خطبہ جمعہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍ دسمبر 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ
’’سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اس کے لئے ضروری ہے کہ ابوبکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہو مجاہدہ کرے اور پھر حتی المقدور دعا سے کام لے۔‘‘ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
’’بخدا آپ اسلام کے لئے آدم ثانی اور خیر الانام (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے انوار کے مظہر اوّل تھے۔‘‘ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر
شروع ہو گا۔ حضرت ابوبکرؓ کانام عبداللہ تھا اور عثمان بن عامر ان کے والد کا نام تھا۔ کنیت ابوبکر تھی اور آپؓ کے لقب ’عتیق‘ اور ’صدیق‘ تھے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ آپؓ کی ولادت عام الفیل کے دو سال چھ ماہ بعد 573ء میں ہوئی۔ حضرت ابوبکرؓ کا نام جیسا کہ مَیں نے کہا عبداللہ تھا۔ آپؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو تَیم بن مُرَّہ سے تھا۔ جاہلیت میں آپؓ کا نام عبدالکعبہ تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کر کے عبداللہ رکھ دیا۔ آپؓ کے والد کا نام عثمان بن عامر تھا اور ان کی کنیت ابوقُحافہ تھی اور والدہ کا نام سلمیٰ بنت صَخْربن عامِر تھا اور ان کی کنیت اُمُّ الخیر تھی۔ ایک قول کے مطابق آپؓ کی والدہ کا نام لَیْلیٰ بنت صَخْر تھا۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد3 صفحہ91 – 92، عبد اللّٰہ بن ابی قحافۃ، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2002ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ90، ومن بنی تیم بن مرّة بن کعب،داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3 صفحہ 204، عبد اللّٰہ بن عثمان، دارالفکر بیروت،2003ء)
(اصابہ جلد 4 صفحہ 145 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شجرۂ نسب ساتویں پشت میں مُرَّہ پر جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔
(حضرت ابوبکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ57 اردو ترجمہ انجم سلطان شہباز بک کارنر شو روم جہلم)
اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کی والدہ کا سلسلہ نسب ننھیال اور ددھیال دونوں طرف سے چھٹی پشت پر جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔
(سیدنا ابوبکر صدیق کی زندگی کے سنہرے واقعات از عبدالمالک مجاہد صفحہ 29مطبوعہ دارالسلام)
ابوقحافہ یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد کی اہلیہ ام الخیر ان کے چچا کی بیٹی تھیں۔
(الروض الانف جلد اول صفحہ 430 ’’اسلام ابی بکر‘‘۔ دار الکتب العلمیة بیروت طبع اول)
یعنی حضرت ابوبکرؓ کی والدہ ان کے والد کے چچا کی بیٹی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے والدین حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد بھی زندہ رہے اور ان دونوں نے اپنے بیٹے یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ورثہ پایا۔ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد پہلے ان کی والدہ کی وفات ہوئی۔
(اسدالغابۃ جلد 7۔ ام الخیر بنت صخر زیر حرف الخاء صفحہ 314-315۔ دار الکتب العلمیۃ 2008ء)
اور پھر حضرت ابوبکرؓ کے والد نے 14؍ ہجری میں 97 برس کی عمر میں وفات پائی۔
(الاصابہ جلد 3 ۔ حرف العین زیر لفظ عثمان بن عامر۔ صفحہ 424۔دار الفکر 2001ء)
حضرت ابوبکرؓ کے والد اور والدہ دونوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی۔
آپؓ کے والد کے ایمان لانے کا واقعہ یوں ہے کہ آپ کے والد فتح مکہ تک ایمان نہیں لائے تھے۔ اس وقت ان کی بینائی جا چکی تھی۔ فتح مکہ کے وقت جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ اپنے والد کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اےابوبکر! تم اس بوڑھے عمر رسیدہ شخص کو گھر ہی رہنے دیتے۔ مَیں خود ان کے پاس آ جاتا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! یہ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپؐ کی خدمت میں حاضرہوتے نہ یہ کہ آپؐ ان کے پاس تشریف لاتے۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بٹھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ اسلام لے آئیں۔ آپ سلامتی میں آجائیں گے۔ چنانچہ ابو قحافہ نے اسلام قبول کر لیا۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابۃ لابن حجرجلد4 صفحہ374-375 ذکر عثمان بن عامر، ابوقحافۃ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ابوقحافہ کو فتح مکہ کے دن لایا گیا تو ان کا سر اور داڑھی ثَغَامہ کی طرح سفید ہو چکے تھے۔ ثَغَامہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سفید رنگ کا ایک پھول ہوتا تھا جو پہاڑوں پر اُگتا تھا۔ بہرحال بالکل سفید بال تھے۔ داڑھی بہت سفید تھی اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کسی اَور رنگ سے تبدیل کر دو یعنی اس پہ خضاب لگا دو۔ رنگ کردو زیادہ بہتر ہے لیکن سیاہ رنگ سے بچو۔
(صحیح مسلم کتاب الادب باب فی صبغ الشعر و تغییر الشیب حدیث 3911 مترجم جلد 11 صفحہ 198-199)
یہ مطلب نہیں تھا کہ سیاہ رنگ کوئی برائی ہے بلکہ شایدآپ نے خیال فرمایا ہو کہ عمر کے اس حصہ میں بالکل سیاہ رنگ کے بال چہرے پر شاید مناسب نہ لگیں تو بہرحال آپ نے کہا اس کو رنگ دینا چاہیے، خضاب لگا دینا چاہیے۔
حضرت ابوبکرؓ کی والدہ ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھیں۔ اس کا ذکر سیرت حلبیہ میں اس طرح ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارِ ارقم میں تشریف لے گئے تا کہ وہاں آپؐ اور آپؐ کے صحابہ چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکیں اور اس وقت مسلمانوں کی تعداد اڑتیس(38) تھی۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی کہ مسجد حرام میں تشریف لے چلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! ہماری تعداد قلیل ہے لیکن حضرت ابوبکرؓ اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام صحابہ کے ساتھ مسجد حرام میں تشریف لائے۔ وہاں حضرت ابوبکرؓ نے لوگوں کے سامنے خطاب کیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے خطاب میں لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دی۔ اس طرح آپؓ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلے خطیب
ہیں جنہوں نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا۔ اس پر مشرکین حضرت ابوبکرؓ اور مسلمانوں کو مارنے کے لیے ٹوٹ پڑے اور انہیں بُری طرح مارا پیٹا۔ حضرت ابوبکرؓ کو پیروں تلے روندا گیا اور انہیں خوب مارا پیٹا گیا۔ عُتْبہ بن رَبِیعہ حضرت ابوبکر کو ان جوتوں سے مار رہا تھا جس پر دوہرا چمڑا لگا ہوا تھا۔ اس نے ان جوتوں سے حضرت ابوبکرؓ کے چہرے پر اتنا مارا کہ منہ سوج جانے کی وجہ سے آپؓ کے چہرے پر ناک کی بھی پہچان نہیں ہو پا رہی تھی۔ پھر بنو تیم کے لوگ بھاگتے ہوئے آئے اور مشرکین کو حضرت ابوبکرؓ سے دور کیا۔ بنو تیم کے لوگوں نے آپؓ کو ایک کپڑے میں ڈال کر اٹھایا اور انہیں ان کے گھر میں لے گئے اور انہیں حضرت ابوبکرؓ کی موت میں کوئی شک نہیں تھا۔ اس حد تک مارا تھا۔ اس کے بعد بنوتیم کے لوگ واپس آئے اور مسجد میں، خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور کہا خدا کی قسم! اگر ابوبکرؓ فوت ہو گئے تو ہم ضرور عُتبہ کو قتل کر دیں گے، جس نے زیادہ مارا تھا۔ پھر وہ لوگ حضرت ابوبکرؓ کے پاس واپس آئے اور آپؓ کے والد ابوقحافہ اور بنو تیم کے لوگ آپؓ سے بات کرنے کی کوشش کرنے لگے مگر آپؓ بیہوشی کی وجہ سے کوئی جواب نہ دیتے تھے یہاں تک کہ دن کے آخری حصہ میں آپؓ بولے اور سب سے پہلے یہ پوچھا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟
مگر لوگوں نے ان کی بات کا جواب نہ دیا مگر آپؓ بار بار یہی سوال دہراتے رہے۔ اس پر آپ کی والدہ نے کہا۔ خدا کی قسم! مجھے تمہارے ساتھی کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ حضرت عمرؓ کی بہن امِّ جمیل بنت خطاب کے پاس جائیں۔ امِّ جمیلؓ پہلے ہی مسلمان ہو چکی تھیں لیکن اپنے اسلام کو چھپایا کرتی تھیں۔ آپ ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حال دریافت کریں۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ کی والدہ اُمّ جمیل کے پاس گئیں اور ان سے کہا کہ ابوبکر، محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا: میں محمدؐ کو نہیں جانتی اور نہ ہی ابوبکرؓ کو۔ پھر امِّ جمیل نے حضرت ابوبکرؓ کی والدہ سے کہا کہ کیا آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ کے ساتھ چلوں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر وہ ان کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئیں تو امِّ جمیل نے آپ کو زخموں سے چُور زمین پر پڑا دیکھا تو چیخ اٹھیں اور کہا کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے وہ یقیناً فاسق لوگ ہیں اور میں امید رکھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سے بدلہ لے گا۔ تب حضرت ابوبکرؓ نے ان سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ امِّ جمیل نے کہا یہ تمہاری والدہ بھی سن رہی ہیں۔ آپ نے کہا: وہ تمہارا راز ظاہر نہیں کریں گی۔ اس پر امِّ جمیل نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کہ آپؐ اس وقت کہاں ہیں؟ اُمّ جمیل نے کہا دارِ ارقم میں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عشقِ رسولؐ کے اس اعلیٰ مقام کو دیکھیں، جب یہ بات سنی تو پھر حضرت ابوبکرؓ نے کہا خدا کی قسم! میں نہ کھانا چکھوں گا اور نہ پانی پیوں گا یہاں تک کہ پہلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں۔ حضرت ابوبکرؓ کی والدہ نے بتایا کہ ہم نے انہیں یعنی ابوبکرؓ کو کچھ دیر روکے رکھا یہاں تک کہ جب لوگوں کا باہر آنا جانا تھم گیا اور لوگ پُرسکون ہو گئے تو ہم آپؓ کو لے کر نکلے۔ آپؓ میرے سہارے سے چل رہے تھے یہاں تک کہ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے تو حضرت ابوبکرؓ پر شدید رقت طاری ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت ابوبکرؓ کی یہ حالت دیکھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو بوسہ دینے کے لیے حضرت ابوبکرؓ پر جھکے اور مسلمان بھی آپؓ پر جھکے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں سوائے اس کے جو لوگوں نے میرے منہ پر چوٹیں لگائی ہیں اور یہ میری والدہ اپنے بیٹے سے اچھا سلوک کرنے والی ہیں۔ یہ مختصر سی باتیں کیں۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے طفیل ان کو آگ سے بچا لے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی والدہ کے بارے میں کہا کہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے طفیل ان کو آگ سے بچا لے یعنی ایمان لے آئیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کی والدہ کے لیے دعا کی اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دی جس پر انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ (السیرة الحلبیة جلد اول صفحہ 418-419 باب استخفائہﷺ و اصحابہ فی دار الارقم دار الکتب العلمیة بیروت 2002ء) اس طرح حضرت ابوبکرؓ کی والدہ نے شروع میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش
کے بارے میں جو روایات ہیں ان میں اِصابہ جو صحابہ کی سوانح پر ایک مستند کتاب ہے اس کے مطابق حضرت ابوبکرؓ صدیق عَامُ الفِیل کے دو سال چھ ماہ بعد پیدا ہوئے۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 4 صفحہ 145،عبد اللّٰہ بن عثمان،دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2005ء)
تاریخ طَبری اور طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ آپؓ عام الفیل کے تین سال کے بعد پیدا ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ151 ذکر وصیۃ ابی بکر دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 348۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اسی طرح
حضرت ابوبکرؓ کے لقب
ہیں۔ دو لقب مشہور ہیں جو بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک ‘عتیق’ اور ایک ‘صدیق’۔
عتیق
کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ اس بارے میں لکھا ہے۔ حضرت عائشہ ؓنے بیان فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپؐ نے فرمایا۔ اَنْتَ عَتِیْقُ اللّٰہِ مِنَ النَّارِ کہ تم اللہ کی طرف سے آگ سے آزاد کردہ ہو۔ پس اس دن سے آپؓ کو عتیق کا لقب دیا گیا۔
(سنن الترمذی کتاب المناقب باب تسمیتہ عتیقا حدیث 3679)
بعض مؤرخین لقب کے بجائے حضرت ابوبکرؓ کا نام عتیق بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ لقب نہیں بلکہ آپؓ کا نام تھا لیکن یہ درست نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ جلال الدین سُیُوطیؒ نے تاریخ الخلفاء میں امام نَوَوِی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا نام عبداللہ تھا اور یہی زیادہ مشہور اور درست ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؓ کا نام عتیق تھا لیکن درست وہی ہے جس پر اکثر علماء متفق ہیں کہ عتیق آپ کا لقب تھا نہ کہ نام۔
(تاریخ الخلفاء صفحہ 27 دارالکتاب العربی بیروت 1999ء)
سیرت ابنِ ہشام میں لقب عتیق کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ کے چہرے کی خوبصورتی کی وجہ سے اور آپ کے حسن و جمال کی وجہ سے آپ کو عتیق کہا جاتا تھا۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام اسلام ابی بکر و من معہ صفحہ 117۔ دار ابن حزم 2009ء)
سیرت ابن ہشام کی شرح میں عتیق لقب کی درج ذیل وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ عتیق کا مطلب ہے اَلْحَسَنُ یعنی عمدہ صفات والا۔ گویا کہ آپ کو مذمت اور عیوب سے بچایا گیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؓ کو عتیق اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپؓ کی والدہ کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا۔ انہوں نے نظر مانی کہ اگر ان کے ہاں بچہ ہوا تو وہ اس کا نام عبدالکعبہ رکھیں گی اور اس کو کعبہ کے لیے وقف کر دیں گی۔ جب آپؓ زندہ رہے اور جوان ہو گئے تو آپؓ کا نام عتیق پڑ گیا گویا کہ آپؓ موت سے نجات دیے گئے۔
(الروض الانف فی تفسیر السیرة النبویة لابن ہشام جلد اول صفحہ 430’’اسلام ابی بکر‘‘۔ دار الکتب العلمیة بیروت طبع اول)
ان کے علاوہ بھی لقب عتیق کی مختلف وجوہات ملتی ہیں۔ بعض لوگوں کے مطابق آپؓ کو عتیق اس لیے کہا جاتا تھا کہ آپؓ کے نسب میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کی وجہ سے اس پر عیب لگایا جاتا۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 صفحہ 963، عبد اللّٰہ بن ابی قحافۃ، دارالجیل بیروت)
عتیق کا ایک معنی قدیم یا پرانے کے بھی ہیں۔ اس لیے حضرت ابوبکرؓ کو عتیق اس وجہ سے بھی کہا جاتا تھا کہ آپؓ قدیم سے نیکی اور بھلائی کرنے والے تھے۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 4 صفحہ 146،عبد اللّٰہ بن عثمان،دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2005ء)
اسی طرح اسلام قبول کرنے میں اور بھلائی میں پہل کرنے کی وجہ سے آپ کا لقب عتیق رکھا گیا تھا۔
(عمدۃ القاری کتاب بدء الخلق باب مناقب المھاجرین و فضلھم جلد 16 صفحہ 260، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 2003ء)
اور جو دوسرا لقب ہے
صدیق
اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ کیوں ‘صدیق’ نام رکھا گیا۔ علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں کہ جہاں تک صدیق کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ لقب آپؓ کو دیا گیا تھا اس سچائی کی وجہ سے جو آپؓ سے ظاہر ہوتی رہی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کو جو خبریں بتایا کرتے تھے ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق میں جلدی کرنے کی وجہ سے آپؓ کا نام صدیق پڑ گیا۔
( تاریخ الخلفاء لجلال الدین السیوطی صفحہ 28-29 دارالکتاب العربی بیروت1999ء)
حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ جب رات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس مسجد اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا یعنی واقعہ اسراء جو ہوا تھا تو صبح کو لوگ اس واقعہ کے متعلق باتیں کرنے لگے۔ جب آپؐ نے بتایا اور لوگوں میں سے بعض جو آپؐ پر ایمان لائے تھے اور انہوں نے آپؐ کی تصدیق بھی کی تھی وہ پیچھے ہٹ گئے۔ بعض کمزور ایمان ایسے بھی تھے۔ اس وقت مشرکین میں سے کچھ لوگ حضرت ابوبکرؓ کے پاس دوڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے کیا آپؓ کو اپنے ساتھی کے بارے میں کچھ معلوم ہے کہ وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں رات کو بیت المقدس لے جایا گیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہاکیا واقعی آپؐ نے یہ فرمایا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں انہوں نے کہا ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا اگر آپؐ نے یہ فرمایا ہے تو یقیناً سچ کہا ہے۔ لوگوں نے کہا کیا تم ان کی تصدیق کرتے ہو کہ رات کو بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آ گئے ؟کیونکہ یہ بیت المقدس مکہ سے تقریباً تیرہ سو کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ ہاں میں اُس کی بھی تصدیق کروں گا جو اس سے بھی بعید ہے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ میں صبح شام اترنے والی آسمانی خبر کے بارے میں بھی آپؐ کی تصدیق کرتا ہوں۔ چنانچہ اس وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کا نام صدیق پڑ گیا، آپؓ کو صدیق کہا جانے لگا۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ جلد3 صفحہ 81حدیث4458 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
(اٹلس سیرت نبوی صفحہ136)
حضرت ابوہریرہؓ کے آزاد کردہ غلام ابووہب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس رات مجھے لے جایا گیا یعنی واقعہ اسراء میں تو مَیں نے جبریل سے کہا یقیناً میری قوم میری تصدیق نہیں کرے گی یعنی میری بات کو سچ نہیں مانے گی تو جبریل نے کہا۔ یُصَدِّقُکَ اَبُوْبَکْرٍ وَھُوَ الصِّدِّیْقُ ۔ یعنی آپؐ کی تصدیق ابوبکرؓ کریں گے اور وہ صدیق ہیں۔ یہ طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ127، ’’ابوبکر الصدیق‘‘دارالکتب العلمیۃ 1990ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عائشہؓ کی روایت یہ ہے کہ جب اسراء کا واقعہ ہوا تو لوگ دوڑے دوڑے حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا :کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کا دوست کیا کہتا ہے؟ انہوں نے کہا کیا کہتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ کہتا ہے کہ میں رات بیت المقدس تک ہو کر آیا ہوں۔‘‘ حضرت مصلح موعوؓد لکھ رہے ہیں کہ ’’اگر معراج کا ذکر ساتھ ہی آپؐ نے کیا ہوتا‘‘ یعنی ایک ہی وقت میں بتایا ہوتا یا ایک ہی واقعہ ہوتا ’’تو کفار اس حصہ پر زیادہ شور کرتے مگر انہوں نے صرف یہ کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں رات کو بیت المقدس تک گیا تھا۔ پھر جب ابوبکرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی تو لوگوں نے کہا: کیا آپ اس خلافِ عقل بات کو بھی مان لیں گے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: مَیں تو اس کی یہ بات بھی مان لیتا ہوں کہ صبح شام اس پر آسمان سے کلام اترتا ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ 286)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا خطاب دیا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپؓ میں کیا کیا کمالات تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دل کے اندر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت میں حضرت ابوبکرؓ نے جو صدق دکھایا اس کی نظیر ملنی مشکل ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اس کے لئے ضروری ہے کہ ابوبکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہو مجاہدہ کرے اور پھر حتی المقدور دعا سے کام لے۔ جب تک ابوبکری فطرت کا سایہ اپنے اوپر ڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جاتا صدیقی کمالات حاصل نہیں ہو سکتے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 372تا373)
عَتِیق اور صِدِّیق کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ
حضرت ابوبکرؓ کے دیگر القابات
بھی تھے یعنی جیسے
خَلِیْفَةُ رَسُولِ اللّٰہ
حضرت ابوبکر صدیق کو خلیفة رسول اللہ بھی کہا جاتا تھا۔ چنانچہ ایک روایت میں ذکر ہے ایک آدمی نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا یا خلیفةَ اللّٰہ! اے اللہ کے خلیفہ !تو آپؓ نے فرمایا خلیفة اللہ نہیں بلکہ خلیفة رسول اللہ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں اور میں اسی پر راضی ہوں۔
(الطبقات الكبرى لابن سعد جلد3 صفحہ 137ذکر بیعۃ ابی بکر مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
صحیح بخاری کے شارح علامہ بدر الدین عینی بیان کرتے ہیں کہ مؤرخین وغیرہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کا لقب خلیفة رسول اللہ تھا۔
(عمدۃ القاری کتاب بدء الخلق باب مناقب المھاجرین و فضلھم جلد 16 صفحہ 260، دار احیاء التراث العربی بیروت2003ء)
لیکن ظاہر ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا یہ لقب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہونے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا یہ لقب ہے۔ یہ بعد کی بات ہے۔ لوگوں نے نام رکھا یا آپؓ نے خود اپنے لیے پسند کیا۔
اَوَّاہٌ
ایک یہ بھی لقب ہے۔ اَوَّاہٌ کا معنی ہے بہت ہی بردبار اور نرم دل۔ طبقات کبریٰ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو ان کی نرمی اور رحمت کی وجہ سے اَوَّاہٌ کا کہا جاتا تھا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ127 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
اَوَّاہٌ مُّنِیْب
اَوَّاہٌ مُّنِیْب کا مطلب ہے بہت ہی بُردبار، نرم دل اور جھکنے والا۔ طبقاتِ کبریٰ میں ہے کہ میں نے حضرت علی ؓکو سنا وہ منبر پر کہہ رہے تھے غور سے سنو۔ راوی نے کہا حضرت علی ؓکو سنا وہ منبر پر کہہ رہے تھے کہ غور سے سنو کہ حضرت ابوبکرؓ بہت ہی بردبار،نرم دل اور جھکنے والے تھے۔ غور سے سنو کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کو خیر خواہی عطا کی جس کے نتیجہ میں وہ خیر خواہ ہو گئے۔
(الطبقات الکبری جلد3 صفحہ 127،دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، 2012ء)
اَمِیْرُ الشَّاکِرِیْن
یہ بھی ایک لقب کہا جاتا ہے۔ اَمِیْرُ الشَّاکِرِیْن کے معنی ہیں شکر کرنے والوں کا سردار۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓکو کثرتِ شکر کی وجہ سے اَمِیْرُ الشَّاکِرِیْن کہا جاتا تھا۔ عمدة القاری میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکو اَمِیْرُ الشَّاکِرِیْن کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔
(عمدۃ القاری کتاب بدء الخلق باب مناقب المھاجرین و فضلھم جلد 16 صفحہ 260، دار احیاء التراث العربی بیروت 2003ء)
ثَانِیَ اثْنَیْنِ
یہ بھی ایک لقب کہا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓکو اللہ تعالیٰ نے ثَانِیَ اثْنَیْنِ کے لقب سے پکارا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے إِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِينَتَهٗ عَلَيْهِ (التوبۃ: 40) کہ اگر تم اس رسول کی مدد نہ بھی کرو تو اللہ تعالیٰ پہلے بھی اس کی مدد کر چکا ہے جب اسے ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیاوطن سے نکال دیا تھا اس حال میں کہ وہ دو میں سے ایک تھا جب وہ دونوں غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر۔ یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس اللہ نے اس پر اپنی سکینت نازل کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں ‘‘اللہ نے تکلیف دہ وقت اور مشکل حالات میں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آپؓ کے ذریعہ تسلی فرمائی اور الصدیق کے نام اور نبی ثقلینؐ کے قرب سے مخصوص فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثَانِیَ اثْنَیْنِ کی خِلعت فاخرہ سے فیضیاب فرمایا اور اپنے خاص الخاص بندوں میں سے بنایا … کیا تمہیں کسی ایسے شخص کا علم ہے جسے ثَانِیَ اثْنَیْنِ کے نام سے موسوم کیا گیا اور نبی دو جہان کے رفیق کا نام دیا گیا ہو اور اس فضیلت میں شریک کیا گیا ہو کہ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا اور اسے دو تائید یافتہ میں سے ایک قرار دیا گیا ہو۔ کیا تم کسی ایسے شخص کو جانتے ہو جس کی قرآن میں اس تعریف جیسی تعریف کی گئی ہو اور جس کے مخفی حالات سے شبہات کے ہجوم کو دور کر دیا گیا ہو اور جس کے بارے میں نصوصِ صریحہ سے نہ کہ ظنی شکی باتوں سے یہ ثابت ہو کہ وہ مقبولین بارگاہ الٰہی میں سے ہیں۔ بخدا اس قسم کا صریح ذکر جو تحقیق سے ثابت شدہ ہو جو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے مخصوص ہے میں نے رَبِّ بَیتِ عتیق کے صحیفوں میں کسی اَور شخص کے لئے نہیں دیکھا۔ پس اگر تجھے میری اس بات کے متعلق شک ہو یا تمہارا یہ گمان ہو کہ میں نے حق سے گریز کیا ہے تو قرآن سے کوئی نظیر پیش کرو اور ہمیں دکھاؤ کہ فرقان حمید نے کسی اور شخص کے لئے ایسی صراحت کی ہو اگر تم سچوں میں سے ہو۔’’ (سرالخلافۃ اردو ترجمہ صفحہ60، 63تا 64) سر الخلافہ میں آپؑ نے یہ فرمایا۔
پھر ایک لقب
صاحب الرسول
بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے رسول کا ساتھی۔ حضرت ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک جماعت سے کہا تم میں سے کون سورہ ٔتوبہ پڑھے گا۔ ایک شخص نے کہا میں پڑھتا ہوں۔ پھر جب وہ آیت إِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ کہ جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر، یہاں تک پہنچا تو حضرت ابوبکرؓ رو پڑے اور فرمایا اللہ کی قسم! میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی تھا۔
(ماخوذ از السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 56، باب عرض رسول اللہ ﷺ نفسہ…… دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
پھر
آدم ثانی
ایک لقب ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کا یہ وہ لقب ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپؓ کو عطا فرمایا ہے، آپؑ نے حضرت ابوبکرؓ کو آدم ثانی قراردیا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک مکتوب میں بیان فرماتے ہیں ’’ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اگر دین میں سچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لئے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب اللہ بتا سکتے۔‘‘
(مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ 151مکتوب نمبر 2مکتوب بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحب مطبوعہ ربوہ)
سر الخلافہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ’’اور بخدا آپ اسلام کے لئے آدم ثانی اور خیر الانام (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے انوار کے مظہر اول تھے۔‘‘
(سرالخلافۃ اردو ترجمہ صفحہ 51 – 52)
پھر
خلیل الرسول
ایک لقب ہے۔ سیرت کی کتابوں میں خلیل الرسول بھی حضرت ابوبکرؓ کا لقب بیان کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد کتب حدیث میں موجود ایک روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ مرض الموت کے دوران آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں نے لوگوں میں سے کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو ضرور حضرت ابوبکرؓ کو ہی خلیل بناتا لیکن اسلام کی دوستی سب سے افضل ہے۔ اس مسجد میں تمام کھڑکیوں کو میری طرف سے بند کر دو سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔
(صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب الخوخۃ والممر فی المسجد، حدیث نمبر 467)
ہمارے ریسرچ سیل نے یہاں یہ سوال اٹھایا ہے اور سوال ان کا ٹھیک ہے کہ اس روایت سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا خلیل کسی کو بناتے تو حضرت ابوبکرؓ کو بناتے لیکن بنایا نہیں۔ اس بات کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی ایک جگہ فرما دی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کہ اگر میں کسی کو دنیا میں خلیل بناتا تو حضرت ابوبکرؓ کو بناتا کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’یہ جملہ بھی قابل تشریح ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کو آپ دوست تو رکھتے تھے۔ پھر اس کا کیا مطلب؟ بات اصل میں یہ ہے کہ خُلَّت اور دوستی تو وہ ہوتی ہے جو رگ و ریشہ میں دھنس جائے۔ وہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ اور اس کے لئے مخصوص ہے۔ دوسروں کے ساتھ محض اخوت اور برادری ہے۔ خُلَّت کا مفہوم ہی یہی ہے کہ وہ اندر دھنس جاوے‘‘ یعنی خُلَّت کی اعلیٰ قسم کی جو پہچان ہے وہ یہ ہے۔ اعلیٰ مقام ہے ’’جیسے یوسف زلیخا کے اندر رَچ گیا تھا۔ بس یہی معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاک فقرہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تو کوئی شریک نہیں۔ دنیا میں اگر کسی کو دوست رکھتا تو ابوبکرؓ کو رکھتا۔‘‘
(ملفوظات جلد8 صفحہ277)
اللہ تعالیٰ کا تو ایک مقام ہے اس جیسا مقام کسی کو نہیں مل سکتا لیکن بہرحال جو دنیا کی دوستی ہے اس میں اگر کوئی دوستی ہے تو ابوبکر کی۔ یعنی دوستی تو تھی لیکن اللہ تعالیٰ سے دوستی کے مقابلے میں نہیں کہا جا سکتا تھا کہ دوستی ہے۔ دنیا کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ جیسی دوستی کرنا ایک نبی کے لئے اور خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو ممکن ہی نہیں تھا یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اگر کوئی بات دنیا داری کے لحاظ سے ممکن تھی تو پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس مقام کے سب سے زیادہ حق دار ابوبکر ہیں۔
آپؓ کی کنیت
کیا تھی؟ حضرت ابوبکرؓ کی کنیت ’ابوبکر‘ تھی اور اس کی ایک سے زائد وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ بعض کے نزدیک بکر جوان اونٹ کو کہتے ہیں۔ چونکہ آپ کو اونٹوں کی پرورش اور غور و پرداخت میں بہت دلچسپی اور مہارت تھی اس لیے لوگوں نے آپؓ کو ابوبکر کہنا شروع کر دیا۔ بَکَّرَ کا ایک معنی جلدی کرنا بھی ہے۔ پہل کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ بعض کے بقول یہ کنیت اس لیے پڑی کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے۔ اِنَّہُ بَکَّرَ اِلَی الْاِسْلَامِ قَبْلَ غَیْرِہٖ۔ انہوں نے دوسروں سے پہلے اسلام کی طرف پیش قدمی کی۔
(ماخوذ از عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 41۔ البدر پبلیکیشنز ۔ 2000ء)
علامہ زمخشری نے لکھا ہے کہ ان کو پاکیزہ خصلتوں میں اِبْتِکَار یعنی پیش پیش ہونے کی وجہ سے ابوبکر کہا جاتا تھا۔
(السیرۃ الحلبیۃ جلد اول صفحہ 390 باب ذکر اول الناس ایمانا بہﷺ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
حلیہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے حلیہ کے بارہ میں روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک عربی شخص کو دیکھا جو پیدل چل رہا تھا اور آپ اس وقت اپنے ہودج میں تھیں۔ آپؓ نے فرمایا: میں نے اس شخص سے زیادہ حضرت ابوبکرؓ سے مشابہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے کہا کہ آپؓ ہمارے لیے حضرت ابوبکرؓ کا حلیہ بیان کریں تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ گورے رنگ کے شخص تھے۔ دبلے پتلے تھے۔ رخساروں پر گوشت کم تھا۔ کمر ذرا خمیدہ تھی، ذرا جھکی ہوئی تھی کہ آپؓ کا تہبند بھی کمر پر نہیں رکتا تھا اور نیچے سرک جاتا تھا۔ چہرہ کم گوشت والا تھا۔ آنکھیں اندر کی طرف تھیں اور پیشانی بلند تھی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 140۔’’ ابوبکر الصدیق‘‘ ومن بنی تیم بن مرَّۃ بن کعب۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1990ء)
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ آپؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو غرور سے اپنا کپڑا گھسیٹ کر چلا تو اللہ روزِ قیامت اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میرے کپڑے کی ایک طرف ڈھیلی رہتی ہے یعنی ایک سائیڈ جو ہے وہ ڈھیلی رہتی ہے اور نیچے آجاتی ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا خاص خیال رکھوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آپ تو غرور سے ایسا نہیں کرتے۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب قول النبی ﷺ لو کنت متخذا خلیلاحدیث :3665) یہ جائز ہے۔ کوئی بات نہیں۔
حضرت ابوبکرؓ مہندی اور کَتَمْ سے خضاب لگایا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب شَیبِہٖﷺ روایت نمبر6073)
کَتَمْ۔ یہ بُوٹی بلند پہاڑوں پر اگتی ہے اور وَسْمَہ کے ساتھ ملا کر لگائی جاتی ہے اور اس کے ذریعہ بالوں کو سیاہ رنگت دی جاتی تھی۔
(لسان العرب زیر مادہ ’’کتم‘‘)
اسلام قبول کرنے سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کے پیشہ اور
قریش میں آپؓ کے مقام
کے بارے میں تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اپنی قوم میں مقبول اور محبوب تھے۔ آپؓ نرم مزاج شخص تھے۔ قریش کے حسب و نسب اور اس کی اچھائی اور برائی کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ آپؓ تجارت کرنے والے شخص تھے اور اچھے اخلاق اور نیکیوں کے مالک تھے۔ آپؓ کی قوم کے لوگ ایک سے زائد باتوں کی وجہ سے آپؓ کے پاس آتے اور آپؓ سے محبت رکھتے تھے۔ یعنی آپؓ کے علم کی وجہ سے، آپؓ کے تجربات کی وجہ سے اور آپؓ کی اچھی مجلسوں کی وجہ سے۔
(تاریخ طبری جلد 1 صفحہ 540-541 تاریخ ما قبل الہجرۃ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ قریش کی ساری قوم تجارت پیشہ تھی اور اس کا ہر فرد اسی شغل میں مشغول تھا۔ چنانچہ ابوبکرؓ نے بھی بڑے ہو کرکپڑے کی تجارت شروع کر دی جس میں انہوں نے غیر معمولی فروغ حاصل کیا اور ان کا شمار بہت جلد مکہ کے نہایت کامیاب تاجروں میں ہونے لگا۔ تجارت کی کامیابی میں ان کی جاذبِ نظر شخصیت اور بے نظیر اخلاق کو بھی بڑا خاصا دخل تھا۔
(حضرت ابوبکرصدیق اکبرؓ از محمد حسین ہیکل مترجم شیخ محمد احمد پانی پتی، صفحہ 41، علم و عرفان پبلشرز لاہور2004ء)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت حضرت ابوبکرؓ کا راس المال چالیس ہزار درہم تھا۔ آپؓ اس میں سے غلاموں کو آزاد کرواتے اور مسلمانوں کی خبر گیری کرتے رہے یہاں تک کہ جب آپؓ مدینہ تشریف لائے تو اس وقت آپ کے پاس پانچ ہزار درہم باقی تھے۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد4 صفحہ148ذکر عبداللّٰہ بن عثمان، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
اسلام سے قبل کے بعض واقعات
ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ اپنی مالی وسعت اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے قریش میں اعلیٰ مقام کے حامل تھے۔ آپؓ رؤسائے قریش میں سے تھے اور ان کے مشوروں کے محور تھے۔ آپؓ سب سے زیادہ پاکیزہ اور نیک لوگوں میں سے تھے۔ آپؓ رئیس، معزز، سخی تھے اور بکثرت اپنا مال خرچ کیا کرتے تھے۔ اپنی قوم میں ہر دلعزیز اور محبوب تھے۔ اچھی مجلسوں والے تھے۔ آپؓ تعبیر الرؤیا میں لوگوں سے زیادہ علم رکھنے والے تھے یعنی آپؓ کا اس بارے میں بہت علم تھا۔ علم تعبیر الرؤیا کے بہت بڑے عالم ابن سیرین کہتے ہیں کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ اس امت کے سب سے بڑے
تعبیر الرؤیا کے عالم تھے اور آپ لوگوں میں سب سے زیادہ
اہلِ عرب کے حسب و نسب کو جاننے والے تھے۔
جُبَیر بن مُطْعِم جو کہ اس فن، علم الانساب میں کمال تک پہنچے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ میں نے نسب کا علم حضرت ابوبکرؓ سے سیکھا ہے۔ خاص طور پر قریش کا حسب و نسب کیونکہ حضرت ابوبکرؓ قریش میں سے قریش کے حسب و نسب اور جو اچھائیاں اور برائیاں ان کے نسب میں تھیں ان کا آپ سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے اور آپؓ ان کی برائیوں کا تذکرہ نہیں کرتے تھے یعنی حضرت ابوبکرؓ برائیوں کا تذکرہ نہیں کرتے تھے۔ اسی وجہ سے آپ حضرت عقیل بن ابوطالب ؓکی نسبت ان میں زیادہ مقبول تھے۔ حضرت عَقیلؓ حضرت ابوبکرؓ کے بعد قریش کے حسب و نسب اور ان کے آباو اجداد اور ان کی اچھائیوں اور برائیوں کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے مگر حضرت عقیلؓ قریش کو ناپسندیدہ تھے کیونکہ وہ قریش کی برائیاں بھی گنوا دیتے تھے۔ حضرت عقیل ؓمسجد نبوی میں نسب ناموں، عرب کے حالات و واقعات کا علم حاصل کرنے کے لیے حضرت ابوبکرؓ کے پاس بیٹھا کرتے تھے۔
اہلِ مکہ کے نزدیک حضرت ابوبکرؓ ان کے بہترین لوگوں میں سے تھے
چنانچہ جب بھی انہیں کوئی مشکل پیش آتی وہ آپ سے مدد طلب کر لیا کرتے تھے۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد1 صفحہ390 باب اول الناس ایمانا بہﷺ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
مکہ میں بسنے والے تمام قبائل کو کعبہ کے مناصب کے لحاظ سے کوئی نہ کوئی منصب حاصل ہوتا تھا اور کوئی فریضہ تفویض ہوتا تھا۔ بنو عبد مناف کے سپرد حاجیوں کے لیے پانی کی فراہمی اور انہیں ضروری آسائشیں فراہم کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ بنو عبدالدار کے ذمہ جنگ کے وقت علمبرداری، کعبہ کی دربانی اور دارالندوہ کا انتظام تھا۔ لشکروں کی سپہ سالاری حضرت خالد بن ولیدؓ کے قبیلہ بنو مخزوم کے حصہ میں آئی تھی۔ خون بہا اور دِیَتیں اکٹھا کرنا حضرت ابوبکرؓ کے قبیلہ بنو تَیم بن مُرّہ کا کام تھا۔ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ جوان ہوئے تو یہ خدمت ان کے سپرد کر دی گئی۔
(حضرت ابو بکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 59)
جب حضرت ابوبکرؓ کسی چیز کی دیت کا فیصلہ کرتے تو قریش آپؓ کی تصدیق کرتے اور آپؓ کی دیت کا لحاظ کرتے اور اگر آپؓ کے علاوہ کوئی اَور دیت کا فیصلہ کرتا تو قریش اس کو چھوڑ دیتے اور اس کی تصدیق نہ کرتے تھے۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3 صفحہ 311، عبد اللّٰہ بن عثمان، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2008ء)
حِلف الفُضُول
میں حضرت ابوبکرؓ کی بھی شمولیت تھی۔ یہ غریبوں کی مدد کا ،مظلوموں کی مدد کا وہ خاص معاہدہ تھا جس کا ’’قدیم زمانہ میں عرب کے بعض شریف دل اشخاص کو یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ باہم مل کر عہد کیا جاوے کہ ہم ہمیشہ حق دار کو اس کا حق حاصل کرنے میں مدد دیں گے اور ظالم کو ظلم سے روکیں گے اور عربی میں چونکہ حق کو فضل بھی کہتے ہیں جس کی جمع فضول ہے اس لئے اس معاہدہ کا نام حلف الْفُضُول رکھا گیا۔ بعض روایتوں کی رو سے چونکہ اس تجویز کے محرک ایسے شخص تھے جن کے ناموں میں فضل کا لفظ آتا تھا اس لئے یہ عہد حلف الْفُضُول کے نام سے مشہور ہو گیا۔ بہرحال حَربِ فُجَّار کے بعد اور غالباً اسی جنگ سے متاثر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زُبَیر بن عبدالمطَّلِب کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس حلف کو پھر تازہ کیا جائے۔ چنانچہ اس کی تحریک پر بعض قبائل قریش کے نمائندگان عبداللہ بن جُدْعَان کے مکان پر جمع ہوئے جہاں عبداللہ بن جُدْعَان کی طرف سے ایک دعوت کا انتظام تھا اور پھر سب نے اتفاق کر کے باہم قَسم کھائی کہ ہم ہمیشہ ظلم کو روکیں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے۔ اس عہد میں حصہ لینے والوں میں بنو ہاشم، بنو مطلب، بنو اسد، بنو زُہرہ اور بنو تَیم شامل تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس موقعہ پر موجود تھے اور شریک معاہدہ تھے۔ چنانچہ آپؐ ایک دفعہ نبوت کے زمانہ میں فرماتے تھے کہ میں عبداللہ بن جُدْعَان کے مکان پر ایک ایسی قسم میں شریک ہوا تھا کہ اگر آج اسلام کے زمانہ میں بھی مجھے کوئی اس کی طرف بلائے تو مَیں اس پر لبیک کہوں گا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ104-105)
ایک مصنف حضرت ابوبکرؓ کی بھی حلف الْفُضُول میں شمولیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس انجمن میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوئے تھے اور آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی شامل ہوئے تھے۔
(سیدنا صدیق اکبرؓ کے شب و روز از محمد حذیفہ لاہوری۔ صفحہ 19 مکتبہ الحرمین لاہور)
بعثت سے قبل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا تعلق اور دوستی
کا حال یوں بیان ہوا ہے۔ ابن اسحاق اور ان کے علاوہ بعض اور لوگوں نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ بعثت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق اور امانت اور آپؐ کی پاک فطرت اور عمدہ اخلاق سے اچھی طرح واقف تھے۔ ایک اور روایت میں ذکر ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی حضرت ابوبکرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست تھے۔
(البدایۃ و النھایۃ جلد 2 جزء 3 باب ذکر اول من اسلم ….. صفحہ29 و 32۔ دار الکتب العلمیۃ 2001ء)
سیر الصحابہ میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن ہی سے ان کو یعنی حضرت ابوبکرؓ کو خاص انس اور خلوص تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ احباب میں داخل تھے۔ اکثر تجارت کے سفروں میں بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوتا تھا۔
(سیر الصحابۃ جلد اول حصہ اول صفحہ 56)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بعثت سے قبل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ احباب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’بعثت سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوستانہ تعلقات کا دائرہ بہت ہی محدود نظر آتا ہے۔ دراصل شروع سے ہی آپؐ کی طبیعت علیحدگی پسند تھی اور آپؐ نے اپنی عمر کے کسی حِصہ میں بھی مکہ کی عام سوسائٹی میں زیادہ خلا ملا نہیں کیا۔ تاہم بعض ایسے لوگ بھی تھے جن کے ساتھ آپؐ کے دوستانہ تعلقات تھے۔ ان سب میں ممتاز حضرت ابو بکرؓ یعنی عبداللہ بن ابی قُحافہ تھے۔ جو قریش کے ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی شرافت اور قابلیت کی وجہ سے قوم میں بڑی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ دوسرے درجہ پر حَکِیم بن حِزَام تھے جو حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے۔ یہ نہایت شریف الطبع آدمی تھے۔ شروع شروع میں یہ اسلام نہیں لائے لیکن اس حالت میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت اور اخلاص رکھتے تھے۔ آخر سعادتِ طبعی اسلام کی طرف کھینچ لائی۔ پھر زَید بن عمرو سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات تھے۔ یہ صاحب حضرت عمرؓ کے قریبی رشتہ دار تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے زمانۂ جاہلیت میں ہی شِرک ترک کر رکھا تھا اور اپنے آپ کو دین ابراہیمی کی طرف منسوب کرتے تھے مگر یہ اسلام کے زمانہ سے پہلے ہی فوت ہو گئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ114)
بہرحال حضرت ابوبکرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلقات میں نمبر ایک پہ تھے۔ زمانہ جاہلیت سے ہی حضرت ابوبکرؓ کو شرک سے نفرت تھی اور اجتناب کرتے تھے۔
حضرت ابوبکرؓ نے زمانۂ جاہلیت میں بھی کبھی شرک نہیں کیا اور
نہ کبھی کسی بت کو سجدہ کیا
چنانچہ سیرۃ حلبیہ میں لکھا ہے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ یقیناً حضرت ابوبکرؓ نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا تھا۔ علامہ ابن جوزی نے حضرت ابوبکرؓ کو ان لوگوں میں شمار کیا ہے جنہوں نے جاہلیت میں ہی بتوں کی عبادت سے انکار کر دیا تھا یعنی وہ کبھی بتوں کے پاس نہیں گئے۔
(السیرۃ الحلبیۃ جلد 1۔باب ذکر اول الناس ایمانا۔ صفحہ 384-385۔ دار الکتب العلمیۃ 2002ء)
زمانہ جاہلیت میں آپؓ کو شراب سے نفرت تھی۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ
حضرت ابوبکرؓ نے زمانۂ جاہلیت میں شراب کو اپنے اوپر حرام کیا ہوا تھا۔
آپؓ نے نہ جاہلیت میں اور نہ ہی اسلام میں کبھی شراب پی۔
(کنز العمال جزء12 صفحہ 490مناقب ابو بکر حدیث 35609۔ مؤسسة الرسالة 1985ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے مجمع میں حضرت ابوبکرؓ سے پوچھا گیا کہ کیا آپؓ نے زمانہ جاہلیت میں کبھی شراب پی۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اعوذ باللّٰہ۔ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ پوچھا گیا اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا میں اپنی عزت کو بچاتا تھا اور اپنی پاکیزگی کی حفاظت کرتا تھا کیونکہ جو شخص شراب پیتا ہے وہ اپنی عزت اور پاکیزگی کو ضائع کرتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپؐ نے فرمایا صَدَقَ اَبُوبَکْرٍ۔ صَدَقَ اَبُوبَکْرٍ۔ یعنی ابوبکر نے سچ کہا۔ ابوبکر نے سچ کہا۔ آپؐ نے دو مرتبہ یہ فرمایا۔
(تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ 30،فصل: کان ابوبکر اعف الناس فی الجاھلیة، دارالکتا ب العربی بیروت1999ء)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے
قبولِ اسلام
کے بارے میں مختلف جگہوں پر روایات ملتی ہیں۔ بعض تفصیلی ہیں۔ بعض مختصر ہیں۔ بہرحال یہ بھی کچھ بیان کردیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میرے ماں باپ اسی دین یعنی اسلام پر تھے اور ہم پر کوئی ایسا دن نہیں گزرا کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس صبح شام دونوں وقت نہ آئے ہوں۔
(صحیح بخاری کتاب الکَفَالۃ بَابُ جوار ابی بکر فی عہد النبیﷺ وعقدہ حدیث نمبر 2297)
حضرت ابوبکرؓ کے
قبولِ اسلام کے بارے میں مختلف روایات بیان
کی جاتی ہیں۔ شرحِ زَرْقَانِی میں حضرت ابوبکرؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکرؓ حکیم بن حزام کے گھر میں تھے۔ اس وقت ان کی لونڈی آئی اور کہنے لگی کہ تیری پھوپھی خدیجہ یہ بیان کرتی ہے کہ اس کا خاوند موسیٰ کی مانند بطور نبی بھیجا گیا ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ وہاں سے چپکے سے نکلے یہاں تک کہ آپؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام قبول کر لیا۔
(شرح زرقانی علیٰ مواھب اللدنیہ جلد 1 صفحہ 447-448، ذکر اول من آمن باللّٰہ و رسولہ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996)
سیرتِ ابنِ ہشام کی شرح الرَّوضُ الْاُنْف میں حضرت ابوبکرؓ کی ایک رؤیا اور اسلام لانے کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل حضرت ابوبکرؓ نے ایک خواب دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ چاند مکہ میں اتر آیا ہے۔ پھر انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر مکہ کی تمام جگہوں اور گھروں میں پھیل گیا ہے۔ اس کا ایک ایک ٹکڑا ہر گھر میں داخل ہو گیا ہے اور پھر گویا وہ چاند آپؓ کی گود میں اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے بعض اہلِ کتاب علماء سے اس خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ تعبیر بتائی کہ وہ نبی جس کا انتظار کیا جا رہا ہے اس کا زمانہ آ گیا ہے اور آپؓ اس نبی کی پیروی کریں گے اور اس وجہ سے لوگوں میں سب سے زیادہ آپؓ سعادت مند ہوں گے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو دعوت اسلام دی تو انہوں نے توقف نہ کیا۔
(الروض الانف فی تفسیر السیرة النبویة لابن ہشام جلد اول صفحہ431 ‘‘اسلام ابی بکر’’۔ دار الکتب العلمیة بیروت)
سُبُلُ الھدیٰ میں حضرت ابوبکرؓ کے قبول اسلام کے بارے میں ایک روایت یوں بیان ہوئی ہے کہ کعب بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کا سبب آسمان سے نازل ہونے والی ایک وحی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ شام میں تجارت کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔ وہاں آپؓ نے ایک رؤیا دیکھی اور اس رؤیا کو بَحِیْرَا راہب سے بیان کیا۔ اس پر بَحِیْرَا راہب نے پوچھا کہ آپؓ کہاں سے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا کہ مکّہ سے۔ اس نے پوچھا :مکّہ کے کون سے قبیلہ سے؟ آپؓ نے جواب دیا کہ قریش سے۔ اس نے پوچھا: آپؓ کیا کرتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: تاجر ہوں۔ اس پر بَحِیْرَا راہب نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی رؤیا کو سچ کر دکھایا تو تمہاری قوم میں سے ایک نبی مبعوث کیا جائے گا۔
تم اس نبی کی زندگی میں اس کے وزیر ہو گے اور
اس کی وفات کے بعد اس کے خلیفہ ہو گے۔
پھر حضرت ابوبکرؓ نے اسے مخفی رکھایہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا۔ اَے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !آپ جو دعویٰ کرتے ہیں اس کی دلیل کیا ہے؟ باقی جگہ تو کوئی دلیل نہیں کبھی مانگی لیکن بہرحال اس روایت میں یہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ خواب جو تم نے شام میں دیکھی تھی وہی دلیل ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معانقہ کیا اور آپؐ کی آنکھوں کے درمیان بوسہ لیا اور کہا کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔
(سبل الھدیٰ جلد1 صفحہ 124الباب التاسع فیما اخبر بہ الاحبار …دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان1993ء)
اس روایت میں حضرت ابوبکرؓکی ایک رؤیا کا تذکرہ ہوا ہے لیکن اس کی تفصیلات اس جگہ درج نہیں کہ اس رؤیا میں حضرت ابوبکرؓ نے کیا دیکھا تھا تاہم سیرتِ حَلَبِیَّہسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسی رؤیا کی طرف اشارہ ہے جس میں حضرت ابوبکرؓ نے دیکھا کہ چاند ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرا ہے جس کا پہلے تذکرہ گزر چکا ہے، پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اب حضرت ابوبکرؓ نے اس رؤیا کا ذکر بَحِیْرَا راہب کے سامنے کیا تھا۔
(السیرۃ الحلبیۃ جلد 1 صفحہ 391 دارالکتب العلمیۃ 2001ء)
بہرحال اس بارے میں مزید روایتیں بھی سیرت لکھنے والوں نے لکھی ہیں وہ ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوں گی۔
٭…٭…٭