• 28 اپریل, 2024

ارشاداتِ نور (قسط 4)

ارشاداتِ نور
قسط 4

حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:

تقرب الی اللہ کی راہ ڈھونڈو

فرمایا۔ قرآن مجید میں جو احکام ہیں ان پر بھی فقہ کی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اور ایسے سوالات لوگ کرتے ہیں جن کا کوئی تعلق قرب الہٰی کی راہوں سے نہیں ہوتا۔ مثلاً آدم پہلے کیو نکرپیدا ہوا؟ پھر اس کی بیوی کیسے پیدا ہوئی؟ نکاح کیسے ہوئے تھے؟ وغیرہ۔ ایک لمبا سلسلہ ایسے سوالات کا ہوتا ہے ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان راہوں کو تلاش کیا جاوے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں ہیں۔ بہت ہی تھوڑے آدمی ہوتے ہیں جو ان باتوں پر توجہ کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ان باتوں پر غور کریں۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ317)

ہجرت امر مشکل

فرمایا۔ اِنَّ شَانَ الْھِجْرَۃِ لَشَدِیْدٌ

(صحیح مسلم کتاب الامارة باب المبایعة بعد فتح مکة علی الاسلام)

ہجرت میں مشکلات کا سامنا ہے کسی وقت سوکھا ٹکڑا کھانا پڑ جاتا ہے، زمین پر سونا ہوتا ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر قدم اٹھاتا ہے خدا اسے ضائع نہیں کرتا۔ میں بعض سادہ روٹی اچار کے ساتھ کھا کر گزارہ کر لیتا ہوں۔ ایک دفعہ میں نے کئی ماہ نون مرچ کے ساتھ روٹی کھا کر بھی گزارہ کیا ہے۔ مہاجر فی سبیل اللہ بھوکا نہیں مرتا خدا اس کا حافظ ہوتا ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ345-346)

صدقہ جاریہ

فرمایا۔ صدقہ چار ہیں۔ اوّل اولاد صالح جو دعا کرے۔ دوم علم جو نفع رساں ہو۔ سوم پانی کا اجرا۔ یعنی کنوئیں وغیرہ کی تعمیر۔ یہ بھی ایک صدقہ جاریہ ہے۔ چہارم عمدہ پل یا سڑک۔ جب لوگ گزرتے ہیں تو آرام پا کر جوش سے بنانے والے کے لیے دعا کرتے ہیں۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ349)

سب سے پہلے کس چیز کی ضرورت ہے؟

ایک شخص نے کہا کہ نجات سب سے مقدم ہے۔ فرمایا۔
نجات تو فضل سے ہے اور فضل کا جاذب ایمان ہے۔ پس سب سے مقدم ایمان ہے۔ ایمان اچھے پھلوں کا بیج ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ سب سے ا علیٰ ایمان کس مذہب نے تعلیم کیا ہے۔ بہت سی باتیں ہیں مثال کے طور پر ایک عبادت گاہ کو بلاوا ہی لے لو۔ عیسائی گھنٹہ بجاتے ہیں اور ہندو سنکھ، پر مسلمان کہتا ہے اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ جس نے اللہ کو اکبر مان لیا وہ بدی کے نزدیک کب جائے گا۔ ایمان کے لیے سب سے ا علی ٰتعلیم ہر امر میں اسلام ہی کی ثابت ہوتی ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ355)

صبر کی دو اقسام

سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ بِمَا صَبَرۡتُمۡ

(الرعد: 25)

فرمایا صبر کی دو قسم ہے

(1) صَبْرٌ عَلیَ الْاِطَاعَۃِ یعنی اطاعت الہٰی پر استقلال سے مداومت۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں اَحَبُّ الْاَعْمَالُ اِلَی اللّٰہِ اَدُوْمُھَا۔ بہت پسندیدہ عمل بارگاہ ایزدی میں وہی ہے جس میں مداومت ہے۔

(2) صَبْرٌ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ۔ بدی سے باوجود بدی کے اسباب بہم پہنچانے کے رکے رہنا۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ375)

خوش قسمت اور بد قسمت انسان

فرمایا خوش قسمت اور سعید انسان کے واسطے تو ایک کلمہ حکمت ہی موجب ہدایت ہو جاتا ہے۔ ایک قوم کی طرف سے ایک شخص دریافت حال و تحقیق کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آیا۔ اس وقت آپؐ فرما رہے تھے کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ (اٰل عمران: 111)۔ یہ سنتے ہی اپنی قوم کی طرف لوٹ گیا اور کہا کہ سب ایمان لاؤ۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا۔ پسندیدہ سے پسندیدہ باتوں کا حکم کرتا اور بدیوں سے روکتا ہے۔ بس تمہیں اور کیا چاہئے۔ بد قسمت اور شقی انسان کے لیے سارا قرآن مجید بھی موجب ضلالت ہو جاتا ہے۔ تعجب آتا ہے کہ بعض لوگ مسلمان، مومن احمدی کہلاتے ہیں۔ پھر بھی فریب، دغا، چوری، جھوٹ، کینہ، بغض، بد ظنی، ناجائز کمائی نہیں چھوڑتے۔ اللہ ہدایت بخشے۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ376-377)

کسب حلال کی برکات

فرمایا جھوٹ نہ بولو۔ ناجائز کمائی چھوڑ دو۔ برکت والی غذا حلال کی کمائی سے حاصل ہو گی۔ اس کے کھانے سے برکت ملے گی۔ خدا کی کتاب کا فہم آئے گا۔ نیکیوں کی توفیق ملے گی۔ حرام خوری سے نیکیوں کی توفیق چھینی جاتی ہے۔ انبیاء کا مذہب اختیار کرو۔

یُطۡعِمُنِیۡ وَ یَسۡقِیۡنِ وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ

(الشعراء: 80-81)

وہی کھلاتا ہے وہی پلاتا ہے۔ جب اپنی غلطی سے مریض ہوں۔ تو شفا بھی وہی دیتا ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ378)

قرآن میں نعماء جنت کا ذکر بطور مثال ہے

فرمایا۔ قرآن مجید میں جنت کی نعماء کا جو ذکر ہے یہ بطور مثال ہے۔ مثال حقیقت کے مقابل میں کیا چیز ہے۔ دیکھو اگر ایک ستارہ بھی زمین پر گر پڑے تو ہلاکت یقینی ہے لیکن اس کا تمثل مصفا پانی میں کیا بھلا معلوم ہوتا ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ381)

بدیوں سے بچنے کا گُر

فرمایا۔ بدیوں سے بچنے کا گُر ہے موت کو یاد رکھنا۔ اور یہ کہ میرا مولیٰ دیکھتا ہے۔ یعنی مَا یَخۡفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ کا مطالعہ۔

(ابراہیم: 39)

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ390)

مصائب کے وقت تین علاج

فرمایا۔ دکھوں اور مصیبتوں کے وقت تین علاج حضرت حق سبحانہ نے فرمائے ہیں۔

(1) اللہ کا ذکر کرتے رہنا۔
(2) وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ۔

(الکہف: 28)

قرآن شریف اکثر پڑھتے رہنا۔

(3) پاک لوگوں کی صحبت میں رہنا جو مستفاد ہے۔ وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ

(الکہف: 29)

سے اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ غافلوں کی صحبت وتعلق سے کنارہ کشی رہے۔ غافل وہ ہے جو یاد الہٰی نہ کرے اور گری ہوئی خواہشوں کے پیچھے پڑا رہے۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ419)

(فائقہ بشریٰ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جنوری 2022