• 4 مئی, 2024

گنی کناکری اور احمدیت کا مستقبل

محل وقوع

گنی براعظم جنوبی افریقہ کا ملک ہے۔ اس کے شمال میں گنی بساؤ، سینی گال اور مالی، مشرق میں ایوری کوسٹ اور جنوب میں سیرا لیون اور لائبیریا واقع ہیں۔ اس کے مغرب میں بحر اوقیانوس ہے۔ اس کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ ساحل پر گرمی اور نمی ہوتی ہے جبکہ اندرونی علاقوں میں آب و ہوا معتدل ہے۔

لوگ

یہاں کے 85فی صد لوگ مسلمان ہیں۔ 10فی صد عیسائی اور 5فی صد دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں کے 26فی صد لوگ شہروں میں رہتے ہیں جو فولانی، ماڈینگو اور سوسو نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ 8سال کے بچے کے لئے تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے۔ 36فی صد بچے پرائمری اور 15فی صد ہائی سکول میں پڑھتے ہیں۔ یہاں کی عورتوں کی اوسط عمر 45سال اور مردوں کی 41سال ہے۔ سالانہ شرح اضافہ 2.5فی صدہے۔ 9732افراد کے لئے ہسپتال میں ایک ڈاکٹر ہے۔ اطفال میں شرح اموات 144فی ہزار ہے۔

وسائل

گنی زرعی ملک ہے۔ چاول، پام ،ناریل، مالٹا، کافی اور شہد اہم زرعی اجناس ہیں۔ یہاں جانوروں کی کثرت ہے اور لوگ 82فیصد کسی نہ کسی طرح اس پیشے غلہ بانی سے وابستہ ہیں۔ کل رقبہ کا 18فی صد حصہ زیر کاشت ہے۔ ماہی گیری بھی ہوتی ہے۔ وسیع حصہ جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔ ملک میں معدنیات کے ذخیرے موجود ہیں۔ باکسائیٹ، خام لوہا، ایلومنیم اور سونے کے ذخائر ہیں۔ ایلومنیم برآمدات کا 60فی صد فراہم کرتا ہے۔ دنیا کا 33فی صد باکسائیٹ یہ ملک پیدا کرتا ہے اور صنعتی لحاظ سے یہی چیز قابل ذکر ہے۔ باکسائیٹ کی صفائی قابل ذکر صنعت ہے۔ کناکری اہم بندرگاہ ہے۔ ملک کی ایئرسروس کا نام ’’ایئر گنی‘‘ ہے۔ جو کہ ایک لمبے عرصہ سے بند ہوچکی ہے۔ اور دارالحکومت میں موجود ہوائی اڈہ بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔

اہم درآمدات میں عمارتی سامان، مشروبات، صنعتی و مشینری آلات، پٹرولیم پروڈکٹس اور ادویات شامل ہیں جبکہ برآمدات میں پھل، روغنی بیج، باکسائیٹ اور المونیم شامل ہیں۔

تاریخ

تیرہوں صدی میں یہاں پرتگالی آئے، سولہویں صدی میں فولانی قبائل یہاں حکمران رہے جو 1849ء تک حکمرانی کرتے رہے۔پھر یہ علاقہ فرانس کے زیر قبضہ آگیا اور 1958ء تک فرانس اس علاقے پر قابض رہا۔ 12اکتوبر 1958ء میں گنی کے لوگوں نے طویل جدوجہد کے بعد عظیم رہنما شیخوطورے کی ولولہ انگیز قیادت میں آزادی حاصل کی جو 1961ء سے 1983ء تک صدر رہے۔ 27مارچ 1984ء کو یہ عظیم رہنما انتقال کر گیا۔ ان کی جگہ کرنل لاسانا کونٹے نے لی اور ملک میں مارشل لاءلگا دیا۔

لانسانہ کونٹے نے سویلین حکومت کی طرف پلٹنے کی خواہش کے تحت اقدامات کا آغاز کیا۔ 1993ء میں صدر کے انتخاب کے لئے رائے شماری کرائی گئی اور 1995ء میں پارلیمان کے انتخابات کرائے گئے۔ ان انتخابات میں کونٹے کی پارٹی نے 114میں سے 71نشستیں حاصل کیں۔ اقتدار پر کونٹے کی گرفت مضبوط رہی۔

2001 میں کونٹے نے اپنی مدت صدارت کو طول دینے کے لئے ایک ریفرنڈم کرایا اور کامیابی حاصل کی۔ 2003ء میں ہونے والے انتخابات کے اپوزیشن کی طرف سے بائیکاٹ کے بعد، کونٹے نے نئی مدت صدارت کا آغاز کیا۔ جنوری 2005 میں کونٹے پر قاتلانہ حملہ ہوا مگر ان کی جان محفوظ رہی۔

لاسانا کونٹے کا انتقال 23دسمبر 2008ء کے روز ہوا جس کے فوراً بعد فوج نے حرکت میں آکر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

فوج کا یہ اقتدار لمبا عرصہ نہ رہا دسمبر 2010ء میں عام انتخابات میں الفا کونڈے ملک کے صدر بن گئے۔

جماعت احمدیہ کا گنی میں ورود اور تاریخ

1984 میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جب پاکستان سے ہجرت کرکے برطانیہ تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے نئے راستے کھلنے لگے اور جماعت اللہ کے فضل سے ہجرت کی برکات کے نظارے کرنے لگی اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق۔ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ کا نظارہ ساری دنیا نے دیکھا۔ جن افریقن ممالک میں احمدیت اللہ کے فضل سے مضبوط ہو چکی تھی ان کے ذمہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہمسایہ ممالک میں احمدیت کے نفوذ اور تبلیغ کی ذمّہ داریاں ڈالنی شروع کیں۔ اسی سلسلہ میں سیرالیون کے ہمسایہ میں فرنچ ملک گنی کناکری کی ذمہ داری سیرالیون پر ڈالی گئ اس وقت کے امیر و مشنری انچارج مکرم مولانا خلیل احمد مبشر نے 1987 میں جماعت کے دیرینہ خادم لوکل معلم مکرم کوجو محمود صاحب جن کی بیٹی کی شادی ایک گنی کے باشندہ سے طے پائی تھی کے سپرد جماعت کی تبلیغ کا کام کیا۔ کوجو محمود صاحب نے اپنے حلقہ احباب میں تبلیغ کا کام شروع کیا جس کے نتیجہ میں محمود صاحب کے داماد اور چند اور افراد نے بیعت کرکے جماعت میں شمولیت اختیار کی لیکن ملک میں سعودی اثر و رسوخ کی وجہ سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور تبلیغ کا کام محدود پیمانے پر نجّی مجالس تک رہ گیا۔

