• 13 مئی, 2025

موذی مرض غیبت سے بچیں

غیبت ایک ایسی بیماری ہے جس نے ہمارے معاشرہ کا امن اور سکون بربادکر دیاہے۔ یہ بیماری ایسی راسخ ہو چکی ہے کہ اکثر مجالس کی زینت بن چکی ہیں ۔ اس ہلاک کن بیماری کا تذکرہ قرآن کریم، رسول پاکﷺ ، حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء سلسلہ کی تحریرات اور خطابات کی رو سے پیش خدمت ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَلاَ يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُواْ اللَّهَ إِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ

(الحجرات:13)

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کر تا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقوی اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ آنحضرتﷺ نے فرمایا بدظنی سے بچو کیو نکہ بد ظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے۔ ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو،اپنے بھائی کے خلاف تجسس نہ کرو، اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو، بےرخی نہ برتو۔جس طرح اس نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘

(بخاری کتاب الادب حدیث نمبر:6064)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ آنحضرتﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے غیبت کیا ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تیرا اپنے بھائی کا ایسے الفاظ سے ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔ عرض کیا گیا کہ اگر وہ بات جو کہی گئی ہے میرے بھائی میں مو جو د ہو تب بھی یہ غیبت ہو گی؟ آپؐ نے فرمایا اگر وہ بات اس میں ہے جو تو نے بیان کی تو تُو نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے تو تُو نے اس پر بہتان لگایاہے۔‘‘

(مسلم کتاب البِرّ، باب تحریم الغیبہ)

حضرت عبد الله بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر آواز بلند فرمایا کہ ’’اے لوگو! تم میں سے بعض بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے دلوں میں ابھی ایمان راسخ نہیں ہوا۔ انہیں میں متنبہ کر تاہوں کہ وہ مسلمانوں کو طعن و تشنیع کے ذریعہ تکلیف نہ دیں اور نہ ان کے عیبوں کا کھوج لگاتے پھریں۔ ورنہ یادرکھیں کہ جو شخص کسی کے عیب کی جستجو میں ہوتا ہے الله تعالیٰ اس کے اندر چھپے عیوب کو لوگوں پر ظاہر کر کے اس کو لوگوں میں ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔‘‘

(جامع الترمذی حدیث نمبر:2032)

ایک حدیث ہے جو ایسے لوگوں کے بارہ میں ہی ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن غنمؓ اور حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تو الله یاد آجائے اور الله تعالیٰ کے بُرے بندے غیبت اور چغلیاں کرتے پھرتے ہیں، دوستوں، پیاروں کے درمیان تفریق ڈالتے ہیں، نیک پاک لوگوں کو تکلیف، مشقت، فساد ہلاکت اور گناہ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی مر دو عورت کو اس سے بچائے۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل۔ مسند الشامیین جلد 5صفحہ 862)

ایک حدیث میں آتا ہے حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جب مجھے معراج ہوا تو کشفاًمیں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اس سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ ر ہے تھے۔ میں نے پوچھا، جبرائیل یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ، لوگوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھایا کرتے تھے اور ان کی عزت و آبرو سے کھیلتے تھے یعنی غیبت کرتے تھے، الزام تراشیاں کرتے تھے، حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔

(ابوداؤد کتاب الادب باب فی الغيبۃ حدیث نمبر:4878)

حضرت ابو عمامہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’قیامت کے دن آدمی کے پاس اس کا کھلا ہو اعمال نامہ لایا جائے گا۔ وہ اس کو پڑھے گا، پھر کہے گا اے میرے رب میں نے دنیا میں فلاں فلاں نیک کام کئے تھے وہ تو اس میں نہیں ہیں۔ تو الله تعالیٰ جواب دے گا کہ لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے وہ نیکیاں تمہارے نامہ اعمال سے مٹا دی گئی ہیں۔‘‘

(ترغیب والترھیب)

امام غزالی کہتے ہیں (اس کا خلاصہ یہ ہے) کہ جس کے پاس چغلی کی جائے اسے چاہئے کہ وہ چغل خور کی تصدیق نہ کرے اور نہ جس کے بارہ میں چغلی کی گئی ہے اس سے بد ظن ہو۔

(فتح البیان جلد نمبر10 صفحہ 734)

حضرت عبد الله بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے چغلی کرنے اور چغلی سننے دونوں سے منع فرمایا ہے۔

(مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 19 باب ماجاء في الغیبۃ و النمیمۃ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’بہت سی بدیاں صرف بدظنی سے ہی پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک بات کسی کی نسبت سنی اور جھٹ یقین کر لیا۔ یہ بہت بری بات ہے جس بات کا قطعی علم اور یقین نہ ہو اس کو دل میں جگہ مت دو۔ یہ اصل بدظنی کو دور کرنے کے لئے ہے کہ جب تک مشاہد ہ اور فیصلہ صحیح نہ کرے نہ دل میں جگہ دے اور نہ ایسی بات زبان پر لائے…. بڑے بڑے اور کھلے گناہوں سے تو اکثر پر ہیز کرتے ہیں۔ بہت سے آدمی ایسے ہوں گے جنہوں نے کبھی خون نہیں کیا۔ نقب زنی نہیں کی۔ یا اور اسی قسم کے بڑے بڑے گناہ نہیں کئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کتنے ہیں جنہوں نے کسی کاگلِا نہیں کیا یا کسی اپنے بھائی کی ہتک کر کے اس کورنج نہیں پہنچایا۔ یا جھوٹ بول کر خطا نہیں کی؟‘‘

پھر حضورؑ اپنی کتاب کشتی نوح میں فرماتے ہیں۔
’’اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کر تاور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑ تاوہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 19)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتےہیں۔
’’اور یہ بھی یادر کھو کہ تقویٰ اس کا نام نہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پر ہیز کرے۔ بلکہ بار یک در بار یک بدیوں سے بچتا رہے مثلاً ٹھٹھے اور ہنسی کی مجلسوں میں بیٹھنا جہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی ہتک ہو یا اس کے بھائی کی شان پر حملہ ہو رہا ہو۔ اگر چہ ان کی ہاں میں ہاں بھی نہ ملائی ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بھی برا ہے کہ ایسی باتیں کیوں سنیں ؟ یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کے دلوں میں مرض ہے کیو نکر اگر ان کے دل میں بدی کی پوری حس ہوتی تو وہ کیوں ایسا کرتے اور کیوں ان مجلسوں میں جا کر ایسی باتیں سنتے؟

یہ بھی یاد رکھو کہ ایسی باتیں سننے والا بھی کرنے والاہی ہو تا ہے۔ جو لوگ زبان سے ایسی باتیں کرتے ہیں وہ تو صریح مؤاخذہ کے نیچے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ارتکاب گناہ کا کیا ہے۔ لیکن جو چپکے ہو کر بیٹھے رہے ہیں وہ بھی اس گناہ کے خمیازہ کے شکار ہوں گے اس حصہ کو بڑی توجہ سے یاد رکھو اور قرآن شریف بار بار پڑھ کر سوچو۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 656)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتےہیں۔
’’خدا تعالیٰ کا نام ستار ہے۔ تمہیں چاہئے کہ تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللّٰهِ بنو۔ ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ ہے کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو، کیونکہ کتاب الله میں جیسا آ گیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے۔ شیخ سعدیؒ کے دو شاگرد تھے۔ ایک ان میں سے حقائق و معارف بیان کر تا تھا اور دوسرا جلا بھُنا کرتا تھا۔ آخر پہلے نے سعدیؒ سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کر تاہوں تو دوسر اجلتا ہے اور حسد کرتا ہے۔ شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اور تو نے غیبت کی۔ غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا جب تک رحم ،دعا، ستاری اور مَرْحَمَۃ آپس میں نہ ہو۔‘‘

