپؓ کو پسند آیا۔۔۔آپؓ نے اُس شخص سے پوچھاکہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ اُس نے آپؓ کو بتایا کہ وہ ایک چشمہ پر گیا ۔۔۔ وہاں زکوٰۃ کے اونٹوں کو لوگ پانی پلا رہے تھے اُنہوں نے میرے لیئے اُن کا دودھ دوہا جس کو مَیں نے اپنے اِس پانی پینے والے برتن میں ڈال لیا، حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈال کر قے کر کے اُس کو نکال دیا ۔۔۔حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس ضِمن میں براء بن معرورؓ کے بیٹے کی بیت المال کے شہد سے متعلقہ روایت پیش فرمائی،اِسی طرح بیت المال کے اموال کی حفاظت کا کس قدر خیال تھا اِس بارہ میں پہلے بیان کیا گیا واقعہ مختصر بیان کیا کہ ایک دوپہر میں شدید گرمی میں پیچھے رہ جانے والے دو اونٹوں کو خود ہانک کر آپؓ چراہ گاہ میں لے کر جا رہے تھے کہ کہیں گم نہ ہو جائیں اِدھر اُدھر، حضرت عثمانؓ نے جب دیکھا اتفاق سے، کہا کہ یہ کام ہم کر لیتے ہیں آپؓ سائے میں آ جائیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا! تم لوگ آرام سے بیٹھو سائے میں ، یہ میراکام ہے یہ مَیں ہی کروں گا ۔اِس واقعہ کو آپ ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نےباالفاظ حضرت المصلح الموعودؓ بھی پیش فرمایا۔

مساوات کا قیام

سعیدؒبن مُسیّبؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ کے پاس ایک یہودی اور ایک مسلمان لڑتے ہوئے آئے، حضرت عمرؓ کو یہودی کی طرف حقّ معلوم ہؤا تو اُنہوں نے اُس کے موافق فیصلہ کیا پھر یہودی بولا، الله کی قسم! تم نے سچا فیصلہ کیا ہے۔ اِس ضِمن میں حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت انسؓ سے مروی مصر کے ایک شخص کی آمداور فریاد کہ اَے امیر المؤمنین ! مَیں ظلم سے آپؓ کی پناہ چاہتا ہوں نیز دادرسی پر مبنی روایت بھی پیش فرمائی۔

الله کا سلطان بھی تم سے قطعًا نہیں ڈرتا

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے پاس کچھ مال آیا اور آپؓ اُسے لوگوں میں تقسیمکرنے لگے، لوگوں نے کچھ بھیڑ لگا دی، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص لوگوں سے مزاحمت کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور آپؓ تک پہنچ گئے،آپؓ نے اُنہیں ایک دُرّہ لگایا اور کہا! تم زمین میں الله کے سلطان سے نہیں ڈرے اور اِزدھام کو چیرتے ہوئے آگے نکل آئے تو مَیں نے سوچا تم کو بتا دوں کہ الله کا سلطان بھی تم سے قطعًا نہیں ڈرتا!

حضرت عمرؓ میں وُسعتِ حوصلہ کس حد تک تھی

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا، اَے لوگو! تم میں کوئی بھی شخص مجھ میں ٹیڑھا پن دیکھے تو اُسے سیدھا کر دے، ایک آدمی کھڑا ہؤا اَور کہا! اگر ہم آپؓ میں ٹیڑھا پن دیکھیں گے تو اُسے اپنی تلواروں سے سیدھا کریں گے، حضرت عمرؓ نے کہا! الله کا شکر ہے کہ اُس نے اِس امّت میں ایسا بھی آدمی پیدا کیا ہے جو عمرؓ کے ٹیڑھے پن کو اپنی تلوار سے سیدھا کرے گا۔ حضرت عمرؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا! مجھے بھلائی کا حکم دے کر ، بُرائی سے روک کر اور مجھے نصیحت کر کے میری مدد کرو۔ پھر ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے فرمایا! میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ وہ شخص ہے جو میرے عیوب سے مجھے آگاہ کرے۔ پھر حضرت عمرؓ کا ایک قول بیان کیا جاتا ہے کہ مجھے خوف ہے کہ مَیں غلطی کروں اور میرے ڈر سے کوئی مجھے سیدھا راستہ نہ دِکھائے۔ ایک دِن آپؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور مجمعٔ عام کے سامنے کہنے لگا، اَے عمرؓ! الله سے ڈرو، بعض لوگ اِس کی بات سُن کر سخت غصہ ہو گئے اور اُسے خاموش کرانا چاہا، اِس پر حضرت عمرؓ نے اُس سے کہا! تم میں کوئی خیرنہیں اگر تم عیب کو نہ بتاؤ اور ہم میں کوئی خیر نہیں کہ اگر ہم اُس کو نہ سُنیں ۔

