• 13 مئی, 2025

خدا کا فضل۔روزنامہ الفضل لندن

ربوہ سے سات سمندر پارصبح نمازفجراورتلاوت قرآن پاک کے بعدانٹرنیٹ پر روزنامہ الفضل لندن آن لائن کا نیا شمارہ پڑھتی ہوں۔الفضل سے ہمیں حضور انور کے تازہ خطبہ اورسب ملکوں کے دوروں کے احوال کاعلم ہوتا ہے جماعت کی روز افزوں ترقی سے باخبر رہتے ہیں لگتاہے ساری پیاری جماعت احمدیہ ایک وسیع تر خاندان ہے جس کا ہرفرد الفضل کے ذریعہ ایک دوسرے سے منسلک ہے آج ہی کے اخبار میں ایک دعا کا اعلان تھاکہ جرمنی میں ایک بچہ بیمار ہے جس کے دو بھائی پہلے اسی کی عمر اور بیماری میں وفات پا چکے ہیں۔ دکھ اوردرد سے بچے کے لئے دعا کرتے ہوئے سوچتی ہوں اب سارے قارئین اللہ شافی سے رحم کی بھیک مانگیں گے یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ ہمیں الفضل میسر ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ رکھتا ہے اس نعمت عظمی پردل حمدوشکر سے بھرا رہتا ہے۔ یہ پیارا اخبار ایک مضبوط کڑا ہے جس کو تھام کر ہم بے آسرا نہیں رہتے۔

ماضی میں الفضل سے دلچسپی کی شروعات کھوجنے کے لئے بہت دور جانا ہوگا۔میں سکول میں پڑھتی تھی جب بڑی بہن محترمہ امۃ اللطیف کی شادی محترم شیخ خورشید احمد اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل سے ہوئی۔ آپی بیاہ کے لاہور چلی گئیں ان دنوں الفضل لاہور سے نکلتا تھا۔ ہم اپنے بہنوئی کو دولہا بھائی کہتے تھے۔ شادی کے بعد دولہا بھائی بھاٹی گیٹ محلہ پٹ رنگاں سے اچھرہ میں کرایے کے مکان میں منتقل ہوگئے آپی بھرے پرے گھر سے گئی تھیں وہاں دل نہ لگا توگرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لئے مجھے اپنے پاس بلا لیا۔ یہیں الفضل سے تعارف ہوا یعنی اس موقر روزنامہ سے محبت کا آغاز ہوا۔ مجھے یاد ہے جب 1953ء میں جماعت کے خلاف شرانگیزی ہوئی میں لاہور میں تھی۔ اسسٹنٹ ایڈیٹر صاحب کے پاس مخدوش حالات کی پل پل کی خبر یں آتیں میں بھی دعاؤں میں لگی رہتی۔ حضرت مصلح موعودؓ کا پُر جلال پیغام ’’میرا خدا مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے‘‘ پڑھ کر بہت تقویت ملی تھی۔ پھرحضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر الفضل کی اشاعت ربوہ سے شروع ہوئی تو یہ جوڑا ربوہ منتقل ہو گیا اور وہ بھی بالکل اپنے گھر جیسے پڑوس میں وہ اس طرح کہ ہم دارالرحمت وسطی میں ایک کنال کے پلاٹ پر آدھے حصے میں رہتے تھے آپی نے باقی کے آدھے میں مکان بنوایا درمیانی دیوار میں ایک چھوٹا سادروازہ تھاجس سے دونوں گھر ساتھ بھی تھے اور علیحدہ بھی ’دولہا بھائی اور الفضل گویا ایک ہی وجود کے دو نام تھے دفتر سے گھر آتے تو اپنے ساتھ سائیکل کے کیریر میں ایک پلندہ لاتے جس میں تازہ الفضل’ معاصر روزنامے اور ہفت روزے ہوتے۔ مجھے فطرتاََ لکھنے پڑھنے کا شوق ہے میرے لئے یہ سب کچھ بہت پُرکشش ہوتا دولہا بھائی کے دفتر سے واپسی کی منتظر رہتی۔

صحافیوں کو اس ذوق کی خوشبو آجاتی ہے۔ مجھے اخبار کی تیاری اوراشاعت کے مرحلوں’ا شتہاروں کی ضرورت‘ مختلف احتیاطوں اور معاصرین سے ایک قسم کی دوڑ کے بارے میں بہت کچھ بتاتے۔ میرے ہر سوال کا تحمل سے اور وضاحت سے جواب دیتے۔ آپ کتابت کا ہنر جانتے تھے آپ لکھتے تومیں غور سے لفظوں کی بناوٹ دیکھتی۔ آپ سے سیکھا ہوا ساری عمربہت کام آیا۔ مثال کے طور پر آپ کبھی کبھی الفضل کی اشاعت سے پہلے پیلے پیلے زعفرانی سے رنگ کے بڑے بڑے کاغذوں کی پروف ریڈنگ کرتے تھے۔ یہ مشغلہ میرے لئے بڑا دلچسپ تھا غلط لفظ پر دائرہ بناتے اور حاشیے پرلائن کھینچ کریا ایرو لگا کر سطر کے اوپر اصلاح لکھ دیتے جن کو پروف ریڈنگ سے واسطہ نہیں پڑا وہ اندازہ نہیں کرسکتے کہ یہ کتنا مشکل اور ظالم کام ہے۔ مجھے اس مشاہدہ سے بہت فائدہ ہوا ساری عمر یہی کام کرنا مقدر تھاوہ اس طرح کہ کراچی لجنہ کی اشاعت کا کام کرتے ہوئے قریباََ ایک سو کتابوں کے ورق ورق کی بیسیوں بار پروف ریڈنگ کرتی۔ ظالم کا لفظ اس لئے لکھا ہے کہ پوری آنکھیں کھپا کر پروف ریڈنگ کرنے پر بھی جو غلطی میری آخری نظر سے اوجھل رہ جاتی دوسروں کی پہلی نظرمیں آجاتی۔

آپی کے گھر کا ماحول میری ادبی تربیت گاہ تھا۔ حسن اتفاق سے میاں بیوی دونوں مضمون نگار اور ادیب آپی لجنہ مرکزیہ کی سیکرٹری اشاعت اوربعد میں مصباح کی ایڈیٹر رہیں دینی ماحول میں علمی موضوعات پرگفتگو ہوتی۔ الفضل کے مضامین اورنظموں پر تبصرے ہوتے جو علم میں اضافے کا بہترین ذریعہ ہوتے۔ شذرات کے کالم کے لئے دوسرے اخبارات کی خبروں سے تراشے لیتے جن سے ہم حالات حاضرہ سے باخبررہتے۔

بعض مزیدار واقعات بھی ہوتے ایک دفعہ کافی رات گئے اسسٹنٹ ایڈیٹرصاحب کے گھر کا دروازہ کھٹکا ایک صاحب یادرفتگاں کے عنوان سے کسی کی یاد میں مضمون لائے دولہا بھائی نے حیرت سے کہا کہ موصوف تو ابھی ہستگاں میں شامل ہیں۔ کہنے لگے الفضل میں ان کی تشویشناک علالت کا پڑھا تھا۔ میرے پاس وقت تھا میں نے سوچا بعد میں بھی تو لکھنا ہے کیوں نہ ابھی لکھ لوں فوت ہوجائیں تو پہلا میرا مضمون چھاپ دینا۔ایک دفعہ میرے ایک سوال نے بھی سب کو بہت ہنسایا حالانکہ بڑا معصوم سا سوال تھا کہ کیا محترم شیخ روشن دین تنویر کے علاوہ بھی جماعت میں کوئی شاعر ہے؟

مجھے اندازہ نہیں کہ دولہا بھائی نے کل کتنے سال الفضل کی خدمت کی۔مگر اتنا کہہ سکتی ہوں کہ اللہ تعالی نے ان کو اسی کام کے لئے پیدا کیا تھا۔ میرے پاس ایک بہت دلچسپ بات ہے جو اس ذ یل میں بے محل بھی نہیں ایک دفعہ ان کے والد صاحب نے بھاٹی گیٹ کے اپنے آبائی گھر کی ایک پرانی الماری سے دولہا بھائی کے بچپن کی سنبھالی ہوئی چیزیں دکھائیں۔میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ان میں پورے پورے اخبار ہاتھ سے لکھے ہوئے موجود تھے باقاعدہ کالم بنائے ہوئے شہ سرخیاں‘ذیلی سرخیاں لگائی ہوئیں دوسرے اخباروں سے خبریں نقل کی ہوئیں ناقابل یقین صفائی ستھرائی سے ہر جہت سے مکمل اخبار بنائے ہوئے۔ جب ان کی والدہ صاحبہ کی وفات ہوئی یہ بہت چھوٹے تھے اکیلے ہی کھیلتے رہتے تھے۔

اس وقت یہ مشغلہ اپنایا۔ جو زندگی کی راہیں متعین کررہا تھا۔ دراصل قدرت ایک صحافی تراش رہی تھی جس سے بڑے ہوکر سلسلہ کے اخبار کی خدمت لینی تھی۔ ان کا ذوق و شوق ان کی روزی بن گیا اور جماعت کی خدمت کا موقع بھی ملا ۔ پھر حالات انہیں کینیڈا کی سرزمین پر لے آئے۔

خاکسارسے ہم ذوقی کا رشتہ انہوں نے ساری عمر نبھایا جب بھی ملاقات کی صورت ہوتی وہ میری حقیر کاوشوں پر دل سے داد دیتے۔ اورالفضل کی ترقی اور پرنٹنگ کی جدید سہولتوں کاذکر کرتے ہوئے اس ماں کی طرح خوش ہوتے جو اپنے خون سے پرورش کئے ہوئے بچے کو پھولتے پھلتے دیکھ کر طمانیت محسوس کرتی ہے۔ آخری عمر تک الفضل زیر مطالعہ رہا۔ تحریر کی حرمت پہچانتے تھے ان کے پاس یادگار خطوط اور تحریروں کا خزانہ تھا۔یہ فرشتہ سیرت‘قابل صد احترام بھائی کئی طرح ہمارے خاندان کے لئے باعثِ رحمت ثابت ہوئے خاص طور پر ابا جان کے درویشِ قادیان ہونے کی وجہ سے گھر میں ایک سرپرست کی حیثیت حاصل تھی۔ اب مولا کریم کے حضور حاضر ہوچکے ہیں ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے ہمیشہ دل سے دعائیں کرتے رہیں گے۔

جامعہ نصرت میں پڑھنے پڑھانے کا عرصہ پھر شادی اور سب سے چھوٹی بچی کے سکول جانے تک الفضل کا مطالعہ تو جاری رہا مگرفعال رابطہ محترم نسیم سیفی کی ادارت کے زمانے میں ہوا موصوف میرے پھوپھی زاد بھائی اورپڑوسی تھے۔ بہت حوصلہ افزائی کرنے والے ایڈیٹر تھے۔ میں ٹوٹی پھوٹی نظمیں بھیجتی وہ خوشی سے قبول کرتے اور ممنونیت سے چھاپتے جیسے کسی کہنہ مشق شاعر نے ادب کا شاہکار تخلیق کیا ہو۔

حقیقتاً یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی میں ربوہ جاتی تو وہ قلندردرویش بھائی عزت و تکریم میں حد کردیتے۔ کراچی لجنہ کی کتب پر بہت خوشی کا اظہار کرتے اور اچھے تبصرے لکھتے۔ہمارے پاس کتب کے تعارف کا یہی ایک ذریعہ تھا الفضل میں تبصرہ آتا اور ہمیں آرڈر ملنے شروع ہوجاتے۔ کلام طاہر شائع ہوئی تو تبصرے میں لکھا ’’جماعت احمدیہ کی سب سے خوبصورت کتاب‘‘ نثر نظم دونوں میں داد دی ان کو لکھنے پر ابھارنے کا فن آتا تھا۔ ان کے زمانے میں ایسے قلمکار بھی سامنے آئے جو قلم پکڑنا نہیں جانتے تھے

الفضل میں چھپنا بڑا بابرکت ثابت ہوا۔ بعض دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کا پیارا مکتوب ملتا ’’الفضل میں آپ کی نظم پڑھی……….‘‘ یا ’’الفضل میں عزیزہ امۃ الباری ناصر کا مضمون پڑھا اگرچہ نام نہیں لکھا………‘‘ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ الفضل مجھے ایک چاند کی طرح لگتا۔جب نظم چھپتی میں سوچتی یہ چاند وہاں بھی نکلا ہوگا حضور پرنور نے بھی میری نظم پڑھی ہوگی۔ پھر جب حضور کا کوئی خط یا پیغام آجاتا دل حمدوشکر سے بھرجاتا۔ صرف ایک خط مرقومہ 17 جنوری 1989ء لکھتی ہوں شاید کوئی میری خوشی کا اندازہ لگا سکے۔

یہ خودستائی نہیں اظہار تشکر ہے۔ آپ نے دست مبارک سے تحریر فرمایا۔حضورؒ کا یہ خط اپنی ذات میں اردو ادب کا ایک شاہکار ہے۔

’’ابھی الفضل 11جنوری میں آپ کی نظم ’اسیرانِ راہِ مولا‘ پڑھی تو

ع جو بدلی غم کی اُٹھی دل پہ تھوڑی برسا دی

ساری نظم ہی بڑی پُر اثر ہے اور فصیح و بلیغ مگر بعض اشعار اور بعض مصرعے تو شوخیئ تحریر کے فریادی بنے ہوئے ہیں۔ میں نے سوچا کہ پہلے اس سے کہ میری آنکھیں خشک ہو جائیں میں آپ کو بتا دوں کہ نظم پڑھ کر اسیرانِ راہِ مولا کے ساتھ ساتھ میرے دل نے آپ کو بھی دعائیں دیں۔جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والاخرۃ‘‘

ایک دفعہ سیفی صاحب نے الفضل میں لوگوں کے نام حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطوط چھاپنے کا سلسلہ شروع کیا۔ انہی دنوں لجنہ کراچی کی اس وقت کی صدر صاحبہ محترمہ سلیمہ میر کے نام حضورانورکا ایک بہت ہی شاندار خط موصول ہوا جس میں خاکسارکا بہت اچھا ذکر تھا۔ سیفی صاحب سے خط چھپوانے کی درخواست کی تو آپ نے بتایا کہ وہ سلسلہ حضور نے بند کروادیا ہے موڈ خراب ہوگیا حضور کو خط لکھ رہی تھی اشارۃ ًاس بات کا ذکر کرکے میں نے پنجابی کا ایک محاورہ لکھا ’’غریباں روزے رکھے تے دن وڈے آ گئے‘‘ پیارے حضور نے فون پر ہنستے ہوئے فرمایا ’’میں آپ کا مطلب سمجھ گیا ہوں ’غریباں روزے رکھے تے دن وڈے آ گئے‘‘ والاسیفی صاحب کو لکھوارہا ہوں کہ آپ کا خط چھاپ دیں آپ بھی ان کو یہ پیغام دے دیں کہ یہ خط چھاپنے کی خصوصی اجازت ہے۔‘‘ پھر یہ خط الفضل کے پہلے صفحے پر شائع ہوا۔

الفضل میں چھپنے والی ایک نظم پر حضور انور نے ازراہ شفقت داد اور دعا سے نوازتے ہوئے کچھ اصلاح بھی عطا فرمائی ۔میں نے سرخوشی میں جواب دیتے ہوئے نظم کاوہ شعر بھی لکھ دیا جو سیفیؔ صاحب نے کسی مصلحت سے حذف کردیا تھا۔بڑا دلچسپ جواب ملا۔

28.1.1993

’’آپ نے لکھا ہے کہ اعتراض والی نظم کا ایک شعر سیفی صاحب کی سنسر شپ کی زَد میں آگیا اس شعر کو شائع نہ کرنے کی حکمت تو مکرم سیفی صاحب سمجھتے ہوں گے لیکن ایسا کرنے سے وہ خود بھی آپ کے اعتراض میں آ گئے۔ اصل بات یہ ہے کہ مکرم سیفی صاحب ماشاء اللہ بڑی ذہانت سے الفضل کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ ورنہ الفضل کبھی کا بند ہو چکا ہوتا۔ اگر الفضل ماہ بماہ چھپتا تو بلاشبہ سیفی صاحب بھی ماہ لقا کہلوانے کے مستحق ٹھہرتے۔ لیکن الفضل تو روزنامہ ہے اور سورج کی طرح روز اُن کے خوبصورت کلام کے آئینہ میں اُن کی لقاء الفضل کے شائقین سے کرواتا ہے۔ اس پہلو سے اُن کا چیں بہ جبیں ہونا تعجب کی بات نہیں وہ سمجھے ہوں گے کہ شعر کا مصداق وہ خود ہیں لیکن ماہ لقا لکھ کر اُن کو اصل مقام سے گرا دیا گیا ہے جو ‘مہرلقا’ یا ‘خورشید لقا’ ہونا چاہیے تھا انہوں نے ویسی ہی بات کی ہے جیسے غالبؔ کے ایک مصرع میں مذکور ہے۔

ع یوسف اس کو لکھوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی

افسوس کہ آپ کے شعر کی خیر نہ ہوئی…..‘‘

حذف شدہ اشعار میں سے ایک اور شعر بھی نظر کرم کے قابل ٹھہرا۔ 4.3.1993 کے الفضل میں ایک نظم چھپی تھی جس کا پہلا شعر تھا۔ ؎

میری راہیں سخت کٹھن ہیں صبر و جنوں کی ہمت لے کر
فیصلہ سوچ سمجھ کے کرنا میرے ساتھ آنے سے پہلے‘‘

اسی نظم کا ایک شعر تھا۔ ؎

حُسنِ عمل کا اُبٹن لے کر روح و جسم کو مل مل دھوئیں
کچھ سنگھار تو کرنا ہو گا وصل کی رات آنے سے پہلے

نسیم سیفیؔ صاحب نے نظم میں سے یہ شعر حذف کر دیا۔جب پیارے آقا سے حذف شدہ اشعار کی بات چلی تو میں نے یہ بھی لکھ دیا۔پیارے آقا نے بڑے شگفتہ انداز میں تحریر فرمایا:-

’’مدیر صاحب الفضل کے سنسر کی زَد میں آنے والا شعر بھی آپ نے بھجوا دیا ہے۔ یہ تو بہت اعلیٰ شعر ہے۔ جب حُسنِ عمل کا آپ نے کہہ دیا تو ذہن کے لئے کسی غلط روش پر چلنے کی کوئی وجہ تو نہیں لیکن چونکہ یہ منظر کشی بہت کھلی کھلی سہاگ رات کی تیاری پر صادق آتی ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے مدیر صاحب الفضل ڈر گئے۔ اس قسم کا مبنی بر احتیاط فیصلہ مدیر کے حقوق میں داخل ہے۔لیکن یہ اچھا ہواکہ آپ نے مجھے یہ شعر لکھ دیا۔ شعر اپنی ذات میں بہت خوبصورت ہے۔مدیر صاحب خود شاعر ہیں وہ اگر شعر میں معمولی سی تبدیلی کر لیتے تو کسی احتیاط کی ضرورت ہی نہ رہتی مثلاً یوں کہا جا سکتا ہے۔ ؎

حُسنِ عمل کا اُبٹن لے کر روح کے جسم کو مل مل دھوئیں
کچھ سنگھار تو کرنا ہو گا وصل کی رات آنے سے پہلے‘‘

اب حضور انورؒہیں نہ سیفی صاحب مگر بہت سی باتیں ان کی یاد دلاتی ہیں۔ ان کے درجات کی بلندی کے لئے اداس دل سے دعاگوہوں۔