(البدر 8 جولائی 1904ء ملفوظات جلد چہارم صفحہ 60 تا 61)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں۔
’’نصیحت کے طور پر کہتاہوں کہ اکثر سُوء ظنیوں سے بچو۔ اس سے سخت سخن چینی اور عیب جوئی کی عادت بڑھتی ہے۔ اسی واسطے اللہ کریم فرماتا ہے وَلاَ تَجَسَّسُوْا تجسس نہ کرو۔ تجسس کی عادت بدظنی سے پید اہوتی ہے۔ جب انسان کسی کی نسبت سوء ظن کر تا ہے یابدظنی کر تا ہے تو اس کی وجہ سے ایک خراب رائے قائم کر لیتا ہے تو پھر کوشش کر تا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے کچھ عیب بھی مجھے مل جائیں، اس کی کچھ برائیاں بھی نظر آجائیں۔ اور پھر عیب جوئی کی کوشش کرتا اور اسی جستجو میں مستغرق رہتا ہے اور یہ خیال کر کے کہ اس کی نسبت میں نے جو یہ خیال ظاہر کیا ہے اگر کوئی پوچھے تو پھر اس کو کیا جواب دوں گا۔ اپنی بد ظنی کو پورا کرنے کے لئے تجسس کر تا ہے، پھر تجسس سے غیبت پیدا ہوتی ہے جیسے اللہ کریم نے فرمایا کہ (وَلاَ يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضاً)۔ غرض خوب یاد رکھو سوءظن سے تجسس اور تجسس سے غیبت کی عادت شروع ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص روزے بھی رکھتا ہے اور غیبت بھی کرتا ہے تجسس اور نکتہ چینیوں میں مشغول رہتا ہے تو وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے جیسے فرمایا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ اب جو غیبت کرتا ہے وہ روزے کیارکھتا ہے، وہ تو گوشت کے کباب کھاتا ہے اور کباب بھی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کے اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ غیبت کرنے والا حقیقت میں ہی ایسا بد آدمی ہے جو اپنے مردہ بھائی کے کباب کھاتا ہے۔…. ایک صوفی نے کشف میں دیکھا کہ ایک شخص نے کسی کی غیبت کی ہے۔ جب اس کوقے کرائی گئی تو اس کے اندر سے بوٹیاں نکلیں جن میں سے بدبو آتی تھی۔ یادر کھو یہ کہانیاں نہیں، یہ واقعات ہیں۔ جو لوگ بد ظنیاں کرتے ہیں جب تک اپنی نسبت بد ظنیاں نہیں سن لیتے، نہیں مرتے۔ اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور دردِ دل سے کہتاہوں کہ غیبتوں کو چھوڑ دو۔ بغض اور کینے سے اجتناب کرو اور بکلی پرہیز کرو اور بالکل الگ تھلگ رہو، اس سے بڑا فائدہ ہو گا۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 6)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
’’مومن ہونے کے بعد فاسق نام رکھانا بہت ہی بری بات ہے۔ یہ تمسخر کہاں سے پید اہو تا ہے؟ بدظنی سے۔اسی لئے فرماتا ہے۔ اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ۔ بدگمانیوں سے بچو۔حدیث میں بھی آیا ہے۔ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ اس بدظنی سےبڑا بڑا نقصان پہنچتا ہے میں نے ایک کتاب منگوائی۔ وہ بہت بےنظیر تھی۔ میں نے مجلس میں اس کی خوب تعریف کی۔ کچھ دنوں بعد وہ کتاب گم ہو گئی۔ مجھے کسی خاص پر تو خیال نہ آیا مگر یہ خیال ضرور آیا۔ کسی نے چرالی۔ ایک دن جب میں نے اپنے مکان سے الماریاں اٹھوائیں تو کیا دیکھتا ہوں الماری کے پیچھے بیچوں بیچ کتاب پڑی ہے جس سے معلوم ہوا کہ کتاب میں نے رکھی تھی اور وہ پیچھے جا پڑی۔ اس وقت مجھے ملامت ہوئی کہ میں نے دوسرے پر بدگمانی کیوں کی دیکھو بدظن کیسا خطرناک ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو سکھاتا ہے جیسا کہ اس نے محض اپنے فضل سے میر ی رہنمائی کی اور لوگوں سے بھی ایسے معاملات ہوتے ہوں گئے۔ مگر تم نصیحت نہیں پکڑتے۔ اس بد ظنی کی جڑ ہے ’’کرید‘‘ خواہ مخواہ کسی کے حالت کی جستجو اور تاڑ بازی۔ اس لئے فرمایا۔ وَلاَ تَجَسَّسُوْا اور پھر تجسس سے غیبت کا مرض پید اہو تا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت کو مار رہے تھے یہاں تک کہ اسے کہا جاتا زَنَیْتِ۔ سَرَقْتِ تونے زنا کیا تو نے چوری کی۔ ایک سننے والی پر اس کا اثر ہوا اور اس نے دعا کی الہٰی میری اولاد ایسی نہ ہو۔ گود میں لڑ کا بول اٹھا۔ الہٰی مجھے ایسا ہی بنائیو کیونکہ اس عورت پر بد ظنی کی جارہی ہے…. اسی طرح ایک اور ذکر ہے۔ ماں نے دعا کی الہٰی میرابچہ ایسا ہو۔ مگر بچے نے کہا کہ الہٰی میں نہ ہوں۔ غرض کسی کو کسی کے حالات کی کیا خبر ہوسکتی ہے ہر ایک کامعاملہ خدا کے ساتھ ہے ممکن ہے ایک شخص ایسا نہ ہو جیسا اسے سمجھاجاتا ہے۔ لوگوں کی نگاہ میں حقیر ہو خدا کے نزدیک مقرب ہو۔ …. وَلَا نِسَاءٌ مِّنْ نِّسَاءٍ آیت میں آیا ہے۔ کہ کوئی عورت دوسری عورت کی تحقیر نہ کرے اور اس سے ٹھٹھا نہ کرے۔ تم ایک دوسرے پرعیب نہ لگاؤ اور نام نہ رکھو۔ تم کسی کابرا نام رکھو گے تو تمہارا نام اس سے پہلے فاسق ہو چکا۔ میں تمہیں نصیحت کر تاہوں کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ر ہو اور بدی کو اس کی ابتداء میں چھوڑ دو۔’’

(حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 2-4 ،بدر 18نومبر 1909، صفحہ 3)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔’’غیبت کبھی نہیں کرنی چاہئے۔ کیا اپنے نقص کم ہوتے ہیں کہ دوسروں کے نقص بیان کرنے شروع کر دیئے جاتے ہیں؟ تمہیں چاہئے کہ دوسروں کے عیب نکالنے کی بجائے اپنے عیب نکالو تا کہ تمہیں کچھ فائدہ بھی ہو۔ دوسروں کے عیب نکالنے سے سوائے گناہ کے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘‘

(انوار العلوم جلد 5 ص 161)

فرمایا۔’’ایک شخص دوسرے شخص کے عیب بیان کر تا ہے اور دیکھنے والا دیکھتا ہے۔ کہ سننے والے کو بڑا مزا آرہا ہے۔ اسی طرح بیان کرنے والے کو بھی اور جوں جوں زیادہ تشریح کر تا جاتا ہے۔ ان کے چہرے سے خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ بعض دفعہ جس کے عیب بیان کئے جارہے ہوں۔ وہ ان کا دوست ہوتا ہے۔ بعض دفعہ محسن ہو تا ہے اور بعض دفعہ ایسا ہو تا ہے کہ اس کے عیوب کے اظہار پر ان کو نقصان بھی پہنچتا ہے مگر باوجود اس کے ان کو مزہ آتا ہے۔ کیوں؟ دنیامیں قلیل ہی ایسے اشخاص ہو گئے جو اس کی وجہ بیان کر سکیں اور جو مزہ اٹھانے والے ہیں وہ تو قریباً تمام کے تمام ایسے ہونگےکہ کوئی وجہ بیان نہیں کر سکیں گے۔ مگر باوجود اس کے گھنٹہ گھنٹہ ایک شخص غیبت کر تاجائے گا۔ اور اس کے چہرے پر ایسے آثار ظاہر ہو ں گے کہ گویا اسے کوئی عظیم الشان کامیابی حاصل ہورہی ہے اور سننے والے بھی اتنے مشغول ہوتے ہیں کہ اگر کوئی ضروری کام کے لئے بھی بلائے تو ناراض ہوتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ٹھہر وا بھی آتے ہیں، کام کر رہے ہیں اور ان کے بُشروں سے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ انہیں کوئی ایسی خوشی کی بات معلوم ہوئی ہے جیسے کسی کے ہاں بیٹا پید اہویا کوئی جائیداد مل جائے یا حکومت اور عزت حاصل ہو۔ گویا ایسا معلوم ہو تا ہے کہ دنیاوی انعام کی بڑی سی چیز ان کومل گئی ہے۔ جس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ کبھی ہاتھ ماریں گے،کبھی سر ہلائیں گے،کبھی مسکرائیں گے، کبھی ہنسیں گے اور ایسے لطف کا اظہار کریں گے کہ ان کی زیست کامدار وہی بات ہے، لیکن اگر پوچھو کہ کیوں مزا آرہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے تو قطعا ًنہیں بتاسکیں گے۔ نہ بیان کرنے والا اور نہ سننے والے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 6 ص 526)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒفرماتے ہیں۔
’’ بعض لوگ کہتے ہیں جی ہم نے تو صرف سنی ہے غیبت، ہم نے تو حصہ نہیں لیاخود کسی کے خلاف برائی نہیں کی۔ ان کے متعلق آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ انہوں نے بھی گناه سے حصہ پالیا۔ اگر تم سنتے ہو اور منع نہیں کرتے اور برا نہیں مناتے یا اپنے بھائی کادفاع نہیں کرتے تو ایسی صورت میں غیبت کے گناہ میں تم بھی حصہ دار ہو گئے۔ پھر سنن ابی داؤد میں آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے “جب مجھے معراج کے لئے لے جایا گیا تو میں ایسے لوگوں کے پاس سے گز راجن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے، میں نے جبرائیل سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں ؟ تو اس نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی غیبت کرتے تھے اور ان کی آبرو کے پیچھے پڑے رہتے تھے۔‘‘

(خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 54)

نیز فرمایا:
’’یہاں تجسس کا بھی ذکر فرمادیا، کسی کے متعلق ایسی باتوں کی تلاش کرنا کہ وہ بے آبروئی کا موجب بنے اور پھر غیبت کر کے لوگوں تک پہنچانایہ برائیاں اتنی خطر نا ک ہیں کہ ان کی سز اجو خداتعالیٰ نے تجویز فرمائی وہ آنحضرت ﷺکو معراج کے روز دکھائی گئی۔‘‘

(خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 54)

مزید فرماتےہیں:
’’ عہدِ بیعت میں بھی یہ بات داخل ہے کہ میں غیبت نہیں کروں گا، میں بدظنی نہیں کروں گا لیکن کچھ ایساچسکا ہے، ایسی مصیبت ہے اور یہ بیماری کہ گھر گھر میں، سینے سینے میں داخل ہوئی ہوئی ہے اور اتنی عادت ہے خصوصاً عورتوں میں کہ وہ برداشت نہیں ہو تاان سے کہ کسی کی بڑائی دیکھیں یا سنیں اور وہ آگے نہ پہنچائیں۔ دیکھ کر پہنچانا بھی بہت بری بات ہے لیکن سن کر پہنچانا تو افک بھی بن جاتا ہے اور غیبت بھی بن جاتی ہے اور پھر چسکے پورے کرنے کے لئے وہ ظن بھی کرتی ہیں اور من گھڑت باتیں بنا کر بہتان میں بھی داخل ہو جاتی ہیں اور یہ بیماری مردوں میں بھی آتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے معاشرے کا بہت براحال ہے۔‘‘

(خطبات طاہر جلد 3 ص60)

فرمایا: ’’مردوں میں جب یہ بیماری پھیلتی ہے تو نہایت خطرناک شکل اختیار کر جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ مردوں کو ویسے اپنے کاموں کی نوعیت کے لحاظ سے زیب نہیں دیتی اور دوسرے وہاں قومی نقصان پہنچانے کا موجب بنتی ہے…. جب مرد غیبت کرتے ہیں تو وہ پھر بڑی تباہی مچاتے ہیں وہ تو یوں لگتا ہے جیسے قبرستان اکھیڑ اکھیڑ کر کھائے جار ہے ہیں اور پھر بھی بھو ک بند نہیں ہوتی ان کی ۔ اس لئے بہت خطرناک بیماری ہے قرآن کریم نے بے وجہ اس پر زور نہیں دیا۔‘‘

(خطبات طاہر جلد 6ص619)

نیز فرمایا: ’’یہ جو مردار خور جانور ہیں یہی گوشت کھاتے ہیں مثلاً چیلیں ہیں، گد ھیں ہیں اور دوسرے اس قسم کے جانور جو مردوں کا گوشت کھانے پر خاص طور پر مقرر ہیں وہ دوسروں کا بھی گوشت کھاتے ہیں، اپنوں کا بھی کھاتے ہیں۔ ان کے حالات پر آپ غور کریں تو وہ ساری دنیا سے کٹ کر الگ ہو چکے ہوتے ہیں عملاً ساری دنیا کی زندگی نے ان سے بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ وہ نہ باغ میں چہچہاتے ہوئے نظر آئیں گے، نہ جنگلوں کی زینت بنیں گے دوسرے جانوروں کی طرح، کسی نہ کسی چوٹی کے اوپر جا کر اکیلے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ صرف اُس وقت اکٹھے ہوتے ہیں۔ جب مردار ہاتھ آجائے ورنہ اکٹھے ہو ہی نہیں سکتے۔ سارے گِدھوں اور سارے مُردار خور جانوروں کی نہ آواز میں کوئی رونق ہے نہ ان کی شکل میں کوئی زینت ہے نہایت منحوس قسم کی چیزیں ہیں اور تنہائی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غیبت کرنے والے بالآخر قرآن کی اس آیت کی روشنی میں تنہا ہوتے چلے جاتے ہیں اور صرف اس وقت اکٹھے ہوتے ہیں جب کسی کی برائی کرتے ہیں۔‘‘

(خطبات طاہر جلد 2 ص 489، 490)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ الله تعالیٰ بنصرہالعزیز فرماتے ہیں:
’’ کسی کا اس کے پیچھے برے الفاظ میں ذکر کرنا ،قطع نظر اس کے کہ وہ برائی اس میں ہے یا نہیں۔ اگر اس کی کسی بُرائی کا اس کے پیچھے ذکر ہو تا ہے اور باتیں کی جاتی ہیں تو یہ غیبت ہے۔ اور آنحضرت ﷺ جب بیعت لیا کرتے تھے تو اس بات پر خاص طور پر بیعت لیا کرتے تھے کہ غیبت نہیں کروں گا۔ تو کتنی اہمیت ہے اس برائی کی کیو نکہ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور 3 صفحہ 285)

نیز فرمایا:
’’غیبت جو ہے یہ مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے۔ اب دیکھیں ظالم سے ظالم شخص بھی، سخت دل سے سخت دل شخص بھی، کبھی یہ گوارا نہیں کرتا کہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ اس تصور سے ہی ایک ابکائی آنے لگتی ہے، طبیعت متلانے لگتی ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 1 صفحہ 566)

حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں۔
’’آج کل کے اس معاشرے میں جبکہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے، غیروں سے گھلنے ملنے کی وجہ سے ان برائیوں میں جن کو ہمارے بڑوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی بیت میں آ کر ترک کیا تھا بعضوں کی اولادیں اس سے متاثر ہورہی ہیں۔ ہمارے احمد ی معاشرہ میں ہر سطح پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ احمدی نسل میں پاک اور صاف سوچ پیدا کی جائے ۔ اس لئے ہر سطح پر جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کے نظام کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ خاص طور پر یہ برائیاں، حسد ہے بد گمانی ہے، بد ظنی ہے، دوسرے پر عیب لگانا ہے اور جھوٹ ہے اس برائی کو ختم کرنے کے لئے کوشش کی جائے ایک مہم چلائی جائے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 4 صفحہ 256)

نیز فرمایا: ’’‘کسی کی پیٹھ پیچھے باتیں کرنے والوں کو ہمیشہ یہ یادرکھنا چاہئے کہ وہ باتیں صحیح ہیں یا غلط یہ غیبت یا جھوٹ کے زمرے میں آتی ہیں اور غیبت کرنے والوں کو اس حدیث کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگلے جہان میں ان کے ناخن تانبے کے ہو جائیں گے جس سے وہ اپنے چہرے اور سینے کا گوشت نوچ رہے ہوں گے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 1 ص 233)

(فراز یاسین ربانی ۔غانا)

پچھلا پڑھیں

کوروناوائرس سے حفاظت کا ہومیوپیتھک نسخہ

اگلا پڑھیں

مصروفیات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 18 جنوری 2020ء تا مورخہ 24 جنوری 2020ء