کبار صحابہؓ میں کامل اطاعت ہوتی تھی

بیت المال سے تقسیم کیئے گئے کپڑے اورایک آدمی کے اعتراض کہ اِس سےلوگ صِرف قمیض بنوا سکے ، جوڑا مکمل نہیں ہؤا اَور آپؓ کو بھی اُتنا ہی کپڑا مِلا ہو گا پھر آپؓ کا جوڑا کیسے تیار ہو گیا، اِس کی تفصیل بیان کرنے کے بعدحضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تبصرہ فرمایا! بعض اِس قسم کے اُجڈ بھی ہوتے تھے لیکن اِس قسم کی باتیں تربیت یافتہ صحابہؓ جو تھے آنحضرتﷺ کے اُن کے منہ سے کبھی آپ نے نہیں سُنیں گے یہ وہی لوگ ہیں جو دیر سے مسلمان ہوئے اور یا پھر بالکل ہی اُجڈ، اَن پڑھ جاہل تھے ، جو کبار صحابہؓ تھے اُن میں ایسی باتیں نہیں پائی جاتی تھیں اُن میں کامل اطاعت ہوتی تھی۔

اسلام مذہبی امور میں آزادی دیتا ہے ، حضرت عمرؓ کا طریق

فتح اسکندریہ کے بعد وہاں کے حاکم نے حضرت عَمروؓ بن العاص کو پیغام بھیجا کہ اَے اقوامِ عرب! مَیں تم سے زیادہ قابلِ نفرت قوموں یعنی اہلِ فارس اور رُوم کو جِزیہ ادا کرتا تھا اگر آپ پسند کریں تو مَیں آپ کو جِزیہ ادا کرنے کے لیئے تیار ہوں بشرطیکہ آپ میرے علاقہ کے جنگی قیدیوں کو لَوٹا دیں، حضرت عَمروؓ بن العاص نے دربارِ خلافت میں تمام حالات لکھے، حضرت عمرؓ کا جواب آیا کہ تم حاکمِ اسکندریہ کے سا منے یہ تجویز رکھو کہ وہ جِزیہ ادا کرے مگر جو جنگی قیدی تمہارے قبضہ میں ہیں اُنہیں اختیار دیا جائے گا کہ وہ اسلام قبول کریں یا اپنی قوم کے مذہب کو برقرار رکھیں، جو مسلمان ہو جائے گا تو وہ مسلمانوں میں شامل ہو گا اور اُس کے حقوق و فرائض اُنہی جیسے ہوں گے مگر جو اپنی قوم کے مذہب پر برقرار رہے گا اُس پر وہی جِزیہ مقرر کیا جائے گا جو اِس کے ہم مذہبوں پر ہوگا چنانچہ عَمروؓ بن العاص نے تمام قیدیوں کو جمع کیا اور اُن کو فرمانِ خلافت پڑھ کر سُنایا گیا تو بہت سے قیدی مسلمان ہو گئے۔

مذہبی آزادی میں آپؓ کس قدر محتاط تھے

ایک دفعہ ایک بوڑھی نصرانی عورت اپنی کسی ضرورت سے حضرت عمرؓ کے پاس آئی تو آپؓ نے اُس سے کہا! مسلمان ہو جاؤ محفوظ رہو گی، الله نے محمدؐ کو حقّ کے ساتھ بھیجا تھا۔ اُس نے جواب دیا! مَیں بُوڑھی عورت ہوں اور موت میرے قریب ہے، آپؓ نے اِس کی ضرورت پوری کر دی لیکن ڈرے کہ کہیں آپؓ کا یہ کام اُس کی ضرورت سے غلط فائدہ اُٹھا کر اُسے مجبورًا مسلمان بنانے کے مترادف نہ ہو جائے، اِس لیئے آپؓ نے اِس عمل سے الله تعالیٰ سے توبہ کی اور کہا! اَے الله! مَیں نے اُسے سیدھی راہ دکھائی تھی ،اُسے مجبور نہیں کیا تھا، بہت احتیاط تھی۔اِس ضِمن میں حضرت عمرؓ کےایک عیسائی غلام کے واقعہ کا بھی تذکرہ ہؤا۔