اس دوران 1994 میں سیرالیون کے صاحب حیثیت احمدی مکرم سعید ہدرج صاحب جو کہ والد کی طرف سے لبنانی تھے گنی میں کاروبار کے سلسلہ میں موم بتی اور صابن بنانے کی فیکٹری کھولی لہذا ان کے ذریعہ تبلیغ کا سلسلہ دوبارہ جاری ہوا ۔اور ساتھ ہی ساہیوال پاکستان سے تعلق رکھنے والے امیر جماعت ساہیوال مکرم ڈاکٹرعطا الرحمن کے بیٹے مکرم لطف الرحمن نے ایریڈور کے نام سے موجود ملک کی سب سے بڑی ڈائمنڈ کمپنی خرید لی اور اس کے چئرمین بن گئے جس کے نتیجہ میں کچھ مزید احمدی نوجوان پاکستان سے کمپنی میں بطور ورکر گنی آگئے اور افراد جماعت میں کچھ اضافہ ہوا اس طرح ان دو تبدیلیوں کے نتیجہ میں جماعتی کام شروع ہوگئے اور کچھ چندہ بھی موصول ہونے لگا۔

26 مئی 1997 کو سیرالیون میں فوجی بغاوت کے نتیجہ میں حالات سخت خراب ہوگئے اور ملک پر فوج کا قبضہ ہو گیا اور ان باغیوں نے ملک میں بہت تباہی مچائیفوج اور باغی ایک ہی سطح پر ملک میں بد امنی پھیلانے لگے جس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ سیرالیون سے بھاگ کر گنی آ گئے اور کچھ لائبیریا چلے گئے۔

تبلیغ کا نیا دور

اس ہجرت میں پا کوجو محمود (معلم) اور یوسف کومے صاحب جو کہ عیسایت سے احمدی ہو کر اسلام احمدیت قبول کر چکے تھے اور سیرالیون میں جماعتی خدمات انجام دے رہے تھے ان حالات میں گنی آگئے اور یہاں ایک گھر میں پناہ لی اس گھر کے مالک مکرم پا علی ماریگا تھے جو کہ ان دنوں اسلام کی حالت دیکھ کر مایوس ہو چکے تھے اور کسی بھی مسجد میں نماز نہیں پڑھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اب کوئی بھی مسلمان نہیں رہا اور اپنے گھر میں موجود آم کے درخت کے نیچے بیٹھے رہا کرتے تھے لہذا جب یوسف کومے صاحب ان کے گھر میں پناہ گزیں ہوئے تو مسلسل تبلیغ کے نتیجہ میں 1998 میں پا علی مارگا صاحب بیعت کرکے احمدیہ مسلم جماعت میں شامل ہوگئے۔ الحمد للہ اس دوران مکرم سعید ہدرج جن کا ذ کر ہوچکا ہے ان کے گھر میں باقاعدہ نماز جمعہ ادا ہونے لگی اور چند احباب جماعت کا یہ قافلہ مذہبی امور کی انجام دہی کیلئے ہدرج صاحب کے گھر جمع ہونے لگا۔ اور اس کے علاوہ پا علی ماریگا صاحب کے گھر کے صحن میں جو آم کا درخت تھا اس کے نیچے بھی تین افراد بعض دفعہ چار افراد نماز ادا کرنے لگے۔ (یہاں ایک ایمان افروز واقعہ قابل ذکر اور یقیناً دلچسپی کا باعث ہو گا کہ یہ آم کا درخت جس کے نیچے نماز جمعہ ادا کی جاتی تھی وہ ایک بغیر چار دیواری کے صحن تھا لہذا ہر گزرنے والا ان افراد کودیوانہ کہتا اور تمسخر اڑاتا کہ یہ لوگ مسجد کے قریب ہونے کے باوجود یہاں نماز ادا کرتے ہیں ۔ لیکن یہ سلسلہ چلتا رہا اور اسی صحن میں تبلیغی نشستیں لگتی رہیں اور پا علی ماریگا کے خاندان کے لوگ جن میں اکثریت پڑھے لکھے طبقہ کی تھی جماعت میں شامل ہونے لگے اور بالآخر خدا کی تقدیر غالب آئی اور وہی جگہ جہاں چند افراد کے ساتھ نماز جمعہ اور باقی نمازیں ادا ہوتی تھیں پا علی ماریگا نے وہ جگہ جماعت کو دے دی اور آج اللہ کے فضل سے ایک خوبصورت مسجد وہاں موجود ہے جو کہ احمدیت کی سچائی کا زندہ ثبوت ہے۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک

مسجد بیت الاحد ۔ کناکری

مئی 1997ء کو سیرالیون کے حالات باغیوں کی وجہ سے مزید خراب ہوگئے لہذا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر تمام پاکستانی مبلّغین سیرالیون چھوڑ کر گنی کناکری آگئے ان کو گنی میں لانے کیلئے جماعت کے ایک دوست ڈاکڑ کیکورا کمارا صاحب جو کہ مراکش میں گنی کے ایمبیسیڈر کے طور پر تعینات رہے تھے بہت معاونت کی اور انہوں نے ہی اپنا گھر مشنریز کو ٹھہرانے کیلئے دیا جوکہ بعد میں کرائے پر لے لیا گیا ۔ سیرالیون سے چلنے والا قافلہ 06 جون 1997 کو گنی پہنچ گیا۔ یہ 33 افراد پر مشتمل قافلہ مکرم خلیل احمد مبشر صاحب امیر و مشنری انچارج سیرالیون کی قیادت میں پہنچا ۔یہ قافلہ زیادہ دن یہاں نہ رہا 11جون کو گیمبیا کیلئے روانہ ہو گیا۔

