جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ابتدائے اسلام میں مکہ میں نماز کی ادائیگی اور تلاوت قرآن سے جبراً روکا گیا تو ان ظالمانہ پابندیوں کی بناء پر آپ نے مکہ سے ہجرت کا ارادہ کیا اور رئیس مکہ ابن الدغنہ کی طرف سے پناہ ملنے پر آپؓ نے ہجرت کا ارادہ اس عہد پر چھوڑا کہ یہ مکہ کے لوگ عبادت میں حائل نہ ہوں گے۔ آپؓ نے اپنے گھر میں ہی مسجد بنالی اور وہیں قرآن شریف پڑھا کرتے اور پڑھتے پڑھتے آپ رو پڑتے اور آپ پر رِقّت طاری ہو جاتی۔ اِردگرد کی خواتین بھی متاثر ہونے لگیں۔ جس پر رؤسا مکہ نے ابن الدغنہ سے شکایت کی۔
ابن الدغنہ نے اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فوری طور پر رابطہ کیا اور کہا کہ آپ یہ طریق چھوڑ دیں کیونکہ رؤسا کو خدشہ ہے کہ آپ کے اس طریق سے محلہ کی ساری خواتین مسلمان ہو جائیں گی۔ اس لئے آپ اندر بیٹھ کر قرآن کریم پڑھا کریں وگرنہ مجھے اپنی حفاظت واپس لینا پڑے گی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کئے گئے عہد اور ان سے نہایت کامل وفا سے فرمایا اے ابن الدغنہ! آپ اپنی حفاظت واپس لے لیں۔ میرے لئے اللہ اور اس کے رسولؐ کی حفاظت کافی ہے۔ میں تو عبادت بھی بجالاؤں گا اور اللہ کی پیاری کتاب قرآن کریم کی تلاوت بھی کروں گا۔
چنانچہ ابن الدغنہ کی طرف سے اپنی حفاظت واپس لینے کے اعلان کے بعد آپ نے تا ہجرتِ مدینہ، مکہ میں ہی قیام فرمایا اور مشرکین کی مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ہجرت مدینہ میں آنحضور ﷺ کے پہلو بہ پہلو ساتھ رہے اور ہر مشکل گھڑی میں آنحضور ﷺ کا ساتھ دیا۔ حتیٰ کہ مدینہ کے قیام کے دوران ایک غزوہ جس میں آپ کا ایک بیٹا اسلام کے خلاف نبردآزما تھا کے بعد بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ حضرت ابوبکرؓ سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے ابا! اس جنگ میں میں نے آپ کو ایک جگہ دیکھ لیا تھا۔ دل کرتا تھا کہ میں آپ کو قتل کردوں مگر پدری محبت آڑے آ گئی۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور پورے جذبہ ایمانی کے ساتھ بیٹے کو مخاطب ہو کر فرمایا۔ اے عبداللہ! اچھا ہوا تم مجھے نظر نہیں آئے وگرنہ میں تمہیں ضرور مارڈالتا کیونکہ تم میرے روحانی آقا و مُرشد حضرت محمد مصطفی ﷺ کے خلاف میدان جنگ میں نکلے تھے۔ اللہ اللہ یہ تھی فدائیت اور وفا جو اس بزرگ ساتھی نے ایک طرف اپنے خالق سے اور دوسری طرف خالق کے سب سے پیارے وجود حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے ساتھ عمر کے آخری حصہ تک نبھائی۔
صدق کو پایا جب اصحاب رسول اللہ نے
اس پہ مال و جان و تن بڑھ بڑھ کے کرتے تھے نثار
(تاریخ الخمیس جلد اول ص320,319)