جانوروں پر شفقت اور رحمدلی

احنف بن قیسؓ کا بیان ہے! ہم عمر ؓبن خطاب کے پاس ایک وفد کی شکل میں فتح عظیم کی خوش خبری لے کر آئے، آپؓ نے پوچھا! آپ لوگ کہاں ٹھہرےہو؟ مَیں نے کہا !فلاں جگہ، پھر آپؓ میرے ساتھ چل پڑے یہاں تک کہ ہمارے سواری کے اونٹوں کے باڑے کے پاس پہنچے اور ایک ایک کو غور سے دیکھنے کے بعد فرمانے لگے!کیا تم اپنی اِن سواریوں کے بارہ میں اللہ سے خوف نہیں کھاتے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اِن کا بھی تم پر حق ّہے، اُنہیں کُھلا کیوں نہ چھوڑ دیا کہ گھاس وغیرہ چرتے۔ حضرت عمرؓ نے ایک اونٹ دیکھا، جس پر بے بسی اور بیماری کے آثار بالکل نمایاں تھے۔۔۔ حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنا ہاتھ اونٹ کی پُشت پر ایک زخم کے پاس رکھا اور خود کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ مَیں ڈرتا ہوں کہ کہیں تیرے بارہ میں الله کے ہاں میری باز پُرس نہ ہو۔اسلم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے دل میں تازہ مچھلی کھانے کی خواہش پیدا ہوئی، یرفاء (حضرت عمرؓ کے غلام کا نام ہے) سواری پر سوار ہؤا اَور آگے پیچھے چار میل تک دَوڑا کر ایک عمدہ مچھلی خرید کر لایا پھر سواری کی طرف متوجّہ ہؤا اور اُسے غسل دیا، اتنے میں حضرت عمرؓ بھی آگئے اور فرمانے لگے چلو، یہاں تک کہ آپؓ نے سواری کو دیکھ کر فرمایا! تم اِس پسینہ کو دھونا بھول گئے ہو جو اِس کے کان کے نیچے ہے، تم نے عمرؓ کی خواہش پوری کرنے کے لیئے ایک جانور کو تکلیف میں ڈالا ہے، الله کی قسم! عمرؓ تیری اِس مچھلی کو نہیں چکھےگا۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے پاس گرمی کے موسم میں دوپہر کے وقت عراق سے ایک وفد آیا، اُس میں احنف بن قیسؓ بھی تھے، حضرت عمر ؓسر پر پگڑی باندھ کر زکوٰۃ کے ایک اونٹ کو تارکول وغیرہ لگا رہے تھے،آپؓ نے فرمایا! اَے احنف! اپنے کپڑے اُتارو اَور آؤ اِس اونٹ میں امیر المؤمنین کی مدد کرو، یہ زکوٰۃ کا اونٹ ہے، اُس میں یتیم، بیوہ اور مسکین کا حقّ ہے۔

وہ دِن تو ہمارے لیئے دو عیدوں کا دن ہے

طارق نے حضرت عمرؓ بن خطاب سے روایت کی کہ یہود میں سے کسی شخص نے اُن سے کہا! امیر المؤمنین! آپؓ کی کتاب میں ایک آیت ہے جسے آپؓ پڑھتے ہیں اگر وہ ہم پر یعنی یہود کی قوم پر نازل ہوتی تو ہم اِس دِن کو عید مناتے! حضرت عمرؓ نے پوچھا، وہ کون سی ہے؟ اُس نے کہا! اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المآئدۃ:۴) یعنی آج کے دِن مَیں نے تمہارے دین کو تمہارے لیئے کامل کر دیا ہے اور تمہیں اپنی نعمت ساری کی ساری عطاء کر دی ہے اور مَیں نے اسلام کو بطورِ دین تمہارے لیئے پسند کیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا! ہمیں وہ دِن معلوم ہے اور وہ جگہ بھی جہاں نبیﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی تھی آپؐ اُس وقت جمعہ کے دن عرفات میں کھڑے تھے۔ حضرت المصلح الموعودؓ اِس بارہ میں بیان فرماتے ہیں ۔۔۔حضرت عمرؓ نے فرمایا! وہ دِن تو ہمارے لیئے دو عیدوں کا دن ہے یعنی جمعہ کا دِن اور عرفہ کا دِن، یہ آیت نازل ہوئی تھی اِس دِن۔