گنی میں اس دوران مکرم سعید ہدرج صاحب کے گھر میں نماز جمعہ ادا کی جاتی رہی اور نجی مجالس میں تبلیغ کا کام جاری رہا اس دوران حضرت خلیفۃ المسیح الربع رحمہ اللہ کی راہنمائی میں جماعت کی رجسٹریشن کیلئے متعلقہ ادارہ میں کاغذات جمع کروائے گئے لیکن انہوں نے بہت سے اعتراضات لگا کر کہ ہم مسلمان نہیں ہیں مسترد کردیا ۔ لیکن نجی مجالس میں تبلیغ کے نتیجہ میں نیک روحیں جماعت میں آہستہ آہستہ شامل ہونے لگیں۔

سیرالیون مبلغین کی دوسری ہجرت

05 جنوری 1999 کو ایک بار پھر ملک میں حالات شدید خراب ہونے کی وجہ سے مبلّغین کرام کو پھر ہجرت کرکے گنی آنا پڑا اس بار 10 افراد پر مشتمل یہ قافلہ مکرم طارق محمود جاوید صاحب امیر و مشنری انچارج سیرالیون کی قیادت میں حضور رحمہ اللہ کی اجازت سے گنی پہنچا۔

اب نماز جمعہ مکرم ڈاکٹر کیکورا کمارا صاحب کے گھر پر جہاں یہ قافلہ قیام پذیر تھا ہونے لگی۔ اس بار مہاجرین سیرالیون حالات کی خرابی کی وجہ سے لمبا عرصہ قیام کرنے پر مجبور تھے۔ اس دورا ن گنی میں ڈائمنڈ کمپنی جس کے مالک ایک احمدی دوست تھے انہوں نے مہاجرین کی مہمانوازی کا خوب حق ادا کیا اور وقتاً فوقتاً مبلّغین کیلئے راشن بھجواتے رہے۔ جزاھم اللہ احسن الجزا۔

مارچ 1999 کو کناکری شہر میں مینئر کے علاقہ میں ایک مکان کرایہ پر حاصل کیا گیا اور تمام مبلّغین وہاں شفٹ ہو گئے ۔ اس دوران نمازوں کے علاوہ مجلس سوال و جواب کا انتظام غیر از جماعت دوست احباب کے سات عارضی مشن ہاؤس میں اتوار کے روز ہونے لگا۔ اور کچھ نیک فطرت لوگ اللہ کے فضل سے بیعت کر کے اسلام احمدیت میں شامل ہوئے۔

یکم جولائی 1999 کو پھر مکان تبدیل کردیا گیا اور اس بار چھ مہینے کا کرایہ مکرم لطف الرحمن صاحب چیئر مین ایریڈور ڈائمنڈ کمپنی نے ادا کیا جزاہ اللہ خیراً۔

مکرم طارق جاوید صاحب امیر مشنری انچارج صاحب نے 05 جنوری 1999 کو مقامی جماعت کا انتخاب کروا کے حضور رحمہ اللہ سے منظوری لی اور جماعت کی رجسٹریشن کیلئے دوبارہ کوشش کی مکرم پا علی ماریگا صاحب بطور صدر جماعت، مکرم یوسف کومے سیکریٹری مال، پا کراموکو محمدڈکرے صاحب جنرل سیکریٹری اور مکرم سعید ہدرج صاحب سیکریٹری تبلیغ مقرر ہوئے۔

اس دوران مکرم عبدا لحفیظ شاہد صاحب کا تبادلہ یو کے ہو گیا اور آپ لندن چلے گئے ۔اور کچھ واقفین جلسہ سالانہ یو کے میں شرکت کیلئے لندن چلے گئے جن میں محترم امیر صاحب بھی شامل تھے۔ سیرالیون میں حالات کچھ بہتر ہوئے تو مکرم طاہر امتیاز مہدی صاحب فری ٹاؤن چلے گئے اور گنی میں مکرم خوشی محمد صاحب شاکر اور سید حنیف احمد صاحب رہ گئے۔ 10 اگست کو خوشی محمد صاحب بھی واپس فری ٹاؤن چلے گئے اور گنی میں مکرم سید حنیف صاحب کو بطور مشنری گنی میں مقرر کیا گیا۔

07فروری 2000 کو سیّد حنیف احمد صاحب کو واپس سیرالیون بلوا لیا گیا اور مکرم خوشی محمد شاکر صاحب کو بطور مشنری گنی کناکری بھجوا دیا گیا اور شاکر صاحب نے باقاعدہ مشن کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے تما م احمدی جو گنی میں موجود تھے ان سے رابطے کئے اور ایک مختصر سی جماعت کا قیام ہوا۔

اسی دوران رابطوں کے نتیجہ میں معلوم ہوا کہ کچھ احمدی بینن اور سیرالیون سے یہاں مقیم ہیں اور انہیں جماعت کی موجودگی کا علم نہیں تھا لہذا ان نئے رابطوں میں تین احمدی نوجوان مکرم محمد الحسن اکوبی، مکرم مشہود بگودو اور مکرم امین لوانی صاحب جو کہ ایک ہی فیملی کے افراد تھے اور بینن سے کاروبار یا نوکریوں کے سلسلہ میں مع اہل و عیال گنی میں مقیم تھے ان سے رابطہ کے نتیجہ میں جہاں احباب جماعت میں اضافہ ہوا وہیں چندوں کی ادائیگی میں بھی اضافہ ہو نے لگا اور کچھ جماعتی پروگرام کا انعقاد بھی ہونے لگا۔

چندوں میں باقاعدگی کے نتیجہ میں اللہ کے فضل سے اچھی آمدن ہونے لگی تو مقامی طور پر مکرم ناصر محمود صاحب کو جو کہ ایریڈور میں ملازم تھےحضور رحمہ اللہ کی اجا زت سے گنی کا آڈیٹر مقرر کردیا گیا۔

