• 11 دسمبر, 2024

اخبارات و رسائل کے چند قابل غور حوالے

سائنس لیبارٹری سرن

جاوید چوہدری نے اپنے کالم ’’سرن کے درویش‘‘ میں ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئےلکھا۔
سائنس دانوں کا خیال ہے مادے کی اس دنیا کا آدھا حصہ غیر مادی ہے یہ غیر مادی دنیا ہماری دنیا میں توانائی کا مآخذ ہے یہ لوگ اس غیر مادی دنیا کو اینٹی میٹر کہتے ہیں یہ اینٹی میٹر پیدا ہوتا ہے۔ کائنات کو توانائی دیتا ہے اور سیکنڈ کے اربوں حصے میں فنا ہو جاتا ہے سرن کے سائنس دانوں نے چند ماہ قبل اینٹی میٹر کو 17 منٹ تک قابو رکھایہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا یہ لوگ اگر اینٹی میٹر کو لمبے عرصے کیلئے قابو کر لیتے ہیں تو پھر پوری دنیا کی توانائی کی ضرورت چند سیکنڈز میں پوری ہو جائے گی دنیا کو بجلی اور پٹرول کی ضرورت نہیں رہے گی سرن ایک انتہائی مشکل اورمہنگا پراجیکٹ ہے اور سائنسدان یہ مشکل کام 65 سال سے کر رہے ہیں۔یہ لیبارٹری دنیا کے ان چند مقامات میں شامل ہے جن میں پاکستان اور پاکستانیوں کی بہت عزت کی جاتی ہے اس عزت کی وجہ ڈاکٹر عبدالسلام ہیں، ڈاکٹر عبدالسلام کی تھیوری نے سرن میں اہم کردار ادا کیا۔ عناصر کو ٹکرانے کے عمل کا آغاز ڈاکٹر صاحب نے کیا تھا۔ڈاکٹر صاحب کا وہ ریکٹر اس وقت بھی سرن کے لان میں نصب ہے جس کی وجہ سے انہیں نوبیل انعام ملا دنیا بھر کے فزکس کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں اگر ڈاکٹر صاحب تھیوری نہ دیتے اور اگر وہ اس تھیوری کو ثابت کرنے کیلئے یہ پلانٹ نہ بناتے تو شاید سرن نہ بنتا اور شاید کائنات کو سمجھنے کا یہ عمل بھی شروع نہ ہوتا۔ چنانچہ ادارے نے لیبارٹری کی ایک سڑک ڈاکٹر عبدالسلام کے نام منسوب کر رکھی ہے، یہ سڑک آئین سٹائن کی سڑک کے قریب ہے اور یہ اس انسان کی سائنسی خدمات کا اعتراف ہے جسے ہم نے مذہبی نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جسے ہم نے پاکستانی ماننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ سرن میں اس وقت 10ہزار لوگ کام کرتے ہیں ان میں تین ہزار سائنس دان ہیں یوں یہ دنیا کی سب سے بڑی سائنسی تجربہ گاہ ہے۔ یہ تجربہ گاہ کبھی نہ کبھی اس راز تک پہنچ جائے گی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات تخلیق کی تھی۔ یہ راز جس دن کھل گیا اس دن کائنات کے سارے بھید کھل جائیں گے ہم اس دن قدرت کو سمجھ جائیں گے۔

(روزنامہ ایکسپر یس فیصل آباد 21مئی 2017ء)

مذہب کے نام پر دہشت گردی

رئیس فاطمہ نے اپنے کالم بعنوان’’ہماری جامعات یا انتہا پسندی کی پناہ گاہیں‘‘ کے عنوان سے لکھا۔
موجودہ دور میں جس طرح مذہب کے نام پر قتل و غارت گری ہو رہی ہے اسے دیکھ کر خوف آتا ہے۔ جب جی چاہا کسی کو بھی کافر قرار دے دیا، جس سے دشمنی یا عداوت محسوس ہوئی اس کے خلاف فتویٰ صادر کروادیا، ہر طرح کا فتویٰ نہایت آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کسی کو مسلک کے نام پر، کسی کو مذہب کے نام پر اور کسی کو توہین رسالت کا الزام لگا کر قتل کرنا اب بہت آسان ہوگیا ہے۔ ماضی میں ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں کہ توہین کا جھوٹا الزام لگانے والوں کے کچھ اپنے مقاصد تھے۔ نیز یہ بھی کہ بغیر کسی تحقیق کے کسی کو قتل کردینا کیا اسلام دشمنی نہیں۔ ایسے موقعوں پر مجھے ہمیشہ مرزا یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر نہ صرف یاد آتا ہے بلکہ یہ پوری شدت کے ساتھ آج کے ماحول کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

سب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا؟
سر پھرا دے انساں کا ایسا خبطِ مذہب کیا؟

جب جب میں نے یہ شعر اپنے کالم میں استعمال کیا، سر پھرے مذہبی جنونیوں نے ایسے ایسے SMS بھیجے بلکہ کال کرکے بھی گالیاں دیں۔ تب میں نے کہا کہ دراصل پوری دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے والے یہی لوگ ہیں۔ پوری دنیا میں اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے…۔
اور ایک ذرا سا سچ کہنے پر جو میڈیا نے جو شور مچایا ہے وہ الگ۔ ہر چینل اپنے نمبر بڑھانے میں مصروف۔ لیکن کسی چینل میں، کسی مذہبی رہنما میں، کسی لیڈر میں یہ ہمت نہیں کہ بڑھتی ہوئی دہشتگردی میں ملوث جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے۔ ضرب عضب کا اثر ہمیں تو نظر نہیں آتا۔ اور جب جامعات میں دن دہاڑے طالب علموں کا قتل ہونے لگے تو ہے کوئی جو ان دہشت گردوں کو پھانسی پر لٹکانے کی بات کرے جنہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ہنگامہ کیا، جنہوں نے مردان یونیورسٹی میں دہشتگردی کی، جنہوں نے طالب علم مشال کو زد و کوب کیا اور جانوروں کی طرح مارا۔ یہ انسان کے روپ میں بھیڑیے ہیں۔

(روزنامہ ایکسپریس فیصل آباد 18جون 2017ء)

قائد اعظم اور سمجھوتہ

معروف قانون دان ایس ایم ظفر لکھتے ہیں :۔
11۔اگست کی تقریر :قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کی کیا حیثیت ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ تقریر کہاں کی گئی اور کب کی گئی تھی ۔ یہ تاریخ کے اس موڑ پہ ہے جب ہم نے ایک دستور ساز اسمبلی میں آئندہ کا قانون اور آئین بنانا ہے۔ پھر یہ تقریر قائد اعظم نے کی جو بانی پاکستان تھے۔ ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تقریر کی بہت زیادہ اہمیت ہو جاتی ہے۔قائد کی دور رس نگاہیں دیکھ سکتی تھیں کہ اب کیا ہو سکتا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ انہیں یہ خطرات ضرور پیش نظر تھے کہ ہمارے لوگ ابھی تک شعور کی اس سطح تک نہیں پہنچے کہ وہ ایک تحریک کے ایجنڈے کو ایک ملک کے ایجنڈے سے مختلف سمجھ سکیں ۔ اس فرق کو بیان کرنے کی انہوں نے بڑی فصاحت کے ساتھ کوشش کی۔ یہ دوسری بات کہ ہم بعد میں آنے والوں نے اس کی الگ الگ تشریح کی۔ لیکن ان تمام تنازعات سے ہٹ کر کوئی سمجھ بوجھ رکھنے والا ذہن اس کو دیکھے گا تو اسے یہ تمام باتیں نظر آجائیں گی ۔ اس وقت کچھ بیورو کریٹس نے اس میں سے کچھ فقرے نکالنے کی کوشش کی جو شاید ان کے نظریات کے خلاف تھے لیکن اللہ بھلا کرے ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین صاحب کا، انہیں پتہ لگا تو انہوں نے بڑی سختی سے ان الفاظ کو دوبارہ سے شائع کرنے کاحکم دیا۔
قرارداد مقاصد: یہ قرارداد اس وقت منظور ہوئی جب لیاقت علی خان صاحب وزیر اعظم تھے اور ان کو پارلیمنٹ کا سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ قرارداد مقاصد ایک کمپرومائزڈ ڈاکومنٹ ہے، جسے قدامت پسند وں اور جدت پسندوں دونوں نے اپنی جیت سمجھا۔ قدامت پسند سمجھتے تھے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے سے ان کا مقصد پورا ہو گیا ، جدت پسند یہ سمجھے کہ اسمبلی اور منتخب نمائندگان پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ آئین بنائیں گے اس لئے ان کا مقصد پورا ہو گیا۔ باقی معاملات کو بھی آپ جب پڑھتے جائیں گے آپ کو ہر پیراگراف میں یہ کمپرومائز نظر آتا جائے گا ، جس میں دونوں فریق سمجھتے رہے کہ ان کو کامیابی ملی۔ بالآخر کون جیتتا ہے یہ فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دیں ۔ اس کے متعلق مؤرخین نے بہت کچھ لکھا ہے اور بہت کنفیوز بھی کیا ہے۔ قائد اعظم سیاسی کمپرومائز تو کرتے تھے لیکن جس کے دوررس اثرات ہوں ، وہاں سمجھوتہ کرنے سے اجتناب کرتے تھے، قائد اعظم اگر دستور ساز اسمبلی میں موجود ہوتے اور وہاں یہ معاملہ آتا، مجھے شک ہے بہت سارے الفاظ اس میں نہ ہوتے جو اس میں شامل ہوئے۔

ہاتھ دھونے سے دماغ پرانے خیالات سے صاف

ایک تحقیق میں یہ دلچسپ انکشاف ہوا ہے کہ ہاتھ دھونے سے نہ صرف ہمارے ہاتھ صاف ہوتے ہیں بلکہ ہمارے ذہن سے پرانے خیالات بھی مٹ جاتے ہیں ۔ ٹورانٹو کے راٹمین سکول آف مینجمنٹ کے ماہرین نے یہ تحقیق کی جب کہ اس تحقیق سے پہلے یہ بات سامنے آئی تھی کہ صفائی کی وجہ سے ہمارے اخلاق پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اس تحقیق میں ماہرین نے 4عمل کئے۔ جس میں انہوں نے لوگوں کو الفاظ سے کھیلنے یا سروے کے ذریعے ان کی زندگی کے مقاصد کی جانب راغب کیا۔ پھر ان لوگوں کو اس عمل کا اندازہ کرنے کا کہا گیا یا پھر انہیں ہاتھ دھونے کا مشورہ دیا گیا۔ تحقیق میں دیکھا کہ اگر آپ کے دل میں اپنے فیصلوں کو لے کر کوئی شک و شبہات ہیں تو اسے دور کرنے کا سب سے آسان حل صرف ہاتھ دھونا ہے۔

( روزنامہ ایکسپریس فیصل آباد 17جون 2017ء)

پچھلا پڑھیں

چھٹےسالانہ اولڈبرج سروس ایوارڈز جماعت احمدیہ سنٹرل جرسی۔امریکہ کی تقریب

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