حضرت عمرؓ کے بارہ میں بعض بزرگان کے بیان

 اشعث سے مروی ہے کہ مَیں نے امام شعبیؒ کو یہ کہتے ہوئے سُنا! جب لوگ کسی مسئلہ میں اختلاف کریں تو دیکھو کہ حضرت عمرؓ نے اِس معاملہ میں کیا کیا ہے ۔

کیونکہ حضرت عمرؓ بغیر مشورہ کے کوئی کام نہیں کرتے تھے۔امام شعبیؒ فرماتے ہیں کہ مَیں نے حضرت قبیصہ ؓبن جابرؓ کو یہ کہتے ہوئےسُنا!مَیں حضرت عمرؓ بن خطاب کے ساتھ رہا ہوں، مَیں نے آپؓ سے زیادہ کتاب الله کو پڑھنے والا اور الله کے دین کو سمجھنے والا اور آپؓ سے اچھا اِس کو درس و تدریس کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ حضرت حسن بصریؒ نے کہا! جب تم اپنی مجلس خوشبودار بنانا چاہو تو حضرت عمرؓ کا بہت ذکر کرو۔ مجاہد ؒسے روایت ہے کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ بے شک! حضرت عمرؓ کے دَور میں شیاطین جکڑے ہوئے تھے جب آپؓ شہید ہوئے تو شیاطین زمین میں کُودنے لگے۔

حضرت عمرؓ کا شاعرانہ ذوق

آپؓ کا شاعرانہ ذوق بھی بہت تھا خود شعر تو نہیں کہتے تھے لیکن شعر سُنتے تھے، پسند کرتے تھے۔ حضرت عبدالله ؓ بن عبّاسؓ فرماتے ہیں کہ مَیں حضرت عمرؓ کے ساتھ ایک سفرمیں نکلا، ایک رات جب ہم چل رہے تھے تو مَیں اُن کے قریب آیا تو اُنہوں نے اپنے پالان کے اگلے حصہ پر ایک کوڑا مار کر یہ اشعار پڑھے۔

کَذَبْتُمْ وَ بَیْتِ اللهِ یُقْتَلُ اَحْمَدُ
وَلَمَّا نُظَاعِنْ دُوْنَهُ وَ نُنَاضِلُ

وَنُسْلِمُهُ حَتَّی نُصَرَّعَ حَوْلَهُ
وَنَذْھَلَ عَنْ اَبْنَآئِنَا وَالْحَلَائِلِ

تم جھوٹ بولتے ہو، الله کے گھر خانۂ کعبہ کی قسم! حضرت احمدؐ شہید نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم اُن کی حفاظت کے لیئے نیزہ بازی اور شمشیر زنی کے جوہر نہ دکھائیں، ہم اُنہیں نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ ہم اُن کے قریب جنگ کرتے ہوئے مارے جائیں اور اپنے فرزند اور اہل و عیال کو بھول جائیں۔

وَمَا حَمَلَتْ مِنْ نَاقَةٍ فَوْقَ رَحْلِھَا  اَبَرَّ وَاَوْفٰی ذِمَّةً مِّنْ مُحَمَّدٍ

کسی اونٹنی نے اپنی پُشت پر حضرت محمدؐ سے بڑھ کر نیکی کرنے والے اور وعدہ پورا کرنے والے انسان کو نہیں بٹھایا۔