کچھ نئے احمدیوں کی آمد

مکرم ابراہیم صاحب کونڈے ایوری کوسٹ سے نقل مکانی کر کے گنی آ گئے جنہوں نے ایوری کوسٹ میں احمدیت قبول کی تھی اور بہت ہی مخلص احمدی تھے وہ جب گنی آئے تو جماعت احمدیہ کی تلاش میں لیگ اسلامک کے دفتر پہنچ گئے اور جماعت کے متعلق دریافت کیا تو دفتر والوں نے کہا کہ یہاں کوئی احمدی نہیں ہے اگر ہم نے کسی احمدی کو دیکھا تو اسے جیل میں ڈال دیں گے ۔ لیکن یہ مخلص احمدی جماعت کی تلاش میں تیسرے مشن ہاؤس جو کہ جماعت نے ائیر پورٹ کے سامنے بیسیا کے علاقہ میں کرایہ پر لیا تھا پہنچ گئے اور یہ سارا واقعہ سنایا۔

سیرالیون سے ایک نوجوان حسن شریف بھی شامل ہوئے، مکرم محمد کبا صاحب بھی جو کہ سیرالیون سے یہاں گنی شفٹ ہوگئے تھے جماعت کے ممبر بن گئے۔

اس دوران جماعت کی رجسٹریشن نہ ہو نے کی وجہ سے جماعتی کام اپنی وسعت میں نہیں ہو سکے اور مشن ہاؤس میں رہتے ہوئے جو بھی پروگرام منعقد ہو سکتے تھے ان کا اہتمام کیا گیا جیسا کہ جلسہ ہائے سیرت النبی ﷺ۔ یوم مسیح موعود ؑ۔ یوم خلافت۔ یوم مصلح موعود ؓ، ان پروگرامز میں جماعت کے احباب کے علاوہ قریبی غیر از جماعت دوست بھی شامل ہوتے رہے۔ اور کچھ سعید روحیں بیعت کرکے جماعت میں شامل ہوگئی۔

پاکستان سے مزید نئے احمدی نوجوان ایریڈور میں نوکری کے سلسلہ میں گنی تشریف لائے اور جماعت احمدیہ گنی کناکری کے ممبر بن گئے۔ جن میں قابل ذکر مکرم ناصر محمود رانا صاحب، مکرم حیات محمد مرزا صاحب، اور مکرم صغیر احمد صاحب وغیرہ۔ ان احباب کی آمد سے چندوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔

جولائی 2001 میں اللہ کے فضل سےایم ۔ٹی ۔ اے انٹرنیشنل کی نشریات دیکھنے کیلئے ڈش انٹینا نصب کیا گیا اور محض اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ گنی کناکری کو خلیفہ وقت کو براہ راست دیکھنے کی توفیق ملی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

18 اگست 2001 مکرم خوشی محمد شاکر صاحب کی رخصت منظور ہونے پر گنی کناکری سے واپس پاکستان تشریف لے گئے اور گنی مشن میں وقتی طور پر کوئی مبلّغ نہ رہا۔

خاکسار طاہر محمود عابد کی بطور مبلغ تقرری

مکرم طارق محمود جاوید صاحب امیر مشنری انچارج سیرالیون نے حضور رحمہ اللہ سے اجازت لیکر خاکسار طاہر محمود عابد ؔ کی تقرری گنی کناکری بطور مبلّغ انچارج کی۔

خاکسار 08 اکتوبر 2001 کو سیرالیون سے گنی پہنچا اور امیر صاحب سیرالیون کی ہدایت کے مطابق کہ وہاں پر بطور اسٹوڈنٹ تعارف کروانا ہے۔ خاکسار نے یہاں آکر جماعت کا جائزہ لیا اور اس مختصر سے قافلے کو نظام جماعت میں شامل کرنے کیلئے تربیتی امور پر مشتمل ایک کلاس کا اجرا کیا جس میں حضرت مسیح موعود ؑ کی اس مختصر مگر مخلص جماعت کو ثابت قدمی کے ساتھ مشکل حالات میں آگے بڑھانے کی کوشش کی۔

اگر چہ خاکسار کو تبلیغ کی اجازت نہ تھی لیکن نجی مجالس میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کی بھر پور کوشش کی جانے لگی جس کا طریقہ کار یہ تھا کہ احمدی گھرانوں میں اتوار کے روز سنڈے کلاسز شروع کی گئیں اور گھر کے مکینوں سے کہا کہ وہ قریبی دوستوں کو اس دن گھر پر دعوت دیں اور انہیں بتائیں کہ ایک مذہبی مجلس ہو گی جس میں آپ شامل ہوں اس طرح اللہ کے فضل سے جماعت کا پیغام لوگوں تک پہنچنے لگا۔ مذکورہ دن تقریبا ً سارا دن اس احمدی گھرانے میں گزارا جاتا اور تربیت کے علاوہ تبلیغ کا کام بھی ہونے لگا اور کچھ مزید بیعتیں ہوئیں اور اللہ کے فضل سے مخلص افراد جماعت میں شامل ہونے لگے۔

خاکسار نے یہاں کی مذہبی امور کی کمیٹی جو کہ اسلامک لیگ کے نام سے جانی جاتی ہے کے منسٹر سے ملاقات کی اور جن کا نام الحاج عبدالکریم جباٹے تھا سے جنوری 2002 میں ملاقات کی اور جماعت کا موقف بیان کیا جس پر انہوں نے کہا کہ تم یہاں کیا لینے آئے ہو خاکسار نے انہیں جماعت کا تعارف کروایا اور بتایا کہ ہم یہاں اس اسلام کی تبلیغ کرنے آئے ہیں جس کی بنیاد ہمارے آقا محمد مصطفیٰ ﷺ نے رکھی تھی اور آپ ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق جس مصلح نے آنا تھا وہ آچکا لہذا اس پر ایمان لانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔اس بات پر وہ غصے میں آگئے اور مجھے کہنے لگے ہمیں اسلام نہ سکھاؤ ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور اسلام کو خوب سمجھتے ہیں لہذا بہتر ہے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ ۔ اور پوچھنے لگے کہ اس کے علاوہ تمہارا کیا کام ہے ۔ خاکسار نے انہیں بتایا کہ جماعت ہر وہ کام کرتی جس سے حضرت محمد ﷺ کا دین لوگوں کے دلوں میں داخل ہوجیسا کہ مساجد کی تعمیر ، قرآن کی تعلیمات کا نفوذ اور رفاہ عامہ کے کام، اس پر اس نے اپنے میز کا دراز کھولا اور ملک میں موجود مساجد کی تعداد اور مدرسوں کی تعداد دکھانے لگے ۔میں نے ان کی ساری بات تحمل سے سنی اور انہیں عرض کیا کہ میں جب سے آپ کے ملک میں آیا ہوں میں نے اس بات کا تجزیہ کیا ہے کہ یہاں تقریبا ً ہر اسٹور پر الکحل فروخت ہو رہی ہے اور آپ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق آپ کے ملک میں 95 فیصد مسلمان ہیں اور ہر گلی میں جہاں مسجد ہے وہیں نائٹ کلب بھی موجود ہے جہاں رات کو کثیر تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں شراب پی کر ناچ رہے ہوتے ہیں تو میری عرض ہے کہ کیا مساجد میں یہ تعلیم دی جاتی ہے اور اتنی کثیر تعداد میں بکنے والی الکحل کیا 5 فیصد آبادی جو کہ غیر مسلم ہے وہ پیتی ہے ۔ تو میں نےعرض کیا کہ محترم جو مساجد ہم بنائیں گے ان شاء اللہ وہاں داخل ہونے والا پھر نہ تو شراب پیئے گا اور نہ ہی نائٹ کلب میں جائے گا ۔ جس پر انہوں نے غور سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے کہ ٹھیک ہے تم یہاں رہ سکتے ہو لیکن ہم تمہیں باقاعدہ جماعت کو رجسٹرڈ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ لیکن انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تمہاری باتیں واقعۃً دل پر اثر کرتی ہیں۔