کراچی میں الفضل کی مستقل خریدار رہی ایک ایک سال کے الفضل ترتیب سے بڑے بڑے لفافوں میں اوپر سن لکھا ہوا گھر میں موجود ہیں ایک ڈائری میں انڈیکس بھی بنا لیتی تھی تاکہ مخصوص مضمون کی تلاش میں و قت ضا ئع نہ ہو۔

ایک دلچسپ بات بھی لکھ دوں ایک دفعہ ڈاکیہ الفضل کی وی پی لایا تو ہماری بچت کی خاطر ایک آفر دی کہنے لگا کہ آپ اس کے لئے اتنے پیسے دیتی ہیں اس طرح کے بہت سے اخبار ہمارے ڈاکخانے میں پڑےرہتے مجھے صرف دس روپے مہینہ دے دیں میں روز ڈال جایا کروں گا۔ ظاہر ہے یہ آفر قبول نہ کی گئی۔لگے ہاتھوں ایک اور آفر کا ذکر بھی کردیتی ہوں۔ڈاک سے ربوہ کے قریبی شہر سے ایک تنظیم کی طرف سے ایک لفافہ ملا جس میں کچھ لٹریچر کے ساتھ ایک خط تھا۔ خط کا منحوس نفس مضمون یہ تھا کہ ہم الفضل میں آپ کو پڑھتے ہیں آپ دنیائے شعر میں بلند مقام پر فائز ہیں مگر آپ ایک محدود دائرے میں بند ہوکر رہ گئی ہیں اگر ہمارے ساتھ آملیں تو میں نے خط یہیں تک پڑھا اوراس داد بیداد کو آگ دکھادی۔اس خط کا اس سے بہتر جواب نہ تھا۔

ایک سال ایسا بھی گزرا ہے کہ الفضل میرا اوڑھنا بچھونا بنا رہا۔1991ء میں خیال آیا کہ جلسہ ہائے سالانہ کو100سال پورے ہونے پرلجنہ کراچی کی طرف سے ایک یادگار سووینئر ’’المحراب سَوواں جلسہ سالانہ نمبر‘‘ شائع کیا جائے۔ سو سال کا ڈیٹا جمع کرنا تھا کس کس سال جلسہ کہاں کہاں ہوا۔کن تاریخوں میں ہوا کیا حاضری رہی پروگرام کیا تھے جلسہ گاہ اور رہائش کے انتظامات کیا تھے کس کس نے صدارت کی ’افسر جلسہ گاہ کون تھے’ تقریر وں اور نظموں کی تفصیل دیگر ریکارڈ وغیرہ وغیرہ۔ اس کام کے لئے تاریخ احمدیت کی جلدوں کے ساتھ الفضل کی فائلوں کی ضرورت تھی گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ربوہ یا کسی مقامی لائبریری میں زیادہ دیر کے لئے جانا مشکل تھا ایک حل نکالا اپنی جاننے والیوں سے درخواست کی کہ جس کے گھر میں بھی کچھ سالوں کے الفضل ہوں احمدیہ ہال پہنچا دیں۔کچھ ڈبے، بکسے،لفافے، گٹھڑیاں آگئیں پرانے کاغذوں کی بو اور مٹی دھول برداشت کرکے ہم نے ترتیب سے ایک ایک سال کی فائل بناکرالگ الگ لفافوں میں رکھ لئے میں احمدیہ ہال سے گھر آتے ہوئے کچھ بنڈل اٹھا لاتی کئی کئی گھنٹے دن رات کام کرکے مطلوبہ مواد تلاش کرلیتی جو خلا رہ گئے مکرمہ امۃ الشکور امجد نے خلافت لائبریری جا کر پورے کئے ہم نے ہاتھوں سے کوہ کنی کی اور تاریخی علوم ومعارف کی نہر نکال لی۔ نایاب تصاویر کے ساتھ یہ خوب صورت دستاویز شائع ہوکر جلسے پر قادیان پہنچی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں پیش کی گئی۔ یہ سب اللہ کریم کے خاص احسان سے ممکن ہوا۔خلیفہء وقت سے پسندیدگی کی نوید سے تھکن کا احساس بھی نہیں رہتا۔

کراچی کے نائب امیر محترم عبدالرحیم بیگ (مرحوم) نے ہمیں گرمجوشی سے مبارکباد دی اور بتایا کہ ایک صاحب ان سے ملے ہاتھ میں المحراب تھا اور کہا میں نے یہ سوونیئر پڑھ کر احمدیت قبول کی ہے دیگر کتب کی تیاری اور دوسرے مرتبین اور مصنفین کی کتب کو چیک کرنے میں بھی الفضل ہی کا سہارا لیتی رہی۔ میں نے الفضل سے بطور بنیادی تاریخی ماخذ بہت فائدہ اٹھایا۔

الفضل کے احسانات میں سے ایک بہت بڑا احسان یہ ہے کہ یہ ہمیں شناخت دیتا ہے اس کا اندازہ مجھے یوکے، کینیڈا اور امریکہ کے سفروں میں مختلف شہروں میں جانے سے ہوا۔اللہ تعالی کے فضل و احسان سے خاکسار جہاں بھی اپنے احمدی حلقہ میں گئی الفضل کے ناتے پہلے سے متعارف تھی۔اس اعتراف میں کیا مضائقہ ہے کہ اس نعمت خداداد سے خوشی ہوتی ہے۔میں کبھی کبھی اللہ تعالیٰ سے دعا میں زاری کرتے ہوئے اس کے رحم کو ابھارنے کے لئے یہ بھی عرض کرتی ہوں کہ مولیٰ کریم تیرے پیاروں کے جاری کردہ پیارے الفضل میں کبھی کبھی اس عاجزبندی کا نام بھی آیا ہے ۔میری ہرخطامعاف کردینا۔

ہمارے خاندان میں سب افراد الفضل کی قدروقیمت پہچانتے ہیں۔میری امی جان مرحومہ اردو پڑھ سکتی تھیں الفضل اور درثمین کی شیدائی تھیں ہم سے پڑھواکر بھی سنتی تھیں اور درخواست دعا کرنے والوں کے لئے دعائیں کرتی تھیں۔تازہ ترین جماعتی احوال سے باخبر رہتیں۔ان کا مبلغ علم خطبات اور الفضل تھا۔ اپنی پہلی بیٹی کا اسسٹنٹ ایڈیٹر سے رشتہ ان کے ذوق کی عکاسی کرتا ہے۔

بڑے بھائی جان مکرم عبدالمجیدنیاز الفضل کے بڑے مداح اور مستقل خریدار ہیں پہلے حیدرآباد سندھ میں رہتے تھے پکا قلعہ کے ایڈریس پر سالہاسال الفضل منگواتے رہے۔ان کا خریداری نمبر غالباََ 121 تھا ایک چھوٹا سا کمرہ الفضل کے پرچوں سے بھرا ہوا تھا۔ پاکستان سے آسٹن امریکہ منتقل ہوئے تو بھی اخبار جاری رکھا کہتے ہیں نیٹ پر پڑھنے کا وہ مزا نہیں جو ہاتھ میں لے کر پڑھنے کا ہے۔ آج کل بعارضہ کینسر بیمار ہیں ہسپتال میں داخل ہیں اللہ تعالی رحم کا سلوک کرتے ہوئے مشکلات سے بچائے آمین۔ بھائی جان محترم عبدالباسط شاہد الفضل کے مستقل لکھنے والوں میں شامل رہے۔ اب بھی روزنامہ الفضل لندن آن لائن کے لئے لکھ رہے ہیں۔

اللہ تبارک تعالیٰ ہمارے الفضل اور الفضل کی کسی بھی رنگ میں خدمت کرنے والوں کو سلامت رکھے۔ آمین

(امۃالباری ناصر۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

کوروناوائرس سے حفاظت کا ہومیوپیتھک نسخہ

اگلا پڑھیں

مصروفیات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 18 جنوری 2020ء تا مورخہ 24 جنوری 2020ء