ایک تاریخ دان ڈاکٹر علی محمد صلابی اپنی کتاب سیّدنا حضرت عمرؓ بن خطاب شخصیت اور کارنامے ۔۔۔ میں شعر و شاعری سے لگاؤ کے بارہ میں لکھتے ہیں! خلفائے راشدین میں سب سے زیادہ شعر کے ذریعہ مثال دینے والے حضرت عمرؓ تھے، آپؓ کے بارہ میں بعض لوگوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ آپؓ کے سامنے شائد ہی کوئی معاملہ آتا رہا ہو اور آپؓ اِس پر شعر نہ سُناتے رہے ہوں۔۔۔ جاہل شُعراء کے کلام کو بھی کافی لگن سے یاد کرتے تھے۔۔۔ اِس لیئے کہ کتابِ اِلٰہی کے افہام و تفہیم سے اِن کا گہرا تعلق ہے، آپؓ نے فرمایا! تم اپنے دیوان کو حفظ کر لو اور گمراہ نہ رہو! سامعین نے آپؓ سے پوچھا کہ ہمارا دیوان کونسا ہے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا! دَورِ جاہلیت کے اشعار ہیں، اُن میں تمہاری کتاب یعنی قرآنِ مجید کی تفسیر ہے اور تمہارے کلام کے معنی ہیں، آپؓ کا یہ فرمان آپؓ کے شاگرد اور ترجمان القرآن عبداللهؓ بن عبّاسؓ کے اِس مؤقف سے متفق ہے جس میں آپؓ نے کہا کہ جب تم قرآن پڑھو اور اُس کو نہ سمجھ سکو تو اِس کا مفہوم و معنی عرب کے اشعار میں تلاش کرو کیونکہ شاعری عربوں کا دیوان ہے۔اِسی طرح حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نےبرّصغیر کے معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی مصنّف الفاروق کے حوالہ سے آپؓ کے ذوقِ شعر و شاعری کا تذکرہ فرماتے ہوئے بیان کیا! آپؓ صِرف وہ اشعار پسند کرتے تھے جن میں خود داری، آزادی ،خودمختاری ، شرافتِ نفس، حمیّت، عبرت کے مضامین ہوتے تھے اِسی بناء پر اُمرائے فوج اور اضلاع کے عاملوں کو حکم بھیج دیا تھا کہ لوگوں کو اشعار یاد کرنے کی تاکید کی جائے چنانچہ حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ کو یہ فرمان بھیجا کہ لوگوں کو اشعار یاد کرنے کا حکم دو کیونکہ وہ اخلاق کی بلند باتیں اور صحیح رائے اور اَنساب کی طرف راستہ دکھاتے ہیں۔ تمام اضلاع میں جو حکم بھیجا تھا اُس کے الفاظ یہ تھے، اپنی اَولاد کو تیرنا اور شہسواری سکھاؤ اور ضرب الامثال اور اچھے اشعار یاد کراؤ (یعنی علمی ذوق بھی پیدا کرو)۔

میرے ساتھ متمم جیسی تعزیّت کسی نے نہیں کی

علامہ شبلی نعمانی مزید لکھتے ہیں اُس زمانہ کا سب سے بڑا شاعر متمم بن نویرہ تھا جس کے بھائی کو حضرت ابوبکر صڈّیقؓ کے زمانہ میں حضرت خالد ؓ نے غلطی سے قتل کر دیا تھا اِس واقعہ نے اُس کو اِس قدر صدمہ پہنچایا تھا کہ ہمیشہ رویا کرتا اور

مرثیے کہا کرتا تھا، حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہؤا تو آپؓ نے مرثیہ پڑھنے کی فرمائش کی، اُس نے چند اشعار پڑھے۔ حضرت عمرؓ نے اُسے کہا کہ اگر مجھے کوئی ایسا مرثیہ کہنا آتا تو مَیں اپنے بھائی زید کا مرثیہ کہتا!اُس نے کہا، اَے امیر المؤمنین! اگر آپؓ کا بھائی میرے بھائی کی طرح مارا جاتا یعنی شہادت کی موت مرتا تو مَیں ہرگز اِس کا ماتم نہ کرتا!حضرت عمرؓ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے ساتھ متمم جیسی تعزیّت کسی نے نہیں کی۔

حضرت عمرؓ کے فضائل و مناقب کے بارہ میں حضرت مسیحِ موعودؑ کےارشادات

اِس تناظر میں حضورِ انور ایّد الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نےسات اقتباسات پیش فرمائے جن میں چند بطورِ نمونہ درج ذیل ہیں، آپؑ ارشاد فرماتے ہیں۔

