حضرت حاجی میراں بخش رضی اللہ عنہ ولد مکرم میاں محمد بخش قوم شیخ انبالہ کے رہنے والے تھے اور چمڑے کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ آپؓ نے 1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کی توفیق پائی اور سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوگئے۔ قبول احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ بیان کرتے ہیں:
’’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ مسیحیت و مہدویت کے متعلق خاکسار نے ڈاکٹر بشارت احمد سے سنا جو اغلباً 1904ء میں انبالہ شہر سول ہسپتال میں ڈاکٹر تھے۔ چونکہ انبالہ شہر میں مولویوں نے بہت سی غلط افواہیں اڑا رکھی تھیں۔ جن میں ایک یہ بھی تھی کہ نعوذ باللہ مرزا صاحب مرض جذام میں مبتلا ہیں۔ نیز وہاں ملاقات کرنے والے سے پہلے سب حالات معمول کر لئے جاتے ہیں۔ اور مرزا صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام) پردہ میں بیٹھ کر سن لیتے ہیں۔ اس لئے میں نے قادیان جا کر سب حالات دیکھنے کا ارادہ کر لیا اور 1905ء کی گرمیوں میں قادیان پہنچا اور جانے سے پہلے میں یہ مان چکا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے۔
خاکسار کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ملاقات کے لئے مسجد مبارک میں پہنچایا گیا۔ مسجد مبارک اس وقت اتنی چھوٹی تھی کہ ایک سطر میں بمشکل چار پانچ آدمی کھڑے ہو سکتے تھے، میں اندرون مکان سے جو راستہ کھڑکی کے ذریعہ مسجد میں ہے۔ کھڑا ہو گیا اور جیسے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے۔ مصافحہ کیا۔ آپ کے دست مبارک نہایت نورانی پائے اور مولویوں کی کہانیاں باطل ہوئیں اور بیعت کرلی۔
حضرت مولوی عبدالکریمؓ صاحب نے نماز ظہر پڑھائی اور بعد نماز کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھوڑی دیر مسجد میں تشریف فرما رہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج کل چونکہ طاعون کا زور ہے۔ باہر سے مہمان آتے ہیں محتاط رہنا چاہئے تا کہ فتنہ کا باعث نہ ہو۔ غالباً مطلب یہی تھا کہ مہمانوں میں سے کوئی بیمار نہ ہو جائے۔ جب حضور علیہ السلام تشریف لے گئے تو میرے دل میں خیال آیا کہ میں نے حضور کے پاؤں نہیں دیکھے۔ سو نماز عصر کے وقت حضور کے پاؤں بھی دیکھے۔ بالکل صاف و پاک تھے۔ خاکسار قادیان سے واپس امرتسر چلا آیا۔ جلد آنے کی وجہ طاعون کی بیماری کا زور تھا اور ساتھ ہی حضور نے جو کلمات فرمائے کہ کہیں کوئی بیمار نہ ہو جائے۔ میں ڈر گیا۔ امرتسر ایک شب ٹھہرا۔ وہاں سے ایک احمدی صاحب شمس الدین پہلوان نامی اسی شب امرتسر آئے اور ملے۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ حضورؑ نے خاکسار کو ان الفاظ سے یاد فرمایا کہ وہ جو انبالہ سے مہمان آئے تھے وہ کہاں چلے گئے۔
(رجسٹر روایات صحابہؓ نمبر 12 صفحہ 287،286)
اپنی روایات میں آپ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ میں چونکہ چمڑے کا کاروبار کرتا تھااس لیے میں نے سوچا کہ حضور علیہ السلام کے لیے جوتے بنوا کر قادیان جاؤں اور حضورؑ کو پیش کروں۔ قادیان پہنچنے پر جوڑا حضور علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ جوڑا خوب کھلا آیا۔ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ گزشتہ سال کسی نے جوڑا بنا کر دیا جو نہایت تنگ اور تکلیف دہ تھا۔ اس واقعہ کے بعد خاکسار ایک یا دو مرتبہ قادیان گیا اور شرف ملاقات حاصل کیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ ؓ خلافت کے ساتھ وابستہ رہے اور سلسلہ احمدیہ کے ساتھ اخلاص و وفا میں ترقی کرتے چلے گئے۔ انبالہ میں آپؓ کے حصہ میں یہ بھی سعادت آئی کہ آپ نے احمدیہ مسجد کی تعمیر کے لیے سارے اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے اور 1933ء میں انبالہ میں جماعت احمدیہ کی نئی مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔
(الفضل 8۔اگست 1933ء، اخبار فاروق 14۔اگست 1933ء)
آپؓ نیک طینت اور خوش اخلاق انسان تھے۔ 1912ء میں آپؓ نے فریضہ حج کی سعادت حاصل کی۔ آپؓ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہیں، آپؓ کا نام ’’مرحومین مشرقی پنجاب‘‘ کے تحت درج ہے۔ آپ نے احمدیت کی خاطر کئی صعوبتیں برداشت کیں لیکن معاندین نے اس پر بس نہ کرتے ہوئے آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور 13۔اگست 1940ء کی رات کو آپؓ کے گھر میں گھس کر آپ کو اور آپ کی اہلیہ محترمہ کو شہید کر دیا ۔
آپ ؓنے اپنے پیچھے ایک لڑکا بشارت احمد عمر چھ سال اور ایک لڑکی عمر 10 ماہ چھوڑی ، لڑکی تو تھوڑے عرصہ بعد ہی فوت ہوگئی لیکن بیٹا بفضلہ تعالیٰ قادیان میں پروان چڑھا، بشارت احمد اللہ تعالیٰ کے فضل سے حیات ہیں اور ٹورانٹو کینیڈا میں اپنے بیٹوں کے پاس مقیم ہیں۔
(غلام مصباح بلوچ۔کینیڈا)