اس ملاقات کے بعد خاکسار نے مختلف اہم شخصیات جن میں مائن منسٹر اور فوج کے جنرل سے بھی ملاقاتیں کیں اور قرآن کریم تحفۃً پیش کئے اور جماعت کا پیغام پہنچایا جس کا اللہ کے فضل سے بہت اچھا اثر ہوا۔

ملک میں موجود ایمبیسیز میں بھی جاکر ایمبیسیڈرز کو جماعت کا پیغام پہنچایا جن میں ملائیشیا، جاپان، سیرالیون، گھانا اور بینن شامل ہیں جماعت کا لٹریچر اورجماعت کا فرنچ ترجمہ کا قر آن بھی تقسیم کیا گیا۔ الحمد للّٰہ۔

2001ء جلسہ سالانہ کا آغاز

امسال اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ گنی کناکری کو پہلے جلسہ سالانہ کے انعقاد کی توفیق ملی اللہ کی خاص تائید سے ایک روزہ جلسہ کا انتظام کیا گیا مشن ہاؤس میں ہی جلسہ منعقد کیا گیا بڑے ھال میں مردوں اورقریب ہی چوٹھے ھال میں پردہ کیساتھ عورتوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا۔

اس جلسہ میں سیرالیون سے مکرم طارق محمود جاوید صاحب امیر و مشنری انچارج تشریف لائے اور جلسہ میں شامل ہوئے اس جلسہ میں دو سیشن ہوئے پہلے سیشن میں دو تقا ریر تھیں۔ 1۔ جماعت احمدیہ کا تعارف اور ضرورت 2۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا عشق رسول۔ پہلے سیشن کے بعد نماز طہر و عصر ادا کی گئیں اور کھانا پیش کیا گیا۔

دوسرے سیشن میں ایک تقریر خلافت احمدیہ کی اہمیت اور ہماری ذمہ داریاں ہوئی اس کے بعد مجلس سوال و جواب منعقد کی گئی جس مین احباب جماعت نے بڑی دلچسپی سے حصہ لیا۔

اس جلسہ کی سب سے اہم بات اس کی حاضری تھی حضرت مسیح موعود ؑ کے پہلے جلسہ میں 75 احباب شامل ہوئے تھے اور یہاں تھوڑے فرق کے ساتھ 72 لوگ شامل ہوئے جن کے نام درج کئے گئے اور اس طرح شام پانچ بجے یہ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

اس سال اللہ کے فضل سے جماعت کا چندہ گزشتہ سالوں سے دو گنا ہو گیا اور احباب جماعت خلوص کے ساتھ چندہ جات میں شامل ہونے لگے۔

شروع میں یہاں چندہ بمشکل بنیادی مشن کی ضروریات پوری کرتا تھا لیکن اللہ کے فضل سے اب چندہ تمام اخراجات ادا کر کے بچت بھی ہونے لگی۔

امسال بانکو کے مقام پر جہاں مکرم لطف الرحمٰن صاحب جو کہ ایریڈور مائننگ کمپنی کے چیئر مین تھے ان کا مائننگ ایریا تھا وہاں بکثرت پاکستانی احمدی نوجوان جو کہ ملازمت کے سلسلہ میں وہاں قیام پذیر تھے ان کی تعداد دیکھتے ہوئے وہاں جماعت کے قیام کیلئے حضور کی خدمت میں درخواست کی گئی جو کہ حضور رحمہ اللہ نے از راہ شفقت منظور فرمائی اور مکرم ناصر محمود رانا صاحب صدر جماعت اور مکرم یوسف سلیم صاحب سیکریٹری مال منتخب ہوئے۔ کچھ مزید مقامی احباب بھی بیعت کر جماعت میں شامل ہوگئے ۔اس طرح اللہ کے فضل سے ایک چھوٹی جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ وہاں پر احمدی احباب نے چندہ جمع کر کے جس میں زیادہ ہاتھ مکرم صغیر احمد صاحب کا تھا ایک چھوٹی مسجد تعمیر کی اور وہاں نمازیں ادا کرنی شروع کیں اور ساتھ ہی جماعتی پروگرامزکا انعقاد ہونے لگا۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک (ایک لحاظ سے یہ جماعت کی پہلی مسجد تھی جس کا قیام عمل میں آیا)

2003-2004

امسال اللہ کے فضل سے باوجود شدید مخالفت کے 7 نئے مقامات پر جماعت کا پودا لگا اور ایک نئی جماعت قائم ہوئی ۔ نئی قائم ہونے والی جماعت کے بارہ میں ایمان فروز واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے ابتدائی احمدی الحاج کرامو پا ڈکرے جو کہ کافی ضعیف ہوچکے تھے اور ہمارے ایک نوجوان معلم علی تراورے صاحب اس تبلیغی مشن پر روانہ ہوئے ۔پا ڈوکرے بیان کرتے ہیں کہ میری جسمانی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود جب ہم سفر پر روانہ ہوئے ہیں جو کہ تقریباً 500 کیلومیٹر کا سفر تھا تو میں اپنے آپ کو تندمند اور توانا محسوس کرنے لگا تا آنکہ ہم اس مقررہ مقام نونگورو پہنچ گئے ایک ہفتہ اس پورے گاؤں کو تبلیغ کی گئی اس دوران بہت سے لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کے گاؤں میں روشنی اتری ہے اور ایک دوست نے دیکھا کہ سارا گاؤں مصفّا پانی سے بھر گیا اور ہر چیز صاف ہوگئی ہے ۔لہذا لمبی بحث کے بعد اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیکھے جانے والے نشانات کے بعد 694 افراد پر مشتمل یہ گاؤں اپنے امام سمیت مع مسجداللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ اسلامیہ حقہ میں شامل ہوکر آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کا مصداق بن گیا ۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

اشاعت قرآن کریم کے سلسلہ میں امسال احباب جماعت کو تحریک کی گئی کہ وہ جماعت کا شائع کردہ قرآن کریم فرنچ ترجمہ کے ساتھ خریدیں اور پھر اسے تبلیغ اور اشاعت قرآن کی غرض اور تبلیغ کی غرض سے اہم لوگوں میں تقسیم کریں ۔ اللہ کے فضل سے اس تحریک میں احباب جماعت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور تقریباً500 امریکن ڈالرکے قریب چندہ اکھٹا ہوا اور پھر اس رقم سے قرآن کریم خریدا گیا اور مختلف با اثر شخصیات میں تقسیم کی گیا جس کا جماعت کی تبلیغ میں بہت اچھا اثر ہوا۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذلک

امسال جماعت احمدیہ گنی کو اپنا دوسرا جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق ملی ۔ یہ جلسہ شہر میں موجود کمیونٹی ہال کرایہ پر لیکر اس میں منعقد کیا گیا۔

جلسہ کی اجازت حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے لیکر کمیو نٹی ھال کناکری میں منعقد کیا گیا۔ جماعت رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے یہ جلسہ بھی ایک روزہ ہی رہا ۔ جلسہ کے سلسلہ میں دعوت نامے تیار کئے گئے اور مختلف غیر متعصب علماٗ کو جلسہ میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔

جلسہ کا افتتاح گنی میں متعین سیرالیون کے ایمبیسیڈر مکرم الحاج ڈاکٹر محمد ساکو نے کیا اور شاملین کو بتایا کہ افریقہ میں کس طرح جماعت کے مشنریز قربانیاں کر کے اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں اور اگر احمدیہ مسلم جماعت یہاں نہ آتی تو آج ہم سب عیسائی ہو چکے ہوتے لہذا ان کی قدر کریں اور ان کی مدد کریں تاکہ یہ صحیح اور حقیقی اسلام کو دوبارہ قائم کریں۔

اس جلسہ کے دو سیشن تھے پہلے سیشن میں حضرت مسیح موعود ؑ کی آمد کا مقصد قرآن اور حدیث کی روشنی میں اور دوسری تقریر وفات مسیح قرآن اور حدیث کی روشنی میں دونوں تقاریر بڑی توجہ سے سنی گئیں اور پسند کی گئیں۔ اس کے بعد نماز ظہر و عصر ادا کی گئیں اور حاضرین کو کھانا پیش کیا گیا۔ جلسہ سالانہ میں امسال 200 افراد مرد و زن نے شامل ہوئے۔

دوسرے سیشن میں ایک تقریر ثم تکون الخلافۃ علیٰ منہاج نبوۃ کی حقیقت اور اس کے مصداق، اس کے بعد مجلس سوال و جواب منعقد کی گئی جس میں احمدی احباب کے علاوہ غیر از جماعت دوستوں نے بہت دلچسپی سے حصہ لیا اور مختلف سوالات پوچھے اور مطمئن ہو کر گئے جلسہ کے اختتام پر 5 بیعتیں بھی ہوئیں۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک

ایم ٹی اے کیلئے ملک میں ایک مرکزی انٹینا تھا جو مشن ہاؤس میں نصب تھا۔ امسال دو مزید ڈش انٹیناز ذاتی طور پر احباب جماعت نے اپنے گھروں میں نصب کئے۔ اس کے علاوہ کچھ لبنانی فیملیز سے ملنے پر پتا چلا کہ وہ اپنے گھروں میں ایم ٹی اے دیکھتے ہیں اور بہت متأثر ہیں جماعتی پروگرامز سے۔

مساجد

ملک میں باقاعدہ مسجد کے تعمیر کرنے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے ایک چھوٹی مسجد جو احمدی نوجوانوں نے بانکو کے مقام پر بنائی گئی تھی اس کے علاوہ اللہ نے ایک بنی بنائی مسجد عطا کی نمازیوں کے ساتھ۔

امسال بھی رجسٹریشن کی کوشش کی گئی لیکن وہی پرانا جواب ملا کہ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ آپ لوگ مسلمان نہیں ہیں اور ہم آپ کو بطور مسلم جماعت کے رجسٹر نہیں کر سکتے۔

اللہ کے فضل سے اس سال بھی چندوں میں نمایاں بڑھوتی ہوئی اور احباب جماعت نے دل کھول کر لازمی چندوں کے ساتھ طوعی چندوں میں بھی نمایاں تبدیلی آئی اور شاملین میں بھی اضافہ ہوا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

2004-2005

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال ایک جماعت کے اضافہ کے ساتھ کل تین جماعتیں قائم ہوئیں اس سال کسّی ڈوگو کے مقام پر نئی جماعت کا قیام ہوا۔

اس سال ملک کے حالات سیاسی طور پر خراب رہے اور تبلیغی کام متأثر ہوئے تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے 106 نئی بیعتیں حاصل ہوئیں۔

اشاعت قرآن کے سلسلہ میں 12 اہم شخصیات کو قرآن کریم تحفۃً تقسیم کئے گئے جس کا بہت اچھا اثر ہوا اور جماعت کا ترجمہ کردہ قرآن کریم اور ترجمے کے معیا رکو بہت سراہا ۔اور اس کے علاوہ 15 قرآن کریم قیمتاً دئے گئے۔

امسال بھی جلسہ سالانہ ایک روزہ منعقد کیا گیا امسال جلسہ سالانہ میں 150 احباب جماعت اور 50 غیر از جماعت دوست شامل ہوئے ۔ امسال بھی جلسہ کی اہم شخصیت ڈاکٹر الحاج محمد ساکو ایمبیسیڈر سیرالیون تھی آپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ جماعت احمدیہ ہی حقیقی اسلامی تصور پیش کرتی ہے اور جس پیار اور محبت سے یہ ایک خلیفہ روحانی لیڈر کے تحت ساری دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں بہت غیر معمولی ہے۔

امسال بھی جلسہ کے دو سیشنز میں تین تقاریر کی گئیں پہلے سیشن میں 1۔ آنحضرت ﷺ بحیثیت خاتم النبیین اور ختم نبوت کی حقیقیت قرآن اور حدیث کی روشنی میں۔

2۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی عالم اسلام کیلئے خدمات اور خدمت قرآن

پہلے سیشن کے بعد نماز ظہر و عصر ادا کی گئیں اور شاملین کو کھانا پیش کیا گیا۔ دوسرے سیشن میں ایک تقریر اسلام میں عورت کا مقام اور حضرت محمد ﷺ کا عورتوں سے حسن سلوک، اس کے بعد نماز عصر تک سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا جس میں تمام احباب نے عموماً اور غیر از جماعت دوستوں نے خصوصاً احمدیت کے بارہ میں سوالات پوچھے جن کا کافی و شافی جواب دیا گیا جلسہ کے اختتام پر 4 افراد بیعت کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہوئے الحمدللّٰہ علی ذالک

امسال دو نئے ڈش انٹینا کے ساتھ ملک میں ڈش انٹینا کی تعداد 5 ہوگئی ہے جبکہ دوران سال 950 افراد نے ایم ٹی اے سے استفادہ کیا۔

ملک میں ایک معلّم مکرم علی تراورے صاحب کام کر رہے ہیں جو کہ خود تحقیق کر کے احمدیت میں شامل ہوئے اور اسکول میں عربی کے استاد ہیں اور جماعت میں شامل ہو کر جز وقتی معلم کے طور پر جماعت کی خدمت کر رہے ہیں۔

ملک میں جماعت کی دو مساجد موجود ہیں جو کہ اللہ نے جماعت کو بنی بنائی عطا کیں اس کے علاوہ امسال پھر مسجد کی تعمیر کیلئے متعلقہ ادارے سے اجازت لیکر نئی مسجد بنانے کیلئے کوشش کی گئی لیکن باوجود کوشش بسیار کے ہمیں منع کر دیا گیا اور مخالفت کی گئی۔ اور مذہبی امور کی انتظامیہ نے کہا کہ چونکہ آپ کی جماعت ابھی قانوناً رجسٹرڈ نہیں ہے اس لئے ہم آپ کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

امسال بھی جماعت کی رجسٹریشن کیلئے کوشش کی گئی لیکن تمام مطلوبہ کاغذات جمع کر و ائے گئے لیکن وہی پرا نا اعتراض اٹھایا گیا کہ آپ لوگ مسلمان نہیں ہیں آپ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے ہم آپ کو اجازت نہیں دے سکتے ہم نے انہیں پیغام بھوایا کہ ہم آپ کے تمام اعتراضات کے جوابات دینے کیلئے تیار ہیں اور جن معنوں میں قرآن اور آنحضرت ﷺ ختم نبوت کی تشریح کرتے ہیں ان تمام معنوں کے مطابق ہم ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ لیکن انہوں نے صریحاً بات کرنے سے انکار کر دیا ہم آپ سے کسی قسم کی بات چیت نہیں کر سکتے۔

اس کے علاوہ دوران سال مختلف مقامات پر مجالس سوال و جواب منعقد کی گئیں او ر جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ ، جلسہ یوم مسیح موعود ؑ، یوم خلافت اور یوم مصلح موعود ؓ کا انعقاد کیا گیا جس میں احباب جماعت نے بھر پور شرکت کی۔

2005-2006

امسال حالات کے پیش نظر اور جماعت کی رجسٹریشن نہ ہو نے کے باعث ملک میں نئی جماعتوں کا قیام عمل میں نہ آسکا ،لہذا گزشتہ سال کی طرح امسال بھی تین جماعتیں ہی رہیں جو کہ 1۔ کناکری 2۔ کسی ڈوگو اور بانکو ہیں۔ مذکورہ مقامات پر اللہ کے فضل سے جماعتیں قائم ہوچکی ہیں اور احباب جماعت جماعتی نظام میں شامل ہیں۔

باوجود مخالفت کے امسال 44 افراد بیعت کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہوئے ۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذالک۔

اشاعت قرآن کیلئے امسال 06 اہم شخصیات کو فرنچ ترجمہ والے قرآن کریم بغرض تبلیغ تحفۃً تقسیم کئے گئے۔ جس کا بہت اچھا اثر ہوا دوبارہ ملاقات پر کم و بیش سب نے یہی رائے دی کہ عربی ٹیکسٹ کے ساتھ نہایت عمدہ ترجمہ ہے۔

اسی طرح امسال 20 قرآن کریم احباب جماعت کو فروخت کئے گئے۔ اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع کردہ فرنچ ترجمہ والا قرآن کریم اپنے ترجمہ کی افرادیت کی وجہ سے بہت مشہور ہے اور پسند کیا جاتا ہے جہاں احمدی احباب اسے خریدتے ہیں وہیں غیر از جماعت احباب بھی قرآن کریم قیمتاً خریدتے ہیں۔

اللہ کے فضل سے امسال بھی گنی کناکری کو مؤرخہ 21 مئی 2006 بروز اتوا رچوتھا جلسہ سالانہ کے انعقاد کی سعادت ملی۔ ملک میں جماعت کی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے 2003 سے لیکر اب تک ایک روزہ جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا جلسہ جس میں بکثرت غیر از جماعت لوگ شرکت کرتے ہیں اور جلسہ میں ہونےوالی تقاریر سن کر احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں تو جہاں جلسہ احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کرتا ہے وہیں تبلیغ کے تقاضے بھی پورے کرتا ہے۔