بعض واقعات، پیشگوئیوں کے جن کا ایک ہی دفعہ ظاہر ہونا امّید رکھا گیا ہے وہ تدریجًا ظاہرہوں یا کسی اور شخص کے واسطہ سے ظاہر ہوں جیسا کہ ہمارے نبیﷺ کی پیشگوئی کہ قیصر وکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپؓ کے ہاتھ پر رکھی گئی ہیں حالانکہ ظاہر ہے کہ پیشگوئی کے ظہور سے پہلے آنحضرتؐ فوت ہو چکے تھے اور آنجنابؐ نے نہ قیصر اور کسریٰ کے خزانہ کو دیکھا اور نہ کُنجیاں دیکھیں مگر چونکہ مقدّر تھا کہ وہ کُنجیاں حضرت عمرؓ کو مِلیں کیونکہ حضرت عمرؓ کا وجود ظلّی طور پر گویا آنجنابؐ کا وجود ہی تھا اِس لیئے عالمِ وحی میں حضرت عمرؓ کا ہاتھ پیغمبرِ خداؐ کا ہاتھ قرار دیا گیا ہے۔۔۔یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدّیقِ اکبرؓ اور حضرت فاروقِ عمرؓ اور حضرت ذوالنّورینؓ اور حضرت علی المرتضیٰؓ سب کے سب واقعی طور پر دِین میں امین تھے، ابوبکرؓ جو کہ اسلام کے آدمِ ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی الله عنہما اگر دِین میں سچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لیئے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب الله بتا سکتے۔۔۔مجھے میرے ربّ کی طرف سے خلافت کے بارہ میں از روئے تحقیق تعلیم دی گئی ہے اور محققین کی طرح مَیں اِس حقیقت کی تہہ تک پہنچ گیا اور میرے ربّ نے مجھ پر یہ ظاہر کیا کہ صدّیق اور فاروق اور عثمان (رضی الله عنہم) نیکوکار اَور مؤمن تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جنہیں الله نے چُن لیا اور جو خدائے رحمٰن کی عنایات سے خاص کیئے گئے اور اکثر صاحبانِ معرفت نے اُن کے محاسن کی شہادت دی ، اُنہوں نے بزرگ و بر تر خدا کی خوشنودی کی خاطر وطن چھوڑے ، ہر جنگ کی بھٹی میں داخل ہوئے اور موسمِ گرما کی دوپہر کی تپش اور سردیوں کی رات کی ٹھنڈک کی پرواہ نہ کی بلکہ نو خیز جوانوں کی طرح دِین کی راہوں پر محوِ خرام ہوئے اور اپنوں اور غیروں کی طرف مائل نہ ہوئے اور الله ربّ العالمین کی خاطر سب کو خیر باد کہہ دیا ، اُن کے اعمال میں خوشبو اور اُن کے افعال میں مہک ہے اور یہ سب کچھ اُن کے مراتب کے باغات اور اُن کی نیکیوں کے گلستانوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور اُن کی بادِ نسیم اپنے معطّر جھونکوں سے اُن کے اسرار کا پتا دیتی ہے اور اُن کے انوار اپنی پوری تابانیوں سے ہم پر ظاہر ہوتے ہیں، پس تم اُن کے مقام کی چمک دمک کا اُن کی خوشبو کی مہک کا پتا لگاؤ۔۔۔بخدا!الله تعالیٰ نے شیخین (حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ) کو اور تیسرے جو ذوالنّورین ہیں ہر ایک کو اسلام کے دروازے اور خیر الانعام (محمد رسول اللهؐ) کی فوج کے ہر اول دستے بنایا ہے۔۔۔الله اکبر! اِن دونوں یعنی ابوبکرؓ و عمر ؓکے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے، وہ دونوں ایسے مبارک مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰؑ اور عیسیٰؑ زندہ ہوتے بصَد رشک وہاں دفن ہونے کی تمنّا کرتے لیکن یہ مقام محض تمنّا سے تو نہیں حاصل ہو سکتا اور نہ محض خواہش سے عطاء کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو بارگاہِ ربّ العزت کی طرف سے ایک ازلی رحمت ہے ۔

بعد ازاں حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ٔ ثانیہ سے قبل حضرت مولوی عبدالکریم صاحِب سیالکوٹی ؓکے حوالہ سے حضرت مسیحِ موعودؑ کے دِل کی کیفیّت بیان فرمائی جو آپؑ کے دل میں رسولِ کریمؐ اور شیخین حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی محبّت اورعزت کی تھی نیز ارشاد فرمایا! حضرت عمرؓ کا ذکر اب یہاں سے ختم ہوتا ہے یعنی کہ خطبات میں، اِن شاء الله! آئندہ الله تعالیٰ نے توفیق دی توحضرت ابوبکرؓ کا ذکر شروع ہو گا۔

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نما ئندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

غَضِّ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے