• 2 مئی, 2024

اختتامی اجلاس 126واں جلسہ سالانہ قادیان

126واں جلسہ سالانہ قادیان

اختتامی اجلاس

معاشرے میں اور عالمی طور پر قیام امن کے بنیادی اسلامی اصول

آج جلسہ سالانہ قادیان کا آخری دن تھا  جس میں حضر ت امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ نے ایوان مسرور اسلام آباد  سے براہ راست خطاب فرمایا جو مواصلاتی نظام کے ذریعہ ساری دنیا میں دیکھا اور سنا گیا اور یوں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کہ مہدی کے دور میں دنیا کے دو مقامات پر بیٹھے دوست ایک دوسرے کو دیکھ اور سن سکیں گے بڑی شان سے ایک بار پھر پوری ہوئی ۔ الحمد للہ

ایوان مسرور کو خوبصورت بینرز سے سجایا گیا تھا ۔ اسٹیج کے بیک ڈراپ پر خوبصورت طور پر محمد رسول اللہ اور آیہ کریمہ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿الانبیاء: 108﴾ نیز ’’سراج منیر‘‘ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک عبارت اردو اور انگریزی میں لکھی گئی تھی۔ صدارت کی میز اور روسٹرم پر گول تختی پر بہت خوبصورت انداز میں کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا۔ حضور کے سامنے دو ٹی وی رکھے گئے تھے جن میں سے ایک پر اسلام آباد اور دوسرے پر قادیان جلسہ کے نظارے حضور دیکھ سکتے تھے نیز دو گھڑیاں بھی آویزاں تھیں جن میں سے ایک پر بھارت اور دوسرے پر برطانیہ کا وقت حضور دیکھ سکتے تھے جبکہ حاضرین کے لئے 85 ,85  انچ کے پانچ ٹی وی بھی آویزاں تھے مگر حاضرین کے نظریں اپنے آقا کے چہرہ مبارک پر جمی بیٹھی تھیں۔

ادھر دوسری طرف قادیان میں تمام حاضرین Sops کی رعائت رکھتے ہوتے کرسیوں پر براجمان تھے اور بڑی بڑی میگا سپر اسکرین کے ذریعہ حضور کے خطاب سے محظوظ ہو رہے تھے۔ یہ غالبا پہلا موقع تھا کہ قادیان کےحاضرین نے جلسہ کی کاروائی کرسیوں پر سماعت فرمائی۔

  حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ٹھیک ساڑھے 10 بجے قصر خلافت سے تشریف لا کر مسرور ہال اسلام آباد سٹیج پر رونق افروز ہوئے، حضور کی آمد پر قادیان سے براہ راست نعرے بلند ہوئے۔

اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کی سعادت مکرم محمود احمد وردی مربی سلسلہ نے حاصل کی، اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام (اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدای یہی ہے)   مکرم عمر شریف نے خوش الحانی سے سنایا۔

جلسہ کے دوران اسلام آباد قادیان اور گنی بساؤ کے مناظر دکھائے جاتے رہے۔خصوصا قادیان کے ڈرون کے ذریعے سے دکھائے جانے والے مناظر نے قادیان اور اسلام آباد یوکے کے درمیان فاصلوں کو مٹادیا۔

تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جلسہ سالانہ قادیان کا آج آخری دن ہے اسی طرح گنی بساؤ میں بھی جلسہ ہو رہا ہے، ان کے مناظر بھی دکھائے جارہے ہیں۔ اور بھی ممالک میں جلسے ہو رہے ہیں آج کل۔

فرمایا: اسلام کی تعلیم اپنی اصلی حالت میں ہونے کی حالت میں خوبصور معاشرہ تعمیر کرنے کے لئے اعلیٰ تعلیم ہے، جو اللہ تعالیٰ سے بھی قریب کرتی ہے اور آپس میں بھی محبت عطا کرتی ہے اور حقوق کی طرف توجہ دلا کر امن کے قیام کی ضمانت بنتی ہے۔

فرمایا: کووڈ 19 کی بیماری نے بھی دلوں کی کدورتوں کو دور نہیں کیا اور نہ ہی قوموں کے ایک دوسرے پر فوقیت کے خناس کو ختم کیا ہے، اگر حالات ایسے ہی رہے تو اس کے بڑے خطرناک نتائج پیدا ہوں گے۔

فرمایا: میں قرآن کریم کی روشنی میں اسلام کی امن وسلامتی کے بارہ میں چند باتیں بیان کروں گا جو دنیا میں امن کی ضامن ہیں۔

مذہبی رواداری اور اسلام:

آج دنیا کی اکثریت مذہب سے دور ہو رہی ہے لیکن ہر کوئی مذہب کے خلاف بات کرتا ہے، اپنے مذہب کو سچا ثابت کر کے دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش جاری ہے ، اگر باقی مذاہب کے خلاف بات  نہ بھی ہو تو اسلام کو نشانہ بنایا جا تا ہے۔

اسلام تو سکھاتا ہے کہ کسی مذہب کے بانی کو غلط نہ کہو، نہ اس پر الزام لگاؤ، اسلام آکری مذہب ہے جو ہر قسم کی سچی اور اچھی تعلیم کا احاطہ کئے ہوئے ہے ا س بناء پر نہیں کہ باقی مذاہب اور انبیاء جھوٹے تھے بلکہ اسلام کہتا ہے کہ تمام دنیا میں ہر علاقے میں انبیاء مبعوث ہوئے۔

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ

﴿الفاطر: 25﴾

اُردو

یقیناً ہم نے تجھے حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ اور کوئی امت نہیں مگر ضرور اس میں کوئی ڈرانے والا گزرا ہے۔

یہ بڑا واضح فرق ہے اسلام اور دیگر مذاہب کی تعلیم میں جو صرف اپنے مذۃب اور تعلیم کو ہی سچا سمجھتے ہیں، لیکن اسلام کی تعلیم کی روشنی  میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہر قوم میں نبی مانیں، جب ہر قوم میں نبی مانیں گے تو پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں، اور کیسے ان پر گندے الزام لگا سکتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
وہ خدا جو تمام مخلوق کا خدا ہے وہ سب پر نظر رکھتا ہے اور جیسا وہ سب کی جسمانی ضروریات کو پورا کر رہا ہے ایسا ہی روحانی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ یہ سچ نہیں کہ دنیا کی ابتدا سے اس نے صرف ایک قوم کو ہی چن لیا ہے اور دوسروں کی کچھ پرواہ نہیں کی۔ ہاں یہ سچ ہے کہ وہ کبھی کسی قوم پر سچ ہے کہ کبھی کسی قوم پر وہ وقت آ جاتا ہے اور کبھی کسی پر۔ میں یہ باتیں کسی کو خوش کرنے کے لئے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ راجہ رامچندر اور کرشن جی وغیرہ بھی خدا کے راستباز بندے تھے اور اس سے سچا تعلق رکھتے تھے۔ میں اس شخص سے بیزار ہوں جو ان کی نندیا یا توہین کرتا ہے۔ اس کی مثال کنوئیں کے مینڈک کی سی ہے جو سمندر کی وسعت سے ناواقف ہے۔ جہانتک ان لوگوں کے صحیح سوانح معلوم ہوتے ہیں ان سے پایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے خدا کی راہ میں بڑے بڑے مجاہدات کیے اور کوشش کی کہ اس راہ کو پائیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی حقیقی راہ ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ وہ راستباز نہ تھے وہ قرآنِ شریف کے خلاف کہتا ہے کیونکہ اس میں فرمایا ہے۔ وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ۔

یعنی کوئی قوم اور امت ایسی نہیں گذری جس میں کوئی نذیر نہ آیا ہو۔ پس اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں ان تمام مذاہب کی بنیاد حق اور راستی پر تھی مگر مرور زمانہ سے ان میں طرح طرح کی غلطیاں داخل ہو گئیں یہاں تک کہ اصل حقیقت انہی غلطیوں کے نیچے چھپ گئی۔

(ریویو آف ریلجینز جلد3نمبر 10 صفحہ 352)

آپ ؑایک اور جگہ فرماتے ہیں:
جیسا کہ خدا ہر ایک ملک کے باشندوں کے لئے ان کے مناسب حال ان کی جسمانی تربیت کرتا آیا ہے ایسا ہی اس نے ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم کو روحانی تربیت سے بھی فیضیاب کیا ہے۔ جیسا کہ وہ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے۔ وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ۔ کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی اور رسول نہیں بھیجا گیا۔ خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زبانوں پر محیط ہو رہا ہے۔ یہ اس لئے ہوا کہ تا کسی قوم کو شکایت کرنے کا موقع نہ ملے اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں قوم پر احسان کیا مگر ہم پر نہ کیا یا فلاں قوم کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی یا فلاں زمانے میں وہ اپنی وحی اور الہام اور معجزات کے ساتھ ظاہرہوا مگر ہمارے زمانے میں مخفی رہا۔ پس اس نے عام فیضان دکھلا کر ان تمام اعتراضات کو دفع کر دیااور اپنے ایسے وسیع اخلاق دکھائے کہ کسی قوم کو اپنی جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا اور نہ کسی زمانے کو بے نصیب ٹھہرایا۔

(پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 442)

فرمایا: یہ وہ باتیں ہیں جن سے امن وراوادری قائم ہو سکتی ہے۔ لیکن جب آنحضور ﷺ کے خلاف باتیں کی جائیں تو ان سے دنیا میں امن کیسے قائم ہو سکتا ہے۔ اسلام کی تعلیم تو یہی ہے کہہ ر مذہب کے ماننے والوں کی عزت کرو۔

اسلام پر شدت پسندی کاالزام لگایا جاتا ہے کہ یہ زبردستی لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل ہونے کی ترغیب دلاتا ہے حالانکہ قرآن کریم میں جبر کی تعلیم کی نفی ہے۔

فرمایا:

وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّہُمۡ جَمِیۡعًا ؕ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ

﴿سورۃ یونس:100﴾

اور اگر تیرا ربّ چاہتا تو جو بھی زمین میں بستے ہیں اکٹھے سب کے سب ایمان لے آتے۔ تو کیا تُو لوگوں کو مجبور کرسکتا ہے۔ حتی کہ وہ ایمان لانے والے ہو جائیں۔

اگر دنیا کو جبر سے منوانا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ اسلام لانے کے لئے لوگوں کو مجبور نہ کرو، جب اللہ تعالیٰ مجبور نہیں کرتا تو نہ تو آپ ﷺ کو اور نہ آپ کے ماننے والوں یا کسی اور کو اختیار ہے کہ مذہب کے ماننے کے لئے کسی کو مجبور کرے۔ ہاں تبلغ کا حق ہے آنحضور ﷺ کو بھی اور مومنوں کو بھی۔

فرمایا: مَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ

(الکہف: 30)

جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا ہے کہ یہ تعلیم سچی ہے اور تمہارے فائدے کے لئے ہے۔ وہ اگلے جہان میں فیصلہ کرے گا اس دنیا میں کسی کو زبردستی کا حق نہیں۔

مسلمانوں کے بعض علماء نے غلط تفسیریں کر کے اسلام کو برباد کیا ہے

فرماتا ہے:

وَ قَالُوۡۤا اِنۡ نَّتَّبِعِ الۡہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفۡ مِنۡ اَرۡضِنَا ؕ اَوَ لَمۡ نُمَکِّنۡ لَّہُمۡ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجۡبٰۤی اِلَیۡہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیۡءٍ رِّزۡقًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ

﴿القصص:58﴾

اور انہوں نے کہا کہ اگر ہم تیرے ہمراہ ہدایت کی پیروی کریں گے تو ہم اپنے وطن سے نکال پھینکے جائیں گے۔ کیا ہم نے انہیں پُرامن حرم میں سکونت نہیں بخشی جس کی طرف ہر قسم کے پھل لائے جاتے ہیں (یہ) ہماری طرف سے بطور رزق (ہیں)۔ لیکن ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے۔

تو مومنوں کو کفار کی طرف سے اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن کیا جاتا ہے اور غیر مسلموں کے خوف سے اسلام قبول نہیں کیا جاتا۔ یہ لوگو اگر عقل سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے مکہ کی حفاظت فرمائی اور نعمتیں مہیا فرمائیں، لیکن انہیں دینا کا خوف ہے دنیاوی بادشاہوں کا خوف ہے جو اسلامی تعلیم کو کچھ نہیں سمجھ رہیں۔

اگر آج نجی مسلمانوں کے عمل اس تعلیم کے مطابق ہو جائیں تو دنای کی توجہ بھی امن کی طرف ہو جائے گی اور اسلام کا وقار بڑھے گا ۔ یہ تب ہو گا جب آنحضرت ﷺ کے خادم صادق کو مان لیں گے جسے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں مبعوث فرمایا ہے۔

اسلام کی معاشرتی امن کی تعلیم چھوٹے چھوٹے جھگڑوں سے ملکوں اور دشمنوں کی بڑی بڑی تدفیروں پر حاوی ہے۔

مثلا  کسی کو معاف کرنا یا سزا دینا حالات کے موافق ہونا چاہئے، فرماتا ہے:

وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ

﴿سورۃ شوریٰ: 41﴾

اور بدی کا بدلہ، کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے۔ پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والاہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے ۔ یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

پہلی بات یہ یاد رکھو کہ دشمنیوں کو اتنا نہ بڑھاؤ کہ بات کینے تک جا پہنچے، بدلہ کینہ رکھنے کے لئے نہیں بلکہ مقصد اصلاح ہو۔ اصلاح کس چیز سے ہوتی ہے، سزا دینے سے یا معاف کرنے سے، یہ مدنظر ہو۔اگر معاف کرنے سے اصلاح ہوتی ہو تو معاف کر دو۔ دشمن کے ساتھ معاملات میں بھی یہی تعلیم ہے کہ اصلاح کو مدنظر رکھا جائے۔ اس طرح اسلام نے جو دشمنیاں صدیوں چلتی تھیں انہیں ختم کر دیا۔

لیکن آج کل لوگوں کے دلوں میں کینہ پل رہا ہے حتی کہ ترقی یافتہ کے ملکوں کے سیاستدانوں میں بھی یہ کینہ پل رہا ہے، جبکہ اسلام بتاتا ہے کہ اگر اس کی تعلیم پر عمل کرو گے تو بے جا دشمنی ختم ہو گی اور امن قائم ہو جائے گا۔

پھر امن قائم رکھنے کے لئے یہ سنہری اصول قائم فرمایا کہ ظالم ومظلوم دونوں سے ہمدری ہو،  یعنی ظالم کو ظلم سے روک کر اس سے ہمدردی کرو۔

ملکوں کے درمیان امن قائم کرنے والوں کا بھی ایک طرف میلان ہوتا ہے، جو خطرناک ہے، چناچہ مظلوم کی بے جا ہمدردی کر کے اسے ظالم بنا دیا جاتا ہے۔ حالنکہ دونوں طرف کی باتیں سننی چاہئیں۔

پھر بدظنی ہے، انسان اپنے دل کو دوسروں کے خلاف کینے سے بدظنی کی وجہ سے بھرتا ہے حالنکہ بدظنی گناہ ہے۔ فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ

﴿الحجرات: 13﴾

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے ۔

جس کے خلاف بدظنی ہوتی ہے اس کے خلاف تجسس شروع کر دیا جاتا ہے، حسن ظن رکھنے والا دوسرے کے عید تلاش کر ہی نہیں سکتا، صحابہ حسن ظن رکھتے تھے، یہاں سچائی اور امانت داری کے اعلیٰ معیار کا ذکر ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کا قتل کا ایک واقعہ ہے جب ایک قاتل کو بدلے میں قتل کئے جانے کی سزا ہوئی۔ جب اسے قتل کئے جانے لگا تو اس نے کہا کہ میرے پاس یتیموں کی کچھ امانتیں ہیں مجھے وہ واپس کرنے کی مہلت دی جائے۔اتنے دن میں واپس حاضر ہو جاؤں گا۔ پوچھا گیا کہ کوئی ضامن ہے؟  تو اس نے مجمعہ میں دیکھ کر حضرت ابو ذر غِفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ میرے ضامن ہیں۔

جب وہ چلا گیا اور مقررہ دن پر صحابہ انتظار فرمارہے تھے اور وقت گزرتا جا رہا تھا۔ اس پر حضرت ابو ذر غِفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ اگر وہ نہ آیا تو بدلے میں آپ قتل کر دئے جائیں گے، کیا آپ اس شخص کو جانتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔ آپ سے کہا گیا کہ عجیب بات ہے آپ نے جانے بوجھے بغیر ضمانت دے دی۔ آپ نے فرمایا:جب ایک مسلمان نے ضمانت کے لئے میرا انتخاب کیا تو میں اس پر کیسے بد ظنی کر سکتا تھا۔

وقت ختم ہونے کو تھا کہ اچانک دور سے مٹی اڑتی دکھائی دی اور ایک گھڑ سوار قریب آیا اور معذرت کی کہ کچھ دیر ہو گئی، اب میں تیار ہوں مجھے سزا دے دیں۔ اس بات کا قاضی پر اور مقتول کے عزیزوں پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے اسے معاف کر دیا۔ یہ سچائی پر قائم لوگ سچائی پر جان دینے والے تھے۔

وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔

غیبت بھی ایک ظلم ہے جس سے کسی کی عزت پر حملہ ہوتا ہے، اور کمزوریوں کا ذکر ہوتا ہے جس سے براہ راست لڑائی بھی ہو سکتی ہے اور یوں معاشرے کا امن برباد ہوتا ہے۔

مردہ بھائی کے گوشت کھانے کی مثال دے کر اس سے کراہت دکھائی گئی ہے۔ سو امن وسلامتی کو قائم رکھنے کے یہ معیار ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں ۔جو ان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے۔ مثلا گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی برا قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ۔ ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا۔ خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہواور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حر ج پہنچے۔ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہوان ثابت ہو یااس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پید اہو۔ یہ سب برے کام ہیں۔

(الحکم جلد10 نمبر22 مورخہ 24جون 1906ء صفحہ3)

پھر

لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ (النساء: 30) اپنے اموال آپس میں ناجائز طریق پر نہ کھایا کرو۔

اس سے بھی رنجشیں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، مادیت پرستی پیدا ہو چکی ہے، معاشرے میں اور بین الاقوامی طور پر بھی لوگوں کی دولت کھائی جا رہی ہے۔

افریقی ممالک شور مچانے لگ گئے ہیں کہ آزادی دینے کے بعد حفاظت کے نام پر ہم سے اربوں ڈالر کھائے جاتے ہیں، بعض تجارتیں چھوٹی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی ظلم کا موجب ہیں، اور یہ ظلم معاشرے اور دنیا کے امن کو بر باد کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

فرماتا ہے:

وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ ۙ﴿﴾

ہلاکت ہے تول میں ناانصافی کرنے والوں کے لئے۔

الَّذِیۡنَ اِذَا اکۡتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسۡتَوۡفُوۡنَ ۫﴿ۖ﴾

یعنی وہ لوگ کہ جب وہ لوگوں سے تول لیتے ہیں بھرپور (پیمانوں کے ساتھ) لیتے ہیں۔

وَ اِذَا کَالُوۡہُمۡ اَوۡ وَّزَنُوۡہُمۡ یُخۡسِرُوۡنَ﴿ؕسورۃ تطفیف: 2-4﴾

اور جب اُن کو ماپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے ظلم سے روک دیا۔

یہ صرف تعلیم نہیں دی بلکہ اس پر عمل کر کے بھی دکھایا۔ آج کل تو مشکل سے بھی مسلمانوں میں اس کی مثالیں نظر نہیں آتیں، احمدیوں کو چاہئے کہ صحابہ طرح دنیا کو ایسی مثالیں دکھائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر اگر اپنے اندر صحابہ کی تبدیلی پیدا نہ کی تو کیا فائدہ۔

ایک مثال میں نے پہلے دی ہے کہ کس طرح مرنے سے پہلے امانتیں واپس کرنے کی فکر تھی۔ ایسی حفاظت تو آج کے بنکوں میں بھی نہیں ہوتی۔

ایک صحابی ایک گھوڑا بازار میں بیچنے کے لئے لائے اور 200 دینار قیمت رکھی، دوسرے صحابی جو خریدنا چاہتے تھے انہوں نے کہا کہ اتنی کم قیمت کیوں؟ یہ تو 500 دینار کا گھوڑا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ کیا تو نے مھگے صدقہ کھانے والا سمجھا ہوا ہے۔ تو اب یہ جھگڑا جہان اس طرح کا ہوں وہاں کا امن سوچیں کس شان کا ہو گا۔ یوں ان لوگوں نے اسلام کی حقیقی شکل دکھائی اپنے عمل سے۔ خریدار زبردستی دے رہا ہے کہ لے لو کیونکہ میں گوارا نہیں کر سکتا کہ اسلام کے خلاف کوئی عمل ہو۔آج چند روپوں کی خاطر اتنی بحث کی جاتی ہے جس کی انتہاء نہیں۔ اسی طرح غریب ممالک میں اپنے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف احساس پیدا ہو رہا ہے۔خام مال غریب ممالک سے سستا لے کر تیار مال انتہائی مہنگا بیچا جاتا ہے۔ اسی طرح ان غریب ممالک میں مزدوری کم دے کر چیزیں تیار کروا کر مہنگی بیچی جاتی ہیں۔ غریب ممالک میں مزدوری اتنی کم دی جاتی ہے کہ گریب کا روٹی بھی پوری نہیں ہوتی جبکہ امیر اربوں کا منافع کما رہے ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ان خبروں کے پھیلنے نے غریب کی کواہشات کو بھی بڑھا دیا ہے۔

بہر حال امن کے قیام کے لئے دوسروں کے حقوق کا خیال رکھو، یہی دیر پا امن کا ذریعہ ہے۔

پھر تکبر کے ذریعے حق تلفی کی جاتی ہے۔

فرمایا: وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا ﴿بنی اسرائیل: 38﴾

اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ تُو یقیناً زمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔

تکبر کس بات کا ہے نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو یعنی اس کے وسائل اور ذرائع ہی بقاء کا ذریعہ ہیں، غریبوں ہی سے کام لیتے ہو، اگر یہ نہ ہوں تو امیر کچھ بھی کر نہیں سکتے۔یہی اس کے مدد گار ہیں جن کو تکبر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اگر ان کا خیال نہ رکھا تو لوگ دور ہو جائیں گے، تمہارے خلاف ہوں گے اور بغاوت ہو جائے گیاور معاشرے کا امن  اور سکون برباد ہو گا۔

لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا

یعنی اس طرح کے لوگ قوم کے سردار نہیں بن سکتے، عاجزی ہی حقیقی سردار اور لیڈر بناتی ہے۔ جو دیر پا امن قائم کر سکتی ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مظلوم بن کر لوگوں کے اخلاق نہ بگاڑیں۔

لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًا عَلِیۡمًا

﴿النساء: 149﴾

اللہ سرِ عام بُری بات کہنے کو پسند نہیں کرتا مگر وہ مستثنیٰ ہے جس پر ظلم کیا گیا ہو۔ اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

اس آیت کا لوگ عموما یہ معنی کرتے ہیں کہ مظلوم کو اجازت ہے کہ جو جی میں آئے کہتا پھرے کسی اور کو اجازت نہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مظلوم کو بھی اجازت نہیں کہ شور مچاتا پھرے اور لوگوں کے اخلاق براباد کرتا پھرے۔ کس بات کا شور مچایا ہوا ہے اور قوم پر ظلم کیا جا رہا ہے اس کے اخلاق برباد کر کے۔ اصل طریق یہ ہے کہ متعلقہ ادارے کے پاس جاؤ اور حق کی تلاش کرو۔ ہو سکتا ہے تم نے بھی کسی پر ظلم کیا ہو۔ اور یہ نہ ہو کہ مظلوم بن کر پھر خود ہی ظالم بن جاؤ۔ اس چیز کا خیال رکھنے سے معاشرے میں امن اور سلامتی کی فضاء قائم ہو گی۔

فرماتا ہے:

وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿ۙالنساء:37﴾

اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔

جب توحید کو ماننے والے ہو گے تو کسی پر ظلم نہیں کرو گے۔ نیز ساتھ ہی فہرست بھی دے دی جن سے حسن سلوک ضروری ہے۔ جس سے معاشرے کے تمام لوگ امن میں آ جاتے ہیں۔ والدین کے ساتھ ان کے تمام متعلقوں اور رشتوں کا بھی ذکر ہے۔ آکر پر پھر تکبر کرنے والوں کو تنبیہ ہے۔

پھر بہت سے مسائل اور جھگڑے غصے کی حالت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ فرمایا کہہ م نے تمہیں امۃً وسطاً بنایا ہےجو اعتدال پر چلنے والی ہے۔

نہ غصہ میں اتنے بہہ جاؤ کہ معافی کی کوئی صورت نہ رہے اور نہ محبت میں اتنے جھک جاؤ کہ انصاف قائم نہ ہو پائے۔

وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ

﴿آل عمران: 135﴾ۚ

اور غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطر ناک دشمنی ہے جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی لیکن جو صبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نور دیا جاتا ہے جس سے اس کی عقل اور فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے۔ غصہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے۔

(الحکم جلد 6 نمبر 17 مورخہ 10 مئی 1902 صفحہ 5،6)

پھر آپؑ فرماتے ہیں
یاد رکھو جو شخص سختی کرتا ہے اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے۔جو اپنے مقابل کے سامنے جلد طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمے سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں۔ غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے جو مغضوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کوکبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے جب زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے۔

(الحکم جلد 7 نمبر 9 مورخہ 10 مارچ 1903 صفحہ 8)

موقعہ دیکھو، نرمی کی ضرورت ہو تو خاک میں مل جاؤ، بخش دو، خیرہ طبع لوگ دنیا میں دگنا بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔یہی تعلیم ہے جس سے امن اور سلامتی پیدا ہوتی ہے۔اصل مقصد معاشرے کی اصلاح ہے نہ کہ سزا دینا، اور یہی وہ امر ہے جس کی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔

غصہ دبا لو تو احسان کا رنگ پیدا ہو جائے گا۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی (النحل: 91) یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حُکم دیتا ہے۔

یہ حکم ایسا ہے کہ جس پر اگر حقیقت میں عمل کیا جائے تو ہر سطح پر امن وسلامتی پیدا کی جا سکتی ہے۔ سو بدلہ اتنا لینا چاہئے جتنا ظلم ہوا ہے وہ بھی صاحب اختیار کے پاس جا کر لینا چاہئے، نہ کہ کینہ ور بن کر جب تک ناک نہ رگڑا جائے چھوڑنے کی نوبت نہ آئے۔

لوگوں سے بدلہ لینے کے لئے انہیں اتنا نقصان پہنچایا جاتا ہے کہ وہ کئی سالوں تک اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہو سکیں۔

سو احسان تو یہ ہے کہ درگزر کریں، اگر کوئی برا سلوک کرے تو بھی در گزر کرے ، اس میں عفو ودرگذر اور غریب کی مدد اور صدقہ وخیرات بھی آ جاتی ہے۔

اس سے بڑھ کر یتاء ذی القربیٰ ہے یہ وہ معاملہ ہے جو ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار سے کرتا ہے یہ احسان سے بڑھ کر طبعی تعلقات کا تعلق ہے، وہ سلوک جو مان کا اپنے بچے سے ہوتا ہےجو کچھ حاصل کرنے کے لئے نہیں طبعی تعلق ہے۔ سو ایسی محبت ہیدا کرو، وہ مقام حاصل کرو جس میں لینے سے زیادہ دینے کا خیال پیدا ہو اور ایک دوسرے کے لئے جوش ہو۔ایسا معاشرہ کیسی سلامتی والا معاشرہ ہو گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
نیکی یہ ہے کہ خدا سے پاک تعلقات قائم کئے جاویں اور اس کی محبت ذاتی رگ وریشہ میں سرایت کر جاوے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی۔ خدا کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یا دکرکے اس کی فرماںبرداری کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور اسے پہچانو۔ اس پر ترقی کرنا چاہو تو درجہ احسان کا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی ذات پرایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے اور جن لوگوں نے تم سے سلوک نہیں کیا ان سے سلوک کرنا اور اگر اس سے بڑھ کر سلوک چاہو تو ایک اور درجہ نیکی کا یہ ہے کہ خدا کی محبت طبعی محبت سے کرو۔ نہ بہشت کی طمع نہ دوزخ کا خوف ہو بلکہ اگر فرض کیا جاوے کہ نہ بہشت ہے نہ دوزخ ہے تب بھی جوشِ محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔ ایسی محبت جب خدا سے ہو تو اس میں ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور کوئی فتور واقع نہیں ہوتا۔

پھر فرمایا
اور مخلوق خدا سے ایسے پیش آؤکہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو۔ یہ درجہ سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ احسان میں ایک مادہ خود نمائی کا ہوتا ہے اور اگر کوئی احسان فراموشی کرتا ہے تو محسن جھٹ کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے تیرے ساتھ فلاں احسان کئے لیکن طبعی محبت جو کہ ماں کو بچے کے ساتھ ہو تی ہے اس میں کوئی خودنمائی نہیں ہوتی بلکہ اگر ایک بادشاہ ماں کو یہ حکم دیوے کہ تو اس بچے کو اگر مار بھی ڈالے تو تجھ سے کوئی باز پرس نہ ہوگی تو وہ کبھی بھی یہ بات سننی گوارا نہ کرے گی اور اس بادشاہ کو گالی دے گی حالانکہ اسے علم بھی ہو کہ اس کے جوان ہو نے تک میں نے مر جانا ہے یعنی بچہ کے جوان ہونے تک مگر پھر بھی محبت ذاتی کی وجہ سے وہ بچہ کی پرورش کو ترک نہ کرے گی۔ اکثر دفعہ ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کو اولاد ہوتی ہے۔ ان کی کوئی امید بظاہر اولاد سے فائدہ اٹھانے کی نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے پھر بھی وہ اس سے محبت اور پرورش کرتے ہیں۔ یہ ایک طبعی امر ہوتا ہے جو محبت اس درجہ تک پہنچ جاوے اسی کا اشارہ ایتای ذی القربی میں کیا گیا ہے کہ اس قسم کی محبت خدا کے ساتھ ہونی چاہئے نہ مراتب کی خواہش نہ ذلت کا ڈر۔

(البدر جلد 2 نمبر 43 مورخہ 16 نومبر 1903 صفحہ 335)

مزید فرماتے ہیں:
اخلاق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو آجکل کے نو تعلیم یافتہ پیش کرتے ہیں کہ ملاقات وغیرہ میں زبان سے چاپلوسی اور مداہنہ سے پیش آتے ہیں اور دلوں میں نفاق اور کینہ بھرا ہوا ہوتا ہے۔ یہ اخلاق قرآن شریف کے خلاف ہیں دوسری قسم اخلاق کی یہ ہے کہ سچی ہمدردی کرے دل میں نفاق نہ ہو اور چاپلوسی اور مداہنہ وغیرہ سے کام نہ لے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی۔ تو یہ کامل طریق ہے اور ہر ایک کامل طریق اور ہدایت خدا کے کلام میں موجود ہے جو اس سے روگردانی کرتے ہیں وہ اور جگہ ہدایت نہیں پا سکتے۔ اچھی تعلیم اپنی اثر اندازی کے لئے دل کی پاکیزگی چاہتی ہے جو لوگ اس سے دور ہیں اگر عمیق نظر سے ان کو دیکھو گے تو ان میں ضرور گند نظر آئے گا۔زندگی کا اعتبار نہیں آپ نے فرمایا زندگی کا اعتبار نہیں ہے اس لئے نماز صدق و صفا میں نماز میں اور صدق و صفا میں ترقی کرو اپنی عبادتوں میں بھی ترقی کرو اور اپنی سچائی کے معیاروں کو بھی بلند کرو اپنے آپس کے تعلقات کو بھی ٹھیک کرو۔

(البدر جلد 264 مورخہ 8 دسمبر 1903 صفحہ 363)

سو سچائی کے معیاروں کو بھی بلند کرنا چاہئے اور اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے حقیقی رنگ میں عمل کرتے ہوئے اس سے دنیا کو بھی آگاہ کریں، دنیا جو خود غرضانہ طور طریقوں پر چلتے ہوئے تباہی کے گڑھے کی طرف جا رہی ہے، اسے اس سے بچانا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر چل کر ہی ہو سکتا ہے۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔

اللہ کرے کہ جلسہ میں شامل ہونے والے جلسہ کی برکات کو ساتھ لے ک رجا رہے ہوں، اور یہ جوش اور جذبہ ان میں اسلام کی پاک تعلیم کی روشنی میں پاک تبدیلی پیدا کرنے والا ہو۔

جلسہ میں قادیان اور گنی بساؤ بھی شامل تھا۔

آخر حضور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور بیعت کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، (آمین)

دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حاضری کا اعلان فرمایا

جلسہ گاہ قادیان میں 2118 افراد 8 ممالک سے موجود تھے جبکہ قادیان میں مختلف مقامات پر 6000 افراد جلسہ میں حاضر تھے۔

جلسہ کے اختتام پر حسب روایت نظمیں اور ترانے خوش الحانی میں پڑھے گئے۔

(داؤد احمد عابد۔ استاذ جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کا ذکر