امسال کے جلسہ میں بھی اہم شخصیات میں مکرم ڈاکٹر الحاج محمد ساکو صاحب (ایمبیسیڈر سیرالیون ایمبیسی) شامل ہوئے اسی طرح مکرم الحاج محمد الحسن اکوبی آنریری کونسل جنرل (بینن) بھی شامل ہوئے اور جلسہ کے پروگرامز کو بہت سراہا۔

مکرم ڈاکٹرساکو صاحب نے بڑے جوش سے اپنے خطاب میں بیان کیا کہ آج مجھے سفر پر جانا تھا لیکن محض اس پروگرام میں شمولیت کیلئے میں سفر ملتوی کر دیا اس کی وجہ انہوں نے یہ بھی بتائی کہ جماعت احمدیہ کو میں بڑےلمبے عرصہ سے جانتا ہوں ان کے مشنریز بہت خدمت گذار اور بےلوث خدمت کرنے والے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو اپنے ملک کیلئے بہت قربانی کرنے والا سمجھتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب میں نے پہلی بار مبارک احمدنذیر صاحب (سابق مبلّغ سیرالیون ، حال کینیڈا) کو ذاتی طور پر دیکھا اور ان کی میرے ملک سیرالیون کیلئے قربانیاں کرتے دیکھا تو مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا لگنے لگا تب سے میرے دل میں اس جماعت کیلئے بہت قدر اور عقیدت ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ یہ جماعت خالصتاً مذہبی اور سو فیصد اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والی جماعت ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسی جماعت نے ہمارے ملک میں لوگوں کو نماز پڑھنا سکھایا اور پہلی اسلامی کتاب آداب نماز کے نام سے متعارف کروائی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ لوگ کبھی بھی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے، لہذا ا گر آپ روحانی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اس جماعت کے ساتھ مضبوطی سے چمٹے رہیں مجھے یقین ہے کہ آپ ضرور کامیاب ہونگے ۔ اس کے بعد محترم ایمبیسیڈر صاحب تشریف لے گئے لیکن ان کے اس خطاب کا یہ اثر ہوا کہ حکومت کی طرف سے سول لباس میں موجود انٹیلیجنس کے نمائندہ جلسہ گاہ سے چلے گئے اور جلسہ اللہ کے فضل سے بڑی کامیابی سے جاری رہا ۔دو سیشنز میں پانچ تقاریر پیش کی گئیں جن کے عناوین مندرجہ ذیل ہیں

1۔ اسلام بطور عالمی مذہب
2۔ آنحضرت ﷺ بحیثیت رحمۃ ً للعالمین
3۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام اور تعارف
4۔ اسلام میں تفرقہ بازی اور فرقہ ناجیہ

اللہ کے فضل سے تمام تقاریر بیت محنت سے تیار کی گئیں اور شاملین جلسہ نے تمام تقاریر بہت توجہ سے سنیں۔ تقاریر لوکل زبانوں میں ترجمہ کی گئیں جس کے نتیجہ میں تمام شاملین جلسہ تقاریر سے محظوظ ہوئے۔

دوسرے سیشن میں اختتام پر مجلس سوال و جواب منعقد کی گئی جس میں احباب جماعت کے ساتھ غیر از جماعت احباب نے بہت شوق سے حصہ لیا اور جلسہ کے اختتام پر 6 افراد بیعت کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شامل ہو ئے۔ الحمد للّٰہ

شام 06 بجے جلسہ اختتام پذیر ہوا امسال جلسہ سالانہ کی حاضری 200 رہی۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک

اللہ کے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ جماعت کی تربیت ہو رہی ہے امسال 5 مقامات پر تنصیب ڈش انٹیناز کے ذریعہ 1500 احباب نے استفادہ کیا ۔ کیبل سروس کے ذریعہ ایم ٹی اے کی نشریات جاری کروائیں لیکن مولویوں کی مداخلت سے اسے رکوانا پڑا لیکن جائزہ سے پتا چلا کہ بہت سے غیر از جماعت احباب ایم ٹی اے کی نشریات سے استفادہ کرتے ہیں۔اور حضور اقدس کے خطبات بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔

ملک میں ایک معلّم مکرم علی تراورے صاحب کام کر رہے ہیں۔

ملک میں تاحال دو مساجد ہی ہیں اور جماعت کی رجسٹریشن نہ ہونے کے سبب نئی مساجد کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے، امسال بھی گزشتہ سالوں کی طرح کاغذات جمع کروائے گئے لیکن کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔ تا ہم جماعتی پروگرام اللہ کے فضل سے سارا سال منعقد ہوئے احباب جماعت کے گھروں میں سنڈے کلاسز ہوتی ہیں جن میں قریبی دوست احباب جو کہ جماعت میں دلچسپی رکھتے ہیں شامل ہوتے ہیں اور مولوی کے اثر میں جو احباب یہاں آتے ہیں وہ اللہ کے فضل سے جب تین چار بار ہمارے پروگرامز میں شامل ہوتے ہیں تو پھر یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ہم نے اس سے قبل ایسا شفّاف اسلام جو کہ صد فی صد آنحضرت ﷺ کی پیروی میں اسلام کی تبلیغ کر رہا ہے نہیں دیکھا اور پھر بیعت کرکے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شامل ہو جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملک میں جماعت احمدیہ کی تعمیر کردہ مساجد مندرجہ ذیل ہیں۔

BAITUN NOOR DRABAY FORECARIA بیت النّور فورے کاریا

BAITUL FAZL Bangouyah (Tanènè) Dubréka بیت الفضل بانگویا تانےنے

Ahmadiyya Mosque Soumbouyadi

اللہ تعالیٰ کے فضل اور خلافت کی برکت کے نتیجہ میں باوجود نامساعد حالات اور مخا لفت کے اللہ تعالیٰ جماعت کو ترقیات سے نواز رہا ہے تمام قارئین الفضل سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خلیفہ وقت کے تمام احکامات پر من و عن عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کے مطابق حقیقی اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین

(طاہر محمود عابد ۔ مبلغ انچارج گنی کناکری)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر